Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ
: تمہیں وصیت کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَوْلَادِكُمْ
: تمہاری اولاد
لِلذَّكَرِ
: مرد کو
مِثْلُ
: مانند (برابر
حَظِّ
: حصہ
الْاُنْثَيَيْنِ
: دو عورتیں
فَاِنْ
: پھر اگر
كُنَّ
: ہوں
نِسَآءً
: عورتیں
فَوْقَ
: زیادہ
اثْنَتَيْنِ
: دو
فَلَھُنَّ
: تو ان کے لیے
ثُلُثَا
: دوتہائی
مَا تَرَكَ
: جو چھوڑا (ترکہ)
وَاِنْ
: اور اگر
كَانَتْ
: ہو
وَاحِدَةً
: ایک
فَلَھَا
: تو اس کے لیے
النِّصْفُ
: نصف
وَلِاَبَوَيْهِ
: اور ماں باپ کے لیے
لِكُلِّ وَاحِدٍ
: ہر ایک کے لیے
مِّنْهُمَا
: ان دونوں میں سے
السُّدُسُ
: چھٹا حصہ 1/2)
مِمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا (ترکہ)
اِنْ كَانَ
: اگر ہو
لَهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ يَكُنْ
: نہ ہو
لَّهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
وَّوَرِثَهٗٓ
: اور اس کے وارث ہوں
اَبَوٰهُ
: ماں باپ
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
الثُّلُثُ
: تہائی (1/3)
فَاِنْ
: پھر اگر
كَانَ لَهٗٓ
: اس کے ہوں
اِخْوَةٌ
: کئی بہن بھائی
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
السُّدُسُ
: چھٹا (1/6)
مِنْۢ بَعْدِ
: سے بعد
وَصِيَّةٍ
: وصیت
يُّوْصِيْ بِھَآ
: اس کی وصیت کی ہو
اَوْ دَيْنٍ
: یا قرض
اٰبَآؤُكُمْ
: تمہارے باپ
وَاَبْنَآؤُكُمْ
: اور تمہارے بیٹے
لَا تَدْرُوْنَ
: تم کو نہیں معلوم
اَيُّھُمْ
: ان میں سے کون
اَقْرَبُ لَكُمْ
: نزدیک تر تمہارے لیے
نَفْعًا
: نفع
فَرِيْضَةً
: حصہ مقرر کیا ہوا
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ کا
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
اللہ تم کو تمہاری اولادوں کے بارے میں حکم دیتا ہے۔ مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے اور اگر وہ عورتیں ہوں دو یا دو سے زیادہ پس ان کے لیے دو تہائی ہے۔ اور اگر ایک ہی ہو تو اس کے لیے آدھا حصہ ہے۔ اور مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے اس میں سے جو اس نے چھوڑا ہے ، اگر اس کی اولاد ہے پس اگر اس کی اولاد نہیں ہے اور اس کے وارث ماں باپ ہیں تو اس کی ماں کے لیے ایک تہائی ہے پس اگر اس کے بھائی ہیں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے بعد وصیت کے جو وہ کرتا ہے یا قرضہ ادا کرنے کے بعد تمہارے باپ اور بیٹے تم نہیں جانتے کہ کون زیادہ قریب ہے تمہارے لیے نفع پہنچانے کے اعتابر سے یہ اللہ کی جانب سے مقرر کیا ہوا فریضہ ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ علیم ہے اور حکیم ہے
ربط آیات گزشتہ سے پیوستہ درس میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کا قانون اجمالی طور پر بیان فرمایا تھا۔ اس کی تشریح میں عرض کیا گیا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں وراثت کے معاملہ میں عورتوں اور چھوٹے بچوں کو محروم رکھا جاتا تھا اور وراثت کا حق دار صرف ان جوان مردوں کو سمجھا جاتا تھا جو دشمن کا مقابلہ کرسکیں یعنی ہر وقت لڑائی بھڑائی کے لیے تیار رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس غلط تقسیم کی تردید فرمائی اور یہ واضح فرمادیا کہ مرنے والا جو کچھ چھوڑ جائے ، اس میں سے ہر چھوٹی بڑی منقولہ وغیر منقولہ چیز تقسیم ہونی چاہیے اور وراثت میں مردوں اور عورتوں ، بچوں جوانوں اور بوڑھوں سب کا حصہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصے ہیں۔ ان میں ردوبدل کرنے کا کسی انسان کو حق نہیں پہنچتا۔ اب آج کے درس سے قانون وراثت کی تفصیلات شروع ہورہی ہیں۔ وراثت دور جاہلیت میں دور جاہلیت میں وراثت کی بنیاد تین چیزیں تھیں۔ ایک تو نسب تھا جس کی بنا پر وہ صرف جوان بیٹے کو باپ کی وراثت کا حق دار سمجھتے تھے۔ اور باقی عورتیں اور بچے محروم ہوجاتے تھے ان کے نزدیک وراثت کا دوسرا سبب تبنی تھا وہ لوگ جس کسی کو منہ بولا بیٹا بنالیتے تھے اسے وراثت میں سے حصہ دیتے تھے۔ اس زمانے میں وراثت کی تیسری بنیاد ولاء تھی۔ ولاء کا معنی آپس میں پختہ دوستی کرلینا ہے جو دو شخص آپس میں حلفیہ قسم کی پختہ دوستی کرلیتے تھے وہ بھی ایک دوسرے کی وراثت کے مستحق ہوتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں وراثت ان بنیادوں پر تقسیم ہوتی تھی۔ ابتدائے اسلام میں وراثت جب پیغمبر آخر الزماں (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی ، قرآن پاک کا نزول شروع ہوا اور اسلام آیا ، تو اس کے ابتدائی دور میں زمانہ جاہلیت کی بعض چیزوں کو بھی برداشت کیا گیا۔ چناچہ ابتدائی دور اسلام میں وراثت کے لیے ولاء کو روا رکھا گیا۔ اس کے علاوہ ہجرت کو بھی وراثت کا سبب قبول کیا گیا۔ ہجرت مدینہ کے بعد بعض مہاجرین اور انصار رشتہ مواخات میں منسلک ہوئے۔ حضور ﷺ نے ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بھائی بنادیا۔ چناچہ ابتدائی دور میں یہ بھائی بھائی ایک دوسرے کی وراثت کے حقدار ہوتے تھے۔ بخاری شریف میں روایت موجود ہے۔ یرث المھاجری الانصاری ویرث الانصاری المھاجری یعنی مہاجر انصاری کا وارث ہے اور انصاری مہاجر کی وراثت میں حقدار ہے۔ ابتدائے اسلام میں ایسا بھی ہوتا رہا۔ مستقل قانون وراثت اس کے بعد جب وراثت کے مستقل قوانین نازل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے سبب کو وراثت سے خارج کردیا۔ اور سوۃ انفال میں واضح فرمادیا واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتب اللہ کہ وراثت کے معاملہ میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ قرابت کے رشتہ کو ہی اولیت حاصل ہے۔ چناچہ وراثت کا سب سے پہلا سبب نسب ہی قرار پایا۔ اس طرح گویا خدائی قانون کے مطابق ولائ ، مواخات اور تبنی کے ذرائع وراثت کو ختم کردیا گیا ، اب دوستوں ، اسلامی بھائیوں اور متبنی وغیرہ کے ساتھ حسن سلوک تو کیا جاسکتا ہے ان کے حق میں مقررہ حد تک وصیت کی جاسکتی ہے۔ مگر وراثت میں حصہ نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ختم کردیا۔ اب اسلام میں وراثت کا انحصار تین چیزوں پر ہے۔ پہلا نسب ، دوسرا نکاح اور تیسرا اولاد جو کہ ولاء کی پہلی قسم سے مختلف ہے۔ نسب کا قانون یہ ہے کہ جو رشتہ دار میت کے زیادہ قریب ہوگا۔ وراثت پر اس کا حق فائق ہوگا۔ قریبی عزیز کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار کو حصہ نہیں ملتا۔ مثلاً اگر مرنے والے کا باپ موجود ہے تو وراثت کا حق دار وہ ہوگا ، دادا نہیں ہوگا۔ اگر باپ فوت ہوچکا ہے تو دادا زندہ ہو تو اس صورت میں دادا حق دار ہوگا ، اسی طرح اگر میت کا بیٹا موجود ہے تو پوتے کو وراثت نہیں پہنچتی ہے بیٹے کی غیر موجودگی میں پوتا وارث ہوگا۔ وراثت کا دوسرا سبب نکاح ہے ، جب ایک مرد اور ایک عورت رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی وراثت کے حق دار بن جاتے ہیں تاوقتیکہ طلاق کے ذریعے علیحدگی اختیار نہ کرلیں۔ اگر خاوند فوت ہوجائے تو بیوی کو حصہ ملتا ہے اور اگر بیوی فوت ہوجائے تو خاوند وراثت میں حق رکھتا ہے گویا وراثت کا مدار نکاح پر بھی ہے۔ وراثت کا تیسرا سب ولاء ہے اور یہ دو قسم سے ہے۔ پہلی ولاء اعباق ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے غلام کو آزاد کردے۔ اور غلام کی وفات کے وقت اس کا کوئی حقیقی رشتہ دار موجود نہ ہو تو غلام کی وراثت اس آزاد کرنے والے شخص کو پہنچتی ہے ، مسلم اور ترمذی شریف میں روایت موجود ہیالولا لمن اعتقوراثت اس شخص کے لیے ہے جس نے اسے آزاد کیا یعنی جو اس کی آزادی کا ولی نعمت اور مولیٰ بنا ، وہی وراثت کا حق دار ہے۔ اسی طرح اگر آزاد کرنے والا شخص خود مرگیا اور اس کا کوئی حقیقی رشتہ دار موجود نہیں ہے تو اس کی وراثت آزاد کردہ غلام کو ملے گی۔ یہ ولاء اعتاق ہے آزاد کرنے والا اور آزاد ہونے والا ایک دوسرے کے مولیٰ بن گئے ہیں۔ ولاء موالات ولا کی دوسری قسم ولاء موالات ہے جو کہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک درست ہے۔ اس کا ذکر بھی حدیث شریف میں موجود ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جب کوئی شخص کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرکے اس کے ساتھ دوستانہ قائم کرلیتا تھا تو وہ آپس میں موالی بن جاتے تھے اور اس خصوصی تعلق کو موالات کہا جاتا ہے۔ ابتداء میں لوگ دور دور سے گھر بار ، رشتے دار ، جائیداد وغیرہ چھوڑ چھاڑ کر دارالاسلام میں آجاتے تھے اور اسلام قبول کرلیتے تھے اور اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ موالات بھی قائم کرلیتے تھے۔ خراسان سے اکثر لوگ عرب پہنچے اور اسلام قبول کیا۔ ایسے لوگوں کے حقیقی رشتہ دار نامعلوم ہوتے تھے یا غیر مسلم ، ایسی حالت میں اگر نومسلم فوت ہوجاتا تو اس کی وراثت اس کے موالی کے حق میں چلی جاتی تھی۔ یہ ولاء موالات کہلاتی ہے۔ یہ صورت آج بھی روا ہے اگر کوئی شخص افریقہ یا کسی دیگر دور دراز علاقے سے پاکستان میں آکر کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیتا ہے۔ اس سے ولاء یعنی دوستانہ قائم کرلیتا ہے اس کے حقیقی رشتہ داروں کا علم نہیں یا معلوم ہے کہ وہ غیر مسلم ہیں اور انہیں وراثت نہیں مل سکتی تو پھر ایسے شخص کی موت پر اس کی جائیداد کا وارث اس کا مولیٰ ہوگا ، یعنی وہ شخص ہوگا جس کے ہاتھ پر اس نے مسلمان ہو کر ولا ، موالات قائم کیا۔ موجودہ زمانے میں ولاء کی دو صورتوں میں سے ولاء اعتقاق تو ختم ہوچکی ہے۔ اب نہ کوئی غلام ہے اور نہ اس کی آزادی کی نوبت آتی ہے لہٰذا یہ سبب اب بالکل بند ہوچکا ہے البتہ دوسری قسم ولاء موالات کی اب بھی گنجائش ہے۔ اگر کوئی ایسی صورت پیش آجائے کہ کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلے اور اس کا مولیٰ بن جائے۔ پھر اس کی وفات کے وقت اس کا کوئی حقیقی مسلمان رشتہ دار موجود نہ ہو تو اس کی وراثت اس کے مولیٰ کو ملے گی ، گویا اس وقت وراثت کے تین سبب نسب نکاح اور موالات ہیں۔ اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کے احکام کو اس ترتیب سے بیان فرمایا ہے کہ سب سے پلے اولاد کا تذکرہ ہے کیونک کہ اس کا تعلق وراثت کے پہلے سبب نسب کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد نسب ہی کے سبب کے تحت ماں باپ کی وراثت کا ذکر ہے اور پھر مرنے والے کے بھائیوں کا نمبر ہے۔ ترتیب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے چوتھے نمبر پر نکاح کے سبب کے تحت خاوند اور بیوی کی وراثت کا ذکر فرمایا ہے۔ شان نزول ان آیات کی شان نزول کے متعلق حضرت جابر ؓ کی روایت موجود ہے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں بیمار ہوگیا۔ میرا گھر حضور ﷺ کے گھر سے کم وبیش دو میل دور تھا۔ آپ (علیہ السلام) میری بیمارپرسی کے لیے میرے گھر تشریف لائے۔ آپ کے پاس سواری بھی نہ تھی ، پیدل ہی آئے۔ آپ پر گردوغبار کے آثار نمایاں تھے۔ جب آپ تشریف لائے تو مجھ پر بےہوشی طاری ہوگئی۔ آپ نے وضو کیا اور وضو کا باقی ماندہ پانی مجھے پلایا اور مجھ پر چھینٹے دئیے۔ اتنے میں مجھے ہوش آگیا۔ کہتے ہیں کہ چونکہ میں اولاد سے محروم تھا اس لیے مجھے اپنی وراثت کے متعلق تشویش تھی۔ اپنی اولاد تو نہ تھی البتہ نو بہنیں تھیں جن میں تین شادی شدہ اور باقی غیر شادی شدہ تھیں۔ ان کے علاوہ ایک بھائی بھی تھا۔ حضرت جابر ؓ کے باپ حضرت عبداللہ انصاری ؓ غزوہ احد میں شہید ہوگئے تھے۔ اونچے درجے کے شہداء میں سے ہیں ، حضور ﷺ نے ان کی بڑی تعریف فرمائی ہے۔ بہرحال روایت میں آتا ہے کہ حضرت جابر ؓ نے حضور سے دریافت کیا کہ میرے بعد میری ورایت کس طرح تقسیم ہوگی ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ اس سلسلہ میں حضرت جابر ؓ ہی سے ایک دوسری روایت بھی ترمذی شریف میں موجود ہے۔ حضرت سعد بن ربیع ؓ جنگ احد میں شہید ہوگئے اور اپنے پیچھے دو لڑکیاں چھوڑ گئے۔ ان کی بیوی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ، حضور ! میرا خاوند آپ کے ساتھ جہاد میں شریک ہو کر شہید ہوگیا ہے اور پرانے دستور کے مطابق اس کے مال پر اس کے بھائیوں نے قبضہ کرلیا ہے اب یہ دو بچیاں ہیں ولاتنکحان الا ولھا مال مال کے بغیر تو ان کے نکاح بھی نہیں ہوسکتے۔ اب کیا صورت ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، تم صبر کرو۔ اللہ تعالیٰ اس بارے میں ضرور کوئی فیصلہ فرمائے گا۔ روایت میں آتا ہے کہ جب وہ عورت دوبارہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو وراثت کی یہ آیات نازل ہوئیں۔ بنی (علیہ السلام) نے اس عورت کو اور سعد ؓ کے بھائیوں کو بلایا اور ان کو سمجھایا کہ دیکھو بھائی ! سعد ؓ کے جس مال پر تم نے قبضہ کرلیا ہے۔ اس میں سے آٹھواں حصہ اس کی بیوہ کا ہے اور دوتہائی ان بچیوں کو دے دو ۔ باقی جو بچ جائے وہ عصبہ کی حیثیت سے تم لے لو۔ قبل از تقسیم وراثت بعض چیزیں ایسی ہیں جو کسی وراثت تقسیم کرنے سے قبل کرنا ضروری ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں قانون یہ ہے کہ سب سے پہلے مرنے والے کے مال میں سے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا جائے۔ اس کام پر اخراجات اعتدال کے ساتھ ہونے چاہیں۔ میت کا مال سمجھ کر فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے۔ کفن کے لیے مناسب کپڑا اور دوسری اشیاء ضرورت خریدی جائیں۔ قبر کھودنے کا انتظام ہو جس کی مزدوری میت کے مال سے ادا کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی قرض ہے تو ادا کیا جائے۔ تیسرے نمبر پر اگر میت نے کوئی وصیت کی ہے تو اسے پورا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے ہر مسلمان کو کل مال کے ایک تہائی کے برابر وصیت کرنے کی اجازت دی ہے ، اس سے زیادہ نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی وصیت کی گئی ہے تو اسے پورا کیا جائے گا اور اس کے بعد باقی ماندہ مال وراثت حصہ رسدی حق داران میں تقسیم کیا جائے گا۔ ایک مرد مساوی دو عورتیں ارشاد باری تعالیٰ ہے یوصیکم اللہ فی اولادکم اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولادوں کے متعلق۔ یہاں پر ایصا کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں تاکیدپائی جاتی ہے ، اس لحاظ سے وصیت تاکیدی حکم کو کہتے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے قانون وراثت کے آغاز میں اس بات کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ یہ احکام تاکیدی ہیں اور ان میں اپنی مرضی سے نہ کسی کو ردوبدل کر نیکی اجازت ہے اور نہ ہی ٹالے جاسکتے ہیں بلکہ ان پر عملدرآمد لازمی ہے۔ اس قانون کا پہلا حکم یہ ہے للذکر مثل حظ الانثیین ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک عورت کو ایک مرد کی نسبت آدھا حصہ ملے گا۔ یا یوں سمجھ لیجیے کہ اگر کسی مرنے والے کے پس ماندگان میں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں۔ تو کل مال آدھا آدھا کرکے ایک حصہ لڑکے کو مل جائے گا اور باقی آدھا دو لڑکیوں میں برابر بانٹ دیا جائے گا۔ بعض لوگ اس قسم پر اعتراض کرتے ہیں ان کا مقولہ یہ ہے کہ عورت چونکہ مرد کی نسبت کمزورواقع ہوئی ہے۔ لہٰذا عورت کو زیادہ حصہ ملنا چاہیے تھا جب کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو دگنا حصہ دلایا ہے۔ اس سلسلہ میں یاد رکھنا چاہیے کہ انسان ناقص العقل ہے اس کو سوچ غلط بھی ہوسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ حکیم ہے۔ اس کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قانون وراثت بھی فطرت کے عین مطابق ہے ، اس میں کسی فریق کے ساتھ زیادتی نہیں۔ غور فرمائیں کہ لڑکی بالآخر بیاہی جائے گی اور اس کا نان ونفقہ اور رہائش وغیرہ اس کے خاوند کے ذمہ ہوگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی موجود ہے کہ بیوی کا مکان ، خوراک ، لباس اور دیگر ضروریات زندگی مرد کے ذمہ ہیں وہ اپنی مالی حیثیت کے مطابق عورت کی ضروریات بہم پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ چناچہ اسی نسبت سے عورت کی ذمہ داریاں کم ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے وراثت میں مرد کا حصہ زیادہ رکھا ہے اور عورت کا کم۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کا حصہ اس کے خاوند کی وراثت میں بھی رکھا ہے۔ اس طرح عورت ماں باپ اور خاوند دونوں طرف سے وراثت کی حقدار ہے۔ برخلاف اس کے مرد کو صرف باپ کی وراثت ملتی ہے۔ بالعموم مرد کو بیوی کی وراثت عملی طور پر نہیں پہنچتی۔ کیونکہ بسا اوقات عورت کی جائیداد ہوتی ہی نہیں۔ اور اگر بالفرض کوئی شخص عمر بھر نکاح ہی نہیں کرتا اور نہ اس کی طرف سے کسی وراثت کی امید مقصد یہ ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ قانون پر اعتراض محض بےسمجھی کی وجہ سے ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ کا قانون کمال حکمت پر مبنی ہے اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے۔ صرف لڑکیوں کی صورت میں وراثت آگے فرمایا کہ اگر کسی مرنے والے نے کوئی بیٹا نہ چھوڑا ہو بلکہ صرف بیٹیاں ہوں۔ فان کن نساء فرق اثنتین اور وہ دویا … دو سے زیادہ ہوں فلھن ثلثا ماترکتو ان سب کو کل ترکہ کا دوتہائی ملے گا باقی ایک تہائی دوسرے رشتہ داروں میں تقسیم ہوجائے گا۔ اور اگر کوئی دوسرا رشتہ دار موجود نہ ہو تو پھر بقایا ایک تہائی بھی ان لڑکیوں کیطرف ہی لوٹ آئے گا فرمایا وان کانت واحدۃ اور اگر پسماندگان میں صرف ایک لڑکی ہو یعنی نہ کوئی لڑکا ہو اور نہ ہی دوسری لڑکی تو ایسی صورت میں فلھا النصف اس لڑکی کو کل مال میں سے نصف مل جائے گا اور باقی نصف باپ ، بھائی ، چچا ، چچا زاد اگر کوئی ہوں تو ان کو ملے گا۔ اگر بالکل کوئی رشتہ دار نہیں ہے تو بقیہ نصف مال بھی لڑکی ہی کو مل جائے گا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نسب کی بنیاد پر سب سے پہلے اولاد کے حق کا ذکر فرمایا ہے۔ اب آگے دوسرے نمبرپرماں باپ کے حقوق کا ذکر آرہا ہے۔ والدین کا حصہ کل کے درس میں وراثت سے معتلق مردوزن کے حصوں کا ذکر تھا کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ نیز یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ اگر میت نے صرف ایک لڑکی چھوڑی ہے تو وہ کل مال کے نصف کی وارث ہوتی ہے اور اگر دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو انہیں کل وراثت کا دوتہائی ملتا ہے۔ وراثت کی یہ تقسیم تو نسب کے اعتبار سے تھی۔ اب آج کی آیت میں نسب ہی کے اعتبار سے والدین کا حصہ اور پھر وراثت کے دوسرے سبب نکاح کے اعتبار سے بیوی اور خاوند کے حصص کا تذکرہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ولا بویہ لکل واحد منھما السدس یعنی ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہیمما ترک جو کچھ مرنے والے نے چھوڑا ہے۔ اس صورت میں کہ ان کان مما ترک لہ ولد مرنے والے کی اولاد بھی موجود ہو۔ اولاد میں خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں ایک ہو یا زیادہ اگر والدین زندہ ہیں اور مرنے والی کی اولادبھی ہے تو اس کے باپ کو بھی چھٹا حصہ ملے گا اور ماں کو بھی چھٹا حصہ وراثت ملے گی۔ اس کے برخلاف اگر دوسری صورت ہو یعنی مرنے والے کی اولاد نہ ہو فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابواہ اور اس کے وارث صرف والدین ہوں تو فرمایا فلامہ الثلثماں کو تیسرا حصہ ملے گا۔ گویا اولاد کی غیر موجودگی میں میت کی ماں کا حصہ چھٹے سے بڑھ کر تیسرا یعنی دگنا ہوگیا۔ اس صورت میں وراثت کا باقی دو تہائی حصہ چھٹے سے بڑھ کر تیسرا یعنی دگنا ہوگیا۔ اس صورت میں وراثت کا باقی دو تہائی حصہ مرنے والے کے باپ کو مل جائے گا۔ یہاں پر بھی وہی قانون ہے کہ ایک مرد کو دوعورتوں کے برابر حصہ ملتا ہے۔ جب ماں کو ایک تہائی ملا تو باپ دو تہائی کا مستحق ٹھہرا۔ اس آیت میں بھی مما ترک کا لفظ آیا جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے نے جو کچھ بھی چھوڑا ہے نقدی ، سونا ، چاندی ، مکان ، زمین ، اوزار غرض یہ کہ منقولہ اور غیرمنقولہ ہرچیز میں ورثاء کے مقررہ حصے ان کو پہنچنے چاہئیں۔ بھائیوں کی موجودگی میں ابک ایک تیسری صورت کا ذکر ہے۔ فان کان لہ اخوۃ یعنی مرنے والے کی اولاد تو نہیں ہے مگر اس کے بھائی زندہ ہیں بھائیوں میں حقیقی (ماں باپ کی طرف سے ) علاتی (صرف باپ کی طرسے ) اور اخیافی (صرف ماں کی طرف سے) سب شامل ہیں۔ اگر میت کے کوئی بھی بھائی ہوں۔ ایک ہو یا زیادہ اس حالت میں فلا مہ السدس میت کی ماں کا پھر چھٹا حصہ رہ جائے گا۔ گویا بھائیوں نے ماں کو تیسرے حصے سے نکال کر چھٹے حصے میں شامل کردیا مگر یہ مسئلہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس طرح ماں کے حصے سے جو چھٹا حصہ بچ گیا وہ ان بھائیوں کو نہیں ملے گا جن کی وجہ سے ماں کا حصہ کم ہوا ، بلکہ یہ چھٹا حصہ بھی باپ ہی کو مل جائے گا کیونکہ باپ بھائیوں کی نسبت زیادہ قریبی ہے اور یہ وراثت کا بنیادی قانون ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں بعید رشتہ دار کو وراثت نہیں پہنچتی۔ مذکورہ صورت میں گویا باپ کو اپنے دو تہائی کے علاوہ ماں کا کم کیا جانے والا چھٹا حصہ مزید مل جائے گا۔ جمہور علماء فقہاء اور آئمہ دین کا یہی مسلک ہے۔ البتہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا اختلاف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بھائیوں کی موجودگی کی وجہ سے ماں کے حصہ سے بچ جانے والا چھٹا حصہ ان بھائیوں کو ملے گا جن کی وجہ سے ماں کا حصہ کم ہوا۔ وصیت اور قرض فرمایا یہ مقرر کردہ حصے قابل تقسیم میں من بعد وسیۃ یوصی بھا اس وصیت کے بعد جو مرنے والا کرگیا ہے۔ اودینیا اس قرضے کی ادائیگی کے بعد جس کا مرنے والا مقروض ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر مرنے والا کوئی وصیت کرگیا ہے یا اس نے کوئی قرض دینا ہے ، تو پہلے ان چیزوں کی ادائیگی ہوگی ، اس کے بعد باقی ماندہ مال کو ورثا میں حصہ رسدی تقسیم کیا جائے گا۔ یہاں پر وصیت اور قرض کے تقدم اور تاخر کو سمجھ لینا چاہیے ، اس آیت میں اور اگلی آیات میں بھی وصیت کا ذکر پہلے ہے اور قرضہ کا بعد میں۔ اس لحاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کے کفن دفن کے بعد پہلے وصیت پوری کی جائے اور پھر اس کا قرضہ چکایا جائے اور اس کے بعد باقی ماں تقسیم ہو۔ مگر فی الحقیقت ایسا نہیں ہے تمام فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ وصیت اور قرض کے معاملہ میں قرص کو اولیت حاصل ہے۔ پہلے قرضہ ادا ہوگا اور اس کے بعد وصیت پوری کی جائیگی۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا ، لوگو ! غلط فہمی میں مبتلا نہ رہنا ، مرنے والے کے قرض کی ادائیگی وصیت سے پہلے ہونی چاہیے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض بندوں کا حق ہے اور اس کا مطالبہ کرنے والے موجود ہوں گے جو قرضہ طلب کرکے اپنے حق کی حفاظت کریں گے۔ برخلاف اس کے وصیت اللہ کا حق ہے اور اس کا مطالبہ کرنے والا بظاہر کوئی موجود نہیں ہوتا۔ تو اس خیال سے کہ کہیں لوگ اللہ کا حق بھول نہ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے وصیت کا پہلے تذکرہ کیا۔ وگرنہ وراثت کا صحیح تعین ہی اس وقت ہوتا ہے جب اس کے ذمہ واجب الادا قرضہ ادا کردیا جائے۔ لہٰذا قرضہ کی ادائیگی وصیت کی تکمیل سے پہلے ہوگی۔ وصیت کے حقدار حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ لوگو ! اللہ نے تم پر مہربانی فرما کر تمہیں ایک تہائی مال کے تصدق کی اجازت دے دی ہے تاکہ تمہیں آخرت میں بہتری نصیب ہوسکے۔ اور بہتری تبھی حاصل ہوگی جب مال کو کسی کارخیر کے لیے وقف کیا جائے گا کسی مدرسہ یا مسجد کے لیے وصیت کردی جاے کسی یتیم ، مسکین یا بیوہ کے حق میں یا کسی اور رفاہ عامہ کے لیے مخصوص کیا جاسکتا ہے تاہم اس کی مقدار کل مال کے ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں ضروری بات یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی جس کو وراثت میں حصہ ملتا ہو۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے لاوصیۃ لوارب وارث کے لیے وصیت کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ اللہ نے وراثت میں اس کا حصہ مقرر کردیا ہے اور اس میں کمی بیشی کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔ البتہ ایسا وارث جس کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا ، اس کے حق میں وصیت کی جاسکتی ہے۔ جیسے یتیم پوتا ہو ، کوئی بیوہ بہن ہو ، کوئی نادار بھائی ہو ، وغیرہ وغیرہ مگر جو شخص وراثت کا حق دار ہے ، وہ وصیت کا حق دار نہیں ہوسکتا۔ تقرر حصص کی حکمت آگے اللہ تعالیٰ نے مختلف حصے مقرر کرنے کی حکمت بیان فرمائی ہے انسان اپنی ناقص عقل کی بناء پر کرسکتا ہے کہ فلاح حصہ کم ہے۔ اسے زیادہ ہونا چاہیے تھا یا فلاں کو زیادہ سے زیادہ دے دیا گیا ، وہ کم ہونا چاہیے مگر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اباء کم وابناء کم لاتدرون ایھم اقرب لکم لفعاً تم نہیں جانتے کہ تمہارے حق میں تمہارے والدیننفع بخش ہیں یا تمہاری اولاد۔ یہ علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے کہ تمہارے لیے کون سود مند ہے۔ تم اپنی دانست کے مطابق سمجھتے ہو کہ فلاں رشتہ دار میری خدمت کرے گا اور اسے زیادہ دینے کی کوشش کرتے ہو۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عین ضرورت کے وقت تمہارے کام وہ شخص آجائے جس سے تمہیں کوئی امید نہ ہو۔ لہٰذا ہرچیز کی حکمت وہ مالک الملک ہی جانتا ہے جو خالق ہے اور جو علیم کل بھی ہے اور حکیم بھی۔ اسی نے یہ حصے اپنی حکمت نامہ کے ساتھ مقرر کیے ہیں یعنی یہ فریضۃ من اللہ ہیں اور ان کو مقرر کرے والا ان اللہ کان علیما کلیماً بیشک ہرچیز سے واقف ہے اور ہرچیز میں اس کی حکمت پوشیدہ ہے جسے تم نہیں جانتے۔
Top