Mazhar-ul-Quran - Al-Hadid : 22
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ : سے مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ : اور نہ تمہارے نفسوں میں اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ : ایک کتاب میں ہے مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ نَّبْرَاَهَا ۭ : کہ ہم پیدا کریں اس کو اِنَّ ذٰلِكَ : بیشک یہ بات عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : بہت آسان ہے
کوئی مصیبت1 (مثلا قحط، پھلوں کی کمی وغیرہ) زمین میں نہیں پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں میں (یعنی تمہاری بیماری اور اولاد کے غموں کی) مگر وہ ایک کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں (لکھی ہوئی) ہے اس سے پہلے کہ ہم اس مصیبت کو پیدا کریں، بیشک یہ کام اللہ کے نزدیک آسان ہے ۔
(ف 1) مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت سے فرقہ قدریہ کے مذہب کی پوری غلطی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لوح محفوظ میں علم ازلی الٰہی کے موافق پہلے سب کچھ لکھاجاچکا ہے اب دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اسی کے موافق ہوتا ہے تمام ملک کی آفت جیسے عام قحط یا عام وبا، جان کی آفت جیسے عزیزوقارب اولاد کامرجانا، انسان کو آئندہ کا حال معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں انسان کو سمجھایا ہے کہ اللہ کا علم ایسا نہیں ہے اس کے علم میں حال کی موجودچیزیں اور آئندہ کی موجود ہونے والی چیزیں دونوں برابر ہیں اس واسطے اس کو دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے تمام دنیا کا حال لوح محفوظ میں لکھ لینا چاہیے کچھ مشکل نہیں اور یہ بھی سمجھایا کہ اس لوح محفوظ کے نوشتہ کے حال سے تم لوگوں کو اس لیے خبردار کیا گیا ہے تاکہ تم مصیبت کے وقت بہت رنج اور بےصبری نہ کرو اور یہ سمجھ لو کہ جو مصیبت آئی وہ تقدیر کے نوشتہ کے موافق ہے جو کبھی ٹلنے والی نہیں ۔ غرض رنج اور مصیبت کے وقت بالکل بےصبر ہوجانا اور راحت کے وقت اترانا بےفائدہ ہے معتبر سند سے ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کا درجہ عقبی میں بڑھانا چاہتا ہے تو ان پر کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے جس پر ان کو صبر کی توفیق دیتا ہے جس صبر کے اجر میں وہ اس درجہ کے قابل ہوجاتے ہیں اس قسم کی اور بھی صحیح حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے نصیب میں جو مصیبت اور آفت لکھی گئی ہے وہ حکمت سے خالی نہیں ہے مصیبت کے بعد راحت کے باب میں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ راحت کے وقت اتراؤ نہیں کیونکہ دنیا کی راحت اور دنیا کی راحت والے سب ناپائدار ہیں ایسی ناپائدار حالت ہرگز اترانے کے قابل نہیں ہے آگے فرمایا کہ دنیا کی چند روزہ راحت پر اترانے سے تکبر بخل غرض ایسی ایسی باتیں انسان میں پیدا ہوتی ہیں جو اللہ کو پسند نہیں ، پھر فرمایا کہ جو شخص اللہ کی نصیحت پر عمل کرنے سے منہ موڑے گا تو اللہ کو اس کی کچھ پرواہ نہیں لیکن اس کے سب کام حکمت سے بھرے ہوئے لائق حمدوثنا کے ہیں جو کسی طرح منہ موڑنے کے قابل نہیں۔
Top