Mazhar-ul-Quran - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور اگر (مخالفوں کی سختی کے جواب میں) تم سزا دو تو ویسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو بیشک وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت ہی بہتر ہے
احد کے شہداء کے ساتھ مشرکین کی بد سلوکی : شان نزول : اس کا حاصل یہ ہے کہ جنگ احد میں چونسٹھ آدمی انصار اور چھ آدمی مہاجر یہ سب ستر شخص شہید ہوئے۔ تو سوائے ایک حنظلہ بن عامر کے اور سب شہداء کی لاشوں کے ساتھ مشرکین نے بڑی بےرحمی کا برتاؤ کیا۔ شہیدوں کی ناک، کان وشرمگاہیں کاٹ ڈالیں اور پیٹ پھاڑ ڈالے تو مسلمانوں نے یہ کہا تھا کہ ہم بھی جب کبھی موقع پاویں گے تو جو کچھ مشرکوں نے کیا ہے، اس سے بڑھ کر ہم ان کے مقتولوں کا بڑا درجہ کریں گے، اور ان شہیدوں میں حضرت حمزہ بھی تھے حضور ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو حضور کو بہت صدمہ ہوا اور حضور ﷺ نے قسم کھائی کہ حضرت حمزہ ؓ کا بدلہ ستر کافروں سے لیا جاوے گا اور ستر کا یہی حال کیا جاوے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس کے یہ معنی ہیں کہ ایذا کے بعد اگر کوئی صبر کرے تو صبر بہت بہتر ہے اور اگر بدلہ بھی لیا جاوے تو اس قدر بدلہ لیا جاوے جس قدر ایذا دشمنوں کی طرف سے پہنچی ہے۔ اس سے بڑھ کر بدلہ اللہ کے اسلام میں منع ہے۔ اس آیت کے اترنے کے بعد حضور ﷺ نے اپنی قسم کا کفارہ دیا اور فرمایا کہ ہم کو صبر منظور ہے۔
Top