Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 33
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ
وَقَرْنَ : اور قرار پکڑو فِيْ بُيُوْتِكُنَّ : اپنے گھروں میں وَلَا تَبَرَّجْنَ : اور بناؤ سنگھار کا اظہار کرتی نہ پھرو تَبَرُّجَ : بناؤ سنگھار الْجَاهِلِيَّةِ : (زمانہ) جاہلیت الْاُوْلٰى : اگلا وَاَقِمْنَ : اور قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتِيْنَ : اور دیتی رہو الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَاَطِعْنَ : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ ۭ : اور اس کا رسول اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُرِيْدُ اللّٰهُ : اللہ چاہتا ہے لِيُذْهِبَ : کہ دور فرمادے عَنْكُمُ : تم سے الرِّجْسَ : آلودگی اَهْلَ الْبَيْتِ : اے اہل بیت وَيُطَهِّرَكُمْ : اور تمہیں پاک و صاف رکھے تَطْهِيْرًا : خوب پاک
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں اظہار تجمل کرتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ۔ اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے
وقرن فی بیوتکن . اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ یہ گھروں میں ٹھہرنے رہنے کا اور گناہ کے ارادہ سے گھروں سے باہر نہ نکلنے کا حکم ہے۔ اگلی آیت میں اسی کی تائید و تائید ہو رہی ہے۔ ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی . اور قدیم زمانۂ جاہلیت کے موافق بناؤ سنگھار کر کے مت پھرو۔ امہات المؤمنین کیلئے گھروں سے باہر نکلنے کی ممانعت عمومی نہیں کہ نماز یا حج یا ضرورت انسانی کیلئے بھی باہر نہ نکلیں۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے یعنی شیعہ ‘ آیت میں عمومی ممانعت سمجھ بیٹھے ہیں اس لئے حضرت صدیقہ الکبری بنت صدیق اکبر حبیبۂ رسول اللہ پر طعن کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر سے نکل کر مکہ کو پہنچیں ‘ پھر مکہ سے بصری پہنچیں جہاں جنگ جمل کا واقع ہوا۔ یہ سارا سفر ممانعت آیت کے خلاف ہوا۔ کیا ان لوگوں کو نہیں معلوم کہ اس زمانہ میں مدینہ کی فضا پرامن نہیں رہی تھی ؟ ام المؤمنین کے مدینہ سے نکلتے ہی حضرت عثمان شہید کو شہید کردیا گی اور مصر والوں نے مدینہ میں ایسا فساد مچایا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی خروج پر مجبور ہوگئے اور مدینہ کو چھوڑ کر مکہ پہنچے اور انہی دونوں بزرگوں نے حضرت عائشہ کو مشورہ دیا کہ مسلمانوں کی خانہ جنگی دور کرنے کیلئے بصرہ تشریف لے جائیں۔ جب حضرت عائشہ نے انکار کیا تو آیت ” لا خیر فی کثیر من نجوا ھم الامن امر بصدقۃ او معروف او اصلاح بین الناس “ سے استدلال کرتے ہوئے خروج کو ضروری قرار دیا۔ اس مشورہ کے بعد حضرت عائشہ بصرہ تشریف لے گئیں اور اس خروج ہی کے سبب حضرت عائشہ کے ساتھیوں میں اور حضرت علی کے رفقاء میں صلح ہوگئی لیکن عبد اللہ بن سبا یہودی منافق نے جو اپنے کو شیعان علی میں سے کہتا تھا ‘ صلح قائم نہ رہنے دی اور دونوں جماعتوں میں فتنہ کی آگ بھڑکائی کہ جنگ جمل کا واقعہ ظہور پذیر ہوگیا اور مسلمانوں میں باہم بڑا کشت و خون ہوا۔ ہم نے اس واقعہ کا تذکرہ اپنی کتاب سیف مسلول میں مفصل طور پر کردیا ہے۔ تبرج کا لفظ بروج سے نکلا ہے ‘ بروج کا معنی ہے ظہور۔ اس جگہ تبرج سے مراد ہے اظہار زینت اور مردوں کے سامنے بناؤ سنگھار کر کے نکلنا۔ ابن نیحیح نے کہا کہ تبرج کا معنی ہے اٹھلا کر چلنا ‘ اس لئے لاتبرجن کا تفسیر ترجمہ کیا ہے اٹھلا کر نہ چلو۔ جاہلیت اولیٰ سے مراد ہے دور اسلامی سے پہلے کا زمانۂ جاہلیت دوم ہے ‘ اسلام کے بعد گناہ کبیرہ کا ارتکاب۔ شعبی نے کہا : رسول اللہ سے اوپر حضرت عیسیٰ کے زمانہ تک جاہلیت اولیٰ کا دور تھا۔ ابو العالیہ نے کہا : حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا زمانہ جاہلیت اولیٰ کا زمانہ تھا۔ عورتیں ایسی قمیصیں پہن کر نکلتی تھیں جو دونوں طرف سے بغیر سلے ہوئے ہوتے تھے اور ان کا بدن دونوں طرف سے برہنہ نظر آتا تھا۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ جاہلت اولیٰ کا وہ زمانہ تھا جو حضرت نوح اور حضرت ادیس کے درمیان تھا۔ حضرت آدم کی نسل سے دو قبیلے ہوئے ‘ ایک پہاڑ پر رہتا تھا۔ دوسرا میدانی علاقہ میں ‘ پہاڑی مردوں کے چہرے شگفتہ اور گورے تھے مگر عورتیں بدصورت تھیں اور میدانی باشندوں کی عورتیں حسین تھیں اور مرد بدصورت۔ ایک بار ابلیس انسانی شکل میں ایک میدانی باشندے کے پاس آیا اور اس کے پاس نوکر ہوگیا اور خدمت کرنے لگا ‘ پھر اس نے چرواہوں کی بانسری جیسی ایک چیز بنائی اور ایسی آواز سے بجانے لگا جو لوگوں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ آس پاس کے لوگوں کو آواز پہنچی تو وہ سننے کیلئے جمع ہوگئے اور اس کو ایک تیوہار بنا لیا جہاں مقرر وقت پر جمع ہونے لگے۔ اس طرح بن سنور کر عورتیں مردوں کے سامنے آنے لگیں اور مرد عورتوں کے سامنے۔ ایک روز کوئی پہاڑی اس تیوہار میں پہنچ گیا اور اس نے مردوں ‘ عورتوں کو یک جا دیکھا اور عورتوں کا حسن اس کی نظر کے سامنے آیا۔ اس نے جا کر پہاڑی باشندوں سے اس کا تذکرہ کیا ‘ اس کے بعد پہاڑی باشندی بھی اپنے مسکن چھوڑ کر میدانی لوگوں کے ساتھ ہی آ بسے اور آپس میں بدکاریاں ہونے لگیں۔ آیت میں تبرج جاہلیت اولیٰ سے یہی مراد ہے لیکن اولیٰ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ جاہلیت دوم بھی کوئی گذری ہے ‘ کبھی اولیٰ کا لفظ بغیر اخرٰی کے بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسے آیت اَھْلَکَ عَاد انِلْاُوْلٰی میں اولیٰ کا لفظ ہے (عاد اخرٰی کوئی قوم نہیں ہوئی پھر بھی قوم عاد کو عاد انِلْاُوْلٰی فرمایا) ۔ یا جاہلیت سے مراد قبل از اسلام کا دور ہے (جس کی کوئی حدبندی نہیں) ۔ واقمن الصلوۃ واتین الزکوۃ واطعن اللہ ورسولہ . اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبراری کرو۔ یعنی تمام اوامرو نواہی کی پابندی کرو ‘ یہی تقویٰ ہے جو تمہارے فصیلت یاب ہونے کی ضروری شرط ہے۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرًا . اے اہل بیت (نبی) ! اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا اور کامل طور پر تم کو پاک کرنا چاہتا ہے۔ یہ کلام استیسنانی ہے (پہلے کلام سے وابستہ نہیں ہے) اس کلام کا حکم امہات المؤمنین کو بھی شامل کا اور اولاد رسول ﷺ کو بھی ‘ اسی لئے مذکر کا خطابی صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کلام سباق کلام کی علت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے گویا یوں فرمایا کہ تم کو جو اوامرو نواہی کی پابندی کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ‘ وہ تم سے اور تمہارے علاوہ دوسرے اہل بیت سے رجس یعنی عمل شیطانی کو دور کرنے کیلئے دیا گیا ہے۔ رجس سے مراد ہے عملی شیطانی یعنی گناہ اور ہر وہ حرکت جس میں کوئی شرعی یا ایسی طبعی برائی ہ وجو اللہ کو ناپسندیدہ ہو۔ اہل البیت ‘ رسول اللہ کے گھر کے لوگ۔ عکرمہ اور مقاتل کے نزدیک امہات المؤمنین مراد ہیں۔ حضرت ابن عباس کا قول سعید بن جبیر کی روایت سے بھی یہی آیا ہے ‘ حضرت ابن عباس نے (اہل البیت کے مفہوم کے تعیین کیلئے) آیت ” وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللہ وَالْحِکْمَۃِ “ تلاوت فرمائی ‘ رواہ ابن ابی حاتم وروی ابن جریر عن عکرمۃ نحوہ۔ ان حضرات نے آیت کے سیاق وسباق سے بھی اسی پر استدلال کیا ہے لیکن عورتوں کے ساتھ حکم کی تخصیص کیسے ہوسکتی ہے جب کہ کُمْ ضمیر مذکر مخاطب کی استعمال کی گئی ہے لیکن (اس سے معلوم ہوا کہ آیت کا حکم مردوں کو بھی شامل ہے اور بطور تغلیب مذکر کی ضمیر ذکر کی گئی ہے مترجم) ۔ حضرت ابو سعید خدری اور تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے جن میں مجاہد اور قتادہ بھی شامل ہیں کہ اہل بیت ہیں : حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن ‘ حضرت حسین کیونکہ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ سیاہ بالوں کی اونی چادر اوڑھے باہرتشریف لے گئے ‘ چادر پر کجاوے کے نقوش تھے ‘ اتنے میں حسن بن علی آئے تو حضور ﷺ نے ان کو چادر میں لے لیا ‘ پھر حسین بن علی آئے تو حضور ﷺ نے ان کو بھی چادر میں لے لیا ‘ پھر (سیدہ) فاطمہ آئیں تو حضور ﷺ نے ان کو بھی چادر میں داخل کرلیا ‘ پھر علی آئے تو آپ نے ان کو بھی داخل کرلیا پھر فرمایا : اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا ‘ رواہ مسلم۔ حضرت سعد بن ابی وقاص راوی ہیں کہ جب آیت تَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ نازل ہوئی تو رسول اللہ نے علی ‘ فاطمہ ‘ حسن اور حسین کو طلب فرمایا ‘ اور فرمایا : اے اللہ ! میرے اہل بیت یہ ہیں ‘ رواہ مسلم۔ حضرت واثلہ بن اسقع راوی ہیں کہ رسول اللہ نے آیت اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ الخ تلاوت فرمائی اور حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ ان کے دونوں صاحبزادوں کے متعلق فرمایا کہ اے اللہ ! یہ میرے گھر والے اور میرے خاص لوگ ہیں ‘ ان سے گندگی کو دور فرما دے اور ان کو کامل طور پر پاک کر دے۔ حضرت ام سلمہ کی روایت ہے کہ جب آیت اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ الخ نازل ہوئی تو رسول اللہ نے علی اور فاطمہ اور حسن اور حسین کو طلب کیا اور کمبلی میں داخل کرلیا ‘ پھر فرمایا : اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘ ان سے گندگی کو دور کر دے اور ان کو کامل طور پر پاک کر دے۔ مذکورہ احادیث اور ان جیسی دوسری اخبار سے آیت تطہیر کی حضرات اربعہ (حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن ‘ حضرت حسین) کے ساتھ تخصیص ثابت نہیں ہوتی ‘ ماقبل اور مابعد کا کلام بھی اس تخصیص سے انکار کر رہا ہے اور عرف و لغت کی شہادت بھی اس کے خلاف ہے۔ اصل میں اہل بیت کے لفظ کا اطلاق صرف بیویوں پر ہوتا ہے ‘ اولاد اور دوسرے گھر والے ذیلی طور پر اس میں آجاتے ہیں۔ بیویوں کے ہی رہنے کے مکان (یا کمرے) عام طور پر الگ الگ ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی سارہ کو خطاب کر کے ملائکہ نے کہا تھا : اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللہ رَحْمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِکیا تجھے اللہ کے حکم پر تعجب ہو رہا ہے ‘ اے گھر والو ! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ رفتار کلام اگرچہ امہات المؤمنین پر دلالت کر رہی ہے لیکن آیت تطہیر سب کو شامل ہے۔ حضرت ام سلمہ نے فرمایا تھا کہ میرے گھر میں آیت ” اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ “ نازل ہوئی تو رسول اللہ نے فاطمہ اور علی اور حسن اور حسین کو بلوایا ‘ پھر فرمایا : یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ میں بھی اہل بیت میں سے ہوں ؟ فرمایا : کیوں نہیں ‘ انشاء اللہ۔ روای البغوی وغیرہ۔ یہ حدیث دلالت کر رہی ہے کہ اہل بیت میں سب داخل ہیں اور انشاء اللہ کا لفظ (امید مستقبل کیلئے نہیں بلکہ تحقیق اور) تبرک کیلئے استعمال ہوا ہے۔ حضرت زید بن ارقم نے فرمایا : رسول اللہ کے اہل بیت وہ سب لوگ تھے جن پر صدقہ کا مال لینا حرام کردیا گیا تھا یعنی اولاد علی ‘ اولاد جعفر ‘ اولاد عقیل ‘ اولاد عباس اور اولاد حارث بن عبدالمطلب۔ تطہیر سے مراد ہے دنیا میں گناہوں کی نجاست سے پاک کرنا اور آخرت میں مغفرت فرمانا۔ اللہ نے آیات مذکورہ میں امہات المؤمنین کو بعض چیزوں سے منع فرمایا ‘ بعض باتوں کے کرنے کا حکم دیا تاکہ رسول اللہ کے گھر والا کسی گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور سب کے سب متقی ہوجائیں ‘ بطور استعارہ گناہوں کو گندگی اور تقویٰ کو طہارت فرمایا کیونکہ گناہ کرے والے کی گناہوں سے اسی طرح آلودگی ہوجاتی ہے جس طرح جسم نجاست سے آلودہ ہوجاتا ہے اور متقی ایسا ہی پاک و صاف ہوتا ہے جس طرح کپڑاپاک و صاف ہوتا ہے۔ چونکہ گناہ اور گندگی میں بہت گہری مناسب ہے اس لئے امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ پانی کا استعمال خواہ رفع حدث کیلئے کیا گیا ہو یا بطور ثواب (وقرَبّ ) بہرحال مستعمل پانی نجس ہوجاتا ہے۔ حضرت عثمان کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو اچھی طرح خوب وضو کرتا ہے ‘ اس کے گناہ اس کے بدن سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ ناخنوں کے نیچے سے بھی خارج ہوجاتے ہیں (اور پانی کے ساتھ بہہ جاتے ہیں) متفق علیہ۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو مسلم بندہ (یا فرمایا : مؤمن بندہ) وضو کرتا ہے اور منہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے پانی کے ساتھ آنکھ کے گناہ نکل جاتے ہیں ‘ الحدیث رواہ مسلم۔ شیعہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ثابت کر رہی ہے کہ علی اور فاطمہ اور حسن اور حسن معصوم تھے اور رسول اللہ کے خلفاء یہی تھے ‘ دوسرا کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا اور انہیں حضرات اربعہ کا اور ان کے بعد (ان کی نسل کے) دوسرے اماموں کا ہی اجماع معتبر ہے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ اللہ کا ارادہ مراد سے منفک نہیں ہوتا (یعنی اللہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے ‘ اس کا پورا ہونالازم ہے) اور حسب صراحت آیت ‘ اللہ ‘ اہل بیت کو طاہر بنانا چاہتا ہے اس لئے اہل بیت کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ گناہ گار پاک نہیں ہوتا اور عصمت امامت (یعنی خلافت) کی شرط ہے اور چونکہ ابوبکر اور عمر اور عثمان بالاجماع معصوم نہ تھے اس لئے خلافت کا استحقاق صرف اہل بیت کو تھا۔ شیعہ فرقہ کا یہ استدلال غلط ہے۔ نمبر 1: آیت کا نزول امہات المؤمنین کیلئے ہوا ‘ ہاں یہ چاروں بزرگ ہستیاں حکم آیت میں داخل ہیں۔ نمبر 2: آیت عصمت پر دلالت نہیں کرتی (ارادۂ تطہیر کا معنی عطاء عصمت نہیں) دیکھو آیت وضو میں تمام امت کو خطاب کر کے فرمایا ہے : مَا یُرِیْدُ اللہ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰکِنْ تُرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ الخ اللہ تم پر کوئی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ تم کو پاک کرنا چاہتا ہے (تو کیا ساری امت اسلامیہ کو اس آیت کی روشنی میں معصوم قرار دیا جاسکتا ہے ؟ ) اگر شبہ کیا جائے کہ آیت تطہیر کا تقاضا تو گناہوں سے پاک کرنے کا ارادۂ الٰہیہ ہے (یعنی اللہ گناہوں سے تم کو پاک کرنا چاہتا ہے) اور آیات وضوء کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تم کو نجاست اور غلاظت بدنیہ سے پاک و صاف کرنے چاہتا ہے ‘ اگر تو وضو کرو گے (تو بدنی نجاست دور ہوجائے گی) دونوں آیتوں میں ایک قسم کی تطہیر نہیں ہے مگر یہ شبہ بےاصل ہے ‘ دونوں آیتوں میں اللہ کا ارادۂ تطہیر مشروط ہے آیت وضو میں مشروط بالوضوء ہے اور آیت تطہیر میں مشروط بالتقویٰ یعنی اگر وضو کرو گے تو نجاست بدنی سے پاک ہوجاؤ گے ‘ اسی طرح اے اہل بیت ! تم تقویٰ اختیار کرو گے تو گناہوں سے پاک ہوجاؤ گے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح طہارت بدنی حاصل کرنے کیلئے اللہ نے پانی کے استعمال کا طریقہ بتادیا ‘ اسی طرح گناہوں سے طہارت حاصل کرنے اور باطن کو پاک رکھنے کیلئے اس نے تقویٰ کا طریقہ بتادیا اور فرمایا : فَلاَ تَخْضَعْنَ پس جس طرح طہارت بدن پانی کے استعمال سے وابستہ ہے ‘ اسی طرح طہارت باطن تقویٰ پر موقوف ہے۔ نمبر 3: امامت (یعنی خلافت ارضی) کیلئے عصمت شرط نہیں ہے ‘ معصوم کی موجودگی میں غیر معصوم خلیفہ ہوسکتا ہے۔ دیکھو حضرت شموئیل اور حضرت داؤد کے موجود ہونے کے باوجود طالوت کو خلیفہ (بادشاہ) بنا دیا گیا تھا ‘ آیت میں آیا ہے : اِذْ قَاَل لَھْمُ بنَبِیُُّمْ اِنَّ اللہ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ ملکًا۔
Top