Tafseer-e-Mazhari - Az-Zukhruf : 30
وَ لَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ وَّ اِنَّا بِهٖ كٰفِرُوْنَ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَهُمُ الْحَقُّ : آگیا ان کے پاس حق قَالُوْا : انہوں نے کہا ھٰذَا سِحْرٌ : یہ جادو ہے وَّاِنَّا : اور بیشک ہم بِهٖ كٰفِرُوْنَ : اس کا انکار کرنے والے ہیں
اور جب ان کے پاس حق (یعنی قرآن) آیا تو کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے
ولما جاءھم الحق قالوا ھذا سحر وانا بہ کفرون اور جب انکے پاس یہ سچا قرآن پہنچا تو کہنے لگے : یہ تو جادو ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے۔ بَلْ مَتَّعْتُیہ لعلّھُم یرجعون سے اضراب اور اعراض ہے۔ ھٰٓؤُلَآء یعنی مکہ کے ان کافروں کو جو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے۔ وَاٰبَآءَھُمْ یعنی ان موجودہ کفار کے اسلاف جو ان سے پہلے گذر گئے ‘ مطلب یہ ہے کہ میں نے ان کو کفر کی فوری سزا نہیں دی۔ الْحَقُّ حق سے مراد ہے قرآن مجید۔ مقاتل نے کہا : اسلام مراد ہے۔ قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ یعنی یہ قرآن جادو ہے۔ قرآن کو انہوں نے جادو اسلئے کہا کہ وہ قرآن جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز تھے۔ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ معجزات کے ذریعہ سے رسالت کو ظاہر کرنے والا ‘ یا آیات وبراہین کی روشنی میں توحید کو ظاہر کرنے والا ‘ یا اللہ کے احکام کو ظاہر کرنے والا۔ ابن جریر نے ضحاک کے حوالہ سے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ جب اللہ نے اپنے رسول کو مبعوث فرمایا تو عرب نے ماننے سے انکار کردیا اور کہنے لگے : کسی انسان کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجنے سے اللہ کی شان بلند وبالا ہے (یعنی وہ کسی انسان کو اپنا رسول نہیں بنا سکتا) اس پر اللہ نے آیات ذیل نازل فرمائیں : اَکَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مّنْھُمْ ۔ اور وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ الاَّ رِجَالاً ۔ جب بار بار آیات کا (بکثرت) نزول ہونے لگا تو کہنے لگے : اگر آدمی کا ہی پیغمبر ہونا ضروری تھا تو محمد ﷺ کے علاوہ دوسرے لوگ رسالت کیلئے زیادہ اہل تھے ‘ ان کو پیغمبر ہونا چاہئے تھا۔
Top