Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 50
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
رَبُّکَ
: تمہارے رب نے
لِلْمَلَائِکَةِ
: فرشتوں سے
اِنِّیْ
: میں
جَاعِلٌ
: بنانے والا ہوں
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
خَلِیْفَةً
: ایک نائب
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
اَتَجْعَلُ
: کیا آپ بنائیں گے
فِیْهَا
: اس میں
مَنْ يُفْسِدُ
: جو فساد کرے گا
فِیْهَا
: اس میں
وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ
: اور بہائے گا خون
وَنَحْنُ
: اور ہم
نُسَبِّحُ
: بےعیب کہتے ہیں
بِحَمْدِکَ
: آپ کی تعریف کے ساتھ
وَنُقَدِّسُ
: اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں
لَکَ
: آپ کی
قَالَ
: اس نے کہا
اِنِّیْ
: بیشک میں
اَعْلَمُ
: جانتا ہوں
مَا
: جو
لَا تَعْلَمُوْنَ
: تم نہیں جانتے
اور جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا کہ آپ اس (زمین) میں ایسے لوگوں کو نائب بنانا چاہتے ہیں جو اس میں فساد کریں گے اور خون ریزیاں کریں گے اور ہم آپ کی تسبیح کرتے ہیں (اور) تعریف کرتے اور آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں فرمایا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے
آیات 30- 39 اسرارو معارف یہاں تک دعوت الی اللہ اور عبادت کا ضروری ہونا بطور شکر کے اور اس درجہ میں کہ اللہ کا حق ہے بندے پر ارشاد ہوا پھر اس کے نتائج اور نافرمانی کی سزا کا ذکر اس انداز میں تھا کہ اللہ تمہارا رب ہے خالق ہے مگر یہاں سے اسی دعوت پر دوسری دلیل شروع فرمائی اور ایک اور طرح سے دعوت فکر دی ہے کہ ابتدائے نوع انسان کو دیکھو ، اللہ نے پیدائشی طور پر اسے کیا فضیلت بخشی اور کس طرح سے شیطان اس کے خلاف ہوا۔ اب اگر تم اللہ کی اطاعت نہ کرو گے تو یقینا تم اس کے پیچھے چلو گے کہ دوسری راہ اسی کی ہے جو بحیثیت انسان بھی تھیں کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ انسان خلیفۃ اللہ فی الارض ہے : سو یہاں حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا کہ تخلیق آدم سے پہلے اللہ کریم نے فرشتوں کو اطلاع دی کہ میں زمین میں ایک خلفہ ، اپنا ایسا بندہ جو میرا حکم نافذ کرنے والا ہو ، ایک ایسی مخلوق جو میری پسند کے مطابق زمین پر بسے ، پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ زمین اگرچہ اپنے حجم کے اعتبار سے دوسرے سیاروں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی مگر اپنی اہمیت کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ ہے کہ تمام سیاروں کی توجہات کا مرکز ہے سورج ہو یا چاند ، بادل ہو یا ہوا حتیٰ کہ آسمان اور آسمانوں کے رہنے والے بھی اسی کے انتظام میں مصروف ہیں۔ ستارے ہوں یا سیارے سب کی توجہ اسی کی طرف ہے اور یہ ان تمام توجہات کو قبول کرکے طرح طرح کے نتائج مرتب کررہی ہے۔ یہاں بیک وقت آتش فشاں آگ اگل رہے ہیں تو برف کے پہاڑ بھی کھڑے ہیں اگر صحرائوں میں ریت اڑتی ہے تو باغوں میں پھول بھی کھلتے ہیں۔ ایک طرف رات چھا رہی ہے تو دوسری طرف روز روشن بھی موجود ۔ اگر خشک سالی آتی ہے تو برسات بھی آتی ہے ایک طرف خزاں ہے تو دوسری جانب بہار بھی ہے ، سونے چاندی کے ذخائر ہیں تو جواہرات سے بھی اٹی پڑی ہے ہر طرح کے بیچ کو اگانے کی صلاحیت لئے ہوئے ہے طرح طرح کے پل دے رہی ہے ادنیٰ کیڑے سے لے کر پہاڑ جیسے جسیم جانوروں کے من بھاتے کھاجے پیش کرتی ہے جہاں اس میں درندے ہیں وہیں ہرنوں کی ڈاریں چوکڑیاں بھرتی ہیں غرضیکہ عرش سے فرش تک جس قدر باقی اجرام ہیں سارے اسی کی طرف متوجہ ہیں اور یہ زمین دراصل ان سب کا حاصل ہے تو اللہ کریم نے ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا جو اس کی نیابت کا حق ادا کرے اس کے نظام کو اس طرح چگائے کہ اللہ کی پسند کے مطابق ہو۔ یہاں فی الارض سے اس طرح بھی اشارہ ملتا ہے کہ زمین پر تو اپنی بساط کے مطابق تصرف کرسکتا ہے اس کے علاوہ سیاروں پر نہیں ۔ مثلاً سورج کی شعاع جو زمین پر آتی ہے اسے تو استعمال کرسکتا ہے سورج کی روش کو نہیں بدل سکتا اسی طرح چاند سے جو چیزیں زمین پر منعکس ہورہی ہیں ان پر تصرف کا حق رکھتا ہے خود چاند پر نہیں۔ کہ خلیفہ فی الارض ہے یہی حال دوسرے سیاروں کا ہے ورنہ اگر ان پر بھی اس کا بس چل جائے تو جانے کیا غضب ڈھائے ، زمین پر بھی خلیفہ ہے اس لئے عطا کردہ اختیارات کے اندر تصرف کرسکتا ہے جس شے کا اختیار بخشا ہی نہیں گیا اس میں دخل نہیں دے سکتا جیسے خود زمین ہی کی گردش میں ردوبدل اس کے بس میں نہیں ومثل ذالک کو خلیفہ خود بااختیار نہیں ہوتا بلکہ دیئے گئے اختیارات کو استعمال کرتا ہے تو یہ سب سے پہلی فضیلت انسان کے حصے میں آئی کہ اس سیارے پر جو سب بیاروں کا حاصل تھا اسے نیابت الٰہی کا منصب عطا ہوا یعنی اپنے حاصل شدہ اختیارات کے اندر رہ کر اس پر بسنے والی ساری مخلوق پر حکومت کرنا اور یہ کوئی معمولی منصب نہیں تھا۔ ملائکہ نے عرض کی ، بارالٰہ ! تجھے تو کوئی احتیاج نہیں پھر ایسی مخلوق کیوں پیدا فرماتا ہے جسے تو پسند وناپسند کی قوت دے گا کہ جب ان کی پسند میں اختلاف ہوگا تو اپنی پسند دوسرے پر ٹھونسنے کے لئے جبر کریں گے ، لڑیں گے ، خونریزیاں ہوں گی اور فساد پیدا ہوگا۔ یہ غالباً پہلے تجربے کی بنا پر عرض کر رہے ہوں گے کہ قبل ازیں زمین پر جنات موجود تھے جو کسی حد تک اپنی پسند کے مالک تھے تو اکثر بگڑ جاتے فس وفجور سے زمین کو بھر دیتے اللہ کریم آسمانوں سے رفشتے ان کو سزا دینے کے لئے روانہ فرماتے جو انہیں تباہ وبرباد کردیتے۔ اور صرف نیک جنوں کو چھوڑتے پھر رفتہ رفتہ اسی حال کو پہنچ جاتے۔ یہ ابلیس بھی ان ہی میں سے ایک جن تھا جو نہایت عابدوزاہد تھا حتیٰ کہ اکثر فرشتوں کے ساتھ آسمانوں پر رہتا تھا تو سب نے عرض کی کہ اللہ یہ نئی مخلوق بھی کچھ ایسے ہی گل کھلائے گی ہم جو تیری بارگاہ میں حاضر ہیں۔ تیری حمدوثناء کرتے ہیں ہمہ وقت تسبیح و تقدیس اور ہمیشہ اطاعت کرتے ہیں جو تیری مخلوق کے لئے باعث رحمت ہے جب ایک ایسی مخلوق موجود ہے جو قطعاً نافرمانی نہیں کر پاتی تو پھر دوسری مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا راز ہے ؟ فرمایا ، یہ میں جانتا ہوں تمہارے علم کی وہاں تک رسائی نہیں ، دراصل ساری مخلوق ایک مقررہ نظام میں پابند ہے اس کا دائرہ کار مقرر ہے وہ اس سے تجاوز نہیں کرسکتی یعنی حکم الٰہی کی اطاعت کرتی ہے معرفت حاکم کا وہ شعور نہیں رکھتی کہ اس پر قربان ہو نہ اپنے دائرہ کار میں ایسا اختیار رکھتی ہے کہ اس میں ردوبدل کرے مگر اللہ نے ایک ایسی مخلوق کو پیدا فرمایا جو اپنے دائرہ کار میں آزاد ہو پسند وناپسند کا اختیار رکھتی ہو۔ اس کے سامنے کائنات کا حسن ہو اور وہ ذوق جمال رکھتی ہو پھر اسے جمال باری کے حصول کی قوت عطا کی جائے جب اللہ کو پہچاننے کی طاقت پائے اس کے جمال سے سیرات ہو تو پھر اپنی خواہشات کو اس کے حکم پر قربان کردے جو نہ صرف حکم کی مطیع ہو بلکہ حاکم پر قربان ہورہی ہو۔ لہٰذا آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا اور انہیں یہ قوتیں عطا کیں تسخیر کائنات کے لئے ضروری علم بخشا جس قدر چیزیں انسانی ضرورت حصول کمال کیلئے تھیں جسمانی ہوں یا روحانی سب کا علم عطا فرمایا دراصل علم مجموعہ اسما ہی تو ہے ہر لفظ کسی شے کا فرد کا یا کسی کام کا نام ہی تو ہے غرض جس قدر علم اس کائنات میں بسنے کے لئے یا اس کی چیزوں کا استعمال کرنے کے لئے یا قرب الٰہی کو پانے کے لئے آدمیت کو چاہیے تھا۔ وہ حضرت کو بخش دیا گویا لغت بھی من جانب اللہ عطا ہوئی ہے۔ اب فرشتوں کو حکم دیا کہ آئو اور دنیا کے کمالات پر بات کرو۔ ان سب چیزوں کے نام بتائو ، ان کی خصوصیات اور طرز استعمال کی بات کرو۔ بھلا وہ کیسے کرتے کہ فرشتے کو جو کام عطا ہوا علم بھی تو اسی حد تک ہوگا۔ جس کے ذمے بادلوں کا اہتمام ہے اسے پہاڑوں کے علم سے کیا سروکار اور جس کا کام رزق تقسیم کرنا ہے اسے دوسرے معاملات کی کیا خبر۔ یا جو شے انہیں نصیب ہی نہیں اس کے بارے میں کیا کہیں بھوک کی تکلیف یا شکم سیری کی کیفیت سے انہیں کیا غرض ، گرمی وسردی کے خواص اور اثرات کو وہ کیا جانیں کہ غالباً ان کا علم بھی ان کے متعلقہ شبعے تک ہے۔ تو عرض کی بارالہٰ ! تو پاک ہے ، تیری شان بہت بلند ہے تیرے علوم میں کس طرح کی کمی نہیں ہم تو ایسے نہیں ہیں ہم تو وہ بات عرض کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جو تو نے ہمیں بتائی۔ ہمارا علم تو تیرا محتاج ہے احتیاج سے پاک تو صرف تیری ذات ہے ، تو سب کچھ جانتا ہے ہم کچھ نہیں جانتے سوائے اس کے جس کا علم تو نے ہمیں بخشا ہے۔ پھر حکم ہوا کہ اے آدم (علیہ السلام) ! ان کے سامنے ان اشیاء کے نام یعنی کیا چیزیں ہیں کس مصرف کی ہیں بیان فرمائیے ! تو جب انہوں نے بیان فرمایا کہ انہیں تو یہ سب عطا ہوا تھا تو اللہ نے فرمایا دیکھا ، میں نہ کہتا تھا کہ آسمانوں اور زمینوں کے پوشیدہ راز اور حکمتیں میں جانتا ہوں میرا علم کسی کے بیان کا محتاج نہیں ، میں تو وہ بھی جانتا ہوں جس کا تم اظہار کرتے ہو اور وہ بھی جس کا اظہار نہیں کیا جاتا یعنی میرا علم کسی کے بیان کا محتاج نہیں بلکہ جیسا ظاہر کو جانتا ہوں اسی طرح باطن سے بھی واقف ہوں۔ دیکھا میں نے کیسی مخلوق پیدا فرمائی جو علوم کی جامع ہے زمینی اور آسمانی بھیدوں سے واقف وآگاہ۔ تعمیر ظاہر و باطن کی عالم ، اشیاء اور علم الاشیاء سے آگاہ ۔ یہ ہے وہ ہستی جو میری معرفت کی استعداد رکھتی ہے جس طرح زمین تمام سیاروں کا خلاصہ اور سب کی توجہات کا مرکز ہے ۔ ایسے ہی یہ مخلوق ساری تخلیق کا خلاصہ ، ان کی توجہ کا مرکز اور ان میں ممتاز مقام کی حامل ہے جو زمین پر میری نیابت وخلافت کی سزاوار ہے۔ پھر فرشتوں کو حکم ہوا کہ آدم (علیہ السلام) کے لئے سجدہ کرو۔ ہماری شریعت میں سجدہ ایک شرعی اصطلاح ہے ، آدمی باوضو ہو ، قبلہ رخ ہو ، دونوں پائوں ، دونوں گھٹنے ، دونوں ہاتھ قبلہ رخ زمین پر ہوں تاک اور پیشانی زمین پر ہو تو یہ حالت سجدہ کہلاتی ہے اور یہ غیر اللہ کے لئے خواہ انسان ہو یا فرشتہ یا کوئی مخلوق قطعاً جائز نہیں۔ یہ صرف اور صرف اللہ کا حق ہے اور اس کا انسانوں پہ حق ہے وہی معبود ومسجود برحق ہے مگر اصطلاح لغت میں اس ادب وتعظیم کو جو غلام آقا کے لئے خادم بادشاہ کے لئے بجا لائے سجدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حکمران یا آقا ، کو رب بمعنی سردار کہا جاتا تھا یہی حال اس اصطلاح کا بھی تھا۔ یہ تو شریعت اسلامیہ کا کمال ہے کہ ان افعال ہی کو سرے سے اٹھا دیا جو ہم شرک ہوسکتے تھے پہلے یہ حال نہ تھا نیز وہ ابتداء تھی نوح انسانی کی زندگی کی۔ اب کائنات کی منتشر قوتوں کو یکجا کرنا یا انہیں مختلف کاموں پہ لگانا تنہا انسان کا کام نہ تھا بلکہ اس میں اس کو ان ملائکہ کے تعاون کی ضرورت تھی جو ان امور پر مقرر ہیں بلکہ خود انسان اپنی ذات اور اپنے وجود میں ان فرشتوں کے تعاون کا محتاج ہے جو اس کے بدن کے مختلف حصوں کا کام برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ حکیم الامت حضرت شاہ اشرف علی تھانوی (رح) تعالیٰ زیر آیت ان کل نفس لما علیھا حافظ فرماتے ہیں ہر وجود پر بیشمار فرشتے مقرر ہیں ، غذا کو چبانے کے فعل پر علیحدہ ، حلق سے اتارنے والے اور معدے میں حل کرنے والے دوسرے ، اس سے خون گوشت ہڈیاں بنانے والے دوسرے ، فضلات کے اخراج پر کوئی اور ۔ اس طرح آنکھ کان ناک ، دماغ ، دل غرضیکہ ہر فعل پر فرشتے مقرر ہیں یہ ایک بہت بڑی اور بہت باریک پرزوں والی مشین ہے جس پر بہت سے کاریگر مقرر ہیں جب کوئی بیماری آتی ہے تو اس جگہ کا کاریگر بحکم الٰہی اپنا کام روک دیتا ہے جو صحت کی خرابی کا سبب بنتا ہے انسان کو ان سب کے تعاون کی ضرورت تھی یہ تو اس کے وجود کا حال ہے ساری کائنات میں یہی حال ہے ، ہوا ، پانی ، گیس ، تیل ، مع دنیات یا فلکیات ، ستارے ، سیارے ان کے اثرات بادل بارش وغیرہ میں ان پر مامور فرشتوں کے تعاون کا محتاج تھا۔ اللہ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ یہ میرا نائب ، میرا خلیفہ ہے میری دنیا میں جو بھی یہ کرے گا تمہیں اس کی راہ روکنے کی اجازت نہیں ، حتیٰ کہ یہ کسی کو گولی مار دے تم بجائے اعتراض کرنے کے اس کی روح قبض کرو گے۔ سجدہ کا مقہوم : تو گویا ادبی اصطلاح میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سر تسلیم خم کردو اسجد والادم اور اگر یہ کہا جائے کہ گو مقصد تو یہی تھا مگر سجدہ ضرور کیا گیا تو کیا حرج ہے اب بھی تو بیت اللہ کو سجدے کئے جاتے ہیں حالانکہ اس میں سوائے گارے اور پتھروں کے اور کیا رکھا ہے مگر مسجود بیت اللہ نہیں وہ ہے جس نے اپنی ذات کو سجدے کرانے کے لئے بیت اللہ کو قبلہ مقرر کیا ہے اور اسے مہبط تجلیات بنادیا ہے اگر گارا اور پتھر مسجود ہیں تو کیا انہیں وہاں سے اکھیڑ کر کسی اور جگہ مکان بنا دیا جائے تو کوئی مسلمان سجدہ کرے گا ہرگز نہیں۔ یہی حال یہاں ہے کہ اس کی ذات فرشتوں کے ادراک سے بھی وراء الورا سجدہ اسی کو ہورہا ہے جو مسجود خلائق ہے مگر قبلہ حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں کہ اس تک رسائی کا واسطہ اور ذریعہ صرف آدم (علیہ السلام) ہی ہیں کہ یہی نبوت کے تاج سے سرفراز کئے گئے اور نبوت واحد راستہ ہے جو اللہ ملاتا ہے مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تعظیمی سجدے کئے جائیں میرے خیال میں اسے دلیل بنانے والوں کو صرف یہ سوچنا کافی ہے کہ ہم آدم (علیہ السلام) کے اتباع کے مکلف ہیں یا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے۔ نیز جو دلیل والدین اور بھائیوں کے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کی دی جاتی ہے وہ بھی صحیح نہیں کہ اول تو ہم اس کے مکلف نہیں دوسرے وہ بھی وہی تعظیم تھی جو بادشاہوں کو دی جاتی ہے۔ جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے انتہائی خوشی کے اظہار کے لئے دی ورنہ یعقوب (علیہ السلام) جیسا محبت کرنے والا ضعیف العمر باپ یوسف (علیہ السلام) جیسا نبی حسین و جمیل بیٹا اور اس سے اپنے سامنے اصطلاحی سجدہ کروارہا ہے یہ بات کچھ دل کو نہیں لگتی۔ واللہ اعلم۔ بہرحال فرشتوں سے آدم (علیہ السلام) کی غلامی کا عہد لیا گیا جیسے کوئی بھی آج کا صدر جب گورنر مقرر کرتا ہے تو پورے صوبے کی انتظامیہ اس کی اطاعت پر کمر بستہ ہوجاتی ہے وہ غلط حکم دے رہا ہے یا صحیح اس بات سے ان کو سروکار نہیں یہ مقرر کرنے والا جانے اور وہ جانے ، مگر صدر جب اسی کی گرفتاری کا حکم دے دے تو پھر فوراً سب کی آنکھ بدل جائے گی اور اسے کشاں کشاں لے جائیں گے ۔ یہی حال یہاں ہے انسان جو کچھ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے اختیارات کی حدود کے اندر سب کچھ ہوتا چلا جاتا ہے ورنہ زانی کی قوتیں اگر بوقت زناء جواب دے جائیں ، چور کے پائوں چوری کی طرف نہ چلتے یا کائنات کی اشیاء کے استعمال میں برائی پر اس کا ہاتھ رک جاتا تو یہ مکلف نہ رہتا بلکہ مجبور محض کہلاتا ۔ سو اب فرشتے خواہ ان کے مزاد کے کس قدر خلاف بھی کام ہو۔ سدراہ نہیں بنتے جب تک روکنے کا حکم حاکم اعلیٰ نہ دے۔ غرض سب فرشتوں نے سرتسلیم خم کردیا مگر ایک ابلیس کہ اگر فرشتہ نہ تھا مگر مقیم فرشتوں ہی میں تھا اس بات سے انکار کر گیا اور اکڑ گیا ابی واستکبر۔ یہ ایک جن تھا جس کی وضاحت خود قرآن نے کردی ہے کان من الجن ، مگر بہت عابد وزاہد تو چونکہ جنات بھی جسم لطیف رکھتے ہیں انہیں آسمان پر جانے کی قوت تخلیقی طور پر تھی حتیٰ کہ حضور ﷺ کی تشریف آوری نے انہیں آسمانوں پر جانے سے روک دیا اور بحکم الٰہی ان پر پابندی لگ گئی ورنہ تب تک آتے جاتے رہتے تھے۔ کہیں سے فرشتوں نے بھگا دیا کوئی نہ کوئی بات سن لی کچھ اپنے پاس سے باتیں ملائیں اور کاہنوں کے کان بھر دیئے۔ پیدائش آدم (علیہ السلام) سے بیشتر تو تھے ہی یہی۔ بدکاروں کو کوئی دفعہ سزا ملی اور مار پڑی مگر یہ ایسا عابدوزاہد نکلا کہ فرشتوں کی صف میں شامل کرلیا گیا۔ بلکہ اکثر اوقات سرکش جنوں کی سرکوبی کے لئے بھی فرشتوں کے ہمراہ لے کر آتا ؎ زراہ تفاخر بفوج ملک گہے برزمین بود گاہ بر فلک ابلیس : جب اطاعت کا حکم ہوا تو یہ اکڑ گیا اور انکار کر گیا یہ تھا ہی کافروں میں سے وکان ھن الکافرین ، یہاں ہوگیا کافروں میں سے ، ترجمہ جچتا نہیں۔ اگر ایسا ہو تو خدا کے لئے بدالازم آئے گا کہ جب کافر ہوچکا تب اللہ کو علم ہوسکا بلکہ اللہ کے علم ازلی میں یہ بات موجود تھی کہ یہ یقینا کافر تھا۔ وقتی طور پر اس کے جذبات اگر مائل بہ اطاعت تھے تو حصول اقتدار کی خاطر جب تک امتحان نہ ہوا ترقی کرتا رہا۔ جیسے ہی امتحان میں قدم رکھا وہ حقیقت جسے صرف اللہ جانتا تھا واضح ہوگئی اور سب جان گئے کہ کافر ہوگیا مگر اللہ نے فرمایا یہ تھا ہی کافر کہ اس کے دل میں اپنی ذات اور حیثیت کے بارے میں غلطی موجود ھتی یہ اپنا وجود منوانے کا خواہشمند تھا۔ حالانکہ ذات باری کے سامنے ساری مخلوق نہ ہونے کے برابر ہے۔ بنایا اس نے ، تعمیر وہ کررہا ہے اور قائم اسی کے آسرے پر ہیں پھر اس کو کیسے آنکھیں دکھا سکتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں ہاں وہ اللہ کریم ہے کہ اس نے عاجز مخلوق کو ذلیل ہونے سے محفوظ رکھا اور مخلوق کے سامنے مخلوق کی عزت نفس کو برقرار رکھا۔ صرف اور صرف اپنی ذات کے سامنے جھکنے کا حکم دیا ہے۔ ادب اور شے ہے اور ضروری کہ ہر ہستی کی ذمہ داری علیحدہ۔ اسی کے لحاظ سے اس کا رتبہ علیحدہ مگر سب کے اپنے حقوق ہیں اور بحیثیت مخلوق سب اللہ کے سامنے سجدہ ریز۔ کوئی مخلوق کسی دوسری مخلوق کی عبادت پر مجبور نہیں بلکہ ایسا کرنا سخت ترین جرم اور اللہ کی صفت اس کی عظمت کے مظہر کی توہین ہے۔ یہاں اطاعت آدم بھی بالکل خدا کی اطاعت ہے اس لئے قرآن مجید جا بجا فرماتا ہے من یطع الرسول فقد اطاع اللہ کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو کہ میں کسی انسان کی غلامی بےچوں وچرا کیوں کروں ، یہ غلامی انسان کی نہیں بلکہ اللہ کی ہے اور یہ فخر انسانیت عظیم ترین انسان ، ہمارا بہت بڑا محسن کہ ہمارے رب کے ارشادات ہم تک پہنچانے والا ہے اور کوئی جب تک دل سے اس بات کو تسلیم نہ کرے حقیقی مومن نہیں بن سکتا۔ اگرچہ زبانی کلمہ پڑھ لینا دنیا کے سامنے اس کے مسلمان ہونے کو کافی ہے ، احکام اسلام کے جاری ہوں گے۔ حقوق مسلمانوں جیسے رکھے گا مگر کب تک ؟ آخر کفر ظاہر ہوجائے گا کسی کا دنیا ہی میں مذہب چھوڑ دینے پر ، کسی کا موت آنے پر اور قبر میں جانے پر۔ بہرحال جب تک دل ایمان قبول نہ کرے اللہ کے نزدیک وہ کافر ہی رہے گا اگرچہ بظاہر اسلامی حقوق سے فائدہ اٹھاتا رہے۔ یہاں یہ بھی ظاہری عبادت سے فائدہ حاصل کرتا رہا ، جیسے اب بھی لوگ بظاہر وظائف کا سکہ جما کر پیر بن جاتے ہیں یہ بھی پیر بن گیا۔ مگر قلعی کھل گئی جیسے نقال پیروں کی موت انہیں حقیقت سے سامنا کرنے پر مجبور کردے گی ۔ اس کی تخلیق آدم نے ابتلا میں ڈال دیا اور دل کی بات زبان پر آگئی کوئی عالم ہو یا عابد ، پیر ہو یا خطیب ، جنرل ہو یا حاکم سب کو سب کچھ اللہ کی طرف سے ملا ہے۔ کم از کم اللہ کے سامنے تو اکڑنا زیب نہیں دیتا اور یہی شیطنت ہے اکثریت اس میں مبتلا ہے۔ اگر کوئی شخص طریق سنت کو چھوڑ کر اپنے رسوم وروراج کو اپناتا ہے تو دراصل اسی خبث باطنی کا پتہ دیتا ہے کہ دل میں وہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو طریقہ فرمایا ہے میں اس سے بہتر جانتا ہوں چاہیے کہ اس مرض کا کھوج لگایا جائے اور اسے دل سے دور کیا جائے کسی صاحت دل کو تلاش کریں اور دل کا علاج کرائیں کہ اس میں اپنے فخر اور تکبر کی جگہ پر اللہ کی عظمت جاگزیں ہو۔ یہ کام نبوت کے کمالات میں سے ہے اور نبی ﷺ کے صحیح جانشینوں سے مل سکے گا جو وراثت نبوی کے حامل ہوں گے ورنہ جنس نایاب ہے۔ نبوت کی متاع اصلی یہی کمال ہے کہ دلوں کو مہبط تجلیات بنادیتا ہے اور اس کے ورثا۔ وہی لوگ ہیں جو اپنی حیثیت کے مطابق یہ کمال رکھتے ہوں ورنہ سب دھوکہ بازی ہے نقلی رنگ ہے جو ایک نہ ایک دن اتر جائے گا۔ وقلنا یااٰدم اسکن انت……………فتکونا منالظلمین۔ اب تربیت شروع ہوئی آدم (علیہ السلام) کی کہ دنیا میں کیسے بسنا ہے اسی لئے یہ نہ فرمایا کہ اب تم جنت میں ہی رہو بلکہ فرمایا اسکن بھئی ڈیرہ رکھو جنت میں۔ یہاں لباس استعمال کرو ، کھائو پیئو ، میاں بیوی دونوں اپنا گھر بسائو اور طریقہ زندگی حاصل کرو یہاں تو جو بھی آتا ہے۔ پہلے بسنے والوں سے سیکھتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیسے رہنا ہے مگر وہ کہ پہلے انسان تھے نیز نبی راہ راست اللہ سے تربیت حاصل کرتے ہیں فرمایا۔ یہاں رہو مگر دنیا دار ابتلاء ہے وہاں پابندیاں بھی ہوں گی۔ لہٰذا یہاں بھی ایک پابندی ہے کہ جو چاہو کھائو پیو مگر اس ایک درخت کے قریب مت جانا ۔ اگر ایسا کیا تو غلط کرنے والے قرار پائو گے ظلم ہوتا ہے وضع الشیء فی غیر محلہ۔ کسی چیز کو اصل جگہ سے ہٹا دینا۔ اسی لئے شرک سب سے بڑا ظلم ہے سو غلطی کرنے والے ہوجائو گے۔ اب وہ درخت کیا تھا اور کیا نہیں تھا اس کی وضاحت نہیں ملتی غالباً اس لئے کہ اس کی ضرورت نہیں۔ جو شے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے بیان کی اس میں دخل دینے سے کسی کو کیا فائدہ ہوسکے گا۔ یہ ایک امتحان بھی مقرر ہوگیا اور فی الحال رہائش کا اہتمام بھی۔ یہ قیام جنت ایسا نہ تھا جیسا بعد قیامت ہوگا وہاں تو خلود کی بشارت ساتھ ہے یہاں صرف اسکن ہے کہ یہاں ٹھہر جائو۔ آدم (علیہ السلام) نے ڈیرے ڈال دیئے اور وہاں رہنا شروع کیا۔ خوب مزے سے کھاتے پیتے ، سیر کرتے ، مختلف جگہوں میں پھرتے کہ اور تو کوئی پابندی نہ تھی۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے یہ اجتماعی عقیدہ ہے نیز اگر نبی سے عصمت اٹھا دی جائے کسی آن کسی لمحہ بھی تو سارا دین ناقابل اعتماد ہوجاتا ہے کہ نہ جانے کس کام کے کرنے کے وقت خطا صادر ہوگئی ہو۔ اس سب کے باوجودیہاں ایک غلطی کے صدور کا ذکر بھی ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ کیا جنت دار ابتلا ہے اور جنتیوں پر جنت میں رہتے ہوئے کوئی کام منع بھی ہے ہرگز نہیں۔ بلکہ ان کے مزاج ایسے ہوں گے کہ فطرتاً ہر اچھا کام نبی کریں گے جیسے انبیاء دنیا میں نیز جنت میں کوئی ایسا درخت بھی ہے جس کا کھانا ان کو مضر ہوگا یا وہ کڑوا کسیلا ہے یا زہر آلود ہے ہرگز نہیں۔ تو پھر یہ تخصیص حضرت آدم (علیہ السلام) ہی کے ساتھ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ بطور انعام ہمیشہ کے لئے جنت میں نہ ٹھہرائے گئے تھے بلکہ وہاں رہ کر دنیا میں آنے کی تیاری کر رہے تھے وہ مدرسہ تھا جس کا معلم خود اللہ تھا اور انہیں سکھایا جارہا تھا کہ دنیا میں اس طرح نعمتوں کے ساتھ کچھ پابندیاں بھی ہوں گی ایک دشمن بھی تاک میں رہے گا جس کی بات آپ نے نہیں سننی اور پھر اس کا عملی تجربہ بھی ہوگیا کہ شیطان نے انہیں دھوکہ دے لیا۔ فازلھما الشیطن………………ومتاع الی حین۔ آسمانوں پر شیطانوں کا جانا تو بند نہ ہوا تھا ممکن ہے آسمان پر سے بات کرتا رہا ہو کہ جنت میں جنتی آخر دوزخیوں کی بات بھی تو سنیں گے انہیں دیکھیں گے ، نیز دوزخی بھی دیکھ سن رہے ہوں گے تو سوال کریں گے۔ افیضو علینا من الماء اور وہ جواب دیں گے ان الل حرمھا علی الکفرین ، تو عین ممکن ہے اس نے کہیں دور سے بات کی ہو پھر ساتھ قرآن فرماتا ہے۔ فنسی اٰدم فلم بخدلہ عزماً ، کہ آدم (علیہ السلام) بھول گئے ، نیز اس نے اللہ کی قسم کھائی وقاسعھما تو سمجھے کہ بھلا اللہ کی قسم بھی کوئی غلط بات پہ کھاسکتا ہے تو اسی سہو ونسیان میں وہ پھل کھالیا جس پر حکم ہوا کہ اب آپ یہاں سے تشریف لے جائیے اور خوب یادرکھیئے کہ آپ کے مقرر وقت تک دنیا میں رہنا ہے جہاں آپ کے لئے ہر طرح کا سامان موجود ہے مگر یہ بھی خوب یاد رہے کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو جن میں کبھی صلح نہیں ہوسکتی۔ حضرت آدم (علیہ السلام) دنیا پر کوئی سزا دے کر نہ بھیجے گئے تھے بلکہ وہ تو پیدا ہی خلیفۃ اللہ فی الارض کئے گئے تھے مگر ذرا سی اس بھول نے قلب پیغمبر کو مضطر کردیا نیز آدم (علیہ السلام) اور اماں حوا بہت دور دور اتارے گئے گویا یہ مصیبت اس پر ضرور مرتب ہوئی حالانکہ وہ حکم نہ مستقل شریعت تھا اور نہ جنت دارالتکلیف۔ ولی کا کشی دوسروں کے لئے حجت نہیں : یہاں سے سلوک کا مسئلہ سمجھ میں آتا ہے کہ ولی کا کشف والہام اگرچہ دوسروں پر حجت نہیں مگر وہ خود اگر اس پر عمل نہ کرے گا تو وہ نقصان ضرور ہوں گے اگرچہ ایمان محفوظ رہے گا ، پہلا مقام میں تنزل ، دوسرا دنیاوی مصائب یہ یاد رہے کہ کشف والہام حدود شرعی سے متصادم نہ ہو۔ ورنہ خود اس کا وجود ہی ثابت نہ ہوگا۔ اب مصیبت کا دور شروع ہوا تو متوجہ الی اللہ ہی ہوئے کہ یا اللہ ! اب کیا کروں ، ان کی مسلسل خاموشی سوال بن گئی جس کے جواب میں فتلقیٰ اٰدم من ربہ کلمت فتاب علیہ انہ ھوالتواب الرحیم۔ اللہ ہی نے کچھ کلمات تعلیم فرمائے من ربہ یہ اس کی شان ربوبیت ہے جس قدر علوم انسان کے لئے ضروری ہوں عطا فرماتا ہے جیسے غذا اور دیگر ضروریات ہاں ! حوصلے حوصلے کی بات ہے جیسے دال پر مطمئن رہنے والوں کو زبردستی قورمے نہیں کھلاتا اسی طرح بغیر طلب کے علوم بھی عطا نہیں فرماتا اور طالب کو کبھی محروم نہیں فرماتا۔ یہ بھی واضح ہوگیا کہ ادوار ووظائف بھی وہی مفید ہوں گے جو اللہ کی طرف سے ہوں اور اللہ کے نبی نے بتائے ہوں ، شیخ کے بتانے کی برکت کا تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر شیح کا کام قرآن وسنت سے ضرورت کے مطابق بتانا ہے خود وضع کرنا نہیں ، جیسے حکیم ادویات مرض کے مطابق دے سکتا ہے نئی جڑی بوٹیاں اگانا اس کے بس کی بات نہیں ، بوٹیاں اللہ ہی کی پیدا کردہ ہوں گی۔ ہاں اسے ادویات مرض کے مطابق دے سکتا ہے نئی جڑی بوٹیاں اگانا اس کے بس کی بات نہیں۔ بوٹیاں اللہ ہی کی پیدا کردہ ہوں گی۔ ہاں اسے مرض اور اس کے ازالہ کا علم دیا گیا ہے یہی اس کی فضیلت ہے بالکل اسی طرح شیخ حالات کو دیکھ کر کتاب وسنت سے وظیفہ بتانے کا اہل ہے نہ کہ وظیفے ایجاد کرنا اس کا کام ، جیسے سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ساری عمر کتاب وسنت ارشاد فرماتے رہے اور یار لوگوں نے قصیدہ غوثیہ ایجاد کرلیا۔ بھئی واہ ! بھلا وہ کلام کیوں نے پڑھیں جو حضرت خود بھی پڑھا کرتے تھے کیا وہ صرف اپنا قصیدہ پڑھا کرتے تھے ؟ چنانچہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو بھی اللہ کی طرف سے کلمات عطا ہوئے جو رفع مصیبت کا سبب بنے۔ اکثرروایات کے مطابق وہ آیت یہ تھی ، ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین۔ اب اگر کوئی ہر صلوٰۃ کے بعد گیارہ مرتبہ پڑھنا معمول بنالے تو انشاء اللہ مصیبت سے گلو خلاصی کا سبب ہوگی اور اگر عموم مصائب سے بچنا چاہے تو بہترین نسخہ ہے چناچہ ان کی توبہ یا رجوع الی اللہ قبول ہوا کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا بہت بڑا رحم کرنے والا ہے اس کی رحمت بےپایاں ہے۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ نہ عبادات کو انعام لازمی ہے نہ خطا کو سزا ضروری۔ انعام وجزا بھی محض اس کی بخشش ہے جس سے وہ محروم نہیں کرتا۔ وہ سزا بھی اس کی مرضی سے ہے چاہے تو معاف کردے مگر اس نے معانی کے لئے توبہ کی شرط رکھی ہے زبردستی معافی نہیں ٹھونسے گا جیسے آج کل کے لوگ پھول رہے ہیں کہ جی اللہ بڑا رحیم ہے کیا ضروری ہے کہ عبادت ہی کی جائے ۔ بیشک وہ بڑا رحیم ہے ، مگر بڑا عادل اور حکیم بھی ہے صادق بھی ہے اس کا فیصلہ ہے کہ توبہ تمہیں کرنا ہے پھر اس کی قبولیت کا مدار اس کی رحمت پر ہے بغیر توبہ کے غرہ ہونا مناسب نہیں۔ چناچہ ارشاد ہوا۔ قلنا اھبطوا ھنھا جمیعا فامایا تینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلاخوف علیھم ولا ھم بحزنون والذین کفروا وکذبوا بایتنا وکذبوا بایتنا اولئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون۔ کہ سب زمین پر چلے جائو ، وہاں تمہارے پاس میرے احکام و ہدایت آیا کریں گے ۔ اب تمہاری ساری اولاد میں سے جو بھی میرے احکام کی اطاعت کرے گا اور میری دنیا میں میرا بندہ بن کر رہے گا ، اسے نہ کوئی ڈر ہوگا نہ افسوس۔ ڈر آئندہ کے لئے کہ جانے کل کیا ہو اور افسوس گزشتہ پر کہ ایسا کیوں کیا۔ وہ ان دونوں سے مامون ہوں گے کہ ان کی اطاعت کا آئندہ ثمر بہترین ہوگا اور وہ اپنی گزشتہ زندگی پر مطمئن ہوں گے۔ لیکن اگر شیطان کے بہکاوے میں آگئے اور میرے احکام کا انکار کر بیٹھے یا تکذیب کے مرتکب ہوئے تو ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے جہاں انہیں حساب اعمال ہمیشہ رہنا ہوگا اور کبھی جنت میں نہ جاسکیں گے۔ انکار اور تکذیب تقریباً ہم معنی ہیں کہ ایک کہتا ہے میں یہ بات نہیں مانتا ، انکار ہوگیا ، دوسرا کہتا ہے کہ یہ بات غلط ہے تو یہ تکذیب ہوگئی ، مگر یہاں یوں نظر آتا ہے کہ تکذیب کو اس لئے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اس کے دو درجے ہیں ، ایک زبانی اور دوسری عملاً تکذیب ، جو آج کل ہے کہا جاتا ہے نماز بہت بڑی عبادت ہے مگر پڑھی نہیں جاتی۔ اقرار ہوتا ہے کہ زکوٰۃ فرض ہے مگر ادا نہیں کی جاتی یہی حال دوسرے احکام کا ہے بلکہ اگر بعض مواقع پر سنت کی تلقین کی جاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ سنت پر عمل کرنے سے ناک کٹ جائے گی ، یہ تو حد کفر ہے اور ایسا کہنا والا کفر سے نہیں بچ سکتا اگرچہ لوگ معاً بعد کلمہ وغیرہ بھی پڑھتے ہیں بغیر یہ جانے کہ میں نے کفر بک دیا تھا۔ تو پھر سے اسلام میں تو داخل ہوجاتے ہیں مگر نکاح کی تجدید نہیں کرتے جس کی وجہ سے عمر بھر زنا میں مبتلا ہوتے ہیں اور اولاد بوجہ ناجائز ہونے کے بدکار اور بداندیش ہوتی ہے یہ تو ان لوگوں کا حال ہے جو اپنے رسوم رواج کو سنت پر قولاً وفعلاً ترجیح دیتے ہیں مگر ایسے بھی ہیں جو زبانی ایسا کرنے کی جرات نہیں کرتے اور کہتے ہیں اچھا طریقہ وہی ہے جو مسنون ہے مگر بعض مجبوریاں انہیں اس پر عمل نہیں کرنے دیتیں ایسے لوگ بھی اس وعید کی زد میں ہیں کہ عملی تکذیب کے مرتکب ہیں ۔ خدا ہم سب کو معاف کرے ، آمین۔ یہاں یہ حال کہ عملی تکذیب بھی ورود نار کی خبر دیتی ہے اگرچہ اس میں خلود نہیں کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے ، مگر یار لوگوں نے ہر بدعتی کی ولایت کا اقرار کررکھا ہے ۔ بریں عقل و دانش بباید گریست ، سو انکار کرنے والے اور تکذیب کرنے والے دنیا سے لوٹ کر اپنے اصل گھر نہ جاسکیں گے بلکہ وہ لوگ آگ میں رہنے والے ہوں گے جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہوگا۔
Top