Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 53
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ١ۙ وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ١٘ وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ١ؕ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتَ : گھر (جمع) النَّبِيِّ : نبی اِلَّآ : سوائے اَنْ : یہ کہ يُّؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُمْ : تمہارے لیے اِلٰى : طرف (لیے) طَعَامٍ : کھانا غَيْرَ نٰظِرِيْنَ : نہ راہ تکو اِنٰىهُ ۙ : اس کا پکنا وَلٰكِنْ : اور لیکن اِذَا : جب دُعِيْتُمْ : تمہیں بلایا جائے فَادْخُلُوْا : تو تم داخل ہو فَاِذَا : پھر جب طَعِمْتُمْ : تم کھالو فَانْتَشِرُوْا : تو تم منتشر ہوجایا کرو وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ : اور نہ جی لگا کر بیٹھے رہو لِحَدِيْثٍ ۭ : باتوں کے لیے اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : یہ تمہاری بات كَانَ يُؤْذِي : ایذا دیتی ہے النَّبِيَّ : نبی فَيَسْتَحْيٖ : پس وہ شرماتے ہیں مِنْكُمْ ۡ : تم سے وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَسْتَحْيٖ : نہیں شرماتا مِنَ الْحَقِّ ۭ : حق (بات) سے وَاِذَا : اور جب سَاَلْتُمُوْهُنَّ : تم ان سے مانگو مَتَاعًا : کوئی شے فَسْئَلُوْهُنَّ : تو ان سے مانگو مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ۭ : پردہ کے پیچھے سے ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات اَطْهَرُ : زیادہ پاکیزگی لِقُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں کے لیے وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ : اور ان کے دل وَمَا كَانَ : اور (جائز) نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تُؤْذُوْا : کہ تم ایذا دو رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول وَلَآ : اور نہ اَنْ تَنْكِحُوْٓا : یہ کہ تم نکاح کرو اَزْوَاجَهٗ : اس کی بیبیاں مِنْۢ بَعْدِهٖٓ : ان کے بعد اَبَدًا ۭ : کبھی اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات كَانَ : ہے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمًا : بڑا
مومنو پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے۔ لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھاچکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو۔ یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے۔ اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں (اور کہتے نہیں ہیں) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا۔ اور جب پیغمبروں کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔ اور تم کو یہ شایاں نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو۔ بےشک یہ خدا کے نزدیک بڑا (گناہ کا کام) ہے
یایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یوذن لکم الی طعام غیر نظرین انہ . اے ایمان والو ! نبی کے گھر میں (بن بلائے) مت جایا کرو مگر جس وقت تم کو کھانے کیلئے اجازت دی جائے ‘ ایسے طور پر کہ اس کے پکائے جانے کے منتظر نہ رہو۔ بغوی نے ابن شہاب (زہری) کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت انس نے بیان کیا : جس وقت رسول اللہ مدینہ میں تشریف لائے میں اس وقت دس سال کا تھا۔ میری مائیں رسول اللہ کی خدمت پر میری موافقت کرتی تھیں۔ میں نے دس سال حضور ﷺ کی خدمت کی اور حضور ﷺ کی وفات کے وقت میری عمر بیس سال تھی۔ حجاب کے واقعہ کا علم مجھے سب لوگوں سے زیادہ ہے۔ آیت حجاب کا نزول رسول اللہ اور زینب بنت جحش کی خلوت گاہ میں ہوا۔ صبح کو رسول اللہ حضرت زینب کے شوہر ہونے کی حیثیت میں تھے ‘ آپ نے لوگوں کو کھانا کھانے بلایا ‘ لوگوں نے آکر کھانا کھایا۔ الیٰ آخر الحدیث۔ زہری کی یہ روایت بھی بخاری کی روایت کی طرح ہے۔ بخاری کی دوسری روایت ہے کہ حضرت انس نے فرمایا : اس آیت کو یعنی آیت حجاب کو میں سب لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں۔ جب حضرت زینب کو رسول اللہ کے پاس بیوی کی حیثیت میں بھیجا گیا تو آپ کے گھر کے اندر وہ موجود تھیں اور آپ نے کچھ کھانا تیار کرایا تھا اور لوگوں کو کھانے کیلئے بلوایا تھا (کھانے کے بعد بھی) لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے ‘ اس پر اللہ نے آیت حجاب نازل فرمائی تو لوگ اٹھ گئے اور پردہ چھوڑ دیا گیا۔ حضرت انس کی دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت زینب کے ولیمہ میں رسول اللہ نے گوشت روٹی تیار کرائی اور مجھ یلوگوں کو کھانے کی دعوت دینے کیلئے بھیج دیا گیا۔ لوگ آنے لگے اور کھانے لگے اور نکل کر جانے لگے ‘ پھر دوسرے لوگ آنے ‘ کھانے اور جانے لگے۔ میں لوگوں کو بلاتا رہا ‘ جب کوئی آدمی ایسا نہ رہا کہ میں اس کو بلاتا تو میں نے عرض کردیا : یا نبی اللہ ﷺ اب تو کوئی آدمی مجھے نہیں ملتا کہ میں اس کو بلاؤں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کھانا اٹھا لو۔ تین آدمی وہاں گھر کے اندر بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ رسول اللہ حجرہ سے نکل کر حضرت عائشہ کے حجرہ کی طرف تشریف لے گئے اور (حضرت عائشہ کے حجرہ میں جا کر) فرمایا : السلام علیکم اہل البیت ورحمۃ اللہ (اے اہل خانہ تم پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو) حضرت عائشہ نے جواب دیا : وعلیک السلام ورحمۃ اللہ ! آپ نے اپنی بیوی کو کیسا پایا ؟ اللہ پاک آپ کو مبارک کرے (اس طرح) حضور ﷺ سب بیویوں کے حجروں کی طرف تشریف لے گئے اور وہی بات فرماتے رہے جو حضرت عائشہ سے فرمائی تھی اور بیویوں نے بھی وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ نے دیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد واپس آئے تو دیکھا کہ تینوں آدمی باتیں کر رہے ہیں۔ رسول اللہ بڑے شرمیلے تھے (آدمیوں کو کچھ نہیں فرمایا اور) مڑ کر گھر سے نکل کر حضرت عائشہ کے حجرہ کی طرف چل دئیے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اطلاع ‘ یا حضور ﷺ کو (کسی اور سے) اطلاع ملی کہ لوگ چلے گئے تو آپ فوراً لوٹ پڑے اور گھر کے اندر داخل ہونے کیلئے ایک قدم چوکھٹ کے اندر رکھا تھا اور دوسرا قدم باہر ہی تھا کہ میرے اور اپنے درمیان پردہ چھوڑ دیا اور آیت حجاب نازل ہوئی۔ بخاری کی ایک اور روایت میں آیا ہے کہ حضرت انس نے فرمایا : رسول اللہ نے جب حضرت زینب سے خلوت کی تو ولیمہ کیا اور لوگوں کو پیٹ بھر کر گوشت روٹی کھلائی ‘ پھر نکل کر حسب معمولی امہات المؤمنین کے حجروں کی طرف تشریف لے گئے ‘ سب کو سلام کرتے ‘ دعا دیتے چلے گئے اور امہات المؤمنین بھی آپ کو دعا دیتی اور سلام کا جواب دیتی رہیں۔ دیر کے بعد جب اپنے گھر کو لوٹے تو دو آدمیوں کو آپس میں باتیں کرتے پایا ‘ یہ منظر ملاحظہ فرما کر پھرگئے۔ ان دونوں نے جب رسول اللہ کو (جاتا) دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ واپس آکر گھر کے اندر داخل ہوگئے اور میرے اور اپنے درمیان پردہ چھوڑ دیا۔ ترمذی نے لکھا ہے کہ حضرت انس نے فرمایا : میں رسول اللہ کے ساتھ تھا ‘ آپ اس عورت کے دروازہ پر پہنچے جس سے شادی کی تھی۔ وہاں اس کے پاس کچھ لوگ موجود تھے ‘ آپ وہاں سے چل دئیے۔ وہ لوگ چلے گئے تو آپ لوٹ آئے اور اندر چلے گئے اور میرے اور اپنے درمیان پردہ چھوڑ دیا۔ میں نے یہ واقعہ ابو طلحہ سے بیان کیا تو ابوطلحہ نے کہا : جیسا تو کہہ رہا ہے اگر واقعہ یہی ہے تو اس کے متعلق کچھ ضرور نازل ہوگا۔ چناچہ آیت حجاب نازل ہوگئی۔ اس روایت کو ترمذی نے حسن کہا ہے۔ طبرانی نے صحیح سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا : میں رسول اللہ کے ساتھ قاب میں کھا رہی تھی کہ اتنے میں ادھر سے عمر گذرے۔ رسول اللہ نے ان کو بلا لیا ‘ وہ بھی آکر کھانے لگے۔ (اتفاقاً ) ان کی انگلی میری انگلی سے لگ گئی ‘ فوراً ان کے منہ سے نکلا : اوہ ! اگر عورتوں کے بارے میں میرا کہا مان لیا جاتا تو کوئی آنکھ تم کو نہیں دیکھ پاتی۔ اس کے بعد آیت حجات نازل ہوگئی۔ نسائی نے اور ادب المفرد میں بخاری نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ کے پاس اندر آیا اور بہت دیر تک بیٹھا رہا۔ رسول اللہ تین بار اٹھ کر باہر چلے گئے تاکہ وہ شخص بھی چلا جائے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اتنے میں حضرت عمر اندر آگئے اور چہرۂ مبارک پر ناگواری دیکھ کر اس شخص سے کہا : تم نے رسول اللہ کو دکھ دیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں تین مرتبہ اٹھا تاکہ یہ بھی میرے پیچھے اٹھ کھڑا ہو لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ حضرت عمر نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اگر آپ (عورتوں کیلئے) پردہ اختیار کرلیتے تو مناسب تھا کیونکہ آپ کی بیبیاں دوسری عورتوں کی طرح تو ہیں نہیں ‘ یہ عمل ان لوگوں کے دلوں کو بھی پاک رکھنے والا ہے۔ اس پر آیت حجاب نازل ہوئی۔ سورة بقرہ کی تفسیر میں بخاری کی یہ روایت ذکر کردی گئی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا : تین باتوں میں میری (رائے کی) مطابقت اپنے رب کے (حکم کے) ساتھ ہوگئی : میں نے عرض کیا کہ کاش آپ مقام ابراہیم کو مقام نماز بنا لیتے ‘ اس پر آیت واتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی نازل ہوئی۔ میں نے عرض کیا تھا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کی عورتوں کے پاس نیک و بد ہر طرح کے آدمی آتے ہیں ‘ کاش آپ اپنی عورتوں کو پردہ میں رہنے کا حکم دیتے ‘ اس پر آیت حجاب نازل ہوئی۔ رسول اللہ کے پاس رقابت کی وجہ سے آپ کی عورتیں جمع تھیں ‘ میں نے عرض کیا : عَسٰی رَبُّہٗ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُبْدِلَہٗ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ یہ عبارت اسی طرح نازل ہوگئی۔ نسائی نے حضرت انس کی روایت سے بھی اسی طرح بیان کیا ہے۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بھی یونہی یہ واقعہ نقل کیا ہے۔ 1 ؂ قضاء حاجت کیلئے جب رسول اللہ کی بیویاں باہر نکلتی تھیں تو رات کو باہر نکل کر وسیع میدان میں جاتی تھیں۔ حضرت عمر رسول اللہ سے عرض کرتے تھے کہ امہات المؤمنین کا پردہ کرا دیجئے لیکن حضور ﷺ ایسا نہیں کرتے تھے۔ ایک رات کو عشاء کے وقت حضرت سودہ بنت زمعہ گھر سے برآمد ہوئیں ‘ عورت قدآور تھیں (اس لئے پہچان لی جاتی تھیں) حضرت عمر کو چونکہ پردے کا حکم نازل ہونے کی انتہائی خواہش تھی اس لئے آپ نے پکارا کر کہا : ہم نے آپ کو پہچان لیا ‘ اس پر اللہ نے آیت حجاب نازل فرما دی۔ بغوی نے لکھا : آیت حجاب کے سبب نزول کا یہ صحیح واقعہ ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مختلف روایات میں اس طرح مطابقت دی جاسکتی ہے کہ حضرت زینب کے قصہ سے کچھ ہی پہلے حضرت عمر کا یہ واقعہ ہوا ہوگا اس لئے اس واقعہ کو نزول آیت کا سبب بتادیا گیا۔ ایک آیت کے اسباب نزول متعدد ہوسکتے ہیں۔ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ یعنی کھانے کیلئے اگر تم کو اجازت داخلہ مل جائے تو نبی کے گھر میں داخل ہوسکتے ہو۔ یُؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ سے اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ خواہ اجازت دے دی گئی ہو لیکن بغیر بلائے کھانے پر نہ جانا چاہئے۔ یہی اشارہ مستفاد ہو رہا ہے آئندہ غَیْرَ نَاظِرِیْنَ اَنٰں ہُ کے فقرہ سے یعنی کھانا تیار ہونے کا انتظار نہ کرتے رہو۔ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ کے استثناء کا تعلق صرف ان لوگوں سے ہے جو کھانا کھانے کیلئے داخل ہونا چاہتے ہوں۔ اِنٰی مصدر ہے۔ اَنَی الطُّعَام کھانا پک گیا ‘ تیار ہوگیا۔ اَنَی الْحَِیْمُ پانی خوب گرم ہوگیا ‘ کھولنے لگا۔ اَنٰی اَنْ یَّفْعَلَ کَذَا اس کام کو کرنے کا وقت آگیا۔ بغوی نے لکھا ہے : اِنٰیبکسر ہمزۂ مقصود آتا ہے اور اَنَاءٌ بفتح ہمزۂ ممدودہ آتا ہے۔ باب ضَرَبَ سے اَنٰی یَاْنِیْ اور اٰنَ یَءِیْنُ جیسے باع یَبِیْعُ دونوں طرح مستعمل ہے۔ قاموس میں ہے : اَنَی الشَّیْءَ یَاْنِیْ (از ضرب) اَیْنًا وَاِنًا جیسے غِنًی وقت آگیا وہ چیز تیار ہوگئی۔ اَنَی الْحَمِیْمُ انتہائی گرم ہوگیا ‘ کھولنے لگا ‘ آنِیْ کھولنے والا ‘ بَلَغَ ھٰذَا اَنَاہ اور اِنَاہُ یہ چیز اپنی انتہا کو پہنچ گئی یا پختگی کو پہنچ گئی یا تیار ہوگئی۔ ولکن اذا دعیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشروا . لیکن جب تم کو (کھانے کیلئے) بلایاجائے تو اندر چلے جاؤ ‘ پھر جب کھانا کھا چکو تو منتشر ہوجاؤ۔ یعنی رسول اللہ کے گھر سے باہر چلے جاؤ ‘ کھانے کے بعد وہاں نہ ٹھہرو۔ ولا مستانسین لحدیث . اور (کھانے کے بعد) باتوں میں دل بہلانے کیلئے مت بیٹھے رہا کرو۔ اس جملہ میں کھانے کے بعد بھی دیر تک باتیں کرنے کیلئے تفریحاً بیٹھے رہنے کی ممانعت فرما دی۔ ان ذلکم کان یؤذی النبی فیستحی منکم وا اللہ لا یستحی من الحق . تمہارا یہ فعل (یعنی دیر تک ٹھہرے رہنا) نبی کو تکلیف دیتا ہے (کیونکہ ان کے اور ان کے گھر والوں کیلئے گھر تنگ ہوجاتا ہے اور ان کو بےکار باتوں میں مشغول رہنا پڑتا ہے) اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں اور اللہ حق کی بات (کو ظاہر کرنے) سے نہیں جھجکتا۔ یعنی تم کو ادب سکھانا حق ہے اور حق بات سے اللہ نہیں جھجکتا اس لئے تم کو ادب سکھانا ترک نہیں کرتا۔ بیضاوی نے یہ مطلب لکھا ہے کہ نبی کے گھر سے تمہارا نکالنا حق ہے اور حق بات کو اللہ ترک نہیں کرتا اس لئے تم کو نکلنے کا حکم دے رہا ہے۔ واذا سالتموھن متاعًا فسئلوھن من ورآء حجاب اور جب نبی کی بیبیوں سے تم کچھ سامان مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ مَتَاعًا یعنی کوئی کام کی چیز بطور عاریت یا بطور بخشش مانگو یا مانگی ہوئی چیز دینے جاؤ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ آیت حجاب کے نزول کے بعد کسی کو اجازت نہیں تھی کہ رسول اللہ کی کسی بی بی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے خواہ وہ نقاب پوش ہوں یا بغیر نقاب کے۔ ذلکم اطھر لقلوبکم وقلوبھن . تمہارا یہ عمل (پردے کے پیچھے سے مانگنا شیطانی وسوسوں سے) تمہارے دلوں کو بھی پاک رکھنے والا ہے اور ان کے دلوں کو بھی۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ کو اطلاع ملی کہ کسی شخص نے کہا ہے کہ اگر رسول اللہ کی وفات ہوگئی تو (آپ کے بعد) فلاں (بی بی) سے میں نکاح کرلوں گا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ ومان کان لکم ان تؤذوا رسول اللہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدًا ان ذلکم کان عند اللہ عظیمًا اور تمہارے لئے اللہ کے رسول کو دکھ پہنچانا جائز نہیں اور نہ ان کی بیبیوں سے ان کے بعد کبھی نکاح کرنا تمہارے لئے جائز ہے (یعنی نہ رسول اللہ کی وفات کے بعد ‘ نہ طلاق دینے کے بعد) تمہارا یہ فعل اللہ کے نزدیک بڑا (جرم) ہے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اس آیت کا نزول اس شخص کے متعلق ہوا جس نے کہا تھا کہ رسول اللہ کے بعد میں آپ کی کسی بیوی سے نکاح کرلوں گا۔ سفیان نے کہا : ایسی بات حضرت عائشہ کے متعلق کہی گئی تھی۔ سدی کا بیان ہے : ہم کو اطلاع ملی تھی کہ طلحہ بن عبیدا اللہ نے کہا تھا : کیا محمد ہماری چچا کی بیٹیوں سے تو ہمارا پردہ کرا رہے ہیں اور ہمارے بعد ہماری بیویوں سے خود نکاح کرلیتے ہیں۔ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوگئی تو ہم ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن سعد نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کی روایت سے لکھا ہے کہ یہ آیت طلحہ بن عبیدا اللہ کے بارے میں اتری۔ طلحہ نے کہا تھا کہ جب رسول اللہ کی وفات ہوجائے گی تو عائشہ سے میں نکاح کرلوں گا۔ جو ییر نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا کہ ایک شخص رسول اللہ کی ایک بیوی کے پاس گیا اور ان سے باتیں کرنے لگا ‘ یہ شخص ان کی بی بی کے چچا کا بیٹا تھا۔ رسول اللہ نے فرمایا : آج کے بعد اس جگہ نہ کھڑا ہونا۔ اس شخص نے کہا : وہ میرے چچا کی بیٹی ہے ‘ خدا کی قسم ! نہ میں نے اس سے کئی بری بات کہی ہے ‘ نہ اس نے مجھ سے کوئی بری بات کہی۔ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں اور مجھ سے زیادہ کوئی غیرت والا نہیں۔ وہ شخص چلا گیا اور جانے کے بعد کہا : میری چچا کی بیٹی سے بات کرنے سے روکتے ہیں ‘ ان کے بعد میں اس سے ضرور نکاح کروں گا۔ اس پر یہ آیت اتری۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : پھر اس شخص نے اپنی زبان سے نکلے ہوئے ان الفاظ کی توبہ میں ایک بردہ آزاد کیا ‘ دس اونٹ راہ خدا میں سوار ہونے کیلئے دئیے اور پیدل حج کیا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ معمر نے زہری کی روایت سے بیان کیا کہ عالیہ بنت ظبیان نے ایک شض سے نکاح کرلیا تھا اور اس کے پیٹ سے اس شخص کی اولاد بھی ہوئی تھی۔ عالیہ وہی عورت تھی جس کو رسول اللہ نے طلاق دے دی تھی اور یہ واقعہ پہلے کا ہے جب کہ رسول اللہ کی بیبیوں سے نکاح کی ممانعت نہیں ہوئی تھی۔ بیضاوی نے لکھا ہے : حرمت نکاح ازواج سے وہ عورت مستثنیٰ ہے جس کو بغیر قربت کئے رسول اللہ نے طلاق دے دی۔ یہ بھی روایت میں ہے کہ حضرت عمر کے زمانۂ (خلافت) میں اشعث بن قیس نے مستعیذہ (جونیۂ کلبیہ) سے نکاح کرلیا۔ حضرت عمر نے اس کو سنگسار کرنے کا ارادہ کیا لیکن آپ کو بتایا گیا کہ مستعیذہ کو رسول اللہ نے بغیر صحبت کے چھوڑ دیا تھا۔ حضرت عمر نے یہ بات سن کر اشعث کو چھوڑ دیا اور حضرت عمر کے اس فیصلہ کے خلاف کسی نے کچھ نہیں کہا (مستعیذہ ‘ پناہ طلب کرنے والی۔ اس کا نام جونیۂ کلبیہ تھا ‘ رسول اللہ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا : میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ حضور ﷺ نے یہ سنتے ہی اس کو چھوڑ دیا) ۔ عَظِیْمًا یعنی بڑا جرم ہے۔ میں کہتا ہوں تحریم ازواج کی یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ اپنی قبر میں زندہ ہیں اسی لئے آپ کے مال کا کوئی وارث نہیں قرار پایا اور نہ آپ کی بیبیاں بیوہ ہوئیں۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھے گا تو میں اس کو سن لوں گا اور جو شخص دور سے مجھ پر درود پڑھے گا تو مجھے وہ درود پہنچا دیا جائے گا۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔
Top