Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 33
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ
وَقَرْنَ
: اور قرار پکڑو
فِيْ بُيُوْتِكُنَّ
: اپنے گھروں میں
وَلَا تَبَرَّجْنَ
: اور بناؤ سنگھار کا اظہار کرتی نہ پھرو
تَبَرُّجَ
: بناؤ سنگھار
الْجَاهِلِيَّةِ
: (زمانہ) جاہلیت
الْاُوْلٰى
: اگلا
وَاَقِمْنَ
: اور قائم کرو
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاٰتِيْنَ
: اور دیتی رہو
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَاَطِعْنَ
: اور اطاعت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَرَسُوْلَهٗ ۭ
: اور اس کا رسول
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
يُرِيْدُ اللّٰهُ
: اللہ چاہتا ہے
لِيُذْهِبَ
: کہ دور فرمادے
عَنْكُمُ
: تم سے
الرِّجْسَ
: آلودگی
اَهْلَ الْبَيْتِ
: اے اہل بیت
وَيُطَهِّرَكُمْ
: اور تمہیں پاک و صاف رکھے
تَطْهِيْرًا
: خوب پاک
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں اظہار تجمل کرتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ۔ اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے
وقرن فی بیوتکن . اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ یہ گھروں میں ٹھہرنے رہنے کا اور گناہ کے ارادہ سے گھروں سے باہر نہ نکلنے کا حکم ہے۔ اگلی آیت میں اسی کی تائید و تائید ہو رہی ہے۔ ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی . اور قدیم زمانۂ جاہلیت کے موافق بناؤ سنگھار کر کے مت پھرو۔ امہات المؤمنین کیلئے گھروں سے باہر نکلنے کی ممانعت عمومی نہیں کہ نماز یا حج یا ضرورت انسانی کیلئے بھی باہر نہ نکلیں۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے یعنی شیعہ ‘ آیت میں عمومی ممانعت سمجھ بیٹھے ہیں اس لئے حضرت صدیقہ الکبری بنت صدیق اکبر حبیبۂ رسول اللہ پر طعن کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر سے نکل کر مکہ کو پہنچیں ‘ پھر مکہ سے بصری پہنچیں جہاں جنگ جمل کا واقع ہوا۔ یہ سارا سفر ممانعت آیت کے خلاف ہوا۔ کیا ان لوگوں کو نہیں معلوم کہ اس زمانہ میں مدینہ کی فضا پرامن نہیں رہی تھی ؟ ام المؤمنین کے مدینہ سے نکلتے ہی حضرت عثمان شہید کو شہید کردیا گی اور مصر والوں نے مدینہ میں ایسا فساد مچایا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی خروج پر مجبور ہوگئے اور مدینہ کو چھوڑ کر مکہ پہنچے اور انہی دونوں بزرگوں نے حضرت عائشہ کو مشورہ دیا کہ مسلمانوں کی خانہ جنگی دور کرنے کیلئے بصرہ تشریف لے جائیں۔ جب حضرت عائشہ نے انکار کیا تو آیت ” لا خیر فی کثیر من نجوا ھم الامن امر بصدقۃ او معروف او اصلاح بین الناس “ سے استدلال کرتے ہوئے خروج کو ضروری قرار دیا۔ اس مشورہ کے بعد حضرت عائشہ بصرہ تشریف لے گئیں اور اس خروج ہی کے سبب حضرت عائشہ کے ساتھیوں میں اور حضرت علی کے رفقاء میں صلح ہوگئی لیکن عبد اللہ بن سبا یہودی منافق نے جو اپنے کو شیعان علی میں سے کہتا تھا ‘ صلح قائم نہ رہنے دی اور دونوں جماعتوں میں فتنہ کی آگ بھڑکائی کہ جنگ جمل کا واقعہ ظہور پذیر ہوگیا اور مسلمانوں میں باہم بڑا کشت و خون ہوا۔ ہم نے اس واقعہ کا تذکرہ اپنی کتاب سیف مسلول میں مفصل طور پر کردیا ہے۔ تبرج کا لفظ بروج سے نکلا ہے ‘ بروج کا معنی ہے ظہور۔ اس جگہ تبرج سے مراد ہے اظہار زینت اور مردوں کے سامنے بناؤ سنگھار کر کے نکلنا۔ ابن نیحیح نے کہا کہ تبرج کا معنی ہے اٹھلا کر چلنا ‘ اس لئے لاتبرجن کا تفسیر ترجمہ کیا ہے اٹھلا کر نہ چلو۔ جاہلیت اولیٰ سے مراد ہے دور اسلامی سے پہلے کا زمانۂ جاہلیت دوم ہے ‘ اسلام کے بعد گناہ کبیرہ کا ارتکاب۔ شعبی نے کہا : رسول اللہ سے اوپر حضرت عیسیٰ کے زمانہ تک جاہلیت اولیٰ کا دور تھا۔ ابو العالیہ نے کہا : حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا زمانہ جاہلیت اولیٰ کا زمانہ تھا۔ عورتیں ایسی قمیصیں پہن کر نکلتی تھیں جو دونوں طرف سے بغیر سلے ہوئے ہوتے تھے اور ان کا بدن دونوں طرف سے برہنہ نظر آتا تھا۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ جاہلت اولیٰ کا وہ زمانہ تھا جو حضرت نوح اور حضرت ادیس کے درمیان تھا۔ حضرت آدم کی نسل سے دو قبیلے ہوئے ‘ ایک پہاڑ پر رہتا تھا۔ دوسرا میدانی علاقہ میں ‘ پہاڑی مردوں کے چہرے شگفتہ اور گورے تھے مگر عورتیں بدصورت تھیں اور میدانی باشندوں کی عورتیں حسین تھیں اور مرد بدصورت۔ ایک بار ابلیس انسانی شکل میں ایک میدانی باشندے کے پاس آیا اور اس کے پاس نوکر ہوگیا اور خدمت کرنے لگا ‘ پھر اس نے چرواہوں کی بانسری جیسی ایک چیز بنائی اور ایسی آواز سے بجانے لگا جو لوگوں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ آس پاس کے لوگوں کو آواز پہنچی تو وہ سننے کیلئے جمع ہوگئے اور اس کو ایک تیوہار بنا لیا جہاں مقرر وقت پر جمع ہونے لگے۔ اس طرح بن سنور کر عورتیں مردوں کے سامنے آنے لگیں اور مرد عورتوں کے سامنے۔ ایک روز کوئی پہاڑی اس تیوہار میں پہنچ گیا اور اس نے مردوں ‘ عورتوں کو یک جا دیکھا اور عورتوں کا حسن اس کی نظر کے سامنے آیا۔ اس نے جا کر پہاڑی باشندوں سے اس کا تذکرہ کیا ‘ اس کے بعد پہاڑی باشندی بھی اپنے مسکن چھوڑ کر میدانی لوگوں کے ساتھ ہی آ بسے اور آپس میں بدکاریاں ہونے لگیں۔ آیت میں تبرج جاہلیت اولیٰ سے یہی مراد ہے لیکن اولیٰ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ جاہلیت دوم بھی کوئی گذری ہے ‘ کبھی اولیٰ کا لفظ بغیر اخرٰی کے بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسے آیت اَھْلَکَ عَاد انِلْاُوْلٰی میں اولیٰ کا لفظ ہے (عاد اخرٰی کوئی قوم نہیں ہوئی پھر بھی قوم عاد کو عاد انِلْاُوْلٰی فرمایا) ۔ یا جاہلیت سے مراد قبل از اسلام کا دور ہے (جس کی کوئی حدبندی نہیں) ۔ واقمن الصلوۃ واتین الزکوۃ واطعن اللہ ورسولہ . اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبراری کرو۔ یعنی تمام اوامرو نواہی کی پابندی کرو ‘ یہی تقویٰ ہے جو تمہارے فصیلت یاب ہونے کی ضروری شرط ہے۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرًا . اے اہل بیت (نبی) ! اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا اور کامل طور پر تم کو پاک کرنا چاہتا ہے۔ یہ کلام استیسنانی ہے (پہلے کلام سے وابستہ نہیں ہے) اس کلام کا حکم امہات المؤمنین کو بھی شامل کا اور اولاد رسول ﷺ کو بھی ‘ اسی لئے مذکر کا خطابی صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کلام سباق کلام کی علت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے گویا یوں فرمایا کہ تم کو جو اوامرو نواہی کی پابندی کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ‘ وہ تم سے اور تمہارے علاوہ دوسرے اہل بیت سے رجس یعنی عمل شیطانی کو دور کرنے کیلئے دیا گیا ہے۔ رجس سے مراد ہے عملی شیطانی یعنی گناہ اور ہر وہ حرکت جس میں کوئی شرعی یا ایسی طبعی برائی ہ وجو اللہ کو ناپسندیدہ ہو۔ اہل البیت ‘ رسول اللہ کے گھر کے لوگ۔ عکرمہ اور مقاتل کے نزدیک امہات المؤمنین مراد ہیں۔ حضرت ابن عباس کا قول سعید بن جبیر کی روایت سے بھی یہی آیا ہے ‘ حضرت ابن عباس نے (اہل البیت کے مفہوم کے تعیین کیلئے) آیت ” وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللہ وَالْحِکْمَۃِ “ تلاوت فرمائی ‘ رواہ ابن ابی حاتم وروی ابن جریر عن عکرمۃ نحوہ۔ ان حضرات نے آیت کے سیاق وسباق سے بھی اسی پر استدلال کیا ہے لیکن عورتوں کے ساتھ حکم کی تخصیص کیسے ہوسکتی ہے جب کہ کُمْ ضمیر مذکر مخاطب کی استعمال کی گئی ہے لیکن (اس سے معلوم ہوا کہ آیت کا حکم مردوں کو بھی شامل ہے اور بطور تغلیب مذکر کی ضمیر ذکر کی گئی ہے مترجم) ۔ حضرت ابو سعید خدری اور تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے جن میں مجاہد اور قتادہ بھی شامل ہیں کہ اہل بیت ہیں : حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن ‘ حضرت حسین کیونکہ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ سیاہ بالوں کی اونی چادر اوڑھے باہرتشریف لے گئے ‘ چادر پر کجاوے کے نقوش تھے ‘ اتنے میں حسن بن علی آئے تو حضور ﷺ نے ان کو چادر میں لے لیا ‘ پھر حسین بن علی آئے تو حضور ﷺ نے ان کو بھی چادر میں لے لیا ‘ پھر (سیدہ) فاطمہ آئیں تو حضور ﷺ نے ان کو بھی چادر میں داخل کرلیا ‘ پھر علی آئے تو آپ نے ان کو بھی داخل کرلیا پھر فرمایا : اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا ‘ رواہ مسلم۔ حضرت سعد بن ابی وقاص راوی ہیں کہ جب آیت تَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ نازل ہوئی تو رسول اللہ نے علی ‘ فاطمہ ‘ حسن اور حسین کو طلب فرمایا ‘ اور فرمایا : اے اللہ ! میرے اہل بیت یہ ہیں ‘ رواہ مسلم۔ حضرت واثلہ بن اسقع راوی ہیں کہ رسول اللہ نے آیت اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ الخ تلاوت فرمائی اور حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ ان کے دونوں صاحبزادوں کے متعلق فرمایا کہ اے اللہ ! یہ میرے گھر والے اور میرے خاص لوگ ہیں ‘ ان سے گندگی کو دور فرما دے اور ان کو کامل طور پر پاک کر دے۔ حضرت ام سلمہ کی روایت ہے کہ جب آیت اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ الخ نازل ہوئی تو رسول اللہ نے علی اور فاطمہ اور حسن اور حسین کو طلب کیا اور کمبلی میں داخل کرلیا ‘ پھر فرمایا : اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘ ان سے گندگی کو دور کر دے اور ان کو کامل طور پر پاک کر دے۔ مذکورہ احادیث اور ان جیسی دوسری اخبار سے آیت تطہیر کی حضرات اربعہ (حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن ‘ حضرت حسین) کے ساتھ تخصیص ثابت نہیں ہوتی ‘ ماقبل اور مابعد کا کلام بھی اس تخصیص سے انکار کر رہا ہے اور عرف و لغت کی شہادت بھی اس کے خلاف ہے۔ اصل میں اہل بیت کے لفظ کا اطلاق صرف بیویوں پر ہوتا ہے ‘ اولاد اور دوسرے گھر والے ذیلی طور پر اس میں آجاتے ہیں۔ بیویوں کے ہی رہنے کے مکان (یا کمرے) عام طور پر الگ الگ ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی سارہ کو خطاب کر کے ملائکہ نے کہا تھا : اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللہ رَحْمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِکیا تجھے اللہ کے حکم پر تعجب ہو رہا ہے ‘ اے گھر والو ! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ رفتار کلام اگرچہ امہات المؤمنین پر دلالت کر رہی ہے لیکن آیت تطہیر سب کو شامل ہے۔ حضرت ام سلمہ نے فرمایا تھا کہ میرے گھر میں آیت ” اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ “ نازل ہوئی تو رسول اللہ نے فاطمہ اور علی اور حسن اور حسین کو بلوایا ‘ پھر فرمایا : یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ میں بھی اہل بیت میں سے ہوں ؟ فرمایا : کیوں نہیں ‘ انشاء اللہ۔ روای البغوی وغیرہ۔ یہ حدیث دلالت کر رہی ہے کہ اہل بیت میں سب داخل ہیں اور انشاء اللہ کا لفظ (امید مستقبل کیلئے نہیں بلکہ تحقیق اور) تبرک کیلئے استعمال ہوا ہے۔ حضرت زید بن ارقم نے فرمایا : رسول اللہ کے اہل بیت وہ سب لوگ تھے جن پر صدقہ کا مال لینا حرام کردیا گیا تھا یعنی اولاد علی ‘ اولاد جعفر ‘ اولاد عقیل ‘ اولاد عباس اور اولاد حارث بن عبدالمطلب۔ تطہیر سے مراد ہے دنیا میں گناہوں کی نجاست سے پاک کرنا اور آخرت میں مغفرت فرمانا۔ اللہ نے آیات مذکورہ میں امہات المؤمنین کو بعض چیزوں سے منع فرمایا ‘ بعض باتوں کے کرنے کا حکم دیا تاکہ رسول اللہ کے گھر والا کسی گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور سب کے سب متقی ہوجائیں ‘ بطور استعارہ گناہوں کو گندگی اور تقویٰ کو طہارت فرمایا کیونکہ گناہ کرے والے کی گناہوں سے اسی طرح آلودگی ہوجاتی ہے جس طرح جسم نجاست سے آلودہ ہوجاتا ہے اور متقی ایسا ہی پاک و صاف ہوتا ہے جس طرح کپڑاپاک و صاف ہوتا ہے۔ چونکہ گناہ اور گندگی میں بہت گہری مناسب ہے اس لئے امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ پانی کا استعمال خواہ رفع حدث کیلئے کیا گیا ہو یا بطور ثواب (وقرَبّ ) بہرحال مستعمل پانی نجس ہوجاتا ہے۔ حضرت عثمان کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو اچھی طرح خوب وضو کرتا ہے ‘ اس کے گناہ اس کے بدن سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ ناخنوں کے نیچے سے بھی خارج ہوجاتے ہیں (اور پانی کے ساتھ بہہ جاتے ہیں) متفق علیہ۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو مسلم بندہ (یا فرمایا : مؤمن بندہ) وضو کرتا ہے اور منہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے پانی کے ساتھ آنکھ کے گناہ نکل جاتے ہیں ‘ الحدیث رواہ مسلم۔ شیعہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ثابت کر رہی ہے کہ علی اور فاطمہ اور حسن اور حسن معصوم تھے اور رسول اللہ کے خلفاء یہی تھے ‘ دوسرا کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا اور انہیں حضرات اربعہ کا اور ان کے بعد (ان کی نسل کے) دوسرے اماموں کا ہی اجماع معتبر ہے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ اللہ کا ارادہ مراد سے منفک نہیں ہوتا (یعنی اللہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے ‘ اس کا پورا ہونالازم ہے) اور حسب صراحت آیت ‘ اللہ ‘ اہل بیت کو طاہر بنانا چاہتا ہے اس لئے اہل بیت کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ گناہ گار پاک نہیں ہوتا اور عصمت امامت (یعنی خلافت) کی شرط ہے اور چونکہ ابوبکر اور عمر اور عثمان بالاجماع معصوم نہ تھے اس لئے خلافت کا استحقاق صرف اہل بیت کو تھا۔ شیعہ فرقہ کا یہ استدلال غلط ہے۔ نمبر 1: آیت کا نزول امہات المؤمنین کیلئے ہوا ‘ ہاں یہ چاروں بزرگ ہستیاں حکم آیت میں داخل ہیں۔ نمبر 2: آیت عصمت پر دلالت نہیں کرتی (ارادۂ تطہیر کا معنی عطاء عصمت نہیں) دیکھو آیت وضو میں تمام امت کو خطاب کر کے فرمایا ہے : مَا یُرِیْدُ اللہ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰکِنْ تُرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ الخ اللہ تم پر کوئی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ تم کو پاک کرنا چاہتا ہے (تو کیا ساری امت اسلامیہ کو اس آیت کی روشنی میں معصوم قرار دیا جاسکتا ہے ؟ ) اگر شبہ کیا جائے کہ آیت تطہیر کا تقاضا تو گناہوں سے پاک کرنے کا ارادۂ الٰہیہ ہے (یعنی اللہ گناہوں سے تم کو پاک کرنا چاہتا ہے) اور آیات وضوء کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تم کو نجاست اور غلاظت بدنیہ سے پاک و صاف کرنے چاہتا ہے ‘ اگر تو وضو کرو گے (تو بدنی نجاست دور ہوجائے گی) دونوں آیتوں میں ایک قسم کی تطہیر نہیں ہے مگر یہ شبہ بےاصل ہے ‘ دونوں آیتوں میں اللہ کا ارادۂ تطہیر مشروط ہے آیت وضو میں مشروط بالوضوء ہے اور آیت تطہیر میں مشروط بالتقویٰ یعنی اگر وضو کرو گے تو نجاست بدنی سے پاک ہوجاؤ گے ‘ اسی طرح اے اہل بیت ! تم تقویٰ اختیار کرو گے تو گناہوں سے پاک ہوجاؤ گے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح طہارت بدنی حاصل کرنے کیلئے اللہ نے پانی کے استعمال کا طریقہ بتادیا ‘ اسی طرح گناہوں سے طہارت حاصل کرنے اور باطن کو پاک رکھنے کیلئے اس نے تقویٰ کا طریقہ بتادیا اور فرمایا : فَلاَ تَخْضَعْنَ پس جس طرح طہارت بدن پانی کے استعمال سے وابستہ ہے ‘ اسی طرح طہارت باطن تقویٰ پر موقوف ہے۔ نمبر 3: امامت (یعنی خلافت ارضی) کیلئے عصمت شرط نہیں ہے ‘ معصوم کی موجودگی میں غیر معصوم خلیفہ ہوسکتا ہے۔ دیکھو حضرت شموئیل اور حضرت داؤد کے موجود ہونے کے باوجود طالوت کو خلیفہ (بادشاہ) بنا دیا گیا تھا ‘ آیت میں آیا ہے : اِذْ قَاَل لَھْمُ بنَبِیُُّمْ اِنَّ اللہ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ ملکًا۔
Top