Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 71
الٓمّٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ١ؕ وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
الٓمّٓرٰ : الف لام میم را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَالَّذِيْٓ : اور وہ جو کہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب کی طرف سے الْحَقُّ : حق وَلٰكِنَّ : اور لیکن (مگر) اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
المر یہ آیتیں ہیں کتاب کی ، اور وہ جو نازل کیا گیا ہے آپ کی طرف آپ کے پروردگار کی جانب سے برحق ہے ، لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
تفسیر : (نام اور کوائف) اس سورة کا نام سورة الرعد ہے ، رعد بادل کی گرج کو کہا جاتا ہے چونکہ اس سورة میں بادلوں اور انکی گرج کا ذکر ہے ، اس لیے اس سورة کو رعد کے نام موسوم کیا گیا ہے ، گذشتہ سورة یوسف کی طرح یہ سورة بھی مکی ہے جو کہ مکی دور کے آخری حصے میں نازل ہوئی ، یہ وہی دور ہے جب حضور ﷺ اور آپ کے پیروکار سخت مصائب کا شکار ہو رہے تھے ، اس سورة کی تینتالیس آیات ، 855 کلمات اور 3056 حروف ہیں ، یہ زیادہ لمبی سورة نہیں بلکہ چھ رکوع کی درمیانی سورة ہے ۔ (مضامین سورة ) سورۃ یوسف اور سورة رعد کے زمانہ نزول کی طرح ان کے مضامین بھی آپس میں ملتے جلتے ہیں مکی سورتوں میں عام طور پر بنیادی عقائد توحید ، رسالت ، قیامت وغیرہ کا ذکر آتا ہے ، قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کو بھی مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے ، توحید کے ساتھ ساتھ شرک کی تمام اقسام کی تردید کی گئی ہے اور ایمان کی جزئیات کو بیان کیا گیا ہے ، تو اس سورة رعد میں بھی بالعموم انہی چیزوں کا ذکر ہوگا اور ساتھ ساتھ ضمنی باتیں بھی آئیں گی ، مکی سورتوں میں اصلاح عقیدہ کے موضوع کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان کی فکر پاک نہیں ہو سکتی اور نہ ہی عبادات ، معاملات اور اخلاق درست ہو سکتے ہیں ، اس سورة کا ایک خصوصی موضوع حق و باطل کی کشمکش ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعہ واضح فرمایا ہے ۔ (محکمات متشابہات اور مقطعات) قرآن پاک میں تین قسم کی آیات آتی ہیں ، محکمات وہ آیات ہیں جن کا مطلب واضح اور حقیقت روشن ہو ، ایسی آیات پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے دوسری قسم متشابہات کی ہے ان آیات کا معنی تو سمجھ میں آتا ہے مگر ان کی حقیقت انسانی سمجھ سے باہر ہوتی ہے ، جیسے اگلی آیت ، 2 میں ہے (آیت) ” ثم استوی علی العرش “ پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا ، اس حصہ آیت کا معنی تو معلوم ہے مگر یہ حقیقت انسانی سمجھ میں نہیں آسکتی کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت کیا ہے یہ متشابہات میں سے ہے ، ایسی آیات کے متعلق سورة آل عمران میں حکم دیا گیا ہے کہ ان کو محکم آیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرو ۔ آیات یا الفاظ کی تیسری قسم مقطعات کی ہے ایسے الفاظ کا مطلب تو معلوم نہیں ہوتا ۔ مگر ان پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے ، امام جلال الدین سیوطی (رح) اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں 1 (جلالین ص 4) اللہ اعلم بمرادہ بذلک “ یعنی اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان الفاظ سے کیا مراد ہے ، ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم عقیدہ رکھیں کہ ان الفاظ سے اللہ نے جو بھی مراد لی ہے وہ برحق ہے ، اور ہمارا اس پر ایمان ہے ۔ ہماری عقل ناقص اور ذہن کمزور ہے ، اس لیے ہم ہر چیز کی حقیقت کو معلوم نہیں کرسکتے بعض چیزوں کا انکشاف اس دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا ، ان کا علم آخرت میں چل کر ہوگا ۔ اس کی مثال کے طور پر محدثین کرام فرماتے ہیں ، کہ تقدیر کا مسئلہ ایسا ہے کہ اس کی حقیقت جنت میں جا کر کھلے گی ، اسی طرح حروف مقطعات کے معانی ہیں ، جنہیں ہم نہیں جانتے اور یہ اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہیں ، ہمیں صرف ان ایمان رکھنا چاہئے کہ یہ برحق ہیں ، ایسی چیزوں کو زیادہ کریدنے کی اجازت نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے انسان گمراہ ہو سکتا ہے ، لہذا تفسیر میں یہ طریقہ بہتر سمجھا جاتا ہے کہ انسان ایسی چیزوں میں زیادہ کرید نہ کرے ۔ (بحث برائے تقریب فہم) بعض مفسرین اور متکلمین متشابہات اور مقطعات میں محض اس لیے بحث کرتے ہیں کہ انسانوں کے اذہان قرآن کریم کے قریب رہیں اور لوگ اللہ کی کتاب سے دور نہ ہوجائیں ، وگرنہ حقیقت یہی ہے کہ خود حضور ﷺ نے بھی حروف مقطعات کے متعلق کوئی بحث نہیں کی ہے ، حافظ ابن حجر (رح) فتح الباری میں ذکر کرتے ہیں کہ ان حروف میں نہ تو آنحضرت ﷺ نے اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے کلام کیا ہے بلکہ آپ ان حروف کو اسی طرح پڑھتے رہے جس طرح یہ نازل ہوئے ہیں ، البتہ حافظ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ ان حروف کو من وعن تسلیم کرلو اور ان کی حقیقت دریافت کرنے کی کوشش نہ کرو ، پھر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے آخری دور میں جب عجم کے اکثر لوگ اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے ان حروف کے متعلق کرید کی تو ان کے بعض معانی حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے منقول ہوئے مگر یہ محض تقریب فہم کے لیے ہے ، یقین سے پھر بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا جب حضرت علی ؓ سے تقدیر کے مسئلہ میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا ” سر اللہ فلاتفتحوا “ یہ اللہ تعالیٰ کے راز ہیں ، ان میں تحقیق نہ کرو ، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، بلکہ الٹا خرابی پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔ (المر کی بحث) بعض مفسرین اور محدثین الم کے متعلق فرماتے ہیں ، کہ اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اجتماع کی مختلف صورتیں بیان ہوئی ہیں اور ان حروف مقطعات کا اشارہ رحمت خداوندی کے اکٹھا ہونے کے مقام کی طرف ہے ، بعض ان حروف سے بلندی کا جھنڈا مراد لیتے ہیں ، اور یہ اس شخص کے ہاتھ میں ہوگا ، جو قرآن کریم کی تعلیمات کو اپنالے گا ، بعض فرماتے ہیں کہ علوم الہیہ یا معارف ربانی کی چمک ان حقائق سے ہے جو اس سورة میں بیان کیے گئے ہیں اور الم سے وہ حقائق مراد ہیں ، علی مہائمی (رح) نے اپنی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ اس سورة میں اللہ نے ہدایت اور رشد کی پوشیدہ باتیں اور لطائف و اسرار کو بیان کیا ہے اور ان حروف سے یہی چیز مراد ہے ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ” الم “ میں ا سے مراد الاء بمعنی انعامات ل سے لطف اور م سے لازوال ملک مراد ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام نعمتیں ، بےانتہا لطف اور لازوال بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے ، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ” الم “ مخفف ہے ” انا اللہ اعلم واری “ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں میں جانتا ہوں اور دیکھتا ہوں ، بعض یہ فرماتے ہیں کہ ” الم “ سے وہ اسرار لطیفہ مراد ہیں جو رشد پر مبنی ہیں اور شک کو زائل کرتے ہیں ، امام رازی (رح) نے بعض بزرگوں سے یہ بھی نقل کیا ہے ” انا اللہ العلک الرحمن “ یعنی اللہ فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں جو بادشاہ اور رحمان ہوں ، بہرحال مختلف مفسرین نے یہ مختلف معانی بیان کیے ہیں اور قرآن کریم انہی مطالب ومعانی کا مظہر ہے ۔ (شاہ ولی اللہ (رح) کی توجیہہ) امام شاہ ولی اللہ (رح) نے اپنی تین کتابوں الفور الکبیر ، الخیر الکثیر اور ہوامع میں اس مسئلہ کا ذکر کیا ہے ، فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کشفی طریقے سے سمجھایا ہے کہ ” الم “ سے ان غیوب کی طرف اشارہ ہے جو مقدس عالم یعنی عالم بالا سے عالم ۔۔۔۔۔۔ میں آکر بنی آدم میں پائے جانے والے قبائح ساتھ آکر ٹکراتے ہیں ، شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ جس مقام سے قرآن پاک نازل ہوتا ہے وہ حظیرۃ القدس کا مقدس جہان ہے جو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک ہے اور عالم متدنس یہ مادی جہان ہے جہاں ہر قسم کی آلودگی ، شرور فتن ، بدعقیدگی ، بدوضعی ، بداخلاقی ، کفر شرک ، نفاق ، الحاد اور گندگی پائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایمان ، تقوی ، نیکی اور طہارت بھی ملی جلی ہوئی ہے ، تو عالم بالا سے آنے والے علوم ومعارف کا تصادم اس مادی جہان کی برائیوں سے مسلسل ہوتا رہتا ہے چونکہ اس سورة میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے تو ” الم “ سے اسی کی طرف اشارہ ہے کہ حق و باطل ہمیشہ ٹکراتا رہتا ہے جس سے حق واضع ہوتا ہے اور باطل مٹتا ہے ۔ (الکتاب) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” تلک ایت الکتب “۔ یہ آیات ہیں الکتاب کی تفسیر میں مولانا شاہ اشرف علی تھانویرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ الکتاب سے عظیم کتاب مراد ہے قرآن کریم ہی وہ عظیم کتاب ہے جو صحیح معنوں میں کتاب کہلانے کی مستحق ہے اس کے علاوہ باقی تمام کتابیں مجازا کتاب کہلاتی ہیں حقیقی کتاب یہی ہے یہ خدا تعالیٰ کی علم اور صفت کا ظہور ہے ۔ امام سیبویہ (رح) دوسری صدی ہجری کے امام ہیں ، ایک موقع پر استاد کے سامنے عبارت پڑھتے ہوئے تلفظ کی غلطی کی تو استاد صاحب نے فرمایا کہ تم دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہو مگر تمہارا تلفظ بھی درست نہیں امام صاحب یہ سن کر سخت افسردہ ہوئے اور اٹھ کر چلے گئے ، انہوں نے پختہ ارادہ کیا کہ عربی قواعد کی تعلیم حاصل کیے بغیر آگے نہیں بڑھوں گا ، چناچہ انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ علم نحو کی تحقیق و جستجو میں گزار دیا جب آپ نے اس علم میں کمال حاصل کرلیا تو استاد کے پاس آئے ، بہرحال امام صاحب نے علم نحو کی تحقیق میں دو ضخیم جلدوں میں الکتاب نامی کتاب لکھی ۔ اگرچہ یہ کتاب آجکل نہیں پڑھائی جاتی مگر اس سے اخذ ضرور کیا جاتا ہے اس کتاب کو بھی اس کی عظمت کی بنا پر ” الکتاب “ کہا جاتا ہے تاہم سب سے عظیم الشان کتاب قرآن حکیم ہے اور اس کے متعلق یہاں ارشاد ہے کہ یہ الکتاب کی آئتیں ہیں ۔ (قرآن برحق) فرمایا یہ بڑی کتاب کی آئتیں ہیں ۔ (آیت) ” والذی انزل الیک من ربک الحق “ اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے پروردگار کی طرف سے اتارا گیا ہے ‘ وہ برحق ہے ، حق کا معنی ثابت چیز ہوتا ہے جس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو ، قرآن پاک کو حق کہا گیا ہے ، جس کے تمام علوم ومعارف واقع کے مطابق ثابت ہیں اور اس میں کوئی غلط یا مشکوک چیز شامل نہیں ہے ، پھر اسی کتاب کے ضمن میں دین کے جو اصول شریعت اور ملت ہیں ‘ وہ بھی بلاشبہ حق ہیں ، (آیت) ” ولکن اکثر الناس لا یؤمنون “ ۔ مگر اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ، تاریخ عالم گواہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر دور میں اکثریت غلط عقیدے پر ہی رہی ہے ۔ لوگ صحیح عقیدے اور صحیح بات کو تسلیم کرنے کی بجائے خاندانی قومی اور ملکی رسم و رواج کے پیچھے چلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ سچی کتاب کے اصول و احکام کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوتے ، سابقہ سورة میں بھی یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ لوگوں کی اکثریت بےدین ہو رہی ہے بہرحال یہ قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا بیان بھی ہوگیا ۔ (آسمان کی حقیقت) اب اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کو دلائل کے ذریعے سمجھایا ہے اور ساتھ ساتھ قیامت کو بھی برحق قرار دیا ہے ، ہر دو مسائل کا ذکر اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ سے ہوتا ہے ۔ (آیت) ” اللہ الذی خلق السموت بغیر عمد ترونھا “۔ اللہ کی ذات وہ ہے جس نے آسمان کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا جن کو تم دیکھ رہے ہو ، یعنی نیلگوں آسمان تمہیں صاف نظر آرہا ہے عربی میں اس کے لیے خضراء یعنی سبزی مائل کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے حضور ﷺ نے حضرت ابوذر غفاری ؓ کی تعریف میں فرمایا ” ما اظلت الخضرآء ولا اقلت الغبرآء علی ذی لھجۃ اصدق من ابی ذر “۔ یعنی سبزی مائل آسمان اور گرد و غبار والی زمین کے درمیان حضرت ابوذر غفاری ؓ سے سچا آدمی کوئی نہیں ہے ، یہ زہد وتقوی میں عیسیٰ ابن مریم (علیہا السلام) کے مشابہ ہیں ، بہرحال آسمان کے لیے خضراء کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے ، اگرچہ اس کی رنگت نیلگوں ہے ۔ بعض لوگ آسمان کی حقیقت کے قائل نہیں بلکہ اسے محض حد نگاہ سے تعبیر کرتے ہیں ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ آسمانی کر ات کی وضع قطع بھی زمین جیسی ہی ہے ، دیگر آسمانی کروں کی طرح زمین بھی ایک کرہ ہے اور فضا میں معلق ہے ، تیز ترین راکٹ کے ذریعے جو لوگ زمین سے بہت دور فضا میں چلے جاتے ہیں انہیں زمین بھی چاند ، سورج اور دیگر سیاروں کی طرح ایک گول مٹول سیارہ ہی نظر آتی ہے مگر انہیں چاند روشن اور زمین تاریک نظر آتی ہے کیونکہ چاند کے عناصر زمین کی نسبت لطیف ہیں ، بہرحال شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ آسمان محض ایک حدنگاہ کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے ، سورة بقرہ میں اللہ کا ارشاد موجود ہے کہ اس نے تمہارے لیے زمین کو فرش (آیت) ” والسمآء بنآء “ اور آسمان کو چھت بنایا ، ظاہر ہے کہ چھت ایک ٹھوس چیز ہوتی ہے جو دیواروں اور ستونوں پر کھڑی کی جاتی ہے ، مگر آسمان کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ چھت ضرور ہے مگر بغیر دیواروں اور ستونوں کے ہے بلکہ اللہ نے اسے اپنی کمال قدرت کے سامنے کھڑا کیا ہے ۔ سائنسدانوں کی تحقیق یہ ہے کہ تمام آسمانی کرے قانون کشش کے ذریعے اپنے اپنے مدار میں محو گردش ہیں اور یہ آپس میں ٹکراتے نہیں آخر قانون کشش بھی تو خدا تعالیٰ ہی کا پیدا کردہ ہے جس نے تمام کروں کو مربوط بنا رکھا ہے جب تک یہ قانون موجود ہے موجودہ نظام شمسی اسی طرح برقرار ہے ، پھر جب اس قانون کو ختم کردیا جائے گا تو سارا نظام درہم برہم ہو کر کر ات آپس میں ٹکرا جائیں گے اور قیامت برپا ہوجائے گی ، اس دن آسمان بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا ، مگر اس وقت تک یہ آسمان ایک حقیقت کے طور پر قائم ہے جس کے متعلق یہاں فرمایا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ستونوں کے بلند کیا ہے جسے ہر شخص بچشم خود ملاحظہ کررہا ہے ۔ (استوی علی العرش) فرمایا اللہ نے بغیر ستونوں کے آسمانوں کو کھڑا کیا (آیت) ” ثم استوی علی العرش “۔ پھر وہ مستوی ہوا عرش پر یہ آیت اس لحاظ سے متشابہات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت کسی کو معلوم نہیں چناچہ متکلمین اس کی توجہیہ تین طریقوں سے کرتے ہیں بعض حضرات اس کو مجازی معنوں میں لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا عرش پر قائم ہونا اس طرح نہیں جس طرح ہم چارپائی یا کرسی پر بیٹھتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام کائنات پر خدا تعالیٰ کا کنٹرول ہے عربی میں کہتے ہیں ” استوی بشر علی العراق من غیر دم مہراق “۔ یعنی بشر عراق کا بادشاہ بن گیا بغیر خون کا قطرہ بہائے تو یہاں پر استوی کا معنی اقتدار حاصل ہونا ہے یعنی اسے پورے عراق پر کنٹرول حاصل ہوگیا ، بعض آئمہ کرام اور سلف صالحین استوی کا حقیقی معنی مراد لیتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ عرش پر مستوی ہے مگر ہم اس کی کیفیت سے نابلد ہیں ، ہم خدا کے بیٹھنے کو اس طرح محمول نہیں کرسکتے جس طرح ہم کسی چیز پر بیٹھتے ہیں ہم مادی دنیا میں رہتے ہیں ، ہم جہاں بھی مقیم ہوں ہمارے دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے جہت ہوتی ہے ۔ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ مادی تصورات ، محسوسات اور جہت سے پاک ہے ، لہذا اس کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت ہمارے ذہن میں نہیں آسکتی ، ہم اسی چیز پر ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے ہم اس کے عرش پر بیٹھنے کی کیفیت کو متعین نہیں کرسکتے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اس معاملہ کو آسمان طریقے سے پیش کرتے ہیں ، آپ فرماتے ہیں کہ ارض وسما ، ملائکہ روح اور تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اسی طرح عرش بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور عرش سے نیچے کی تمام اشیاء مخلوق میں داخل ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے ، شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عرش پر مستوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی تجلی جب عرش پر پڑتی ہے تو سارا عرش رنگین ہوجاتا ہے ، پھر اس تجلی کے اثرات نیچے تمام کائنات پر پڑتے ہیں اور پھر عرش کی طرح لوٹتے ہیں ، توعرش پر پڑنے والی تجلی کو تجلی اعظم کہا جاتا ہے اور اسی تجلی کے لیے ہم اپنی زبان میں اللہ کا لفظ بولتے ہیں اسی کے لیے رحمان کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں ، انسانی ذہن خدا تعالیٰ کی ذات اس سے بہت بلند ہے جو انسانی ذہن میں نہیں آسکتی ، شاہ صاحب (رح) فرماتین ہیں کہ اگر کوئی شخص حظیرہ القدس میں پہنچ جائے تو وہ تجلی اعظم کو نمایاں طور پر محسوس کرسکے گا کیونکہ یہ وہاں پر براہ راست پڑ رہی ہے مگر اس مادی دنیا میں رہتے ہوئے وہاں تک رسائی ممکن نہیں ، البتہ مرنے کے بعد آخرت میں جا کر انسان تجلی اعظم تک ترقی کرسکتا ہے اور اس کو واضح طور پر سمجھ سکتا ہے ۔ (تسخیر شمس وقمر) فرمایا اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا (آیت) ” وسخر الشمس والقمر “ اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کرلیا ہے یعنی کام میں لگا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ (آیت) ” کل یجری لاجل مسمی “ ان میں سے ہر ایک مقررہ وقت کے لیے چلتا ہے سورج اور چاند اپنے اپنے راستے پر محو سفر ہیں سورج مکمل بارہ ماہ تک ایک ہی مدار میں چلتا ہے جب کہ چاند ہر ماہ اپنا مدار تبدیل کرتا رہتا ہے ، بہرحال اللہ نے ان کے لیے اپنی اپنی منازل مقرر کردی ہیں جس میں وہ چلتے رہتے ہیں اور انسان کی خدمت کرتے رہتے ہیں سورج انسانی ضروریات کے لیے روشنی اور حرارت بہم پہنچا رہا ہے اور اس کے اثرات سے اناج اور پھل پکتے ہیں چاند کی دہمی روشنی سے پھلوں میں رس پیدا ہوتا ہے سمندر کے پانیوں میں مدوجزر کا عمل پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کا اثر ہواؤں پر بھی ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے پورے نظام شمسی کو ایک مقرر مدت تک کے لیے جاری فرما دیا ہے ، جب یہ نظام اپنی مقررہ مدت کو پہنچ جائے گا تو سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور پھر دوسرا نظام شروع ہوجائیگا ۔ (بعث بعد الموت) فرمایا (آیت) ” یدبرالامر “۔ اللہ تعالیٰ ہر معاملے کی خود تدبیر کرتا ہے مگر اکثر لوگ یہ صفت دوسروں میں تسلیم کرکے شرک کے مرتکب ہوتے ہیں ، وہ غیر اللہ کو بھی تدبیر کندہ مانتے ہیں حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے ، پھر فرمایا (آیت) ” یفصل الایت “ اللہ تعالیٰ آیتوں کو کھول کر بیان کرتا ہے اور اس میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں رہنے دیتا اور یہ اس لیے کرتا ہے ، (آیت) ” لعلکم بلقآء ربکم توقنون “۔ تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات پر یقین رکھو ، مطلب یہ ہے کہ قیامت واقع ہوگی اور مرنے کے بعد اللہ کے ہاں حاضر ہونا ہے ، وہاں حساب کتاب کی منزل آئیگی اور ہر ایک کو اپنے کیے کا بھگتان کرنا ہوگا ، اللہ تعالیٰ نے توحید کا مسئلہ بھی سمجھا دیا ہے کہ جب خدا قادر مطلق ہے ، اس نے آسمان کو بغیر ستونوں کے کھڑا کیا ہے ، تمام معاملات کی تدبیر کرتا ہے ، تو کیا مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات میں کھول کر بیان کردیا ہے کہ اللہ کی وحدانیت پر ایمان لاؤ اور بعث بعد الموت پر یقین رکھو۔
Top