Mazhar-ul-Quran - Ar-Ra'd : 9
عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ
عٰلِمُ الْغَيْبِ : جاننے والا ہر غیب وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر الْكَبِيْرُ : سب سے بڑا الْمُتَعَالِ : بلند مرتبہ
وہ ہر چھپی اور کھلی باتوں کا جاننے والا بزرگ بلند مرتبہ ہے۔ (اس کے نزدیک) برابر ہے
حشر کا نمونہ، ایک گنہگار شخص کی وصیت کہ مرنے کے بعد خاک رواں دواں کردینا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے اور بڑا عالی مرتبہ ہے کوئی اس کی مثل نہیں۔ منکرین حشر یہ جو کہتے تھے کہ مرنے کے بعد ان کی خاک رواں دواں ہوجاوے گی، پھر وہ خاک کیونکر جمع ہوگی اور اس کا پتلا کیونکر بنے گا۔ آیت کے اس ٹکڑے میں ان لوگوں کو یہ تنبیہ فرمائی ہے وہ خاک رواں دواں ہوکر انسان کے علم سے باہر ہوجاتی ہے، مگر اللہ کے علم سے باہر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے وقت مقررہ پر وہ خاک جمع کی جاوے گی اور اس کا پتلا بنے گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ ایک گنہگار شخص نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے اپنی اولاد کو یہ وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر خاک کردیا جاوے اور وہ خاک کچھ ہوا میں اڑا دی جائے اور کچھ دریا میں بہا دی جائے۔ اس شخص کے مرنے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر خاک کردیا جاوے اور وہ خاک کچھ ہوا میں اڑا دی جائے اور کچھ دریا میں بہا دی جاوے۔ اس شخص کے مرنے کے بعد اس کی وصیت کے موافق عمل کیا اللہ تعالیٰ نے جنگل اور دریا کو اس خاک کے حاضر کرنے کا حکم دیا اور فوراً وہ خاک حاضر ہوگئی۔ اور اللہ کے حکم سے اسکا پتلا بنا اور اس پتلے میں روح پھونکی گئی۔ اس سے پوچھا گیا کہ وہ وصیت تو نے کس نیت سے کی تھی۔ اس نے جواب دیا : یا اللہ ! کوئی چیز تیرے علم سے باہر نہیں ہے میں نے جو کچھ کیا تھا وہ فقط تیرے خوف سے کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب سن کر اس کے قصور کو معاف کردیا۔
Top