Mazhar-ul-Quran - An-Naba : 31
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًاۙ
اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی لوگوں کے لئے مَفَازًا : کامیابی ہے
بیشک (ف 1) پرہیزگاروں کو کامیابی کی جگہ (یعنی جنت ) ہے
جنت اور اہل جنت اور جنت صرف فضل خداوندی سے ملے گی۔ (ف 1) اوپر دوزخ اور دوزخیوں کا ذکر تھا اس کے مقابلے میں ان آیتوں میں جنت اور جنتیوں کا ذکر ہے جو شرک و فواحش سے بچتے ہیں ان کو دوزخ سے نجات ہے اور اللہ سے قرب اور باغات ہیں جن کے گرد احاطے بنے ہیں کھجور وغیرہ کے اور انگور کے باغات ہیں اور نوخاستہ عورتیں جن کی جوانی پورے ابھار پر ہوگی ، اور سب ایک ہی سن وسال کی ہوں گی اور ان کو وہاں جام پر از شراب ناب پے درپے ملیں گے اور وہاں کوئی لغو اور جھوٹ بات نہ سنیں گے یعنی دنیا کی شراب نوشی کے بعد جس طرح کی بےہودہ باتیں ہوتی ہیں جنت کی شراب نوشی کے بعد ایسی کوئی بات نہ ہوگی بلکہ یاد خدا اور زائد ہوگی، یہ ان کو اچھے کاموں کا بدلہ ملے گا، کہ تھوری سی عمر کے نیک عملوں کے بدلہ میں اللہ کی دنیا کی بےشمارنعمتوں کی شکرگزاری کو پروا کرکے جنت کی اسقدر بےحساب نعمتیں کون پاسکتا ۔ چنانچہ واثلہ بن الاسقع سے مستدرک حکم وغیرہ میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ پچھلی امتوں میں ایک عابد تھا جس نے مدتوں ایک پہاڑ پر بیٹھ کر عبادت کی تھی ، قیامت کے دن اللہ اس عابد سے فرمائے گا کہ میری رحمت کے سبب سے جا جنت میں چلا جاوہ عابد کہے گا یا اللہ میرے نیک عملوں کا بدلہ کہاں ہے، اللہ تعالیٰ اس فرشتوں سے فرمائے گا، اچھا اس کے نیک عملوں کا ان نعمتوں کے ساتھ تول کر اندازہ کیا جائے، جو نعمتیں اس کو دنیا میں دی گئی تھیں، اس اندازہ میں عابد کے سب نیک عمل فقط آنکھوں کی نعمت کے بدلے میں برابر ہوجائیں گے آخرقائل ہوکر وہ عابد اللہ کی رحمت سے جنت میں جانے کا اقرار کرے گا، حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ان ہی نعمتوں کا شکریہ آدمی کے ذمہ ہونے سے صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ بغیر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے کوئی شخص جنت میں نہیں جاسکتا، عطا کے ساتھ حساب کا لفظ جو فرمایا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حساب بھی ایک عطا ہے کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ کہرا ہونے کی جگہ دس سے لے کر سات سو تک کبھی اس سے بھی زیادہ کا حساب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ٹھہرایا ہے جس کا ذکر صحیح حدیثوں میں آیا ہے۔
Top