Tafseer-e-Mazhari - Al-Qalam : 42
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَۙ
يَوْمَ يُكْشَفُ : جس دن کھول دیاجائے گا عَنْ سَاقٍ : پنڈلی سے وَّيُدْعَوْنَ : اور وہ بلائے جائیں گے اِلَى السُّجُوْدِ : طرف سجدوں کے فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : تو وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں گے
جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائے گا اور کفار سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے
یوم یکشف عن ساق . ظرف (زمان) کا تعلق اذکر محذوف سے ہے (یعنی اس روز کو یاد کرو) جب پنڈلی کھولی جائے گی۔ پنڈلی کے کشف سے مراد ہے میدان حشر میں نور الٰہی کی ایک مخصوص پرتو اندازی۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں بروایت حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کیا گیا ہے کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہاں ! دوپہر کے وقت جب کہ ابر بھی نہ ہو کیا تم کو سورج کے دیکھنے میں کچھ اشتباہ ہوتا ہے یا چودہویں تاریخ کو جب ابر نہ ہو تم کو چاند دیکھنے میں کوئی رکاوٹ ہوتی ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا : نہیں ! اے رسول خدا۔ ارشاد فرمایا : جیسے تم کو سورج اور چاند کو دیکھنے میں اشتباہ نہیں ہوتا ہے ‘ اسی طرح قیامت کے دن اللہ کو دیکھنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔ قیامت کا دن ہوگا تو ایک اعلانچی اعلان کرے گا کہ ہر گر وہ اپنے اپنے معبود کے پیچھے چلا جائے ‘ حکم ہوتے ہی مورتیوں اور استہانوں کی پوجا کرنے والے دوزخ میں گرنے لگیں گے۔ کوئی بغیر گرے نہ رہے گا (جب اللہ کی عبادت کرنے والوں کے سوا) کوئی باقی نہ رہے گا تو یہودیوں کو بلایا جائے گا اور دریافت کیا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کرتے تھے ؟ وہ کہیں گے : اللہ کے بیٹے عزیر کی۔ ارشاد ہوگا : تم جھوٹے ہو ‘ اللہ نے تو اپنے لیے نہ بیوی بنائی ‘ نہ اولاد پھر فرمان ہوگا : کیا چاہتے ہو ؟ وہ عرض کریں گے : پروردگار ! ہم پیاسے ہیں ‘ ہم کو پانی پلا۔ ارشاد ہوگا : کیا تم کو نظر نہیں آتا۔ جہنم اس وقت سراب کی طرح پانی (کا دھوکہ) ہوگا۔ سب کو ہنکا کر جہنم کی طرف لے جایا جائیگا (حقیقت میں جہنم کی آگ اتنی تیز ہوگی کہ اس کا) ایک حصہ دوسرے کو کھا رہا ہوگا ‘ سب جا کر اس میں گرپڑیں گے پھر عیسائیوں کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا : کس کی عبادت کرتے تھے ؟ عرض کریں گے : اللہ کے بیٹے مسیح کی۔ ارشاد ہوگا جھوٹے ہو۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے وہی بیان فرمایا جو یہودیوں کے متعلق فرمایا تھا۔ حاکم نے بروایت حضرت ابن مسعود بیان کیا ہے اور اس کی تصحیح دارقطنی وغیرہ نے بھی کی ہے کہ اللہ کے سوا جو کوئی جس کی پوجا کرتا تھا خواہ سورج ہو یا چاند یا مورتیاں اس کے معبودوں کو مجسم بنا کر اس کے سامنے لایا جائے گا جو عزیر کے پرستار تھے۔ ان کے سامنے عزیر کے شیطان کو (بصورت عزیر) اور جو مسیح کے پرستار تھے ‘ ان کے سامنے مسیح کے شیطان کو (بشکل مسیح) میں لایا جائے گا اور سب لوگ اپنے اپنے معبودوں کے ساتھ جہنم میں چلے جائیں گے۔ طبرانی ‘ ابو یعلی ‘ بیہقی وغیرہ نے بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کیا ہے کہ کسی فرشتہ کو عزیر کی شکل پر اور کسی فرشتہ کو مسیح کی شکل پر کردیا جائے گا۔ ایک کے پیچھے یہودی ہوجائیں گے اور دو سرے کے پیچھے عیسائی۔ پھر یہ معبود دوزخ کی طرف ان کی قیادت کریں گے۔ آیت : لو کان ھؤلاء الھۃ ما وردھا و کل فیھا خالدون کا یہی مطلب ہے۔ اب ہم صحیحین کی روایت (جو حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے) کی طرف لوٹتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : غرض جب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے سوا کوئی باقی نہیں رہے گا جن میں نیک بھی ہوں گے اور بد بھی تو ربّ العالمین ان کے پاس تشریف فرما ہوگا اور ارشاد فرمائے گا : ہر امت اپنے اپنے معبود کے پیچھے جا رہی ہے تم کیا دیکھ رہے ہو ؟ وہ عرض کریں گے : پروردگار ! جب دنیا میں ہم کو ان کی بہت زیادہ حاجت تھی اس وقت بھی ان سے الگ رہے ‘ ان کے ساتھی نہ ہوئے (اب بھی ان سے الگ ہیں) اللہ فرمائے گا : میں تمہارا رب ہوں ‘ وہ جواب دیں گے : نعوذ باللہ ہم کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں قرار دیتے۔ یہ الفاظ دو یا تین بار کہیں گے یہاں تک کہ بعض لوگ پلٹ جانے والے ہی ہوں گے کہ اللہ فرمائے گا : کیا کوئی نشانی ہے جس سے تم اپنے رب کو پہچان لو ؟ وہ عرض کریں گے : جی ہاں ! اس وقت اللہ پنڈلی کھولے گا تو جو شخص خلوص دل سے (دنیا میں) سجدہ کرتا تھا اس کو سجدہ کرنے کی اجازت ملے گی اور جو شخص نفاق کے ساتھ یا دکھاوٹ کے لیے سجدہ کرتا تھا اس کی پشت کو اللہ تختہ سا کر دے گا وہ سجدہ کرنا چاہے گا تو پشت کے بل گرپڑے گا۔ اس کے بعد جہنم پر پل لگایا جائے گا۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! حسبر (پل) کیا ہوگا ؟ فرمایا : پھسلوان دلدل ‘ جس پر آنکڑے ‘ لوہے کے کانٹے اور نجد میں پیدا ہونے والی خاردار گھاس یعنی سعدان کی طرح خمیدہ خار ہوں گے۔ اس وقت شفاعت کی اجازت ہوجائے گی اور انبیاء کہیں گے الٰہی بچا ‘ اہل ایمان حسبر کے اوپر سے نگاہ اور ہوا اور پرندوں اور تیز گھوڑوں اور اونٹوں کی طرح (مختلف مراتب کے لحاظ سے) گزر جائیں گے کچھ صحیح سالم بچ جائیں گے ‘ کچھ خراش اور کہر ونچ پا کر ‘ کچھ جہنم کی آگ میں گرپڑیں گے جب اہل ایمان دوزخ سے بچ جائیں گے تو قسم ہے اس کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے وہ اپنے دوزخی بھائیوں کے لیے اللہ سے اتنا جھگڑا کریں گے کہ تم میں سے کوئی اپنے واضح حق کے لیے اس سے زیادہ نہیں جھگڑتا۔ عرض کریں گے : پروردگار ! وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے۔ نمازیں پڑھتے تھے ‘ حج کرتے تھے۔ ارشاد ہوگا : شناخت کر کے ان کو نکال لو چونکہ ان کے چہرے دوزخ سے محفوظ ہونگے اس لیے (شناخت کر کے) بہت لوگوں کو دوزخ سے نکال لیں گے۔ پھر عرض کریں گے : پروردگار ! جن لوگوں کے متعلق تو نے اجازت دی تھی ان میں سے سے دوزخ کے اندر کوئی باقی نہیں رہا ‘ ارشاد ہوگا ‘ لوٹ کر جاؤ اور جس کے دل میں دنیا کی برابر خیر (ایمان اور نیک عمل کی نشانی) پاؤ ‘ اس کو نکال لو۔ یہ مؤمن بہتیرے آدمیوں کو نکال لینگے۔ اللہ فرمائے گا پھر لوٹو اور جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ اس کو نکال لو اس پر بہت لوگوں کو مؤمن نکال لینگے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیگا پھر لوٹو اور جس کے دل میں چیونٹی کے برابر خیر پاؤ اس کو بھی نکال لو۔ حسب الحکم بہت مخلوق کو نکال لیں گے اور عرض کریں گے : پروردگار دوزخ کے اندر اب اہم کو خیر نہیں ملتی۔ اللہ فرمائے گا : ملائکہ شفاعت کرچکے۔ اہل ایمان نے بھی شفاعت کرلی ‘ اب سوائے ارحم الراحمین کے کوئی نہیں رہا۔ چناچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ خود مٹھی بھر کر ان لوگوں کو دوزخ سے نکالے گا ‘ جنہوں نے کبھی نیکی نہ کی ہوگی اور (جل کر) کوئلہ بن گئے ہوں گے۔ جنت کے ایک دروازہ پر ایک دریا ہے جس کو زندگی کا دریا کہا جاتا ہے۔ اس نہر حیات میں ان کو ڈال دے گا ‘ نہر حیات سے وہ ایسے (تروتازہ) ہو کر نکلیں گے جیسے دانہ سیلاب کی کیچڑ میں سے (پھوٹ کر) نکلتا ہے گویا وہ موتی ہوں گے مگر ان کی گردنوں پر مہریں لگی ہوں گی۔ اہل جنت کہیں گے یہ ہیں رحمن کے آزاد کردہ جن کو بغیر کسی عمل اور سابق نیکی کے اللہ نے جنت میں داخل فرمایا ہے۔ حکم ہوگا جو کچھ تم کو نظر آئے وہ سب تمہارا ہے اور اتنا ہی اور بھی۔ کشف ساق کا ذکر حاکم وغیرہ کی نقل کردہ اس حدیث میں بھی آیا ہے جو ابن مسعود سے مروی ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں جو حدیث ابوہریرہ ؓ کی روایت سے آئی ہے اس میں یہ لفظ ہیں کہ انکے پاس اللہ ایسی شکل میں تشریف فرما ہوگا جس کو وہ پہچانتے نہ ہوں گے۔ لالکائی نے کتاب السنۃ میں اور آجری نے کتاب الرویتہ میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے ‘ قیامت کا دن ہوگا تو ہر قوم کے سامنے اس کا دنیوی معبود مجسم کر کے لایا جائے گا اور ہر قوم اپنے معبود کی طرف چلی جائے گی صرف اہل توحید رہ جائیں گے ‘ ان سے کہا جائے گا اور لوگ جا چکے (تم بھی جاؤ) وہ عرض کریں گے ہم جس رب کی دنیا میں عبادت کرتے تھے وہ نظر نہیں آتا (کس کے پاس جائیں) اللہ فرمائے گا : کیا تم اس کو دیکھ کر پہچان لو گے ؟ عرض کریں گے : (یہی اس کی شناخت ہے کہ) اس کی کوئی شکل نہیں۔ اللہ ان کے لیے حجاب کھول دے گا اور وہ دیکھ کر سجدہ میں گرپڑیں گے لیکن کچھ لوگ (کھڑے) رہ جائیں گے جن کی پشت کے مہرے بیل کی پشت کے مہروں کی طرح ہوجائیں گے (جھک نہ سکیں گے) وہ سجدہ کرنا چاہیں گے مگر کر نہ سکیں گے۔ اس کے بعد اللہ فرمائے گا سروں کو اٹھاؤ میں نے تم میں سے ہر شخص کے عوض (دوزخ کے اندر) یہودیوں اور عیسائیوں میں سے ایک شخص کو کردیا (یعنی اگر تم مؤمن نہ ہوتے تو اس جگہ جاتے جہاں یہودی اور عیسائی داخل ہیں) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی تجلیاں مختلف اقسام کی ہیں۔ ایک صورت کی پر تو اندازیاں ہیں جو عالم مثال میں ہوتی ہیں۔ حقیقت میں دیدارِ الٰہی نہیں ہوتا ‘ جیسے رسول اللہ ﷺ نے خواب میں اپنے رب کو امرد نوجوان کی شکل میں دیکھا تھا ‘ جس کے بال گھونگھریالے تھے اور پاؤں میں سنہری جوتیاں تھیں۔ اسی تجلی کو میدان حشر میں دیکھ کر کہنے والے کہیں گے : نعوذ باللہ ! ہم اپنے رب کا کسی کو ساجھی نہیں مانتے۔ دوسری تجلی میدان حشر میں بغیر کسی شکل اور صورت کے ہوگی لیکن اس میں کسی قدر پرچھائیں کی آمیزش ہوگی ‘ شاید کشف ساق سے تجلی ہی مراد ہے جس کو اچھے برے ‘ مؤمن بلا ابر ‘ مہر نیمروز اور چودہویں کے چاند کی طرح دیکھیں گے اور کافروں کو یہ تجلی نصیب نہ ہوگی ‘ اللہ نے فرمایا ہے : کَلاَّ اِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَءِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ۔ حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب اللہ کی عبادت کرنے والے نیک اور بد لوگوں کے سوا کوئی باقی نہیں رہے گا تو رب العالمین تشریف فرما ہو کر کشف ساق کریگا۔ ید (ہاتھ) اور وجہ (چہرہ) کی طرح لفظ ساق بھی متشابہات میں سے ہے ‘ جس کی حقیقی مراد سے سوائے اللہ کے کوئی واقف نہیں۔ پختہ علماء تو یہی کہتے ہیں کہ ہم حقیقت کو جانے بغیر اس کو مانتے ہیں۔ تیسری تجلی جنت میں ہوگی۔ اس میں پرچھائیں کی آمیزش بھی نہیں ہوگی (لفظ زیادۃ سے) اس آیت میں اسی کو بیان کیا گیا ہے۔ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَۃٌ۔ و یدعون الی السجود . یعنی نیک اور بد اہل ایمان کو سجدہ کی دعوت دی جائے گی لیکن یہ سجدہ تکلیفی نہ ہوگا آخرت دار تکلیف نہیں ہے بلکہ طبعی دعوت ہوگی۔ جب عظمت و جلال کے پردے اٹھ جائیں گے اور کوئی مانع نہ رہے تو حقیقت ممکن کا تقاضا ہے کہ واجب کے سامنے سربسجود ہوجائے۔ فلا یستطیعون . یعنی نافرمان (ریا کار) سجدہ نہ کرسکیں گے کیونکہ گناہوں کے بوجھ سے ان کی پشت ایک بےجوڑ تختہ بن چکی ہوگی۔ لا یستطیعون کی ضمیر فاعل کل اہل دعوت کی طرف راجع نہیں ہے بلکہ بعض کی طرف لوٹتی ہے (یعنی ریا کار ‘ نافرمان مؤمن) جیسے والمطلقات یتربصن بانفسھن کے بعد ویعولتھن احق بردھن میں (اُن) بعض مطلقات کی طرف ھُنَّ کی ضمیر راجع ہے (جن کی عدت کامل نہ ہوگئی ہو) احادیث مذکورہ اسی پر دلالت کر رہی ہے۔ پس لا یستطیعون سے مراد وہ اہل ایمان ہیں جو نماز بالکل نہیں پڑھتے تھے یا جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے تھے اور پڑھتے بھی تھے تو تقیہ کے طور پر جیسے رافضی وغیرہ بدعتی پڑھتے ہیں یا دکھاوٹ کے لیے پڑھتے تھے ‘ ان کے عمل میں خلوص نہ تھا۔ ایک سوال حضرت ابوہریرہ ؓ وغیرہ کی روایت بعض طریقوں سے ثابت ہے کہ جب مؤمنوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہے گا اور مؤمنوں میں منافق بھی ہوں گے تو اللہ ان پر تشریف فرما ہوگا۔ اس حدیث کے آخر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ پنڈلی کھول دے گا اور تجلی فرمائے گا اور اس کی عظمت سے لوگ پہچانیں گے کہ وہ ان کا رب ہے تو منہ کے بل سجدہ میں گرپڑیں گے مگر ہر ایک منافق پشت کے بل گرے گا اور اللہ منافقوں کی پشت کو بیل کے کریوں کی طرح بنا دے گا۔ جواب بظاہر منافق سے مراد وہ شخص ہے جو اعمال اور فرعی عقائد کے لحاظ سے منافق ہو (یعنی جس کے اعمال کافرانہ ہوں اور اصل عقیدہ مؤمنانہ) اصول اعتقاد کے لحاظ سے منافق مراد نہیں ہے (یعنی جس کا اصل عقیدہ صحیح نہ ہو اور دکھاوٹ کے لیے اعمال مؤمنانہ ہوں) کیونکہ اصل اعتقاد کے لحاظ سے منافق تو بلاشبہ کافر ہیں اور دوزخ کے نچلے طبقہ میں ان کا مقام ہے اور جلوۂِ رب سے وہ محجوب ہوں گے۔ دیدارِ الٰہی کا شرف ان کو کس طرح حاصل ہوسکتا ہے۔ احادیث میں گنہگاروں پر بھی لفظ منافق کا اطلاق کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے جس شخص میں چار باتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں ایک بات ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت رہے گی جب تک اس کو ترک نہ کر دے (چار باتیں یہ ہیں): 1) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ‘ 2) بات کرے تو جھوٹ بولے ‘ 3) کوئی معاہدہ کرے تو عہد شکنی کرے ‘ 4) اور جھگڑے کے وقت بیہودہ بکے۔ (بخاری ‘ مسلم ‘ بروایت عبداللہ بن عمر ؓ لیکن مسلم نے بروایت ابوہریرہ ؓ بیان کیا ہے کہ تین خصلتیں ہیں اس حدیث کے آخر میں ہے کہ خو اہ روزہ رکھتا ہو ‘ نماز پڑھتا ہو ‘ اور مسلمانی کا دعویٰ کرتا ہو اس روایت میں گزشتہ روایت کا آخری حصہ یعنی چوتھی خصلت مذکور نہیں ہے۔
Top