Mazhar-ul-Quran - Al-Hajj : 45
فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَ هِیَ ظَالِمَةٌ فَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ بِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّ قَصْرٍ مَّشِیْدٍ
فَكَاَيِّنْ : تو کتنی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیاں اَهْلَكْنٰهَا : ہم نے ہلاک کیا انہیں وَهِىَ : اور یہ۔ وہ ظَالِمَةٌ : ظالم فَهِيَ : کہ وہ۔ یہ خَاوِيَةٌ : گری پڑی عَلٰي : پر عُرُوْشِهَا : اپنی چھتیں وَبِئْرٍ : اور کنوئیں مُّعَطَّلَةٍ : بےکار وَّقَصْرٍ : اور بہت محل مَّشِيْدٍ : گچ کاری کے
پس (ف 1) کتنی ہی بستیوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں کہ وہ ظالم تھیں پس اب وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں اور (اس طرح ان بستیوں میں) بہت سے کنویں بیکار پرے ہیں اور بہت سے بلند محل ویران (پڑے ہیں)
(ف 1) نافرمانوں کے عذاب کا ذکر : اوپرذکر تھا کہ مہلت کے زمانہ میں نافرمان لوگوں کو جو ڈھیل دی گئی تھی مہلت کے بعداللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب میں گرفتار کیا اور پھر دیکھو ہماری پکڑ بھی کیسی ہے کیسے سخت عذاب میں وہ مبتلا ہوئے کسی پر طوفان آیا کسی پر آندھی ، کوئی کڑک کی دہشت ناک آواز سے ہلاک ہوا کسی پر مچھروں کا لشکرمسلط کیا کسی کو زمین میں دھنسا دیا کسی پر پتھر برسائے آگے فرمایا کہ بہت سے ظالم لوگوں کو ہم نے ہلاک کردیا مثلا قوم لوط کی بستیوں کے مکانوں کو چھت کے بل الٹ دیا پھر فرمایا کہ مشرکین مکہ تجارت کی غرض سے اکثر ملک شام کا سفر کرتے ہیں اس سفر میں کیا ان کو قوم ثمود اور قوم لوط کی اجڑی ہوئی بستیاں اور نکمے کنویں اور بہت سے بلند محل جو کہ کھنڈر پڑے ہیں نظر نہیں آتے پھر فرمایا کہ ان لوگوں کے منہ پر آنکھیں نہیں اس لیے ان اجڑی ہوئی بستیوں پر ان کی نظر اکثر پڑتی ہے لیکن شرک اور گناہوں کے سبب سے ان کے دل اندھے ہیں اس واسطے نہ عبرت کی نظر سے اجڑی ہوئی بستیون کو یہ لوگ دیکھتے ہیں نہ اس کا کچھ حال ہوش و حواس کے کانوں سے سنتے ہیں آگے فرمایا کہ ان کفار مکہ کو جو عذاب کی جلدی کرتے ہیں سمجھایا گیا ہے کہ جس کے حکم سے ہزار برس کا کام ایک دن میں طے ہوجاتا ہے اس کے حکم کے بعد عذاب کے آجانے میں کچھ دیر نہیں لگ سکتی۔ مگر یہ عادت الٰہی ہے کہ لوح محفوط کے نوشتہ کے موافق پہلے نافرمان لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے پھر اگر مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے تو دنیا اور عقبی کے عذاب میں ان کو پکڑ لیاجاتا ہے اور سب کو میری طرف پلٹ کر آنا ہے۔
Top