Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 40
مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ
مَنْ : کون يَّاْتِيْهِ : آتا ہے اس پر عَذَابٌ : عذاب يُّخْزِيْهِ : رسوا کردے اس کو وَيَحِلُّ : اور اتر آتا ہے عَلَيْهِ : اس پر عَذَابٌ : عذاب مُّقِيْمٌ : دائمی
کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے گا۔ اور کس پر ہمیشہ کا عذاب نازل ہوتا ہے
من یاتیہ عذاب یخزیہ ویحل علیہ عذاب مقیم کہ کس پر دنیا میں ایسا عذاب آیا چاہتا ہے جو رسوا کر دے گا اور (مرنے کے بعد) دوامی عذاب بھی اس پر نازل ہوگا۔ مَکَانَۃٌ ظرف مکان ہے (بمعنی جگہ) اس جگہ مجازاً مراد حالت ہے ‘ جیسے حیْثُ اور ھُنَا ظرف زمان ہیں اور کبھی بطور مجاز مکان مراد لے لیا جاتا ہے۔ اِنِّیْ عَامِلٌ یعنی میں اپنی حالت پر عمل کر رہا ہوں۔ یہاں مکانتی کا لفظ اختصاراً حذف کردیا گیا ‘ اس سے وعید میں زور بھی پیدا ہوگیا (کہ میں کامیاب ہوں گا اور تم دنیا و آخرت میں تباہ ہو گے) مکانتی کے لفظ کو حذف کردینے سے اس طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ موجودہ حالت پر ہی نہیں ٹھہر جائیں گے بلکہ جتنا زمانہ گذرتا جائے گا ‘ آپ کو قوت اور نصرت زیادہ حاصل ہوتی جائے گی ‘ اسی لئے کافروں کو دھمکایا کہ میں دونوں جہان میں کامیاب رہوں گا۔ عَذَابٌ یُّخْزِیْہِ دشمنوں کی رسوائی رسول اللہ ﷺ کے آغالب آجانے کی دلیل ہے۔ بدر کی لڑائی میں اللہ نے کفار مکہ کو رسوا کر بھی دیا۔ مُقِیْمٌ دوامی یعنی دوزخ کا عذاب۔
Top