Tafseer-e-Mazhari - An-Naba : 21
اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا۪ۙ
اِنَّ جَهَنَّمَ : بیشک جہنم كَانَتْ : ہے مِرْصَادًا : ایک گھات
بےشک دوزخ گھات میں ہے
ان جھنم کانت مرصادا للطغین . رَصَد : گھات لگانے کی تیاری اور گھات کا مقام۔ مطلب یہ ہے کہ جہنم کے پُل پر عذاب اور رحمت کے فرشتے گزرنے والوں کی تاک میں لگے رہیں گے۔ عذاب کے فرشتے تو کافروں کی گھات میں رہیں گے کہ ان کو پکڑ کر دوزخ میں پھینک دیں اور عذاب دیں اور رحمت کے فرشتے ایمان والوں کی تاک میں ہوں گے کہ پل صراط سے گزرتے وقت مؤمنوں کو جہنم کی لپٹ اور پل پر (دو طرفہ) لگے ہوئے آنکڑوں سے محفوظ رکھیں۔ اس تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم سب لوگوں کی گزرگاہ ہوگی۔ تمام آدمی اس پر سے گزریں گے جیسا کہ آیت : وَاِنْ مِّنْکُمْ الاَّ وَرِادُھَا میں آیا ہے اس صورت میں مرصاد کا معنی ہوگا گھات کا راستہ یا مرصاد کا مفہوم التزامی ہوگا۔ راستہ ‘ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرصاد سے مراد ہے کافروں کے لیے تیار کیا ہوا۔ ارصدت الشئی میں نے وہ چیز تیار کی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مرصاد مبالغہ کا صیغہ ہو ‘ یعنی کافروں کو تاکنے اور ان کی گھات لگانے میں بڑی کوشش کرنے والا تاکہ کوئی کافر بچ کر نکل نہ جائے۔ بیہقی نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے ‘ صراط تلوار کی دھار کی طرح بہت تیز (اور باریک) ہوگی اور ملائکہ ایماندار مردوں اور عورتوں کی حفاظت کرتے ہونگے۔ جبرئیل میری کمر پکڑے ہوں گے اور میں کہتا ہوں گا : الٰہی بچا ! الٰہی بچا اور پھل کر گرنے والے اور گرنے والیاں بہت ہوں گے۔ ابن مبارک ‘ بیہقی اور ابن ابی الدنیا نے حضرت عبید ؓ بن عمیر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہنم پر صراط تلوار کی دھار کی طرح ہوگی ‘ اس کے دو طرفہ آنکڑے اور کانٹے ہوں گے (آنکڑوں کے ذریعہ سے) لوگوں کو اچک لیا جائے گا۔ ............ 1 ؂ ابن عساکر کی روایت کردہ حدیث میں بعض فرقوں کے نام آئے ہیں ‘ ہم ان کی مجمل خصوصیات بیان کرتے ہیں : اوّل قدریہ : یہ گروہ اپنے اعمال کا خالق خود انسان کو کہتا ہے۔ خدا کو خالق اعمال نہیں جانتا۔ دوسرا مرجیہ : یہ گروہ قائل ہے کہ اگر ایمان صحیح ہے تو پھر اعمال کی بدی ضرر رساں نہ ہوگی ‘ تمام ممنوعات تصدیق قلبی کی موجودگی میں معاف ہیں ‘ گویا اس کے نزدیک اعمال کی کوئی اہمیت نہیں ‘ بنیادی عقیدہ کی درستگی ضروری ہے۔ حروریہ : خارجیوں کا ایک گروہ تھا مقام حرورا میں جنہوں نے لشکر کشی کی تھی ‘ اس گروہ کے نزدیک اعمال ایمان کے اجزاء تقویمی ہیں ‘ صغیرہ گناہ کرنے کے بعد بھی آدمی کافر ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ حضرت علی ‘ حضرت عثمان غنی اور حضرت امیر معاویہ ؓ کو کافر کہتے ہیں اور ان حضرات پر طرح طرح کی تہمتیں لگاتے ہیں۔ رافضیہ گروہ کا مسلک خارجیہ کے خلاف ہے۔ ان کے نزدیک صدیق اکبر ؓ اور فاروق اعظم بلکہ چند صحابہ کو چھوڑ کر تمام صحابہ ایماندار نہ تھے۔ خلافت جو حضرت علی ؓ کا حق تھا ‘ انہوں نے غصب کرلیا تھا۔ جماع حجت نہیں خلافت اور امامت خداداد ہے۔ نص خدا یا نص پیغمبر یا نص امام پر اس کا مدار ہے۔ جس طرح نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح امامت کی تصدیق بھی ضروری ہے ‘ وغیرہ۔ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (صرف ایک) آنکڑے سے قبائل مضروربیعہ سے بھی زیادہ لوگ پکڑ لیے جائیں گے اور ملائکہ اس کے کنارہ پر کھڑے کہتے ہوں گے : الٰہی بچا ! الٰہی بچا۔ (بیہقی نے عبید بن عمیر ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ صراط تلوار کی دھار کی طرح (باریک اور تیز) ہوگی اور پھسلواں ‘ لغزش گاہ ہوگی۔ ملائکہ اور انبیاء کھڑے کہہ رہے ہوں گے : الٰہی بچا ‘ الٰہی بچا اور (کچھ) فرشتے (کافروں کو) آنکڑوں سے پکڑ رہے ہوں گے۔ بیہقی نے بروایت مقسم حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ جہنم کے پل پر سات جگہ لوگوں کو روکا جائیگا۔ پہلی جگہ بندہ سے لا اِلٰہ الاّ اللہ کی شہادت پوچھی جائے گی ‘ اگر اس نے شہادت پوری دی ہوگی تو دوسرے مقام تک گزر جائے گا وہاں اس سے نماز کی بازپرس ہوگی اگر اس نے نماز بھی ٹھیک ادا کی ہوگی تو تیسرے مقام تک گزر جائے گا وہاں زکوٰۃ کی پرسش ہوگی ‘ اگر زکوٰۃ بھی پوری دی ہوگی تو چوتھے مقام تک گزر جائے گا ‘ وہاں روزہ کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی ‘ اگر روزے ٹھیک ادا کیے ہوں گے تو پانچویں مقام تک چلا جائے گا۔ وہاں حج کے متعلق سوال کیا جائے اور اگر ٹھیک طور پر حج ادا کیا ہوگا تو چھٹے مقام تک چلا جائے گا ‘ وہاں عمرہ پوچھا جائے گا اگر یہ بھی کرچکا ہوگا تو ساتویں مقام تک پہنچ جائے گا۔ وہاں بندوں کے حقوق کے متعلق دریافت کیا جائے گا۔ اگر اس مقام سے بھی نکل گیا تو خیر ‘ ورنہ کہا جائے گا ‘ دیکھو اس کے پاس کچھ نوافل ہیں ؟ نوافل سے اس کے (فرض) اعمال کو پورا کردیا جائے گا اور سب امور سے فارغ ہوجائے گا تو اس کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔
Top