Tafseer-e-Mazhari - Al-Hujuraat : 5
وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ صَبَرُوْا : صبر کرتے حَتّٰى : یہاں تک کہ تَخْرُجَ : آپ نکل آتے اِلَيْهِمْ : ان کے پاس لَكَانَ : البتہ ہوگا خَيْرًا : بہتر لَّهُمْ ۭ : ان کے لئے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور اگر وہ صبر کئے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس آتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا۔ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے
ولوانھم صبروا حتی تخرج الیھم لکان خیر الیھم وا اللہ غفور رحیم اور اگر یہ لوگ (ذرا) صبر اور انتظار کرتے کہ آپ خود باہر ان کے پاس آجاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور اللہ غفور ‘ رحیم ہے۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا : رسول اللہ ﷺ سے ان کے ملنے کی ضرورت اور آپ ﷺ سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی حاجت تھی۔ اس لیے عقل کا تقاضا تھا کہ ایسی شخصیت جس کی عظمت مرتبہ اللہ کی طرف سے بےمثال تھی۔ اس کی وہ لوگ تعظیم کرتے اور نفسانی اغراض کے زیر اثر جو کار برآری میں عجلت پسندی کی تھی ‘ اس سے اپنے آپ کو روکے رکھتے اور اس وقت تک اپنے مقصد کو پیش کرنے سے رکے رہتے کہ حضور ﷺ (مقررہ وقت پر قیلولہ کے بعد اٹھ کر) باہر تشریف لے آتے اور خود ہی کلام کا آغاز فرماتے تو یہ فعل ان کے لیے بہتر ہوتا۔ بےادبی نہ ہوتی اور اللہ کے رسول ﷺ : کی تعظیم بھی ہوتی اور پھر اس کا ثواب بھی ملتا اور ان کے عمل کو قابل ستائش قرار دیا جاتا اور کام بھی پورا ہوجاتا۔ مقاتل نے بہتر ہونے کا یہ مطلب بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سب کو بلا معاوضہ رہا کردیتے۔ وَ اللہ ُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ : یعنی اللہ بڑا مہربان ہے۔ اسی لیے اس نے (تم کو سزا نہیں دی بلکہ) صرف نصیحت کردی اور رسول اللہ ﷺ کی تعظیم نہ کرنے والوں اور بےادبی کرنے والوں کو تنبیہ کردی کیونکہ یہ بےادب لوگ جاہل اور بےعقل ہیں۔ محمد بن یوسف صالحی کا بیان ہے کہ بنی تمیم نے زکوٰۃ دینے سے جب انکار کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے ماہ محرم 9 ھ میں ایک فوجی دستہ عیینہ بن حصین کی زیر قیادت ان کی طرف بھیجا۔ محمد بن عمرو کی روایت کے بموجب بنی تمیم کے جو قیدی گرفتار کیے گئے وہ گیارہ عورتیں اور تیس بچے تھے۔ احمد وغیرہ نے عمدہ سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حارث ؓ بن ضرار خزاعی نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور ﷺ نے مجھے اسلام کی دعوت دی۔ میں نے اقرار کرلیا اور اسلام میں داخل ہوگیا۔ حضور ﷺ نے مجھے زکوٰۃ ادا کرنے کی دعوت دی۔ میں نے اس کا بھی اقرار کرلیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں اپنی قوم کے پاس واپس جاؤں گا اور ان کو اسلام اور اداء زکوٰۃ کی دعوت دوں گا جو شخص میری دعوت قبول کرے گا میں اس کی زکوٰۃ جمع کرلوں گا۔ آپ ﷺ میرے پاس فلاں فلاں اوقات میں کسی کو بھیج دیں کہ وہ زکوٰۃ کا مال لا کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کر دے (یہ کہہ کر حارث ؓ چلے گئے اور) زکوٰۃ جمع کرلی۔ جب مقررہ وقت آگیا اور رسول اللہ ﷺ کا قاصد نہیں پہنچ پایا تو حارث ؓ نے خیال کیا کہ میرے معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کی کچھ ناراضگی ہوگئی ‘ اس لیے انہوں نے سرداران قوم کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ کے مال پر قبضہ کرنے کے لیے قاصد بھیجنے کا ایک وقت مقرر فرما دیا تھا اور رسول اللہ ﷺ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قاصد کو روک لینے میں رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی کو کچھ دخل ہے۔ (حضور ﷺ نے ناراضگی کی وجہ سے ہی قاصد کو نہیں بھیجا ہے) اس لیے تم سب چلو۔ ہم رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں (مال لے کر حاضر ہوجائیں) ادھر رسول اللہ ﷺ ولید ؓ بن عقبہ کو حارث ؓ کے پاس بھیج چکے تھے تاکہ زکوٰۃ کا جو مال حارث ؓ نے جمع کیا ہو ‘ اس کو وصول کرلیں۔ ولید ؓ روانہ تو ہوگئے لیکن ڈر کر (راستہ ہی سے) لوٹ آئے اور آکر رسول اللہ ﷺ سے عرض کردیا کہ حارث ؓ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور مجھے قتل کردینا چاہا (اس لئے میں بھاگ آیا) رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کا ایک دستہ حارث ؓ کے پاس بھیجا۔ حارث ؓ اپنے ساتھیوں کو لے کر سامنے سے آتے ہوئے مل گئے۔ اس دستہ کے استقبال کے لیے وہ پہلے سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ حارث ؓ نے دریافت کیا : تم لوگوں کو کس طرف بھیجا گیا ہے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا : تمہارے پاس۔ حارث ؓ نے کہا : کیوں ؟ ان لوگوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے تمہارے پاس ولید ؓ بن عقبہ کو بھیجا تھا۔ انہوں نے جا کر کہا کہ حارث ؓ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور ولیدکو قتل کردینے کا ارادہ کیا۔ حارث ؓ نے کہا : نہیں قسم ہے اس کی جس نے محمد ﷺ کو نبی بنا کر بھیجا ہے۔ میں نے تو ولید کو دیکھا بھی نہیں ‘ نہ وہ میرے پاس آیا۔ غرض حارث ؓ جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے حضور ﷺ نے فرمایا : تم نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا اور میرے قاصد کو قتل کردینا چاہا تھا ؟ حارث ؓ نے کہا : قسم ہے اس کی جس نے آپ ﷺ کو نبی برحق بنایا ہے ‘ ایسا تو (بالکل) نہیں ہوا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :
Top