Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 45
فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَ هِیَ ظَالِمَةٌ فَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ بِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّ قَصْرٍ مَّشِیْدٍ
فَكَاَيِّنْ : تو کتنی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیاں اَهْلَكْنٰهَا : ہم نے ہلاک کیا انہیں وَهِىَ : اور یہ۔ وہ ظَالِمَةٌ : ظالم فَهِيَ : کہ وہ۔ یہ خَاوِيَةٌ : گری پڑی عَلٰي : پر عُرُوْشِهَا : اپنی چھتیں وَبِئْرٍ : اور کنوئیں مُّعَطَّلَةٍ : بےکار وَّقَصْرٍ : اور بہت محل مَّشِيْدٍ : گچ کاری کے
اور کتنی ہی بستایں ہیں، جن کو ان کے ظلم کی حالت میں ہم نے لہاک کردیا تو وہ اپنی چھتوں پر ڈھئی پڑی ہیں اور کتین ناکارہ کنوئیں اور کتنے پختہ محل ہیں جو ویران پڑے ہوئے ہیں !
قصر مشیہ کا مفہوم قصر مشید پختہ اور بلند ایوان و محل کو کہتے ہیں اور عربیت کے قاعدے کے مطابق جس طرح بئر کے ساتھ معطلۃ کی صفت ہے اسی طرح اس کے ساتھ بھی متروک و مہجوریا اس کے ہم معنی کوئی صفت ماننی پڑے گی جو وضاحت قرینہ کی بنا پر، حذف کردی گی ہے۔ قوموں کے اخلاقی زوال کے نتائج اوپر والی آیت میں جو حقیقت بیان ہوئی ہے یہ اسی کی شہادت ملک عرب کے ان آثار سے پیش کی گی ہے جن پر سے اہل عرب کے تجارتی قافلے برابر گزرتے تھے اور جن کی روایات، جیسا کہ ان کے شعراء اور خطباء کے کلام سے واضح ہے، ان کے ہاں مشہور تھیں۔ فرمایا کہ کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ کتنے ہی شہر اور بستیاں ہیں جن کو ان کے کفران نعمت کی پاداش میں ہم نے ہلاک کردیا اور اب ان کا حال یہ ہے کہ ان کی دیواریں ان کی چھتوں پر گری پڑی ہیں۔ قوموں پر تباہی ان کے اخلاقی زوال کے نتیجہ میں آتی ہے وھی ظالمۃ یہاں حال کے محل میں ہے اور ظلم کا مفہوم ہم جگہ جگہ واضح کرتے آ رہے ہیں کہ اس سے مراد وہ ظلم ہے جو قومیں اپنے کفران نعمت اور اپنے شرک کے سبب سے خود اپنی جانوں پر ڈھاتی ہیں۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قوموں پر اس طرح کی جو تباہیاں آتی ہیں وہ محض اتفاقی حادثہ یا گردش روزگار کے طور پر نہیں آتی ہیں، جیسا کہ احمقوں نے سمجھا ہے، بلکہ ان کا ظہور ان کے اخلاق و کردار کے اندر سے ہوتا ہے۔ وہ اپنے رب کی ناشکری میں مبتلا ہوتی رہیں اور ان کا یہ ظلم ان کے تمام انفرادی و اجتماعی اخلاق و کردار کی چولیں ہلا دیتا ہے جس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلات ہے کہ پہلے ان کی عظمت کی چھتیں زمین بوس ہوتی ہیں پھر ان کے وجود کی بنیادیں بھی اکھڑ جاتی ہیں۔ بربادی کی تصویر فھی خاویۃ علی عروشھا صورت حال کی تصویر ہے۔ بڑی عمارتوں کے انہدام کا آغاز بالعموم ان کی چھتوں سے ہوتا ہے۔ متروک و مہجور ہوجانے کے بعد پہلے ان کی چھتیں بوسیدہ ہو کر گرتی ہیں پھر دیواریں بھی غیر محفوظ ہوجانے کے باعث باد و باراں سے ڈھے جاتی ہیں۔ وبئر معطلۃ کا عطف قریۃ پر ہے۔ یہ امر محلوظ رہے کہ عرب کے ملک میں پانی کی قلت کے سبب سے کنوئوں اور چشموں کی بڑی اہمیت تھی۔ بستیاں وہیں بستی تھیں جہاں پانی دستیاب ہو اور کنوئیں بنائے جاسکتے ہوں۔ پھر لازماً سب سے زیادہ رونق بھی کنوئوں اور چشموں ہی پر ہوتی تھی اس وجہ س کنوئوں کی ویرانی تعبیر ہے ساری ہما ہمی اور تمام چہل پہل کے ختم ہوجانے کی۔ وقصر مشید کے ساتھ بھی، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، کوئی صفت، معطلۃ کی ہم معنی محذوف ماننی پڑے گی۔ اس وجہ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کتنے پر شکوہ اور بلند وبالا ایوان و محل ہیں جو بالکل متروک و مہجور پڑے ہیں اور جن کی ڈیوڑھیوں کے آگے کبھی بڑے بڑے سردار اور حکمران سجدے کرتے تھے اب ان کے کنگروں اور ان کی برجیوں میں زاغ و زغن کے آشیانے ہیں !
Top