Fahm-ul-Quran - Al-Baqara : 175
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ لَمْ يَكُ : نہیں ہے مُغَيِّرًا : بدلنے والا نِّعْمَةً : کوئی نعمت اَنْعَمَهَا : اسے دی عَلٰي قَوْمٍ : کسی قوم کو حَتّٰي : جب تک يُغَيِّرُوْا : وہ بدلیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یہ اس لیے کہ جو نعمت خدا کسی قوم کو دیا کرتا ہے جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدل ڈالیں خدا اسے نہیں بدلا کرتا۔ اور اس لیے کہ خدا سنتا جانتا ہے
ذلک بان اللہ لم یک مغیرًا نعمۃً انعمھا علی قوم حتی یغیروا ما بانفسھم وان اللہ سمیع علیم۔ یہ بات اس سبب سے ہے کہ اللہ کسی ایسی نعمت کو جو کسی قوم کو عطا فرمائی ہو ‘ نہیں بدلتا جب تک وہی لوگ اپنے ذاتی اعمال کو نہیں بدل ڈالتے اور اس سبب سے بھی ہے کہ اللہ بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے۔ ذٰلِکَیعنی یہ عذاب جو ان پر نازل ہوا (یہ ظلم نہیں ہے بلکہ) بِاَنَّ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عطا فرماتا ہے ‘ اس کو دکھ اور عذاب سے اس وقت تک نہیں بدلا کرتا جب تک وہ اپنی اچھی حالت کو بری حالت سے خود تبدیل نہ کرلیں (اور مستحق عذاب نہ ہوجائیں) مثلاً اہل مکہ کو اللہ نے رزق ‘ عزت اور امن سے سرفراز کیا اور اصحاب فیل کے لشکر کو تباہ کیا تو اللہ نے بدر کے دن قید و قتل کی مصیبت میں اس وقت تک ان کو گرفتار نہیں کیا جب تک کہ انہوں نے دین اسماعیل ‘ ملت ابراہیم ‘ اقرباء سے حسن سلوک ‘ کعبہ کی خدمت ‘ مہمان نوازی اور حاجیوں کو پانی پلانے اور دوسرے اچھے کاموں کو چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی دشمنی نہ اختیار کرلی اور مسجد حرام سے ان کو روک نہ دیا اور قربانی کے جانوروں کی حرم میں داخلہ کی ممانعت نہ کردی اور اہل توحید کا خون بہانے کے درپے نہیں ہوگئے اور آیات کی تکذیب اور استہزاء قرآن کو اختیار نہ کرلیا۔ اہل تاریخ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دادا (عبدالمطلب بن ہاشم) کے دادا کا نام عبدمناف تھا اور عبدمناف (بنی قصی) کے دادا کا نام کلاب (بن مرہ بن کعب بن لوی) تھا۔ کلاب سے پہلے اس کے تمام آباؤ اجداد نسلاً بعد نسل دین اسماعیل پر تھے ‘ ہر بیٹے کو اپنے با پ سے ریاست قوم ملتی تھی اور دین اسماعیل پر قائم رہنے کی وصیت بھی۔ اولاد اسماعیل میں دین ابراہیم کی تبدیل اور بت پرستی کی ایجاد قصی بن کلاب کے زمانہ میں ہوئی۔ کعب بن لوی نے عرب کو مجتمع کیا تھا ‘ تمام قریش اس کے پاس جمع ہوتے تھے۔ قصی ان کو خطاب کرتا اور رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی اطلاع دیتا اور بتاتا تھا کہ وہ میری نسل میں سے ہوں گے ‘ تم لوگ ان کا اتباع کرنا اور ان پر ایمان لانا۔ پھر چند اشعار پڑھتا جن میں سے ایک شعر کا مضمون یہ تھا : کاش ! میں ان کی دعوت کے وقت موجود ہوتا جب قریش حق سے سرکشی کریں گے اور مدد نہ کریں گے۔ قصی ‘ منیٰ اور عرفات کے زمانہ میں حاجیوں کو بہت زیادہ کھانا کھلاتا تھا ‘ اس کو رفادہ کہا جاتا ہے۔ چمڑے کے بڑے بڑے ٹینک اس نے بنوائے تھے جن میں پانی بھر کر مکہ اور منیٰ اور عرفات میں حاجیوں کو پلاتا تھا ‘ اس کو سقایہ کہا جاتا ہے۔ قصی کے حکم سے عہد جاہلیت میں حاجیوں کو کھانا کھلانے اور پانی پلانے کی رسم جاری تھی یہاں تک کہ اسلام آگیا اور اسلام نے بھی اس رسم کو قائم رکھا۔ قصی نے ایک دستور یہ ایجاد کیا تھا کہ مزدلفہ میں رات کو آگ جلاتا تھا تاکہ عرفہ سے روانہ ہونے والے آگ کو دیکھ لیں اور راستہ نہ بھٹک جائیں۔ آگ روشن کرنے کا یہ دستور برابر اسلام میں بھی جاری رہا۔ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے زمانہ میں یہ سلسلہ قائم رہا اور مزدلفہ میں آگ روشن کی جاتی رہی۔ عمرو بن لحی خزاعی پہلا شخص ہوا جس نے دین اسماعیل کو بگاڑا ‘ بت پرستی کی اور سانڈ چھوڑنے کی رسم نکالی۔۔ سدی نے کہا : نِعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمِ میں نعمت سے مراد رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک ہے۔ اللہ نے یہ نعمت قریش اور مکہ والوں کو عنایت کی تھی مگر انہوں نے تکذیب کی اور انکار کردیا تو اللہ نے یہ نعمت انصار کو منتقل کردی۔ بعض علماء کا قول ہے کہ آیت کا یہ مطلب نہیں کہ آل فرعون اور مکہ والوں کی مذہبی حالت پہلے پسندیدہ تھی ‘ پھر انہوں نے اس کو بگاڑ لیاکیون کہ یہ لوگ اچھی حالت پر کبھی نہ تھے ‘ بلکہ مراد یہ ہے کہ بری حالت پر تو پہلے ہی تھے ‘ پھر انہوں نے بدترین حالت اختیار کرلی۔ بعثت سے پہلے بت پرست تھے ‘ پھر بعثت کے بعد پیغمبر برحق ﷺ کو جھوٹا قرار دیا ‘ آپ کے قتل کے درپے ہوگئے اور لوگوں کو راہ خدا سے روکنے لگے۔ اللہ نے ان پر اتنا کرم کیا تھا کہ (باوجود بت پرستی اور فسق و فجور کے) ان کو ڈھیل دے رکھی تھی (عذاب میں نہیں پکڑا تھا) لیکن جب انہوں نے اپنی حالت کو مزید بگاڑ لیا تو اللہ نے دنیا میں ہی فوراً ان پر عذاب نازل کردیا۔ بظاہر کلام کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ عذاب میں مبتلا کرنے کا سبب یہ ہے کہ جب تک وہ لوگ جن کو اللہ نے اپنی نعمت سے سرفراز کیا ‘ خود اپنی حالت بگاڑ نہ لیں ‘ اللہ اپنی نعمت کو نہیں بدلتا اور عذاب نازل نہیں کرتا (مگر یہ مطلب غلط ہے کیونکہ ڈھیل دینے اور عذاب میں مبتلا نہ کرنے کی تو یہ وجہ ہوسکتی ہے جو آیت میں ذکر کی گئی ہے ‘ عذاب میں مبتلا کرنے کی یہ وجہ نہیں ہوسکتی ‘ اسلئے ظاہری مدلول الفاظ مراد نہیں بلکہ) حقیقت میں مطلب یہ ہے اور مفہوم بھی یہی ہے کہ جب لوگ اپنی حالت بگاڑ لیتے ہیں تو اللہ کا دستور ہے کہ وہ اپنی نعمت چھین لیتا ہے اور عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌاور عذاب میں مبتلا کرنے کا سبب یہ بھی ہے کہ اللہ ان کے کلام کو خوب سنتا اور ان کی حرکتوں کو خوب جانتا ہے (اور چونکہ ان کے اقوال واطوار ان کو مستحق عذاب بنا دیتے ہیں ‘ اسلئے اللہ عذاب میں مبتلا کردیتا ہے) ۔
Top