Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 72
قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ تَسْتَعْجِلُوْنَ
قُلْ : فرما دیں عَسٰٓى : شاید اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہوگیا ہو رَدِفَ : قریب لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضُ : کچھ الَّذِيْ : وہ جو۔ وہ جس تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کرتے ہو
کہہ دو کہ جس (عذاب) کے لئے تم جلدی کر رہے ہو شاید اس میں سے کچھ تمہارے نزدیک آپہنچا ہو
قل عسی ان یکون ردف لکم بعض الذی تستعجلون . آپ ( اس کے جواب میں) کہہ دیجئے کہ جس عذاب کے جلد پہنچنے کے تم خواستگار ہو رہے ہو تو ہوسکتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ تمہارے پیچھے ہی آ لگا ہو۔ یعنی بلامہلت فوراً تم کو پہنچ جائے۔ اس عذاب سے مراد جنگ بدر کا عذاب ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ عَسٰی اور لَعَلَّ اور سَوْفَ بادشاہوں کے وعدہ آگین کلام میں درحقیقت قطعیت اور یقین ہی کا معنی رکھتا ہے۔ اپنے وقار کے اظہار کے لئے وہ شکیہ الفاظ کہتے ہیں ‘ ایسے الفاظ کہنے سے ان کا اشارہ اس طرف ہوتا ہے کہ ہمارا ایماء بھی صراحت کی طرح قطعی واجب العمل ہے۔ اللہ کے کلام میں بھی وعدہ و وعید کے موقع پر ان شکیہ الفاظ کا استعمال قطعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی مطلب ہے اس شخص کے قول کا کہ اللہ کے کلام میں عَسٰی اور لَعَلَّ کا استعمال وجوب وقوع کے لئے ہوتا ہے یعنی وعدۂ ثواب کے موقع پر شکیہ الفاظ مفید جرم یقین ہوتے ہیں۔ وعید عذاب تو مؤمن کے لئے بدل سکتی ہے اور معانی ہوسکتی ہے ‘ ہاں کافر مستحق عفو نہیں ہے۔ فرعون کے متعلق حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو حکم دیا گیا تھا : فَقُوْلاَ لَہٗ قَوْلاً لَیِّنَا لَعَلَّہٗ یَتَذَکَّرْ اَوْ یَخْشٰی اس آیت کا تعلق مبحث وعید سے نہیں ہے اس لئے فرعون نہ نصیحت پذیر ہوا نہ اس کو کوئی خوف ہوا۔
Top