Mazhar-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 141
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
ثمود نے1 پیغمبروں کو جھٹلایا ۔
حضرت صالح (علیہ السلام) کا اپنی امت کو نصیحت کرنا۔ (ف 1) حضرت نوح (علیہ السلام) سے سلسلہ شروع ہوکر یہ تیسرے پیغمبر صالح (علیہ السلام) ہیں جو ہود (علیہ السلام) کے بعد نبی ہوئے ۔ قوم ثمود ان کی امت کا نام ہیے شروع میں حضرت صالح نے بھی اپنی امت کو وہی نصیحت کی ہے جو نوح اور ہود نے اپنی امت کو کی تھی پھر صالح نے فرمایا کہ کیا تم دنیا کے مزوں اور یہاں کی خوشیوں میں امن سے چھوڑ دیے جاؤ گے جو باغوں اور چشموں اور کھیتوں میں اور کھجوروں میں جن کے نرم اور نازک خوشے ہوتے ہیں یعنی دنیا میں تم کو ہمیشہ مزے اڑانے کے لیے رہنا نہیں ایک مدت معین تک کچھ کھاپی لو، چین کرلو، کیا تم سمجھ رہے ہو کہ ہمیشہ یہاں رہنا ہے جو ایسے مغرور اور بےہوش ہورہے ہو یہ تمہاری خام خیالی ہے تم کو بہت جلد ایسے جہان کی طرف سفر کرنا ہے کہ وہاں تم سے ایک ایک سانس کا حساب لیاجائے گا اگر کچھ عقل رکھتے ہو تو وہاں کا سامان کرلو اس عالم کی نعمتوں کو زوال نہیں اور تم پہاڑوں سے تراش تراش کر مکان بناتے ہو کاریگری کے ساتھ، روایت ہے کہ وادی حجر میں ان لوگوں نے دوہزار مکان پہاڑوں میں تراش کر بنائے تھے پس خدا سے ڈرو، میری تابعداری کرو، دنیا کی لذتوں اور دنیا کی عزت اور جاہ کی طلب میں ایسے مدہوش ہورہے ہو کہ تم کو عاقبت کی کچھ خبر نہیں ایسے ایسے مکان بناتے ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کہ قیامت تک کے رہنے کا سامان ہیے بھلا کوئی رہا ہے اس جہان میں۔ جو کچھ عاقبت کے لیے کرلوگے تو اس جہان میں اس کے بدلے میں بڑیء بڑے عیش اور آرام پاؤ گے تمہاری عبادت سے اللہ کا نفع متعلق نہیں ، سراسر اپنے نفع کو چھوڑ کر ہمیشہ ک لیے اپنی تباہی لیتے ہو یہ کیا عقل کی بات ہے اور ان حدود بندگی سے نکل جانے والوں کی بات پر نہ چلو، جو ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں اور اصلاح کی بات نہیں کرتے ایسے لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو مفسد ہیں وہ تو فساد کی ہی تعلیم کریں گے ، ان سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے حضرت صالح کے قتل کا ارادہ کیا تھا قوم ثمود نے ان کو یہ جواب دیا تھا کہ تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کردیا ہے بولوتم کیا معجزہ مانگتے ہو ؟ تو وہ ایک پتھر کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے کہ ہم جب جانیں کہ تم اس پتھر سے اونٹنی نکال کردکھادو، صالح (علیہ السلام) نے اپنے اللہ سے دعا کی اور انکی دعا قبول ہوئی، پتھر میں سے اونٹنی نکل آئی حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا یہ اونٹنی ایک دن اس کو پانی پینے دیا کرو اور دوسرے دن تمہارا حصہ ہے اور اس کو اہذا دینے کے لیے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ تم پر عذاب الٰہی ٹوٹ پڑے گا لیکن ان کو تو ہدایت مطلوب نہ تھی وہ تو معجزہ مانگ کر ٹال دیتے تھے ان کی یہ نیت ہوتی تھی کہ معجزہ ظاہر کرنے کے بعد ہم ایمان لائیں گے جس وقت معجزہ دیکھ لیا اور حضڑت صالح نے ان سے فرمایا کہ اونٹنی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا تو ضد کرکے اس کے خلاف ہی کیا کہ جس کام کو یہ منع کریں اس کو ضرور کرنا چاہیے نفع ہو یا نقصان۔ پس کی کوچیں کاٹ ڈالیں، پھر جب عذاب کے آثار نمودار ہوئے تو اپنی حرکت پر شرمندہ ہوئے لیکن یہ شرمندگی کس کام آسکتی تھی موافق وعدہ صالح (علیہ السلام) کے عذاب نے آپکڑ اور ہلاک ہوکر رہے جبرائیل (علیہ السلام) کے ایک چیخ مارنے سے سب ہلاک ہوئے اور اپنے کیے کے نیتجہ کو پہنچے بیشک اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے تاکہ معلوم کرلو کہ بعد معجزہ دکھلانے کے پھر کفر کرنا موجب سخت عذاب ہوتا ہے کفار مکہ کے لیے ہم نے یہ قصہ سنایا تاکہ نصیحت پکڑجائیں۔ جب معجزہ آنکھوں کے سامنے رسول نے دکھادیا واب کفر کرنے کا کیا موقع باقی رہا۔ اور ان آیات کے دیکھنے کے بعد بھی کفار کفر کریں اور ایمان نہ لائیں تو ہمارا کیا نقصان ہے جیسے ان امتوں کو ہم نے ان کے کیے کو پہنچادیا ، ہم ان کو بھی وہی کردکھائیں گے بیشک تمہارا پروردگار البتہ وہی غالب ہے وہ اپنا انتقام لینے سے عاجز نہیں ہے اور رحیم بھی ہے کہ عذاب کو فورانازل نہیں کرتا، بلکہ تاخیر کرتا ہے تاکہ توبہ کرلیں۔
Top