بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mazhar-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
قسم ہے1 ان ہواؤں کی جو بکھیر کر اڑانے والیاں ہیں۔
عجائبات قدرت اور منکرین کی حالت اور انجام۔ (ف 1) والذاریات ، فالحملت، فالجریات، فالمقسمت، یہ سب صفتیں ہیں ، الذاریات وہ تیز ہوا ہے جو خاک اڑاتی پھرتی ہیں ، ادھر ادھر دوڑتی ہیں اور شہروں کو برباد کردیتی ہے، مینہ سے پہلے بادلوں کو اکٹھا کرتی ہیں ، فالحملت وہ بادل جو بھاری بھاری بوجھ لاکھوں من پانی کا اٹھائے ہوئے ہوا میں معلق پھرتے ہیں، فالجاریات وہ کشتیاں جو مزے مزے سے آہستہ آہستہ دریا میں اور ندی نالوں میں ہزاروں من بوجھ سے چلتی ہیں جن سے تجارت ہوتی ہے اور وہ ڈوبتی ہیں فالمقسمت وہ فرشتے جو تمام شہروں میں بارش ورزق وغیرہ کی تقسیم اللہ تعالیٰ کے حکم سے کرتے ہیں یعنی جبرائیل میکائیل واسرافیل عزرائیل (علیہ السلام) کہ یہ خلق پر موکل ہیں، اس قسم کے بعد یہ فرمایا کہ حشر اور اس دن کی جزوسزا کا عدہ جو اللہ کے رسول نے لوگوں سے کیا ہے وہ ایسا ایک سچا وعدہ ہے جس میں کچھ شک نہیں ہے اور روز قیامت جس میں سب باتوں کا فیصلہ ہوگا اچھی طرح باتوں کی پاداش ملے گی قصاص ہوگا، پھر آسمان کی قسم کھاکر فرمایا کہ یہ کفار قرآن کے جھٹلانے میں کوئی ٹھکانے کی بات نہیں کہتے، بےٹھکانے کی باتیں بناتے ہیں کبھی حضور کو ساحر کہتے ہیں کبھی شاعر کبھی کاہن کبھی مجنون ، اسی طرح قرآن کریم کو کبھی سحر بتاتے کبھی کہانت کبھی اگلوں کی داستانیں۔ سمجھدار کے لیے توقران کریم میں وہ نصیحتیں ہیں کہ سوائے بدبخت ازلی کے اور سب پر ان نصیحتوں کا اثر پڑتا ہے پھر فرمایا کہ جو لوگ دنیا کی پیدائش میں غور نہیں کرتے جب سزا وجزا نہیں تو پھر آخر دنیا کا اتنابڑا کارخانہ کس لیے پیدا کیا گیا ہے بلکہ بجائے اس کام کی بات پر غور کرنے کے دنیا کے مال ومتاع کی غفلت اور بھول میں پھنس کر حشر کے باب میں یہ لوگ طرح طرح کی اٹکلیں دوڑاتے ہیں کہ وہ سزا وجزا کا دن کب ہے ، ایسے لوگوں پر خدا کی پھٹکار ہے اور وہ اللہ کے علم ازلی میں دوزخی قرار پاچکے ہیں اے محبوب ایسے لوگوں کو اتنا ہی جواب دیدیاجائے کہ یہ سزا کا دن جب ہوگا کہ ایسے لوگ آگ میں جلیں گے اور اللہ کے فرشتے انکو ذلیل کرنے کے لیے یہ کہیں گے کہ مسخرا پن سے جس عذاب کی دنیا میں تم لوگ جلدی کیا کرتے تھے سو آج اس عذاب کا مزہ چکھو۔
Top