Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 193
رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا١ۖۗ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِۚ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّنَا : بیشک ہم نے سَمِعْنَا : سنا مُنَادِيًا : پکارنے والا يُّنَادِيْ : پکارتا ہے لِلْاِيْمَانِ : ایمان کے لیے اَنْ اٰمِنُوْا : کہ ایمان لے اؤ بِرَبِّكُمْ : اپنے رب پر فَاٰمَنَّا : سو ہم ایمان لائے رَبَّنَا : اے ہمارے رب فَاغْفِرْ : تو بخشدے لَنَا : ہمیں ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہ وَكَفِّرْ عَنَّا : اور دور کردے ہم سے سَيِّاٰتِنَا : ہماری برائیاں وَتَوَفَّنَا : اور ہمیں موت دے مَعَ الْاَبْرَارِ : نیکوں کے ساتھ
اے ہمارے رب بلاشبہ ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا کہ وہ ایمان کے لیے پکار رہا ہے کہ تم ایمان لاؤ اپنے رب پر، سو ہم ایمان لے آئے اے ہمارے رب سو آپ مغفرت فرما دیجیے ہمارے گناہوں کی، اور کفارہ کردیجیے ہمارے گناہوں کا اور ہمیں نیک بندوں کے ساتھ موت دیجیے،
اولو الالباب یعنی عقل والوں کی یہ دعا بھی ذکر فرمائی (رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَاعَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ) (اے ہمارے رب بلاشبہ ہم نے ایک پکارنے والے کی پکار سنی جو ایمان کی دعوت دے رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ، سو اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے، سو ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمارے گناہوں کا کفارہ فرما اور ہمیں نیک بندوں کے ساتھ موت دیجیے اے ہمارے رب اور ہمیں وہ اجر وثواب عطا فرما جس کا ہم سے آپ نے اپنے رسولوں کی معرفت وعدہ فرمایا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کیجیے اور بلاشبہ آپ وعدہ خلافی نہیں فرماتے) اس دعا میں جو (مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ ) وارد ہوا ہے اس کے بارے میں صاحب روح المعانی نے مفسرین کے دو قول لکھے ہیں۔ اول یہ کہ اس سے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ مراد ہیں اور لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابن عباس ؓ سے یہی مروی ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے قرآن کریم مراد ہے مفسر طبری نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن ایسا منا دی ہے جو قیامت تک باقی رہے گا اور ایمان کی دعوت دیتا رہے گا۔ پھر صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ جس کو بھی (تا قیامت) رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی اطلاع ملی اور آپ کی دعوت پہنچی (اگرچہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے) ان سب کے حق میں آپ منا دی اور ہادی اور داعی ہیں۔ اس لیے بعد میں آنے والے بھی آپ کے بارے میں (سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ ) کہہ سکتے ہیں، لہٰذا پہلا قول بھی صحیح ہے۔ صاحب روح المعانی یہ بھی لکھتے ہیں کہ منا دیاً فرمایا اور داعیاً نہیں فرمایا کیونکہ نداء معنوی اعتبار سے ابلغ ہے، کیونکہ نداء آواز بلند کرنے کے بغیر نہیں ہوتی اور ظاہر ہے نداء دور تک پہنچتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے خطبوں میں خوب بلند آواز سے نصیحت اور موعظت فرماتے تھے۔ اور حاضرین سے یہ بھی فرماتے تھے، لیبلغ الشاھد منکم الغائب (یعنی جو لوگ موجود ہیں ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں) (فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا) اس میں فاء تفریعیہ ہے مطلب یہ ہے کہ ہم منادی کی آواز سن کر ایمان لے آئے لہٰذا ہمارے گناہ معاف فرما دیجیے، چونکہ مغفرت ایمان پر مرتب ہے اس لیے درمیان میں فاء لائی گئی۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایمان نہ ہو تو گناہوں کی مغفرت نہیں ہوسکتی اور کافر کی توبہ کافر ہوتے ہوئے مقبول نہیں۔ (وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا) (اور ہماری برائیوں کا کفارہ فرما دیجیے) ذُنُوْبَنَا کے بعد جو سَیّءَاتِنَا لایا گیا ہے اس کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ ذنوبنا سے پہلے گناہ اور سیئاتنا سے پچھلے گناہ مراد ہیں۔ اور دوسرا قول یہ لکھا ہے کہ ذنوبنا سے کبائر اور سَیّءَاتِنَا سے صغائر مراد ہیں۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے، اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ذُنُوْبَنَا سے وہ گناہ مراد ہیں جن کا یہ جانتے ہوئے ارتکاب کیا ہو کہ یہ گناہ ہیں اور سَیّءَاتِنَا سے وہ گناہ مراد ہیں جو جہالت اور لا علمی کی بناء پر صادر ہوگئے ہوں (چونکہ لاعلمی بھی گناہ ہے اس لیے ایسے گناہوں کی بخشش طلب کرنے کی بھی ضرورت ہے) ۔ (روح المعانی صفحہ 164: ج 4) (وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ ) (اور ہمیں نیک آدمیوں کے ساتھ وفات دیجیے) مطلب یہ ہے کہ ہمیں صالحین میں شمار فرمائیے اور موت کے بعد ہم سے وہی معاملہ فرمائیے جو نیک آدمیوں کے ساتھ ہوگا، جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں یوں کہا تھا (تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بالصّٰلِحِیْنَ ) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ لفظ مع الابرار میں تواضع ہے اور حسن ادب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم ابرار میں سے تو نہیں ہیں لیکن ہمیں ابرار میں شامل فرما دیجیے ہم اس کے امید وار ہیں۔
Top