Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 193
رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا١ۖۗ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِۚ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّنَا : بیشک ہم نے سَمِعْنَا : سنا مُنَادِيًا : پکارنے والا يُّنَادِيْ : پکارتا ہے لِلْاِيْمَانِ : ایمان کے لیے اَنْ اٰمِنُوْا : کہ ایمان لے اؤ بِرَبِّكُمْ : اپنے رب پر فَاٰمَنَّا : سو ہم ایمان لائے رَبَّنَا : اے ہمارے رب فَاغْفِرْ : تو بخشدے لَنَا : ہمیں ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہ وَكَفِّرْ عَنَّا : اور دور کردے ہم سے سَيِّاٰتِنَا : ہماری برائیاں وَتَوَفَّنَا : اور ہمیں موت دے مَعَ الْاَبْرَارِ : نیکوں کے ساتھ
اے ہمارے پروردگار ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا ایمان کی پکار کرتے ہوئے کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ، سو ہم ایمان لے آئے،404 ۔ اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہوں کو بخش دے، اور ہم سے ہماری خطاؤں کو زائل کردے، اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے،405 ۔
404 ۔ (اس داعی حق کی ہدایت کے مطابق) ایمان شریعت میں وہی معتبر ومستند ہے جو پیغمبر کی ہدایات کے مطابق ہو نہ کہ اپنے ظن وتخمین کے ماتحت۔ امام ماتریدی نے یہیں سے یہ نکالا ہے کہ اپنے ایمان کو انشاء اللہ کے ساتھ مقید ومشروط کرنا درست نہیں۔ قال الشیخ ابو منصور (رح) فیہ دلیل بطلان الاستثناء فی الایمان (مدارک) (آیت) ” منادیا “ پکارنے والے سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ (آیت) ” ینادی للایمان “ یہ ضرور نہیں کہ پیغمبر کی دعوت براہ راست ہی پہنچتی ہو، کسی واسطہ سے بھی پہنچے، بہرحال پیغمبر ہی کی دعوت ہوگی ، (آیت) ” للایمان “ میں ل الی کے معنی میں ہے۔ اللام بمعنی الی ای الی الایمان (قرطبی) 405 ۔ (اور آخرت میں ان کی رفاقت نصیب کر) مخصوصین بصحبتھم ومعدودین فی زمرتھم (بیضاوی) (آیت) ” ذنوب سے مراد بڑے گناہ ہیں۔ ای کبائرنا (بیضاوی) (آیت) ” سیاتنا “۔ سیات سے مراد چھوٹے گناہ ہیں۔ ای صغائرنا (بیضاوی)
Top