Tafseer-e-Mazhari - Al-Hujuraat : 4
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُنَادُوْنَكَ : آپ کو پکارتے ہیں مِنْ وَّرَآءِ : باہر سے الْحُجُرٰتِ : حجروں اَكْثَرُهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں
ان الذین ینادونک من وراء الحجرات اکثرھم لا یعقلون . جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ ﷺ کو پکارتے ہیں ‘ بلاشبہ ‘ ان میں اکثر کو عقل نہیں۔ حجرت اور حجرت حجرۃ کی جمع ہے۔ بغوی نے لکھا ہے حجرات حجر کی اور حجر حجرۃ کی جمع ہے۔ حجرۃ زمین کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جس کا دیواروں سے گھیراؤ کردیا گیا ہو (چھت ہو یا نہ ہو) یہ لفظ حَجْر سے ماخوذ ہے اور حجر کا معنی ہے روک۔ الحجرات . سے امہات المؤمنین کے حجرے مراد ہیں۔ من ابتدائیہ ہے یعنی حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اندر تھے۔ اگر واقعات متعدد مانے جائیں تو یہ مطلب ہوگا کہ کبھی ایک حجرہ کے باہر سے اور کبھی دوسرے حجرہ کے باہر سے پکارتے ہیں اور اگر واقعہ ایک ہی مانا جائے تو حجروں کے باہر سے پکارنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر حجرہ پر جا کر باہر سے پکارتے ہیں یا کچھ لوگ ایک حجرہ کے باہر سے اور کچھ لوگ دوسرے حجرہ کے باہر سے (اور کچھ تیسرے حجرہ کے باہر سے) پکارتے ہیں۔ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ : اکثر بےسمجھ ہیں کیونکہ وہ لوگ خانہ بدوش ‘ بدوی تھے یا (مفعول محذوف ہے اور) مطلب یہ ہے کہ ان میں سے اکثر آپ ﷺ کی عظمت اور ادب و تہذیب کو نہیں سمجھتے تھے۔ آیت (یعنی لفظ (اَکْثَرَھُمْ ) سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان میں بعض لوگ دانش مند تھے۔ رسول اللہ ﷺ سے فوراً باہر نکل آنے کی درخواست کو پسند نہیں کرتے تھے۔ بعض کے فعل کی سب کی طرف نسبت مجازی ہے یا نفی سے مراد قلت ہے۔ نفی عمومی کے مقام پر قلت کا اطلاق ہوجاتا ہے۔ ثعلبی نے حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حجروں کے باہر سے رسول اللہ ﷺ کو عیینہ بن حصین اوراقرع بن حابس نے پکارا تھا۔ یہی دونوں ستّر آدمیوں کو ساتھ لے کر دوپہر کے وقت مدینہ میں پہنچے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کسی بی بی کے حجرہ میں سو رہے تھے۔ انہیں دونوں نے پکار کر کہا تھا : محمد ! باہر آؤ۔ ابن جریر نے حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اقرع بن حابس نے کہا تھا : محمد ﷺ ہمارے پاس باہر آؤ۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی تھی۔ عبدالرزاق نے بوساطت معمر ‘ قتادہ کا بیان نقل کیا ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : محمد میں جس کی تعریف کر دوں تو اس کے لیے میری تعریف جمال آفریں ہوجاتی ہے اور کسی کو برا کہہ دوں تو میرا برا کہنا اس کے لیے موجب عیب ہوجاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ایسا تو صرف اللہ ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ روایت اگرچہ مرسل ہے (کسی صحابی کا نام اس روایت میں نہیں ہے) لیکن اس کی شاہد وہ حدیث ہے جو نزول آیت کے متعلق حضرت براء ؓ بن عازب کی روایت سے مرفوعاً آئی ہے۔ ابن جریج نے حسن کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ بغوی نے قتادہ اور جابر کی روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے کہ یہ آیت (یعنی یہ آیت اور اس کے بعد کی عبارت) بنی تمیم کے کچھ خانہ بدوش ‘ بدویوں کے متعلق نازل ہوئی۔ جنہوں نے دروازہ پر (پہنچ کر رسول اللہ ﷺ کو) آوازیں دی تھیں۔ حضرت جابر کی روایت میں ہے کہ دروازہ پر پہنچ کر انہوں نے پکار مچائی : محمد ! باہر نکل کر آؤ۔ ہماری طرف سے (کسی کی) تعریف (اس کے لیے) باعث زینت ہے اور ہماری طرف سے (کسی کی) مذمت موجب عیب ہے۔ آواز سن کر حضور ﷺ یہ کہتے ہوئے باہر تشریف لائے کہ ایسا تو بس اللہ ہے ‘ جس کی طرف سے کسی کی ستائش موجب زینت اور مذمت موجب عیب ہے۔ دیہاتی بولے : ہم اپنے شاعر اور خطیب کو ساتھ لے کر آئے ہیں۔ حضور ﷺ نے ثابت ؓ بن قیس سے فرمایا : اٹھو ! ان کو جواب دو ۔ حضرت ثابت ؓ رسول اللہ ﷺ کے خطیب تھے۔ حسب الحکم آپ نے بنی تمیم کے خطیب کو جواب دیا۔ پھر ان کا شاعر کھڑا ہوا اور اس نے کچھ اشعار پڑھے۔ حضور ﷺ نے حضرت حسان ؓ بن ثابت کو حکم دیا ‘ اٹھو ! ان کو جواب دو ۔ حضرت حسان ؓ نے اٹھ کر جواب دیا۔ یہ بات دیکھ کر اقرع بن حابس (تمیمی) نے کہا : محمد کے پاس تو ہر خیر جمع ہے۔ ہمارا خطیب بولا (تو ان کا خطیب بھی بولا اور ہمارے خطیب پر غالب آیا ‘ پھر ہمارے شاعر نے کچھ اشعار پڑھے تو ان کے شاعر نے جواب دیا) پس (ہمارے شاعر سے) تمہارا شاعر بہتر اور احسن ثابت ہوا۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچا اور بول پڑا : اَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَاَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُہٗ . حضور ﷺ نے فرمایا : اس سے پہلے (تجھ سے) جو جرائم ہوگئے ہیں (وہ سب معاف ہوگئے) ان کا کوئی ضرر تجھے نہیں پہنچے گا (یعنی کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا) اس کے بعد ان سب کو رسول اللہ ﷺ نے (کچھ نقد اور) لباس عطا فرمایا۔ قافلہ میں ایک (بچہ) کمسنی کی وجہ سے رہ گیا تھا جس کا نام عمرو بن اصم تھا۔ (قافلہ کے مال اور جانوروں کی نگرانی کے لیے یہ لوگ اس کو چھوڑ آئے تھے) حضور ﷺ نے اس کو بھی اتنا ہی (حصہ) دیا ‘ جتنا ان لوگوں میں سے ایک ایک کو دیا تھا۔ بعض لوگوں نے اس لڑکے کو (اپنے مقابلہ میں) حقیر قرار دیا (اور پورا حصہ دینے پر اعتراض کیا) اس پر ان کے آپس میں حضور ﷺ کے سامنے شوروغل ہونے لگا۔ اس وقت آیات : (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا ...... غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) تک نازل ہوئیں۔ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (قبیلہ) بنی العنبرہ کی طرف ایک جہادی دستہ عیینہ بن حصین فزاری ؓ کے زیر کمانڈ روانہ کیا۔ جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ عیینہ کا رخ ہماری طرف ہے تو وہ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ عیینہ نے ان کے اہل و عیال کو قید کرلیا اور لا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ کچھ وقفہ کے بعد ان کے مرد اپنے بچوں کو زر فدیہ ادا کر کے رہا کرانے کے لیے آگئے ‘ جس وقت وہ آئے تھے دوپہر کا وقت تھا۔ رسول اللہ ﷺ کسی بی بی کے حجرہ میں قیلولہ فرما رہے تھے۔ ان کے بچوں نے جب اپنے باپوں کو دیکھا تو بےتاب ہو کر رونے لگے۔ رسول اللہ ﷺ کی ہر بی بی کا ایک مخصوص حجرہ تھا۔ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے برآمد ہونے سے پہلے ہی جلدی میں پکارنے لگے : محمد ! باہر آئیے۔ غرض (شور مچا کر) حضور ﷺ کو بیدار کردیا۔ آپ ﷺ باہر تشریف لے آئے۔ ان لوگوں نے کہا : محمد ﷺ ! فدیہ لے کر ہمارے اہل و عیال کو رہا کر دو ۔ اس وقت جبرئیل ( علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا : اللہ آپ ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ اپنے اور ان لوگوں کے درمیان کسی تیسرے شخص کو (بطور پنچ) مقرر کر دو ۔ رسول اللہ ﷺ نے وحی پانے کے بعد فرمایا : سبرہ بن عمرو تمہارا ہم مذہب ہے۔ کیا تم لوگ اس کو میرے اور اپنے درمیان ثالث بنانا پسند کرو گے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا : جی ہاں۔ سبرہ نے کہا : جب تک میرا چچا اعور بن بشامہ یہاں موجود نہ ہوگا میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا (یعنی اعور سے فیصلہ کراؤں گا ‘ خود کوئی فیصلہ نہیں کروں گا) لوگ راضی ہوگئے۔ اعور نے فیصلہ دیا کہ ان کے آدھے اہل و عیال کو بغیر معاوضہ کے آزاد کیا جائے اور باقی نصف کو فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں اس پر راضی ہوں۔ چناچہ نصف کو بلا معاوضہ اور نصف کو فدیہ لے کر رہا کردیا اور اللہ نے آیت : (اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُھُمُ لَا یَعْقِلُوْنَ ) نازل فرما دی۔
Top