Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 103
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا١۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاعْتَصِمُوْا
: اور مضبوطی سے پکڑ لو
بِحَبْلِ
: رسی کو
اللّٰهِ
: اللہ
جَمِيْعًا
: سب مل کر
وَّلَا
: اور نہ
تَفَرَّقُوْا
: آپس میں پھوٹ ڈالو
وَاذْكُرُوْا
: اور یاد کرو
نِعْمَتَ
: نعمت
اللّٰهِ
: اللہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اِذْ كُنْتُمْ
: جب تم تھے
اَعْدَآءً
: دشمن (جمع)
فَاَلَّفَ
: تو الفت ڈال دی
بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ
: تمہارے دلوں میں
فَاَصْبَحْتُمْ
: تو تم ہوگئے
بِنِعۡمَتِهٖۤ
: اس کی نعمت سے
اِخْوَانًا
: بھائی بھائی
وَكُنْتُمْ
: اور تم تھے
عَلٰي
: پر
شَفَا
: کنارہ
حُفْرَةٍ
: گڑھا
مِّنَ
: سے (کے)
النَّارِ
: آگ
فَاَنْقَذَكُمْ
: تو تمہیں بچا لیا
مِّنْھَا
: اس سے
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يُبَيِّنُ
: واضح کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
لَكُمْ
: تمہارے لیے
اٰيٰتِھٖ
: اپنی آیات
لَعَلَّكُمْ
: تا کہ تم
تَھْتَدُوْنَ
: ہدایت پاؤ
اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ
واعتصموا بحبل اللہ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اللہ کی رسّی سے مراد ہے دین اسلام کیونکہ اللہ نے فرمایا : ومن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی لاانفصام لھا (اس آیت میں ایمان باللہ کو عروۂ وثقیٰ فرمایا ہے) یا کتاب اللہ مراد ہے کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ کی کتاب ایک ایسی رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہو (اس کو پکڑ کر آدمی اللہ تک پہنچ سکتا ہے) ۔ جمیعا سب کے سب یعنی جو تفسیر کلام اللہ باجماع امت ہو اس کو مضبوطی سے پکڑ لو اجماع کے خلاف متفرق آراء کی طرف نہ جاؤ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : تمہاری تین باتیں اللہ کو پسند ہیں اور تین ناپسند۔ تم اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس کا ساجھی نہ جانو اور سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور اللہ جس کو تمہارا حاکم بنا دے اس کی خیر خواہی کرو۔ یہ باتیں اللہ کو پسند ہیں اور وہ ناپسند کرتا ہے فضول قیل و قال کو اور مال کو برباد کرنے کو اور کثرت سوال کو۔ (رواہ مسلم واحمد) حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ میری امت کو گمراہی پر مجتمع نہیں کرے گا۔ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے جو بچھڑا وہ (جماعت سے) بچھڑ کر دوزخ میں گیا۔ (رواہ الترمذی) یہ بھی حضرت ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : سب سے زیادہ عظمت والے فرقہ کا اتباع کرو اس لیے کہ جو اس سے بچھڑا وہ بچھڑ کر دوزخ میں گیا۔ (رواہ ابن ماجہ) 1 حضرت معاذ بن جبل ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس طرح بکریوں کو شکار کرنے والا بھیڑیا گلے سے بچھڑ نے والی گلے سے دور رہ جانے والی اور گلے سے الگ ہونے والی بکری کو شکار کرلیتا ہے اسی طرح انسان کے لیے شیطان بھیڑیا ہے (جماعت سے ہٹ کر ادھر ادھر کی) گھاٹیوں (میں بھٹکتے پھرنے) سے بچو اور جماعت و جمہور کے ساتھ رہو۔ (رواہ احمد) حضرت ابوذر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو جماعت سے بالشت بھر الگ ہو اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے نکال دی۔ (رواہ احمد و ابوداؤد) یہ تفسیر اس صورت میں ہوگی جب جمیعاً کو اعتصموا کی فاعلی ضمیر سے حال مانا جائے لیکنحبل اللہ سے اگر حال قرار دیا جائے تو یہ مطلب ہوگا کہ اللہ کی پوری کتاب کو پکڑے رہو ایسا نہ ہو کہ کتاب کے کچھ حصہ کو تو مانو اور کچھ کو نہ مانو کیونکہ رسی کے بل الگ الگ ہونے کی صورت میں طاقتور نہیں ہوتے۔ و لا تفرقوا اور آپس میں پھوٹ نہ پیدا کرو۔ یہ جملہ اوّل صورت میں تاکیدی اور دوسری صورت میں تاسیسی ہے (دوسری صورت پر اس جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ پورے قرآن کو مانو اور آپس میں بھی تفرقہ نہ کرو کہ کوئی مانے کوئی نہ مانے بلکہ سب مل کر پوری کتاب کو پکڑے رہو) مطلب یہ ہے کہ دوسرے اہل کتاب کی طرح آپس میں اختلاف کرکے حق سے متفرق نہ ہوجاؤ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : جو حالت بنی اسرائیل کی ہوئی وہی حالت میری امت پر آئے گی یہ ان کے نقش قدم پر چلے گی یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں سے علانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی کوئی ایسا کرے گا۔ بنی اسرائیل پھٹ کر بہتر فرقہ بن گئے تھے اور میری امت پھٹ کر تہتر گروہ ہوجائے گی جن میں سے سوائے ایک فرقہ کے سب دوزخی ہوں گے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ (نجات پانے والا فرقہ) کونسا ہوگا ؟ فرمایا : وہ (نجات یافتہ) ہوگا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوگا۔ (رواہ الترمذی) معاویہ ؓ کی روایت 2 کے یہ الفاظ ہیں کہ بہتر (فرقے) دوزخ میں اور ایک جنت میں ہوگا اور وہ 3 جماعت ہے اور میری امت میں سے عنقریب کچھ جماعتیں ایسی نکلیں گی کہ خواہشات (ان کے رگ و پے میں گھس جائیں گی اور) ان کو ہلاکت میں گرادیں گی جیسے داء الکلب اپنے مریض کے اندر گھس جاتا ہے کوئی رگ اور کوئی جوڑ ایسا نہیں رہتا کہ یہ بیماری اس میں گھس نہ جائے۔ میں کہتا ہوں صحابہ میں یہ تفرقہ نہ تو رسول اللہ کے زمانہ میں ہوا نہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر و حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافتوں میں امام برحق کے خلاف اوّل ترین بغاوت اہل مصر نے کی جنہوں نے حضرت عثمان کے خلاف خروج کیا اور خلافت کے معاملہ میں معاویہ کی طرف سے اوّل ترین اختلاف پیدا ہوا اور دین میں اوّل ترین اختلاف فرقہ حروریہ (خوارج و نواصب) نے کیا جنہوں نے حضرت علی ؓ کے خلاف بغاوت کی پھر عبد اللہ بن سبا نے مخالفت ڈالی اور حق کو چھوڑا یہی شخص رافضیوں کا سرچشمہ ہے پھر تابعین کے دور میں معتزلہ کا مسلک پیدا ہوا جنہوں نے فلاسفہ کا دامن جا پکڑا قیل و قال میں پھنس گئے۔ مناظرہ بازی میں پڑگئے۔ کتاب اللہ کی کھلی آیات اور رسول اللہ کی سنت اور سلف کے طریقہ کو انہوں نے چھوڑ دیا اور اپنے ناقص گمراہ خیالات کے پیرو ہوگئے۔ واذکروا نعمۃ اللہ علیکم اور اے گروہ انصار ! یاد رکھو اپنے اوپر اللہ کے احسان کو منجملہ اس کے احسان کے ایک بات یہ ہے کہ اس نے تم کو اسلام کی ہدایت کی جس وجہ سے تمہارے اندر اتفاق پیدا ہوگیا۔ اذ کنتم اعداء جب کہ اسلام سے پہلے تم باہم دشمن تھے۔ و الف بین قلوبکم پھر اسلام کے ذریعہ سے اللہ نے تمہارے دلوں میں باہمی الفت پیدا کردی۔ فاصبحتم بنعمتہ اخوانا اور تم اس کی رحمت و ہدایت سے بھائی بھائی ہو۔ یعنی دین، دوستی، ہمدردی اور محبت کے اعتبار سے بھائی بھائی بن گئے (اگرچہ نسبی برادری نہیں تھی) محمد بن اسحاق اور دوسرے اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ قبائل اوس و خزرج ایک ماں باپ کی نسل سے تھے لیکن ایک مقتول کی وجہ سے دونوں میں دشمنی ہوگئی اور اتنی بڑھی کہ ایک سو بیس برس تک باہم جنگ ہوتی رہی آخر کار اسلام کی وجہ سے اللہ نے ان کی باہمی عدات کی آگ بجھا دی اور رسول اللہ کی وجہ سے سب میں اتفاق ہوگیا ان کے اسلام اور باہمی الفت کا آغاز اس طرح ہوا کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں ایک شخص تھا جس کا نام سوید بن صامت تھا اور قوم والے اس کو طاقتور اور اصیل ہونے کی وجہ سے کامل کہتے تھے۔ سوید حج یا عمرہ کرنے کے لیے مکہ کو گیا اس وقت رسول اللہ کی بعثت ہوچکی تھی اور آپ ﷺ کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم مل چکا تھا۔ آپ ﷺ نے سوید کی آمد کی خبر سنی تو اس کے پیچھے گئے اور اللہ اور اسلام کی اس کو دعوت دی سوید نے کہا شاید تمہارے پاس ویسی ہی کوئی چیز ہے جیسی میرے پاس ہے ؟ حضور نے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے۔ سوید نے کہا لقمان کا رسالہ یعنی لقمان کا پر حکمت کلام حضور ﷺ نے فرمایا : میرے سامنے لاؤ سوید نے پیش کیا (یعنی پڑھ کر سنایا) حضور نے فرمایا : یہ اچھا ہے مگر میرے پاس جو چیز ہے وہ اس سے افضل ہے میرے پاس قرآن ہے جس کو اللہ نے نور اور ہدایت بنا کر اتارا ہے پھر آپ نے اس کو قرآن سنایا اور اسلام کی دعوت دی سوید نے نفرت نہیں کی اور کہنے لگا یہ اچھی چیز ہے پھر واپس مدینہ چلا گیا اور کچھ ہی مدت کے بعد جنگ بعاث میں قبیلہ خزرج نے اس کو قتل کردیا اوس کی قوم والوں کا بیان کہ مسلمان ہونے کی حالت میں اس کو قتل کیا گیا۔ اس کے بعد ابو الحیسرانس بن رافع بن اشہل کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر جس میں ایاس بن معاذ بھی شامل تھا۔ قریش سے معاہدہ تعاون کرنے کے لیے آیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ملی تو آپ ﷺ تشریف لے گئے اور ان کے پاس بیٹھ کر فرمایا : جس کام کے لیے تم آئے ہو کیا اس سے بہتر چیز کی تم کو خواہش ہے ؟ لوگوں نے کہا وہ کیا چیز ہے فرمایا : میں اللہ کا پیغامبر ہوں۔ اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس بھیجا ہے میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ کسی چیز کوا اللہ کا ساجھی نہ قرار دو ، اللہ نے مجھ پر کتاب بھی نازل فرمائی ہے اس کے بعد آپ ﷺ نے ان کے سامنے اسلام کا تذکرہ کیا اور قرآن پڑھ کر سنایا ایاس بن معاذ جو نوجوان لڑکا تھا کہنے لگا قوم والو جس کام کے لیے تم آئے ہو خدا کی قسم یہ اس سے بہتر ہے ابو الحیسرنے ایک لپ بھر کر کنکریاں ایاس کے منہ پر ماریں اور بولا یہ اپنی بات رہنے دے ہم دوسری غرض سے آئے ہیں ایاس خاموش ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے اور وہ لوگ بھی مدینہ کو لوٹ گئے مدینہ پہنچنے کے بعد اوس و خزرج کے درمیان جنگ بعاث ہوئی اور کچھ ہی عرصہ کے بعد ایاس کا انتقال ہوگیا پھر جب اللہ نے چاہا کہ اس کا دین ظاہر اور رسول غالب ہوجائے تو ایک حج کے زمانہ میں ہر سال کے معمول کے موافق رسول اللہ ﷺ انصار کی ایک جماعت سے ملے اور عقبہ کے پاس ایک خزرجی گروہ سے ملاقات ہوئی اس گروہ میں چھ اشخاص تھے اسعد بن زرارہ، عوف بن حارث یعنی عوف بن عفراء نافع بن مالک عجلانی عطیہ بن عامر، عقبہ بن عامر اور جابربن عبد اللہ۔ اللہ کو مقصود تھا کہ ان کو خیر نصیب ہو۔ حضور ﷺ نے دریافت کیا تم کون لوگ ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : خزرجی گروہ۔ فرمایا : کیا یہودیوں کے دوستوں میں سے ہو ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں۔ فرمایا : کیا تم بیٹھ کر میری بات نہیں سنو گے انہوں نے کہا کیوں نہیں سنیں گے۔ اس کے بعد سب بیٹھ گئے رسول اللہ نے ان کو اللہ کی دعوت دی اسلام پیش کیا اور قرآن پڑھ کر سنایا (وہ مسلمان ہوگئے) ان کے اسلام کی خدا کی طرف سے ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ مدینہ میں وہ یہودیوں کے ساتھ رہتے تھے یہودی اہل کتاب اور اہل علم تھے اور یہ لوگ بت پرست اور مشرک، یہودیوں سے ان کا کچھ جھگڑا ہوجاتا تھا تو یہودی کہتے تھے اب ایک نبی آنے والا ہے جس کی بعثت کا زمانہ قریب آگیا ہے ہم اس کا اتباع کریں گے اور اس کے ساتھ ہو کر تم کو قوم عاد کی طرح قتل کریں گے پس اس گروہ نے جب رسول اللہ کا کلام اور اسلام کی دعوت سنی تو آپس میں کہنے لگے لوگو ! جانتے ہو کہ یہ وہی پیغمبر ہیں جن کا نام لے کر یہودی تم کو دھمکیاں دیتے ہیں اب یہودی تم سے اس کی مددحاصل کرنے میں سبقت نہ کرنے پائیں چناچہ سب نے حضور ﷺ کی تصدیق کی اور مسلمان ہوگئے اور عرض کیا ہم ایسی قوم کو چھوڑ کر آئے ہیں جن میں آپس کی جنگ اور دشمنی اتنی ہے کہ کسی قوم میں نہیں ہے۔ اب امید ہے کہ اللہ آپ ﷺ کے ذریعہ سے ان میں اتفاق کرادے گا۔ عنقریب ہم ان کے پاس جائیں گے اور ان کو اس بات کی دعوت دیں گے اگر اللہ نے ان سب کو آپ کے معاملہ میں متفق کردیا تو آپ سے بڑھ کر پھر کوئی عزت یافتہ نہ ہوگا پھر یہ لوگ رسول اللہ کے پاس سے اپنے شہرکو لوٹ گئے اور مدینہ پہنچ کر رسول اللہ کا تذکرہ کیا اور مدینہ والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ حضور ﷺ کا ذکر مدینہ میں اتنا پھیل گیا کہ انصار کے ہر گھر میں آپ ﷺ ہی کا چرچا ہونے لگا۔ پھر آئندہ سال ایام حج میں بارہ انصاری آئے۔ اسعد بن زرارہ، عوف بن عفرا، معاذ بن عفراء، رافع بن مالک عجلانی، ذکوان بن عبد القیس، عبادہ بن صامت، زید بن ثعلبہ، عباس بن عبادہ، عقبہ بن عامر، عطیہ بن عامر، یہ سب خزرجی تھے اور قبیلہ اوس کے دو شخص تھے ابوالہیثم بن تیہان اور عویمر بن ساعدہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) عقبہ اولیٰ میں حضور ﷺ سے ان کی ملاقات ہوئی اور عورتوں کی بیعت کی کہ شرطوں پر انہوں نے رسول اللہ کی بیعت کی کہ شرک نہیں کریں گے، زنا نہیں کریں گے۔۔ (حضور ﷺ نے فرمایا :) اگر تم ان شرطوں کو پورا کرو گے تو تمہارے لیے جنت ہے اگر ان میں کچھ کھوٹ کرو گے اور دنیوی سزا میں گرفتار ہوجاؤ گے تو گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ لیکن اگر تمہارے جرم پر پردہ پڑا رہا تو تمہارا معاملہ اللہ کے سپرد رہے گا وہ چاہے تم کو عذاب دے چاہے معاف کردے۔ راوی کا بیان ہے کہ یہ واقعہ جنگ پیش آنے سے پہلے کا ہے۔ ان لوگوں کی واپسی کے وقت رسول اللہ نے مصعب بن عمیر بن ہاشم بن عبد مناف کو ان کے ساتھ کردیا اور حکم دیدیا کہ ان کو قرآن پڑھانا، اسلام کی تعلیم دینا اور احکام سمجھانا۔ مدینہ میں مصعب کا لقب مقری (قرآن پڑھانے والا) ہوگیا اور اسعد بن زرارہ کے مکان پر آپ کا قیام ہوا۔ کچھ مدت کے بعد اسعد بن زرارہ مصعب کو ساتھ لے کر بنی ظفر کے ایک باغ میں گئے اور اندر جا کر بیٹھ گئے وہاں دوسرے مسلمان بھی جمع ہوگئے۔ دوسری طرف سعد بن معاذ نے اسید بن حضیر سے کہا یہ دو نوں آدمی ہمارے گھر میں آکر ہمارے کمزور سمجھ کے آدمیوں کو بہکا نا چاہتے ہیں تم جا کر ان دونوں کو جھڑک کر نکال دو ۔ سعد میرے ماموں کا بیٹا ہے اگر یہ رشتہ نہ ہوتا تو میں خود ہی یہ کام کرلیتا تمہاری ضرورت بھی نہ ہوتی سعد اور اسید بن اشہل کے سردار تھے اور اس وقت تک مشرک تھے حسب مشورہ اسیداپنا چھوٹا نیزہ لے کر مصعب اور اسعد کے پاس گیا دونوں باغ کے اندر بیٹھے ہوئے تھے اسید کو دیکھ کر اسعد نے مصعب سے کہا یہ آنے والا اپنی قوم کا سردار ہے، اس کو مسلمان بناؤ مصعب نے جواب دیا اگر یہ بیٹھ جائے گا تو میں اس سے بات کروں گا۔ اسید پہنچ کر دونوں کے سامنے کھڑا ہوگیا اور گالیاں دینے لگا کہنے لگا تم ہمارے ہاں کیوں آئے ہو ؟ کیا ہمارے کمزور سمجھ والوں کو بیوقوف بنا رہے ہو اگر تم کو اپنی جان سے کچھ محبت ہے تو یہاں نے ہٹ کر چلے جاؤ۔ مصعب نے کہا آپ بیٹھ کر ذرا ہماری بات تو سن لیجئے اگر ہماری بات آپ کو پسند آجائے تو مان لینا ناپسند ہو تو آپ کے ناگوار خاطر بات نہیں کی جائے گی۔ اسید نے کہا یہ بات تم نے ٹھیک کہی یہ کہہ کر نیزہ زمین میں گاڑ کر دونوں کی طرف رخ کرکے بیٹھ گیا۔ مصعب نے اسلام کے متعلق اس سے گفتگو کی اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ مصعب کا بیان ہے ابھی وہ کچھ بولا بھی نہ تھا مگر ہم کو اس کے چہرہ کی چمک اور بشاشت سے اسلام کے آثار دکھنے لگے تھے قرآن سننے کے بعد کہنے لگا یہ تو بڑی اچھی اور خوبصورت چیز ہے اچھا بتاؤ کہ اس مذہب میں داخل ہونے کے وقت تم کیا کرتے ہو ؟ مصعب اور اسعد نے جواب دیا غسل کرلو کپڑے پاک کرو پھر شہادت حق دو پھر دور کعت نما زپڑھو۔ اسید نے فوراً اٹھ کر جا کر غسل کیا کپڑے پاک کئے اور کلمہ شہادت پڑھ کر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز ادا کی پھر کہنے لگا میرے پیچھے ایک آدمی اور ہے اگر اس نے تمہاری بات مان لی تو اس کی قوم کا کوئی شخص تامل نہیں کرے گا وہ سعد بن معاذ ہے میں اس کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں پھر نیزہ لے کر چل دیا اور اپنی چوپال پر جا کر ٹھہر گیا سعد نے پوچھا پیچھے کیا چھوڑ کر آئے ؟ اسید نے کہا خدا کی قسم میں نے تو ان میں کوئی جرأت نہیں پائی میں نے ان کو روک دیا انہوں نے کہا جیسا آپ کو پسند ہے ہم ویسا ہی کریں گے۔ لیکن مجھے ایک خبر یہ ملی ہے کہ بنی حارثہ اسعد کو قتل کرنے کے لیے نکلے ہیں کیونکہ اسعد تمہارا ماموں کا بیٹا ہے وہ اس کو قتل کرکے تم سے عہد شکنی کرنا چاہتے ہیں یہ سن کر سعد غضب ناک ہو کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا نیزہ ہاتھ میں لیا اور بولا خدا کی قسم میرے خیال میں تم نے کچھ کام نہیں کیا باغ میں پہنچ کر دیکھا تو مصعب اور اسعد دونوں کو مطمئن پا کر سمجھ گیا کہ اسید نے مجھ اس لیے بھیجا ہے کہ میں خود پہنچ کر ان کی بات سنوں جب سامنے جاکر کھڑا ہوا تو گالیاں دینے لگا اور اسعد بن زرارہ سے بولا اگر مجھ سے تیرا رشتہ نہ ہوتا تو پھر میرے متعلق تیری یہ جرأت نہ ہوتی تو ہمارے گھر کے اندر ایسی باتیں لے کر آتا ہے جو ہم کو ناگوار ہیں۔ سعد کو دیکھتے ہی اسعد نے مصعب سے کہہ دیا تھا کہ یہ آنے ولا اپنی قوم کا سردار ہے اگر اس نے تمہاری بات مان لی تو پھر اسکی قوم میں کوئی تمہاری مخالفت نہیں کرے گا۔ مصعب نے سعد سے کہا ذرا بیٹھ کر ہماری بات سن لیجئے اگر آپ کو دل پسند اور مرغوب ہو تو مان لیں ورنہ آپ کے ناگوار خاطر کام ہم آپ سے الگ رکھیں گے۔ سعد نے کہا تیری یہ بات ٹھیک ہے پھر نیزہ زمین میں گاڑ کر بیٹھ گیا مصعب نے اسلام پیش کیا اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ مصعب اور اسعد کا بیان ہے کہ سعد کے چہرہ کی چمک اور بشاشت دیکھ کر ہی ہم پہچان گئے تھے کہ اسلام اس کو پسند آگیا۔ چناچہ قرآن سن کر سعد نے کہا جب تم مسلمان ہوتے اور اس دین میں داخل ہوتے ہو تو کیا کرتے ہو ؟ مصعب نے کہا غسل کرلو دونوں کپڑے پاک کرلو پھر شہادتِ حق ادا کرو اور دو رکعت نماز پڑھو۔ سعد نے اٹھ کر غسل کیا، کپڑے پاک کئے، شہادت حق ادا کی اور دو رکعت نماز پڑھی اور نیزہ لے کر قصداً اپنی قوم کی چوپال کی طرف گئے ساتھ میں اسید بن حضیر بھی تھے قوم والوں نے آتا دیکھ کر کہا خدا کی قسم اب سعد کا وہ چہرہ نہیں جو جاتے وقت تھا۔ سعد نے قوم سے کہا اے بنی عبدالاشہل تم مجھے اپنے اندر کیسا جانتے ہو ؟ قوم والوں نے کہا آپ ہمارے سردار ہیں سب سے زیادہ آپ کی رائے فضیلت رکھتی ہے آپ کا قول و عمل نہایت مبارک ہے سعد نے کہا تو (سن لو کہ) تمہارے مردوں اور عورتوں سے بات کرنا مجھ پر حرام ہے جب تک تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لے آؤ۔ سعد کے اس قول کے بعد بنی عبد الاشہل کے احاطہ میں کوئی مرد عورت بغیر اسلام لائے نہیں رہا۔ اسعد اور مصعب دونوں لوٹ کر اسعد کے گھر آگئے مصعب یہیں مقیم رہے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ انصار کے احاطوں میں کوئی احاطہ ایسا نہیں رہا جس میں کچھ مرد اور عورتیں مسلمان نہ ہوں ہاں بنی امیہ بن زید اور حطمہ اور وائل اور واقف کے احاطہ میں مسلمان نہ ہوئے کیونکہ ابو قیس بن اسلت شاعر ان میں موجود تھا اور یہ خاندان والے اسی کی بات سنتے اور کہا مانتے تھے۔ اس نے سب کو اسلام سے روک دیا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لے آئے اور بدر، احد اور خندق کی لڑائیاں بھی گذر گئیں (اس کے بعد یہ لوگ مسلمان ہوگئے) ۔ اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ اس کے بعد مصعب بن عمیر مکہ کو واپس چلے گئے اس وقت آپ کے ساتھ سترّ مسلمان انصاری اور کچھ مشرک تھے جو حج کے لیے گئے تھے مکہ پہنچ کر وسط ایام تشریق میں عقبہ ثانیہ پر رسول اللہ سے ملاقات ہونے کا وعدہ ہو ایہ ہی بیعت عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے۔ کعب بن مالک کا بیان ہے کہ میں موجود تھا ہم حج سے فارغ ہوئے اور وعدہ ملاقات والی رات آئی یوں تو ہم اپنے ساتھ والے مشرکوں سے اپنی باتیں چھپا رکھتے تھے مگر ابو جابر عبد اللہ بن عمرو بن حرام کو ہم نے بتادیا تھا اور اس سے گفتگو کرلی تھی اور کہہ دیا تھا کہ آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہیں اور ہمارے بزرگ ہیں ہم نہیں چاہتے کہ آپ کل کو آگ کا ایندھن بنیں اس لیے جس حالت میں آپ ہیں اس حالت میں آپ کو چھوڑ دینا ہم کو پسند نہیں۔ غرض ہم نے اس کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگیا اور ہم نے رسول اللہ کے وعدۂ ملاقات کو اس کو اطلاع دیدی اور عقبہ میں ہمارے ساتھ آگیا اور نقیب ہوگیا۔ وعدۂ والی رات کا کچھ حصہ ہم نے اپنی فرو گاہوں میں ہی گذارا جب ایک تہائی رات گذر گئی تو ہم چپکے چپکے چھپتے چھپاتے قطا (چکور) کی چال سے نکلے اور عقبہ کے پاس گھاٹی میں پہنچ کر جمع ہوئے اس وقت ہم سترّ مرد اور دو عورتیں تھے ایک بنی نجار کی ام عمارہ نسبیہ بنت کعب اور دوسری بنی سلمہ کی ام منیع اسماء بنت عمرو بن عدی۔ گھاٹی کے اندر ہم رسول اللہ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر رسول اللہ حضرت عباس بن عبد المطلب کے ساتھ تشریف لے آئے۔ حضرت عباس نے فرمایا : اے گروہ خزرج (خزرج کا اطلاق انصاریوں کے پورے گروہ پر ہوتا تھا خزرجی ہوں یا اوسی تم واقف ہو کہ محمد ﷺ ہم میں سے ہیں جو لوگ ہماری قوم میں ہمارے خیالات کے ہیں ان سے ہم نے ان کی حفاظت کی ہے۔ یہ اپنی قوم میں باعزت اور اپنے شہر میں حفاظت سے ہیں لیکن یہ سب سے کٹ کر تم سے جڑنا چاہتے ہیں اور تم سے کٹنے پر راضی نہیں ہیں پس سوچ لو اگر اس بات کو تم پورا کرسکو جس کے لیے ان کو بلا رہے ہو اور مخالفوں سے ان کی حفاظت کرسکو تو تمہاری ذمہ داری تم پر ہے اور اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ جب یہ تمہارے پاس پہنچ جائیں گے (اور ان کو مدد کی ضرورت ہوگی) تو تم ان کو بےمدد، بےسہارا چھوڑ دوگے تو ابھی سے ان کو چھوڑ دو ۔ یہ عزت و حفاظت کے ساتھ ہیں (کعب کا بیان ہے) ہم نے جواب دیا جو کچھ آپ نے فرمایا : ہم نے سن لیا۔ لیکن اے رسول خدا ﷺ آپ خود کچھ فرمائیے اور اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے ہم سے جو عہد لینا چاہیں لے لیجئے۔ راوی کا بیان ہے اس پر رسول اللہ بولے، قرآن مجید کی تلاوت کی اور اللہ کی طرف بلایا اور اسلام کی طرف راغب کیا پھر فرمایا : میں تم سے ان شرطوں پر بیعت لیتا ہوں کہ اپنی بیوی بچوں کی جس چیز سے حفاظت کرو گے اس سے میری بھی حفاظت کرنا۔ یہ سن کر براء بن معرور نے دست مبارک پکڑ لیا اور عرض کیا قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم جس چیز سے اپنی اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں اس سے آپ کی بھی حفاظت کریں گے۔ یا رسول اللہ ہماری بیعت قبول کیجئے ہم خود بھی جنگجو ہیں اور دوسرے سے بھی تعاون کا ہمارا معاہدہ ہے جو بزرگوں سے موروثی چلا آتا ہے براء رسول اللہ ﷺ سے بات کر ہی رہے تھے کہ ابو الہثم بن تیہان بیچ میں بول اٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ کچھ لوگوں سے ہمارے معاہدے ہیں اب ان کو ختم کرنا پڑے گا کہیں ایسا تو نہ ہوگا کہ ہم سب سے معاہدہ ختم کردیں اور اللہ آپ کو غلبہ عنایت فرما دے تو آپ ﷺ ہم کو چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف آجائیں یہ کلام سن کر رسول اللہ مسکرا دیئے اور فرمایا : تمہارا خون میرا خون ہے۔ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے۔ جس سے تم لڑو گے میں بھی لڑوں گا جس سے تم صلح کرو گے میں بھی صلح کروں گا پھر حضور نے فرمایا : اپنے میں سے بارہ نمائندے چھانٹ کر نکال لو جو حضرت عیسیٰ کے حواریوں کی طرح اپنی اپنی قوم کے ذمہ دار ہوں حسب الحکم بارہ نمائندے چھانٹے گئے نو خزرج میں سے اور تین اوس میں سے۔ عاصم بن عمرو بن قتادہ کا بیان ہے کہ جب بیعت کے لیے لوگ جمع ہوگئے تو عباس بن عبادہ بن نفلہ انصاری نے کہا : اے گروہ خزرج کیا تم جانتے ہو کہ کس شرط پر تم اس شخص کی بیعت کر رہے ہو ‘ ہر گورے کالے سے لڑنے کی بیعت کر رہے ہو اگر تمہارا خیال ہو کہ جب تمہارے مالوں پر کوئی مصیبت پڑے گی اور تمہارے سردار مارے جائیں گے تو تم اس کو بےمدد چھوڑ جاؤ گے تو ابھی بیعت نہ کرو ورنہ اس وقت خدا کی قسم دنیا و آخرت کی رسوائی نصیب ہوگی اور اگر مالوں کی تباہی اور سرداروں کی ہلاکت کے باوجود تم اپنے اس وعدہ کو پورا کرسکتے ہو جس پر تم اس شخص کو دعوت دے رہے ہو تو اس کو لے لو۔ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ انصار نے جواب دیا ہم مالوں کی تباہی اور سرداروں کے قتل ہوجانے کے بعد بھی ان کو نہیں چھوڑیں گے اور اسی شرط پر ان کو قبول کر رہے ہو لیکن اے اللہ کے رسول اگر ہم نے یہ شرط پوری کردی تو ہم کو اس کے عوض کیا ملے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : جنت۔ انصار نے عرض کیا تو دست مبارک پھیلائیے حضور ﷺ نے ہاتھ پھیلایا۔ سب نے بیعت کرلی اوّل براء بن معرور نے ہاتھ پر ہاتھ مارا پھر یکے بعد دیگرے دوسرے لوگوں نے۔ جب ہم بیعت کرچکے تو عقبہ کی چوٹی سے انتہائی بلند آواز سے شیطان نے چیخ کر کہا اے اہل حباحب کیا تم کو مُذَمَّم (محمد ﷺ کی بھی اطلاع ہے بےدین اس کے ساتھ مل کر تم سے جنگ کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : یہ اللہ کا دشمن ہے۔ یہ عقبہ کا ازب ہے۔ 1 اے دشمن خدا سن لے خدا کی قسم میں تیرے (مقابلہ کے) لیے بالکل فارغ ہوجاؤں گا پھر فرمایا : اب تم اپنے اپنے پڑاؤ پر چلے جاؤ عباس بن عبادہ بن نضلہ نے عرض کیا قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ چاہیں تو ہم کل صبح ہی اہل منا پر تلواریں لیکر ٹوٹ پڑیں گے فرمایا : مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے تم اپنی فرد گاہوں پر چلے جاؤ حسب الحکم ہم اپنی خوابگاہوں پر آگئے اور سو گئے صبح ہوئی تو قریش کے بڑے بڑے لوگ ہمارے پڑاؤ پر آئے اور کہنے لگے اے گروہ خزرج ہم کو اطلاع ملی ہے کہ تم ہمارے اس ساتھی کے پاس سے آئے ہو اسکو ہمارے پاس سے نکال کرلے جانا چاہتے ہو اور ہمارے خلاف جنگ کرنے کیلئے اس سے بیعت کر رہے ہو خدا کی قسم عرب کے کسی قبیلہ سے جنگ چھڑ جانا ہمارے نزدیک اتنی قابل نفرت نہیں جتنی تم سے ہے یہ سن کر ہمارے (یعنی خزرج اور اسکے) مشرک کھڑے ہوگئے اور اللہ کی قسم کھا کر انہوں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہمیں اسکا علم ہے حقیقت میں انہوں نے سچ کہا تھا انکو بیعت کا علم ہی نہ تھا۔ انکی باتوں کے وقت ہم آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے غرض سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ قریش میں ایک شخص حارث بن مغیرہ مخزومی نئی جوتیاں پہنے ہوئے تھا میں نے ابو جابر سے ایک بات کہی گویا میں (دوسرے قریش کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ میں) مشرکین انصار کے کلام کی تائید کر رہا ہوں اور بات یہ تھی کہ میں نے اس سے کہا ابو جابر تم ہمارے سرداروں میں سے ہو لیکن اتنی بھی تم میں استطاعت نہیں کہ اس قریشی جوان کی جوتیوں کی طرح جوتیاں ہی بنوا لو حارث نے یہ بات سنی تو فوراً جوتیاں پاؤں سے نکال کر میری طرف پھینک دیں اور بولا خدا کی قسم اب ان کو تو پہنے گا ابو جابر نے کہا ہائیں تو نے جوان کو غصہ دلا دیا جوتیاں واپس کردے میں نے کہا میں تو واپس نہیں کروں گا۔ یہ شگون اچھا ہے اگر فال سچی ہوئی تو خدا کی قسم میں اس کے کپڑے اتار لوں گا۔ غرض مضبوط معاہدہ کے بعد انصار مدینہ کو لوٹ گئے اور مدینہ میں اسلام کا ظہور ہوگیا۔ قریش کو اس کی اطلاع ملی تو وہ رسول اللہ کے صحابہ کو دکھ دینے لگے حضور ﷺ نے ساتھیوں سے فرمایا : اللہ نے تمہارے کچھ بھائی بنا دیئے ہیں اور امن کی ایک جگہ بھی دیدی ہے تم ہجرت کرکے مدینہ چلے جاؤ اور اپنے انصاری بھائیوں میں مل کر رہو۔ اس حکم پر سب سے پہلے سلمہ بن عبد اللہ مخزومی کے بھائی نے مدینہ کو ہجرت کی پھر عامر بن ربیعہ نے پھر عبد اللہ بن جحش نے پھر پے در پے جتھے جانے لگے اس طرح اسلام کی وجہ سے اللہ نے مدینہ والے اوس اور خزرج کے قبیلوں کو متفق بنا دیا اور رسول اللہ کے ذریعہ ان میں باہم صلح کرادی۔ و کنت علی شفا حفرۃ من النار اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر تھے یعنی قریب ہی تھا کہ اس میں گر پڑو سوائے موت علی الکفر کے کوئی چیز اس میں گرنے سے مانع نہیں رہی تھی۔ فاقذکم منہا پس اللہ نے اسلام کی وجہ سے تم کو اس آگ یا گڑھے یا گڑھے کے کنارے سے بچا لیا۔ شفا کا لفظ اگرچہ مذکر ہے لیکن اسکا مضاف الیہ یعنی حفرۃ کا لفظ مؤنث ہے اسلئے مونث کی ضمیر اسکی طرف راجع ہوسکتی ہے اسکے علاوہ شفا اور شَفَۃٌ ہم معنی ہیں۔ شفاء البر اور شفۃ البر کنوئیں کا کنارہ جیسے جانبٌ اور جانِبَۃٌ ہم معنی ہیں۔ دونوں کی اصل شفو تھی مذکر میں واؤ کو الف سے اور مؤنث میں تاء سے بدل دیا اسلئے شفاء کی جانب مؤنث کی ضمیر لوٹانا بھی درست ہے۔ کذالک یبین اللہ لکم آیاتہ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی دلیلیں بیان فرماتا ہے۔ لعلکم تھتدون تاکہ تم ہدایت پر جمے رہو تمہاری ہدایت میں اضافہ ہو۔
Top