Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 87
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں نازل کیا گیا ھٰذَا الْقُرْاٰنُ : یہ قرآن عَلٰي رَجُلٍ : اوپر کسی شخص کے مِّنَ : سے الْقَرْيَتَيْنِ : دو بستیوں میں عَظِيْمٍ : عظمت والے ۔ بڑے
اور (یہ بھی) کہنے لگے کہ یہ قرآن ان دونوں بستیوں (یعنی مکّے اور طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟
وقالوا لولا نزل ھذا القران علی رجل من القریتین عظیم اور کہنے لگے : یہ قرآن دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا ؟ دو بستیوں سے مراد ہیں مکہ اور طائف۔ رجل عظیم سے مراد ہے بڑی عزت والا ‘ دنیوی آبرو دار اور بڑا مالدار۔ کافروں نے یہ سمجھا کہ رسالت بہت بڑا منصب ہے اور بڑا منصب بڑے آدمی کو ہی ملنا چاہئے ‘ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ نبوت ایک روحانی مرتبہ ہے ‘ جس کا دنیوی وجاہت و دولت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ مرتبہ چاہتا ہے کہ جس کو اس درجہ پر فائز کیا جائے ‘ وہ فضائل اور کمالات قدسیہ کا حامل ہو ‘ ذاتی اور صفاتی تجلیات کی جلوہ گاہ بننے کی اس میں صلاحیت ہو۔ ابن المنذر بروایت قتادہ بیان کیا کہ ولید بن مغیرہ نے کہا تھا : اگر یہ قرآن جس کا نزول محمد ﷺ پر ہوتا ہے ‘ حق (یعنی من جانب اللہ) ہوتا تو مجھ پر یا ابن مسعود ثقفی پر نازل ہوتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ مجاہد نے کہا : کافروں کی مراد یہ تھی کہ مکہ میں عتبہ بن ربیعہ پر اور طائف میں عبد یالیل پر نازل ہوتا۔ بعض نے کہا : مکہ میں ولید بن مغیرہ پر اور طائف میں حبیب بن عمرو بن عبید ثقفی پر قرآن کا نزول مراد تھا۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس کی طرف سے اس آخری قول کی نسبت کی گئی ہے۔ اللہ نے کافروں کے مذکورہ قول کی تردید میں فرمایا :
Top