Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ : تمہیں وصیت کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَوْلَادِكُمْ : تمہاری اولاد لِلذَّكَرِ : مرد کو مِثْلُ : مانند (برابر حَظِّ : حصہ الْاُنْثَيَيْنِ : دو عورتیں فَاِنْ : پھر اگر كُنَّ : ہوں نِسَآءً : عورتیں فَوْقَ : زیادہ اثْنَتَيْنِ : دو فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے ثُلُثَا : دوتہائی مَا تَرَكَ : جو چھوڑا (ترکہ) وَاِنْ : اور اگر كَانَتْ : ہو وَاحِدَةً : ایک فَلَھَا : تو اس کے لیے النِّصْفُ : نصف وَلِاَبَوَيْهِ : اور ماں باپ کے لیے لِكُلِّ وَاحِدٍ : ہر ایک کے لیے مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے السُّدُسُ : چھٹا حصہ 1/2) مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا (ترکہ) اِنْ كَانَ : اگر ہو لَهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد وَّوَرِثَهٗٓ : اور اس کے وارث ہوں اَبَوٰهُ : ماں باپ فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا الثُّلُثُ : تہائی (1/3) فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَهٗٓ : اس کے ہوں اِخْوَةٌ : کئی بہن بھائی فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا السُّدُسُ : چھٹا (1/6) مِنْۢ بَعْدِ : سے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْ بِھَآ : اس کی وصیت کی ہو اَوْ دَيْنٍ : یا قرض اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ وَاَبْنَآؤُكُمْ : اور تمہارے بیٹے لَا تَدْرُوْنَ : تم کو نہیں معلوم اَيُّھُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ لَكُمْ : نزدیک تر تمہارے لیے نَفْعًا : نفع فَرِيْضَةً : حصہ مقرر کیا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں ان کادو تہائی۔ اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو۔ اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ۔ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادؤں اور بیٹوں پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے، یہ حصے خدا کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے
یوصیکم اللہ فی اولادکم اللہ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کی میراث کے بارے میں فی اولادکم میں فی بمعنی لام بھی ہوسکتا ہے یعنی تمہاری اولاد کے لیے اللہ تم کو حکم دیتا ہے جیسے حدیث مبارک میں آیا ہے : دَخَلَتْ اِمْرَأَۃٌ النَّارَ فِیْ ھِرَّۃٍ ایک بلّی کی وجہ سے ایک عورت دوزخ میں گئی۔ یہاں تک مجمل حکم ہے آگے اس کی تفصیل ہے۔ للذکر مثل حظ الانثیین ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے 1 ؂۔ اگر لڑکا اور لڑکی دونوں قسمیں موجود ہوں مطلب یہ ہے کہ اگر دو یا زیادہ لڑکیاں ہوں اور ایک لڑکا ہو یا ایک سے زیادہ لڑکے اور ایک لڑکی ہو تو ہر لڑکی سے ہر لڑکے کا حصہ دوگنا ہوگا۔ خصوصیت کے ساتھ لڑکے کے حصہ کا ذکر لڑکے کی فضیلت کو ظاہر کر رہا ہے اور اس امر پر تنبیہ کر رہا ہے کہ لڑکے کا دو گنا حصہ ہونا ہی اس کی فضیلت کے لیے کافی ہے۔ لیکن رشتہ میں چونکہ دونوں اصناف برابر ہیں اس لیے محروم کوئی نہیں ہوگا یہ حکم تو اس وقت ہوگا جب دونوں صفتیں موجود ہیں لیکن اگر محض لڑکیاں ہوں تو۔ فان کن نساء فوق اثنتین فلھن ثلثا ما ترک اگر اولاد مؤنث ہو (اور دو سے زائد (ہو) تو ان کے لیے میت کے ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے۔ و ان کانت واحدۃ فلھا النصف اور اگر بچی ایک ہی ہو تو اس کے لیے (کُل ترکہ کا) آدھا حصہ ہے اس آیت میں دو لڑکیوں کے حصہ کو بیان نہیں کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : کہ دو لڑکیوں کے لیے بھی وہی ہے جو ایک کے لیے ہے کیونکہ (دو تہائی اور نصف دونوں کا احتمال ہے مگر) کم سے کم لڑکی کا حصہ نصف یقینی ہے (لہٰذا یقینی کو چھوڑ کر احتمالی کی طرف رجوع نہیں کیا جائے گا) ۔ صحیح یہ ہے کہ دو ہوں یا زیادہ سب کے لیے دو تہائی مقرر ہے اسی پر اجماع منعقد ہوچکا ہے 2 ؂۔ بعض علماء نے کہا کہ لفظ فوق زائد ہے جیسے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْاَعْنَاق میں لفظ فوق زائد ہے اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو حضرت سعد بن ربیع کے ترکہ کے سلسلہ میں اوپر ذکر کی جا چکی ہے اور آیت کا نزول بھی سعد کی دو لڑکیوں کے حق میں ہی ہوا ہے بعض علماء نے دو لڑکیوں کے حصہ کو دو بہنوں کے حصہ پر قیاس کیا ہے۔ اللہ نے ایک بہن کا حصہ نصف مقرر کیا ہے جیسے ایک لڑکی کا حصہ نصف مقرر کیا ہے اور بھائی بہن اگر مخلوط ہوں توبہن کا اکہرا اور بھائی کا دوہرا حصہ قراردیا ہے جیسے اولاد اگر کچھ مذکر اور کچھ مؤنث ہو تو انکا حصہ بھی دوہرا اور کہر رکھا ہے اور اگر محض دو بہنیں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی کی صراحت کی ہے پس اگر صرف دو لڑکیاں ہوں تو قیاس کا تقاضا ہے کہ دو بہنوں کی طرح ان کو بھی دو تہائی دیا جائے پس سنت اور اجماع سے ثابت ہے کہ دو بہنوں سے زائد کا حصہ بھی اتنا ہی ہے جتنا دو بہنوں کا نص سے ثابت ہے اور دو لڑکیوں کا بھی وہی حکم ہے جو دو سے زائد کا نص میں آیا ہے۔ دو لڑکیوں کو ایک کی طرح قرار دینے کی تو کوئی وجہ نہی نہیں۔ پھر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر ایک لڑکی اور ایک لڑکا ہو تو لڑکی کا حصہ ایک تہائی سے کم نہیں ہوسکتا (دوتہائی لڑکے کا اور ایک تہائی لڑکی کا ہوگا) لہٰذا اگر ایک لڑکی کے ساتھ دوسری اس کی بہن ہو تب بھی اس کا حصہ ایک تہائی سے کم نہ ہونا چاہئے (پس دو لڑکیوں کا دو تہائی ہوگا) آیت میں تنہا لڑکے کا حصہ نہیں بتایا۔ یہ سکوت دلالت کر رہا ہے کہ اگر نرینہ اولاد تنہا ہو تو کل مال اسکا ہے محروم تو ہو نہیں سکتا کیونکہ لڑکی سے بہر حال اس کو فضیلت حاصل ہے اور جب تنہا لڑکی محروم نہیں ہوتی تو لڑکے کو محروم نہ ہونا چاہئے لیکن اس کا حصہ کوئی مقرر نہیں کیا اگر اس کا کل مال نہ ہوتا تو کچھ حضہ مقرر کرنا اور بتانا چاہئے تھا ضرورت کے وقت بیان سے سکوت ناجائز ہے لڑکے کی موجودگی میں کوئی دوسرا عصبہ بھی وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ قریب ترین عصبہ لڑکا ہی ہے مال کا کوئی حصہ لڑکے سے بچ ہی نہیں سکتا کہ دوسرا کوئی وارث ہو۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ نے لڑکے کا لڑکی سے دو گنا حصہ مقرر کیا ہے اور لڑکی اگر تنہا ہو تو اس کے لیے نصف مقرر ہے لہٰذا لڑکا اگر تنہا ہو تو اس کے لیے نصف کا دو گنا یعنی کل ہونا چاہئے چونکہ لڑکے کے لیے کل مال ہے اس لیے لڑکے کی موجودگی میں پوتے اور پوتیاں بالاجماع محروم رہیں گے۔ مسئلہ اجماع سلف ہے کہ اگر صبی اولاد نہ ہو تو پوتے اور پوتیاں صلبی اولاد کی قائم مقام ہوجائیں گی اگر صرف ایک پوتا یا چند پوتے ہوں تو کل مال ان کو ملے گا اور ایک پوتی ہوگی تو آدھا مال ملے گا اور زیادہ ہوں گی تو دو تہائی اور پوتے پوتیاں مخلوط ہوں تو مذکرکا دوہرا اور مؤنث کا اکہرا ہوگا اور اگر پوتے پوتیوں کے ساتھ ایک صلبی لڑکی یا چند لڑکیاں ہوں تو جو لڑکی یا لڑکیوں سے بچے گا وہ پوتے پوتیوں کو دوہرے اور اکہرے کے حساب سے ملے گا۔ طحاوی نے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے دو بیٹیوں کی موجودگی میں پوتیوں اور پوتوں کو بقیہ (ایک تہائی) میں (دوہرے اور اکہرے کے حساب سے) باہم شریک کردیا اسی طرح حقیقی بہنوں کی موجودگی میں علاقی (ایک باپ اور دو ماؤں کی اولاد) بہنوں اور بھائیوں کو باقی مال میں شریک کیا۔ اگر ایک صلبی لڑکی یا چند لڑکیوں کی موجودگی میں تنہا ایک پوتا یا چند پوتے ہوں گے تو لڑکیوں سے جو کچھ باقی رہے گا وہ پوتوں کو دیا جائے گا۔ بخاری اور مسلم نے صحیحین میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : فرض حصے اہل فرائض کو دو اور فرائض ادا کرنے سے جتنا بچ جائے وہ قریب ترین مرد کو دیدو۔ اگر ایک صلبی بیٹی ہو اور ایک یا زیادہ پوتیاں تو بیٹیکو (نصف) دینے کے بعد پوتیوں کو کل ترکہ کا چھٹا حصہ دیا جائے گا تاکہ دو تہائی ہوجائے (بیٹیوں پوتیوں بہنوں کا دو تہائی سے زائد نہیں ہے اس لیے دو تہائی پورا کرنے کے لیے پوتیوں کو چھٹا حصہ دیا جائے گا) ۔ بخاری نے ہذیل بن شرحبیل کی روایت سے لکھا ہے کہ ایک شخص نے حصرت ابو موسیٰ اور حضرت سلمان بن ربیعہ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ پوچھا کہ اگر کسی میت کی ایک بیٹی ایک پوتی اور ایک حقیقی بہن رہ جائے تو ترکہ کی تقسیم کس طرح کی جائے ؟ دونوں صحابیوں نے فیصلہ کیا کہ بیٹی کو آدھا اور بہن کو آدھا دیا جائے پوتی محروم ہوگی مگر یہ بھی فرما دیا کہ تم ابن مسعود سے بھی جا کر پوچھو وہ بھی (اس فیصلہ میں) ہمارا ساتھ دیں گے وہ شخص حضرت ابن مسعود کی خدمت میں پہنچا آپ نے فرمایا : گر ایسا فیصلہ میں کردوں تو گمراہ ہوجاؤں گا راہ راست پر نہ ہوں گا میں تو وہی فتویٰ دوں گا جو رسول اللہ نے دیا تھا بیٹی کو آدھا اور پوتی کو چھٹا حصہ اور باقی ایک تہائی (بطور عصبیت) بہن کو دیا جائے۔ ہم حضرت ابو موسیٰ کے پاس لوٹ کر گئے اور حضرت ابن مسعود کا فتویٰ ان سے بیان کیا فرمایا : جب تک یہ علامہ موجود ہے مجھ سے نہ پوچھا کرو (حضرت ابن مسعود کے فتویٰ کی وجہ یہ تھی کہ میت کی نسل کی موجودگی میں میت کے باپ کی نسل کا رشتہ قریب ترین نہیں ہے اس لیے بیٹی اور پوتی کی موجودگی میں (بہن وارث بطور فرض نہیں ہوسکتی ہاں عصبہ ہوسکتی ہے لہٰذا بیٹی اور پوتی کا حصہ دو تہائی دینے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ بہن کو دیا جائے گا) ۔ دو حقیقی بیٹیوں کی موجودگی میں پوتیاں وارث نہ ہوں گی کیونکہ بیٹیوں کو دو تہائی پورا ملے گا (اور عورتوں کا حصہ بطور فرضیت دو تہائی سے زائد نہیں) ہاں اگر پوتیوں کے ساتھ مساوی رشتہ کا کوئی پوتا ہوگا یا پوتیوں سے نچلے درجہ میں کوئی پوتا ہوگا تو وہ چونکہ عصبہ ہوگا تو وہ اپنے ساتھ مساوی درجہ رکھنے والی پوتیوں کو بھی عصہ بنا دے گا بلکہ اوپر درجہ والی پوتیاں بھی اس کی وجہ سے عصبہ ہوجائیں گی۔ و لا بویہ لکل واحد منہما السدس مما ترک ان کان لہ ولد اور میت کے ماں باپ کے لیے یعنی دونوں میں نے ہر ایک کے لیے علیحدہ علیحدہ ترکہ کا چھٹا حصہ ہے بشرطیکہ میت کی کوئی اولاد ہو صرف لِاَبَوَیْہِ کے لفظ سے شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید چھٹا حصہ دونوں کو اشتراکًا ملے گا یعنی ایک ایک کو بارہواں حصہ دیا جائے گا اس شبہ کو دور کرنے کے لیے فرما دیا کہ دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہوگا۔ وَلَدٌ کا لفظ عام ہے بیٹا ہو یا بیٹی یا بیٹے کی اولاد لیکن اگر مذکر اولاد نہ ہو بیٹی ہو تو باپ کو چھٹاحصہ بطور فرض ملے گا اور ذوی الفروض کو دینے کے بعد جتنا باقی رہے گا وہ بطور عصبہ ہونے کے ملے گا کیونکہ بیٹیوں اور پوتوں کے بعد باپ کا رشتہ تمام عصبات سے زیادہ قریب ہے۔ فان لم یکن لہ ولد و ورثہ ابواہ فلامہ الثلث اگر میت کی کوئی صلبی اولاد نہ ہو نہ پوتا ہو اور ماں باپ اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کے لیے ایک تہائی حصہ ہے یعنی اگر ماں باپ کے علاوہ کوئی دوسرا صاحب فرض وارث نہ ہو تو ماں کو کل ترکہ کا ایک تہائی حصہ ملے گا اور اگر کوئی دوسرا صاحب فرض یعنی شوہر یا بیوی بھی ہو تو شوہر یا بیوی کا حصہ دینے کے بعد جو کچھ بچے گا اس کا ایک تہائی حصہ ملے گا اگر اولاد صلبی ہو اور پوتا نہ ہو اور ماں باپ موجود ہوں تو علاوہ شوہر اور بیوی کے کوئی دوسرا صاحب فرض تو مستحق ہوسکتا ہی نہیں بہن بھائی اور دادا باپ کی موجودگی میں وارث نہیں اور دادی نانی ماں کی موجودگی کی وجہ سے محروم ہیں یا یہ مطلب ہے کہ اگر صرف ماں باپ وارث ہوں تو کل ترکہ کا ایک تہائی ماں کا ہے کیونکہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں کل ترکہ کا ایک تہائی حصہ ماں کا تھا جیسا کہ گذشتہ آیت میں بیان کیا تھا رہی یہ بات کہ اگر زوجین میں سے کوئی موجود ہو تو ماں کو کیا دیا جائے (اس کی صراحت آیت میں نہیں ہے البتہ) اس کی تعیین قیاس سے معلوم ہوجاتی ہے اگر ماں باپ کے سوا کوئی وارث نہ ہو تو باپ کے مقابلہ میں ماں کو کل ترکہ کا ایک تہائی دیا جاتا ہے اور دو تہائی باپ کا ہوجاتا ہے پس اگر زوجین میں سے کوئی موجود ہو تو اسی پر قیاس کرکے زوج یا زوجہ کو دینے کے بعد جو کچھ باقی رہے گا اس کا ایک تہائی ماں کو دیا جائے گا۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : جس راستہ پر حضرت عمر ؓ چلتے تھے ہم کو وہی آسان نظر آتا تھا اور ہم بھی اسی پر چلتے تھے آپ سے دریافت کیا گیا کہ اگر کسی میت کے وارث ایک بیوی اور ماں باپ ہوں تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا : عورت کا چوتھائی اور باقی ماندہ میں سے ماں کا ایک تہائی اور بقیہ (دو تہائی) باپ کا ہوگا۔ یہی قول حضرت زید بن ثابت کا ہے کہ شوہر اور ماں باپ یا بیوی اور ماں باپ کی صورت میں زوجین کا حصہ دینے کے بعد باقی مال کے تین حصے کرکے ایک ماں کا اور دو باپ کے ہوں گے۔ اسی پر اجماع ہے اور اگر باپ نہ ہو بلکہ اس کی جگہ دادا ہو تو ماں کو کل مال کا ایک تہائی ملے گا۔۔ بیہقی نے عکرمہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک دونوں مسئلوں میں کل ترکہ کا ایک تہائی ماں کا حصہ ہوگا۔ شریحکا بھی یہی قول ہے لیکن ابن سیرین کے نزدیک بیوی اور ماں باپ کے مسئلہ میں تو ماں کیلئے کل مال کا ایک تہائی ہوگا مگر شوہر اور ماں باپ کے مسئلہ میں ماں کے لیے شوہر کو دینے کے بعد باقی مال کا ایک تہائی ہوگا۔ بیہقی نے نخعی کا قول بیان کیا ہے کہ اس مسئلہ میں حضرت ابن عباس کا قول تمام علماء فرائض کے خلاف ہے۔ آیت وورثہ ابواہ میں باپ کا کوئی حصہ نہیں بیان کیا یہ سکوت بتارہا ہے کہ باقی دو تہائی باپ کا ہے کیونکہ ماں سے زیادہ باپ مستحق ہے اس کو محروم رکھنا صحیح نہیں اور باپ کی موجودگی میں کوئی دوسرا عصبہ وارث بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں باپ ہی قریب ترین عصبہ ہے کسی دوسرے کے لیے کچھ باقی ہی نہیں رہے گا۔ آیت وورثہ ابواہ سے یہ بات بھی معلوم ہو رہی ہے کہ اگر باپ نہ ہو اور ماں تنہا وارث ہو تو بدرجہ اولیٰ اس کو ایک تہائی مال ملے گا۔ زیادہ ملنے کی (آیت میں) کوئی دلیل نہیں ہے۔ فان کان لہ اخوۃ پس اگر میت کے بھائی (بہن) ہوں خواہ حقیقی ہوں یا علاقی یا اخیافی (باپ کی طرف سے یا ماں کی طرف سے) مرد ہوں یا عورت یا مخلوط۔ اِخْوَۃٌ سے مراد بالاجماع دو اور دو سے زائد ہیں۔ باب فرائض و وصیت میں ہر جگہ جمع کے صیغہ سے مراد ایک سے زائد ہوتا ہے یہ فیصلہ باتفاق علماء ہے لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : کہ (اخوۃ سے مراد کم سے کم تین ہیں) تین سے کم بھائی بہن میت کی ماں کے حصہ کو ایک تہائی سے گھٹا کر چھٹا حصہ نہیں بنا سکتے۔ حاکم نے بیان کیا ہے اور اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت عثمان ؓ کے پاس گئے اور کہا دو بھائیوں کی وجہ سے آپ ماں کے حصہ کو ایک تہائی سے گھٹا کے 6/1 کیسے کرتے ہیں حالانکہ دو بھائی اِخْوَۃٌ نہیں ہوتے (اخوۃ جمع کا صیغہ ہے اور جمع کا اطلاق کم سے کم تین پر ہوتا ہے) ۔ حضرت عثمان نے فرمایا : جو مسئلہ مجھ سے پہلے ہوچکا ہے اور ملک میں جاری ہوچکا ہے اور لوگ برابر اس پر عمل کرتے رہے ہیں میں اس کو پلٹ نہیں سکتا گویا حضرت عثمان نے حضرت ابن عباس ؓ کے جواب میں اجماع امت سے استدلال کیا لیکن جب حضرت زید بن ثابت ؓ سے لوگوں نے یہی مسئلہ دریافت کیا اور یہی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا : عرب دو بھائیوں کو بھی اخوۃ کہتے ہیں (گویا حضرت زید بن ثابت ؓ نے لغت سے استشہاد کیا اور اشارہ کیا کہ ہمارا مسلک خلاف لغت نہیں ہے) ۔ فلامہ السدس تو میت کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے یہ آیت مفہوم مخالف کے طور پر اور سابق آیت مفہوم موافق کے ساتھ دلالت کر رہی ہے اس امر پر کہ اگر ماں اور ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ماں کو بدرجہ اولیٰ تہائی حصہ ملے گا کیونکہ جب ماں کو باپ کی موجودگی میں ایک تہائی ملتا ہے تو بھائی یا بہن کے ساتھ تو بدرجہ اولیٰ تہائی ملنا چاہئے۔ مسئلہ اگر ماں باپ اور چند بہن بھائی ہوں تو بھائی بہن اگرچہ باپ کی وجہ سے محروم ہوں گے مگر ماں کا حصہ گھٹا کر تہائی سے چھٹا کردیں گے یہ فتویٰ جمہور کا ہے لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : (باپ کو دو تہائی اور) ماں کو چھٹاحصہ دیا جائے گا تو 6/1 جو باقی رہے گا وہ بہن بھائی کو دیدیا جائے گا۔ بھائی بہن محروم نہیں ہوں گے۔ مسئلہ دادا اور دادا سے اوپر جو دادا جہاں تک ہو سب کا حکم باپ کے نہ ہونے کی صورت میں باپ کا ہے نانا کا کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ نانا نہ تو باپ کی جگہ لے سکتا ہے اس لیے کہ نانا کا میت سے رشتہ باپ کی طرف سے نہیں ہے۔ نہ ماں کی جگہ لے سکتا ہے کیونکہ دونوں جنسیں الگ الگ ہیں (ایک عورت دوسرا مرد) اسی لیے اس کو جد فاسد کہتے ہیں۔ پس دادا محض عصبہ ہے اگر میت کی اولاد نہ ہو (یعنی اصحاب فرائض کو دینے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ سب دادا لے لے گا) اور اگر نرینہ اولاد ہو تو دادا کو 6/1 کل ترکہ کا ملے گا اور اگر میت کی اولاد مؤنث ہو تو دادا کو چھٹا حصہ بھی ملے گا اور جو کچھ بچ رہے گا وہ بھی آخر میں لے لے گا یعنی عصبہ بھی ہوگا۔ باپ سے دادا کے حکم کا اختلاف دادا کی وجہ سے ماں کا ایک تہائی حصہ گھٹ کر 6/1 نہیں ہوتا جب کہ ورثا دادا ماں اور شوہر ہوں اور اگر دادا کی جگہ باپ ہو تو ماں کا حصہ 6/1 ہوجاتا ہے۔ تصحیح مسئلہ چھ سے ہوگی 3 شوہر کے بہر حال ہوں گے ایک دادا کا اور 2 ماں کے اور اگر باپ ہوگا تو شوہر کے 3 اور 2 باپ کے اور ایک ماں کا ہوگا۔ لیکن اگر دادایا باپ کے ساتھ میت کی ماں اور بی بی ہو تو دادا ماں کا حصہ 4/1 نہیں کردے گا مگر باپ کر دے گا۔ اگر باپ ہوگا تو تصحیح مسئلہ 4 سے ہوگی ایک بی بی کا ایک ماں کا اور 2 باپ کے ہوں گے لیکن باپ کی جگہ اگر دادا ہوگا تو مسئلہ 12 سے ہوگا 3 بی بی کے 4 ماں کے اور 5 دادا کے ہوں گے۔ باپ کی طرح دادا بھی تمام عینی اور علاقی اور اخیافی بھائیوں اور بہنوں کو امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک محروم کردیتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق اور صحابہ کی کثیر تعداد سے بھی یہی قول منقول ہے باقی تینوں ائمہ اور صاحبین قائل ہیں کہ دادا اخیافی بھائی بہن کو محروم کردیتا ہے۔ علاقی اور عینی پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔ ابن جوزی نے محروم نہ ہونے کی یہ دلیل بیان کی ہے کہ اخوت کی وجہ سے وراثت (یعنی بھائی بہن کا وارث ہونا) تو قرآن میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ لہٰذا ان کو محروم الارث قرار دینے کے لیے بھی کوئی قرآنی نص ہی ہونا چاہئے (اور ایسی کوئی نص دادا کے سلسلہ میں موجود نہیں ہے) ہم کہتے ہیں کہ اگر یہی بات ہے تودادا کی وجہ سے اخیافی بھائی بہنوں کے محروم ہونے کے آپ کیوں قائل ہیں۔ اخیافی کے وارث ہونے کی تو قرآن میں نص موجود ہے پھر جب تم پوتے کو ہر قسم کے بھائیوں کے لیے حاجب (محروم کن) مانتے ہو اور کہتے ہو کہ پوتا بیٹے کا قائم مقام ہے تو دادا کو ہر قسم کے بھائی بہنوں کے لیے حاجب (محروم کن) کیوں نہیں مانتے دادا بھی تو باپ کی جگہ ہوتا ہے۔ امام صاحب کے قول کی دلیل یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : فرائض (مقررہ) اہل حصص کو پہنچا دو ۔ پھر جو کچھ رہ جائے وہ میت سے قریب ترین تعلق رکھنے والے مرد کو دیدو اور یہ امر یقینی ہے کہ دادا کا تعلق پوتے سے قریب ترین ہے کیونکہ وہ پوتے کی جڑ ہے۔ بھائی کو یہ قرب (نسبی) حاصل نہیں) ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ دادا اور بھائی بہنوں کی جہات قرابت جدا جدا ہیں بھائیوں کی وجہ سے دادا کے محروم ہونے کا تو کوئی بھی قائل نہیں اور مقاسمہ کی کوئی وجہ نہیں لہٰذا دادا کی وجہ سے بھائی بہنوں کو ہی محروم کیا جائے گا۔ شیخ ابن حجر نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ ابن حزم نے کچھ لوگوں کے اقوال ایسے بھی نقل کئے ہیں جو بھائی بہنوں کو دادا سے مقدم قرار دیتے ہیں (یعنی دادا کو محروم کہتے ہیں) پھر دادا کے محروم نہ ہونے پر اجماع کہاں ہوا۔ ہم کہتے ہیں کہ دادا کو محروم کردینے والے تو دنیا سے چلے گئے اور انکے مسلک کا کوئی قائل بھی نہیں رہا انقطاع مسلک کے بعد امت کا اجتماع اس بات پر ہوگیا کہ یا بھائی بہن محروم ہوں گے یا مقاسمہ ہوگا لہٰذا اجماع ثابت ہوگیا۔ مقاسمہ کا قول حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے حضرت زید بن ثابت ؓ کے نزدیک اگر عینی یا علاقی بھائی بہن دادا کے ساتھ ہوں گے تو دادا کے لیے یا جمیع مال کا تہائی حصہ یا مقاسمہ کیا جائے گا جو دادا کے لیے بہتر ہوگا وہی اس کو دیا جائے گا بشرطیکہ کوئی دوسرا صاحب فرض موجود نہ ہو مقاسمہ کی توضیح اس طرح کی گئی ہے کہ تقسیم کے وقت دادا کو بجائے ایک بھائی کے مان لیاجائے اور جتنا ایک بھائی کا حصہ ہو اتنا دادا کو دیدیا جائے اس وقت دادا کا حصہ کم کرنے کے لیے علاقی بھائی بہن حقیقی بھائی بہن کے ساتھ شریک ہو کر انکی تعداد بڑھا دیں گے تاکہ دادا کا حصہ بحیثیت ایک بھائی ہونے کے کم ہوجائے اور دادا جب اپنا حصہ پالے گا تو علاقی تقسیم سے باہر نکل جائیں گے صرف حقیقی بھائی بہن وارث ہوں گے علاقی محروم رہیں گے۔ لیکن اگر ایک بہن کے سوا کوئی اور حقیقی بھائی بہن نہ ہو اور دادا کے ساتھ علاقی بھائی بہن موجود ہوں تو دادا کا حصہ اور حقیقی بہن کا حضہ یعنی کل مال کا نصف دینے کے بعد جو کچھ باقی رہے گا وہ علاتیوں کا دوہرے اور اکہرے کے حساب سے دے دیا جائے گا اور کچھ باقی نہیں رہے گا تو کچھ نہیں دیا جائے گا مثلاً دادا، ایک حقیقی بہن اور دو علاق بہنیں (اس صورت میں اگر مقاسمہ ہوگا تو دادا کو بجائے ایک بھائی کے مانا جائے گا اور ایک بھائی دو بہنوں کے برابر ہوتا ہے تو گویا کل پانچ بہنیں ہوگئیں اصل مسئلہ دس سے ہوگا اور دادا چونکہ دو بہنوں کی جگہ ہے اس لیے اس کو چار اور حقیقی بہن کو کل ترکہ کا نصف یعنی پانچ دینے کے بعد ایک باقی رہے گا وہ دونوں علاقی بہنوں کا ہوگا اور ایک کی دو پر تقسیم صحیح نہیں ہوتی اس لیے مسئلہ تصحیح 20 سے کی جائے گی آٹھ دادا کو دس حقیقی بہن کو اور دو علاتی بہنوں کو ملیں گے) لیکن اگر اسی مسئلہ میں دو علاقی نہ ہوں صرف ایک علاقی بہن ہو تو گویا وارث چار بہنیں ہوں گی دادا بجائے دو بہنوں کے ہے اس لیے دس سہام اس کے ہوں گے اور حقیقی بہن کا کل مال کا نصف یعنی دس سہام لے لے گی علاقی بہن کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اگر دادا اور بھائی بہنوں کے ساتھ کوئی دوسرا فرضی قطعی وارث بھی موجود ہو تو دادا کو کل مال کا 6/1 یا ذوی الفروض کے دینے کے بعد باقی مال کا 6/1 یا حصہ مقاسمہ تینوں میں سے جو بھی بہتر ہوگا وہ اس کو دیا جائے گا جیسے اگر دادا، دادی، بیٹی اور دو بھائی موجود ہوں تو اصل مسئلہ کی تصحیح چھ سے ہوگی 3 بیٹی کو ایک دادی ایک دادا کو اور ایک دونوں بھائیوں کو دیا جائے اس مسئلہ میں دادا کو کل مال کا چھٹا حصہ یعنی ایک دینا زیادہ مفید ہے کیونکہ بصورت مقاسمہ تین بھائی ہوجائیں گے اور دو سہم کو تین بھائیوں پر تقسیم کرنے سے ایک ایک کے حصہ میں ایک سہم کا 3/2 آئے گا پورا سہم نہیں آئے گا اور بقیہ مال کا سدس یعنی چھٹا حصہ تو اس سے بھی کم ہوگا۔ صورت مذکورہ میں کوئی مثال ایسی بھی ہوتی ہے کہ ذوی الفروض کو دینے کے بعد کچھ بھی باقی نہیں رہتا لا محالہ مسئلہ میں عول کیا جاتا ہے یعنی مخرج میں توسیع کی جاتی ہے اور اداد اکو چھٹا حصہ دیا جاتا ہے جیسے اگر دو بیٹیاں، ماں، شوہر، اور دادا موجود ہوں (تو بیٹیوں کا دو تہائی شوہر کا چہارم اور ماں کا چھٹا حصہ ہونا چاہئے مگر تنگی مخرج اس کی اجازت نہیں دیتی مجبوراً 12 کو 15 کی طرف عول کیا جائے گا) اور 15 کی تقسیم اس طرح کی جائے گی بیٹیاں 8، شوہر 3، ماں 2، دادا 2۔ کبھی ذوی الفروض کے دینے کے بعد کچھ باقی تو رہتا ہے مگر 6/1 سے کم جیسے اگر دو بیٹیاں اور شوہر موجود ہوں (اس صورت میں اصل تصحیح 12 سے ہوگی بیٹیوں کے آٹھ اور شوہر کے تین دینے کے بعد ایک باقی رہے گا جو 12/1 ہے 6/1 نہیں ہے (لہٰذا عول کرکے 13 سے تصحیح کی جائے گی اور دادا کو 2 سہام دیئے جائیں گے) کبھی پورا چھٹا حصہ باقی رہتا ہے۔ جیسے اگر دو بیٹیاں اور ماں اور دادا موجود ہوں (تو تصحیح 6 سے کرکے بیٹیوں کو 4، ماں کو ایک اور دادا کو ایک دیدیا جائے گا) بہر حال ان تینوں صورتوں میں اگر بھائی بھی موجود ہوں گے تو محروم رہیں گے۔ دوسری صورت کی مثال (یعنی دادا کے لیے کل مال کا چھٹا حصہ دینے یا مقاسمہ کرکے حصہ دینے سے باقی مال کا چھٹا حصہ زیادہ مفید ہوتا ہے) جیسے اگر دادا، دادی دو بھائی اور ایک بہن موجود ہوں (تواصل تصحیح 6 سے ہوگی چھٹا حصہ دادی کو دینے کے بعد پانچ رہیں گے اور پانچ کا تہائی بغیر کسر کے نکل نہیں سکتا لہٰذا تہائی کے مخرج یعنی تین کو اصل تصحیح یعنی 6 میں ضرب دی جائے گی تو 18 ہوجائیں گے 18 میں سے 3 دادی کو دیئے جائیں اور باقی پندرہ کا ایک تہائی یعنی 5 دادا کو اور ہر بھائی کو 4 اور بہن کو 2 دیئے جائیں گے اگر دادا کو کل مال کا چھٹادیا جائے تو اصل مسئلہ 6 سے ہوگا ایک دادا کے حصہ میں آئے گا اور اس ایک سے پندرہ کا تہائی یعنی 5 بہر حال زائد ہے اور مقاسمہ سے بھی دادا کے یہ پانچ زائد ہیں کیونکہ اگر دادا کو ایک بھائی کی جگہ مان لیا جائے تو تین بھائی اور ایک بہن اور ایک دادی وارث ہوں گے اور دادا کا حصہ ایک بھائی کے برابر ہوگا یعنی 7/3 اور اگر دادی کا حصہ ادا کرنے کے بعد باقی مال کا ایک تہائی دادا کو دیا جائے تو 3/2۔ 1 ہوگا اور ظاہر ہے کہ 3/2۔ 1 زائد ہے 7/3۔ 1 سے) مسئلہ اکدریہ حضرت زید بن ثابت کے نزدیک دادا کی موجودگی میں حقیقی یا علاقی بہن صاحب فرض نہیں ہوتی صرف مندرجہ ذیل صورت اس سے مستثنیٰ ہے اس میں بہن صاحب فرض ہے۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ شوہر، ماں، دادا، بہن (اصل مسئلہ 6 سے ہوگا) شوہر کو نصف، ماں کو ایک تہائی، دادا کو چھٹا حصہ (چھ پورے ہوگئے بہن کے لیے کچھ نہیں بچا لیکن حضرت زید اس صورت میں بہن کو وارث قرار دینا ضروری سمجھتے ہیں اور ایک بہن کے لیے نصف ترکہ ہونا چاہئے لہٰذا) عول کرکے چھ کو نو قرار دیا جائے گا اور تین سہام بہن کے ہوجائیں گے اس صورت میں دادا کے لیے ایک اور بہن کے لیے 3 ہوں گے پس دادا کا حصہ بہن سے کم ہوجائے گا اس لیے دادا کا حصہ بہن کے حصہ سے ملا دیا جائے گا (اور مجموعہ چار ہوجائے گا اور چونکہ دادا بجائے بھائی کے ہے اور بھائی کا حصہ دو بہنوں کے برابر ہوتا ہے اس لیے دادا بجائے دو بہنوں کے ہوگیا اور مسئلہ میں تین بہنیں ہوگئیں جن کو چارسہام دیئے جائیں گے اور چونکہ عدد، روس یعنی 3 اور سہام یعنی 4 میں تباین ہے اس لیے 3 کو عدد عول یعنی 9 میں ضرب دیا جائے گا اور حاصل ضرب 27 ہوگا) اور 27 سے تصحیح مسئلہ کی جائے گی شوہر کو 9، ماں کو 6، دادا کو 8 اور بہن کو 4 دیئے جائیں گے لیکن اگر بجائے ایک بہن کے ایک بھائی یا دو بہنیں ہوں تو نہ عول ہوگا نہ مسئلہ اکدریہ رہے گا (اصل تصحیح 6 سے ہوگی شوہر کے 3، ماں کے 2، دادا کا ایک۔ بھائی عصبہ ہے مگر اس جگہ کچھ باقی نہ رہنے کی وجہ سے محروم ہے اور اگر بھائی کی جگہ دو بہنیں ہوں تو ماں کا حصہ ایک تہائی نہ ہوگا بلکہ چھٹا ہوگا۔ شوہر کو 3، ماں کو ایک، دادا کو ایک، دو بہنوں کو ایک، اور چونکہ ایک کی تقسیم دو پر بغیر کسر کے نہیں ہوتی اس لیے 2 کو اصل عدد تصحیح یعنی 6 میں ضرب دیں گے اور حاصل 12 ہوگا اب تقسیم اس طرح ہوگی شوہر 6، ماں 2، دادا 2، ایک بہن 2، دوسری بہن 2) ۔ چونکہ مسئلہ اکدریہ بنی اکدر کی ایک عورت کا واقعہ ہے اس لیے اس مسئلہ کو ہی اکدریہ کہا جانے لگا۔ فائدہ اگر دادا کے ساتھ بہن یا بھائی ہوں تو صحابہ کے درمیان تقسیم حصص میں اختلاف ہے بیہقی نے لکھا ہے کہ حجاج نے شعبی سے مسئلہ پوچھا کہ اگر کل ورثاء ماں ایک بہن اور دادا ہو تو تقسیم فرائض کس طرح ہوگی ؟ شعبی نے کہا اس کے متعلق پانچ صحابہ کرام کے پانچ مختلف اقوال ہیں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا : میں کل مال کے تین حصے کردوں گا ہر ایک کا ایک حصہ ہوگا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : میں ترکہ کو چھ سہام پر تقسیم کردوں گا۔ تین بہن کے دو ماں کے ایک دادا کا۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : میں بھی ترکہ کے چھ سہام کروں گا مگر 3 بہن کے دو دادا کے اور ایک ماں کا ہوگا۔ حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا : میں ترکہ کے نو سہام بناؤں گا بہن کو تین دوں گا اور دادا کو چار اور ماں کو دو (حضرت ابن عباس کا قول حجاج نے شعبی سے نہیں پوچھا اس لیے شعبی نے نہیں بیان کیا) بیہقی نے ابراہیم نخعی کی سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن مسعود بھائی کو دادا پر ترجیح نہیں دیتے تھے لیکن ابن حزم نے اپنے طریق روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بہن کو نصف، ماں کو 6/1 اور دادا کو بقیہ (ایک تہائی) دیتے تھے (گویا بھائی کو اگرچہ فضیلت نہیں دیتے تھے مگر بہن کو دادا پر ترجیح دیتے تھے) ۔ امام ابوحنیفہ کا مسلک نص اور قیاس دونوں سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ مسئلہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جدہ صحیحہ وہ ہے کہ میت سے اس کا رشتہ کسی جد فاسد کے ذریعہ سے نہ ہوتا ہو امام صاحب کے نزدیک صحیح جدات (دادیاں) کتنی ہی ہوں سب وارث ہوں گی بشرطیکہ فاسدات نہ ہوں اور ہم درجہ ہوں امام مالک اور داؤد ظاہری کا قول ہے کہ صرف دو جدات وارث ہوں گی باپ کی ماں یعنی دادی اور دادی کی ماں اور اس کی ماں اور اس کی ماں غرض دادی سے اوپر کی تمام نانیاں اور ماں کی ماں اور نانی کی ماں اور پر نانی کی ماں اور سکرنانی کی ماں، غرض ماں کی تمام نانیاں۔ قریب والی جس طرف کی وہ دور والی کو محروم کردے گی۔ ایک قول شافعی کا بھی یہی ہے لیکن امام شافعی کا دوسرا قوی قول اور امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ ماں باپ کے اوپر والی صرف تین عورتیں وارث ہوتی ہیں نانی، دادی اور دادا کی ماں۔ اجماعی قول ہے کہ ہم درجہ اور جدات صحیحہ چند ہوں یا صرف ایک ہو بہر حال ایک سدس یعنی 6/1 دیا جائے گا گر ایک جدہ کا میت سے ایک رشتہ ہو۔ مثلاً دادی کی ماں ہو اور دوسری کے دو رشتے ہوں جیسے ماں کی نانی ہو اور وہی دادا کی ماں بھی ہو تو امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک (دوہری اور اکہری رشتہ داری کا کوئی فرق نہیں بلکہ) دونوں کو چھٹاحصہ برابربرابر بانٹ دیا جائے گا۔ لیکن امام محمد (رح) کے نزدیک رشتہ داریوں کا تعدد اور وحدت قابل لحاظ رہے گا جس کا دوہرا رشتہ ہوگا اس کو دوہرا حصہ اور جس کا اکہر احصہ ہوگا اس کو اکہرا حصہ دیا جائیگا۔ تقسیم جدات کے سلسلہ میں قبیصہ بن ذویب کی روایت ذکر کی گئی ہے کہ حضرت ابوبکر کی خدمت میں ایک جدہ (دادی ‘ 12) اپنی میراث مانگنے حاضر ہوئی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : اللہ کی کتاب میں تیرا کوئی حصہ نہیں نہ رسول اللہ کی سنت میں تیرا کوئی حصہ ہے اب تو واپس چلی جا میں لوگوں سے تیرا مسئلہ دریافت کروں گا حسب وعدہ آپ نے لوگوں سے دریافت کیا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا ایک جدہ رسول اللہ کی خدمت حاضرہوئی تھی اور آپ نے اس کو ترکہ کا 6/1 دیا تھا حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : کیا اس وقت تمہارے ساتھ کوئی اور بھی تھا حضرت مغیرہ نے کہا محمد بن مسلمہ بھی تھے چناچہ محمد بن مسلمہ نے بھی وہی کہا جو مغیرہ نے کہا تھا حضرت ابوبکر نے سائلہ عورت کے لیے بھی یہی حکم جاری کردیا۔ پھر ایک اور جدہ حضرت عمر کے پاس حاضر ہو کر اپنی میراث کی طالب ہوئی حضرت عمر نے فرمایا : وہی چھٹا حصہ تیرا بھی ہے تم دونوں اگر موجود ہو تو ترکہ کا 6/1 تم دونوں کو (برابر برابر) تقسیم کیا جائے گا اور اگر (تم دونہ ہو بلکہ) صرف ایک ہو تو (پورا) چھٹا حصہ اس ایک ہی کا ہوگا 1 ؂۔ ابن وہب کا بیان ہے کہ جس جدہ کو رسول اللہ نے حصہ دیا تھا وہ میت کی ماں کی ماں (نانی) تھی اور نانی ہی حضرت ابوبکر کے پاس آئی تھی اور جو عورت حضرت عمر ؓ کے پاس آئی تھی وہ باپ کی ماں (دادی) تھی حضرت عمر نے لوگوں سے اس کا مسئلہ پوچھا مگر کسی نے کچھ نہیں بتایا بنی حارثہ کے ایک لڑکے نے کہا امیر المؤمنین آپ اس عورت کو ایسی میت کی میراث کیوں نہیں دیتے کہ اگر یہ عورت مرجاتی اور دنیا بھر کو چھوڑ جاتی تب بھی یہ مردہ اسکا وارث ہوتا 2 ؂۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے اس عورت کو وارث قرار دیدیا۔ مؤطا اور سنن بیہقی میں ہے کہ دو جدات (نانی اور دادی) حضرت ابوبکر کے پاس آئیں آپ نے نانی کو ترکہ کا چھٹا حصہ دینا چاہا تو ایک انصاری نے کہا آپ ایسی عورت کو کیوں وارث نہیں قرار دیتے کہ اگر وہ مرجاتی اور یہ مردہ زندہ ہوتا تو یہ ضرور اس کا وارث ہوتا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر نے ترکہ کا 6/1 دونوں کو بانٹ دیا۔ یہ اثر دارقطنی نے ابن عیینہ کے طریق سے بیان کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ انصاری عبد الرحمن بن سہل بن حارثہ تھے۔ علماء نے بیان کیا ہے کہ نانی ماں کے قائم مقام تھی اس لیے اس کو ماں کا کم سے کم حصہ (یعنی 6/1) دیدیا اور دادی کو نانی پر قیاس کرکے حصہ دار بنا دیا کیونکہ بہر حال وہ بھی میت کی اصل یعنی) باپ کی ماں تھی (ورنہ دادی حقیقت میں نہ ماں کی قائم مقام ہوسکتی ہے کیونکہ ماں کے ذریعہ سے اس کا میت سے رشتہ نہیں ہوتا نہ باپ کے قائم مقام ہوسکتی ہے کیونکہ باپ کی جنس جدا ہے وہ مرد ہے یہ عورت) حضرت ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ نے تین جدات کو ترکہ کا چھٹا حصہ دیا تھا دو ماں کی طرف سے تھیں اور ایک باپ کی طرف سے۔ دار قطنی نے اس روایت کو مرسل سند سے بیان کیا ہے ابو داؤد نے مراسیل میں دوسری سند سے ابراہیم نخعی کی وساطت سے نقل کیا ہے۔ دار قطنی اور بیہقی نے اس کو مرسل حسن (بصری) قرار دیا ہے بیہقی کا بیان ہے کہ محمد بن نصر نے اس پر تمام صحابہ اور تابعین کا متفق ہونا بیان کیا تھا البتہ سعد بن ابی وقاص اس کے منکر تھے۔ مگر سعد کا یہ انکار صحیح اسناد سے مروی نہیں۔ مسئلہ ماں تمام جدات کو 4 ؂ محروم کردیتی ہے کیونکہ حضرت بریدہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے جدہ کے لیے ترکہ کا چھٹاحصہ مقرر کیا ہے اگر اس کو روکنے والی ماں نہ ہو 1 ؂۔ اس حدیث کی اسناد میں ایک راوی عبید اللہ عتکی ہے جس کے متعلق علماء نقد کا اختلاف ہے ابن سکن نے اس کو صحیح کہا ہے۔ باپ اپنی وساطت کی تمام جدات کا حاجب ہوتا ہے اس میں امام احمد کے دو قول ہیں انکاری اور تائیدی۔ انکاری قول کی تائید میں امام احمد نے حضرت ابن مسعود کی یہ روایت پیش کی ہے کہ رسول اللہ نے میت کے باپ کے زندہ ہوتے ہوئے دادی کے لے سدس (ترکہ کا چھٹا حصہ) عطا فرمایا تھا۔ (رواہ الترمذی والدارمی) ہم کہتے ہی کہ ترمذی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ جمہور کے قول کا ثبوت اس ضابطہ سے ہوتا ہے کہ قریب ترین رشتہ دار دور والے کے لیے حاجب ہوتا ہے۔ من بعد وصیۃ یوصی بھا بعد اس وصیت کے جو مرنے والا کرے۔ اس فقرہ کا تعلق لامۃ السدس سے ہے یعنی ماں کا چھٹا حصہ وصیت پوری کرنے کے بعد (باقی ترکہ سے) ہے یہ تو لفظی تعلق ہے لیکن معنوی تعلق تمام گذشتہ جملوں سے ہے یعنی مرد کا دوہرا اور عورت کا اکہرا حصہ ہونا اور دو بیٹیوں کیلئے ترکہ کا دو تہائی ہونا اور ایک بیٹی ہو تو اسکے لیے نصف ہونا اور ماں باپ میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہونا اور ماں کا ایک تہائی حصہ ہونایہ تمام احکام اجراء وصیت کے بعد جاری ہوں گے بشرطیکہ کوئی وصیت ہو۔ او دین اور ادائے قرض کے بعد اگر میت پر کچھ قرض ہو 2 ؂۔ واؤ کی جگہ اَو کا استعمال بتارہا ہے کہ وصیت ہو یا قرض یا دونوں بہر حال تقسیم ترکہ، اجراء وصیت اور ادائے دین کے بعد ہوگی۔ وصیت کی دعوت چونکہ سب کو دی گئی ہے اس لیے باوجودیکہ دین ادا کرنے کا حکم اجراء وصیت سے پہلے ہی ذکر میں وصیت کو مقدم کردیا گیا اور دین چونکہ سنت اسلامیہ کے نزدیک مغفرت سے بھی مانع ہے اس لیے تقاضائے سنت ہے کہ اتفاقاً ہی کسی میت پر ہو پس دین کو وصیت سے پیچھے ذکر کیا۔ حضرت ابو قتادہ راوی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں ثواب کی امید میں صبر کے ساتھ کافروں کے مقابل راہ خدا میں مارا جاؤں اور مقابلہ کے وقت پیٹھ نہ دوں تو کیا اللہ میرے گناہوں کا اتار کردے گا ؟ فرمایا : ہاں (ایسا ہوجائے گا) سوائے قرض کے۔ جبرائیل نے ایسا ہی کہا ہے۔ (رواہ مسلم) حضرت عبد اللہ بن عمر و ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : سوائے قرض کے شہید کا ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے 3 ؂۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : سوائے قرض کے شہید کا ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے۔ (رواہ مسلم) مسئلہ : علماء کا اجماع ہے کہ میت کی تجہیز کا تعلق اس کے ترکہ سے مقدم ترین ہے پھر ادائے قرض لازم ہے خواہ پورے ترکہ سے ہو اس کے بعد ایک تہائی تک سے میت کی وصیت پوری کی جائے آخر میں جو کچھ بچ رہے وہ وارثوں کو تقسیم کردیاجائے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا تھا : تم یہ آیت : مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَا اَوْ دَیْنٍ پڑھتے ہو اور رسول اللہ نے تکمیل وصیت سے پہلے قرض ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ (رواہ الترمذی وابن ماجہ) (1) [ حضرت مفسرقدس سرہٗ نے تجہیزمیت کو ادائے قرض سے مقدم قرار دیا ہے لیکن اس کلام میں کچھ ابہام ہے شایدمفسر کی مراد یہ ہے کہ جو قرض متعلق بعین نہ ہو اس پر تجہیز مقدم ہے کیونکہ علماء فرائض کا فیصلہ ہے کہ جو دین متعلق بعین ہو اس کی ادائیگی تجہیز پر بھی مقدم ہے جیسے زید نے اگر دو سو روپیہ کو گھوڑا خریدا مگر قیمت ادا نہ کرسکا ادائے ثمن مؤجل تھا پھرا دائیگی سے پہلے مرگیا اور گھوڑا موجود ہے تو گھوڑے کا بائع تجہیز و تکفین سے پہلے اپنا گھوڑا واپس لے جائے گا ہاں دوسرے قرض خواہوں کا قرض ادا کرنے کی تجہیز و تکفین کے بعد کی جائے گی۔ وا اللہ اعلم ] (یعنی آیت میں عطف ترتیبی نہیں ہے ادائے قرض کا مرتبہ اجراء وصیت سے مقدم ہے) ۔ مسئلہ : وصیت پوری کرنے کے لیے (صرف) ایک تہائی ترکہ صرف کیا جاسکتا ہے (علماء کا اس پر اتفاق ہے) کیونکہ حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ میں فتح مکہ کے سال ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے سے جا لگا۔ رسول اللہ میری عیادت کو تشریف لائے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس بہت مال ہے اور سوائے ایک لڑکی کے اور کوئی (ذوی الفروض میں سے) وارث نہیں کیا میں اپنا کل مال کے متعلق وصیت کرسکتا ہوں فرمایا : نہیں۔ میں نے عرض کیا تو دو تہائی مال کی ؟ فرمایا : نہیں۔ میں نے عرض کیا تو آدھے مال کی ؟ فرمایا : نہیں۔ میں نے عرض کیا تو ایک تہائی مال کی ؟ فرمایا : تہائی (کی وصیت کرسکتے ہو) اور تہائی بھی بہت ہے اگر تم اولاد کو مالدارچھوڑ جاؤ تو اس سے بہتر ہے کہ ان کو فقیر چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے ہاتھ تکتے پھریں تم جو خرچ بھی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کرو گے تو اسکا ثواب تم کو ضرور ملے گا یہاں تک کہ جو لقمہ اٹھاکر اپنی بیوی کے منہ میں دو گے۔ (اسکا ثواب بھی ملے گا) (بخاری ومسلم) ترمذی کی روایت کے الفاظ کچھ بدلے ہوئے ہیں اس روایت میں آیا ہے کہ (حضور ﷺ نے فرمایا :) دسویں حصہ کی وصیت کرسکتے ہو۔ میں حضور سے برابر کم تر کہ چھوڑنے کی درخواست کرتا رہا یہاں تک کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ترکہ کے تیسرے حصہ کے متعلق وصیت کرسکتے ہو اور تہائی بھی بہت ہے۔ حضرت معاذ کی مرفوع روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے کہ مرنے کے وقت تہائی مال (کی وصیت کرنے) کی اللہ نے اپنی مہربانی سے تمہاری نیکیاں بڑھانے کے لیے تم کو اجازت دیدی ہے تاکہ وہ تمہارے مالوں کو پاک کردے۔ (رواہ الطبرانی بسند حسن) ۔ یہ حدیث طبرانی اور امام احمد نے حضرت ابودرداء کی روایت سے مرفوعاً بیان کی ہے۔ ابن ماجہ، بزار اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اور عقیلی نے حضرت ابوبکر صدیق کی روایت سے بیان کی ہے۔ اباو کم و ابنا و کم لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا تمہارے اصول و فروع جو ہیں تم پورے طور پر نہیں جانتے کہ ان میں کون شخص تم کو نفع پہنچانے میں نزدیک تر ہے یعنی تم کو نہیں معلوم کہ دنیا اور آخرت میں تمہارے لیے تمہارے اصول زیادہ مفید ہوں گے یا فروع۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب آدمی جنت میں داخل ہوجائے گا تو اپنے ماں، باپ، بیوی اور اولاد کے متعلق دریافت کرے گا جواب ملے گا کہ تیرے مرتبہ اور تیرے عمل تک ان کی رسائی نہیں تھی (اس لیے وہ یہاں نہیں ہیں) وہ شخض عرض کرے گا میرے مالک میں نے تو اپنے اور ان کے لیے عمل کئے تھے فوراً حکم ہوگا کہ مذکورہ متعلقین کو اس کے ساتھشامل کردیا جائے۔ یہ روایت طبرانی نے کبیر میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں لکھی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : تم میں جو شخص سب سے زیادہ اللہ کا فرماں بردار ہوگا قیامت کے دن وہی سب سے اونچے مرتبہ والا ہوگا اور اللہ مؤمنوں کی ایک دوسرے کے لیے سفارش قبول فرمائے گا اگر جنت میں باپ عالیمرتبہ ہوگا تو بیٹے کو اٹھا کر اس کے پاس پہنچا دیا جائے گا اور بیٹے کا درجہ اونچا ہوگا تو باپ کو اٹھا کر اس کے پاس پہنچا دیا جائے گا ایسا صرف اس لیے کیا جائے گا کہ باپ اور بیٹوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوا اور چونکہ لوگوں کو معلوم نہیں کہ وارثوں میں سے کون ہمارے لیے زیادہ فائدہ رساں ہوگا اس لیے ترکہ کی تقسیم ان کی مرضی پر موقوف نہیں رکھی گئی یعنی اگر معلوم ہوجاتا کہ کون ہمارے لیے زیادہ مفید ہوگا تو زیادہ مفید آدمی ہی کی طرف جھکاؤ ہوجاتا اور جب زیادہ مفید شخص کا علم ہی نہیں ہے تو (سب وارث برابر ہیں) کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینی ناجائز ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا : وارثوں کی مرضی کے بغیر کس وارث کے لیے وصیت کرنی درست نہیں۔ ( رواہ الدارقطنی من حدیث ابن عباس و رواہ ابو داؤد مرسلاً عن عطا الخرسانی و رواہ یونس موصولا عن عطا، عن عکرمہ عن ابن عباس و رواہ الدار قطنی من حدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ۔ ) ابو داؤد نے حضرت ابو امامہ کی روایت نقل کی ہے حضرت ابو امامہ نے فرمایا : میں نے خودسنا کہ حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ خطبہ میں فرما رہے تھے کہ اللہ نے ہر حقدار کو اس کا حق عطا فرما دیا ہے لہٰذا وارث کے حق میں وصیت (درست) نہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم کو نہیں معلوم کہ کون سا مورث تمہارے لیے زیادہ نفع رساں ہے کیا وہ مورث زیادہ نفع رساں ہے جو وصیت کرتا ہے اور تم کو موقع دیتا ہے کہ اس کی وصیت پوری کرکے تم ثواب حاصل کرو یا وہ مورث زیادہ نفع رساں ہے جو وصیت نہیں کرتا اور کل مال تمہارے لیے چھوڑ جاتا ہے۔ فریضۃ من اللہ یہ حکم من جانب اللہ مقرر کردیا گیا ہے۔ فریضۃ فعل محذوف کا مفعول مطلق تاکیدی ہے۔ آیت : یوصیکم اللہ۔۔ بھی فرضیت پر دلالت کر رہی ہے اور وصیت کرنے کا مفہوم بھی فرض کرنے کے علاوہ کچھ نہیں فریضۃ سے اسی کے مفہوم کی تاکید کردی گئی۔ ان اللہ کان علیما حکیما یہ حقیقت ہے کہ اللہ بڑے علم و حکمت والا ہے یعنی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے اور میراث وغیرہ کے احکام جو فرض کئے ہیں وہ پر حکمت ہیں۔
Top