بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Ar-Ra'd : 1
الٓمّٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ١ؕ وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
الٓمّٓرٰ : الف لام میم را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَالَّذِيْٓ : اور وہ جو کہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب کی طرف سے الْحَقُّ : حق وَلٰكِنَّ : اور لیکن (مگر) اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
یہ آیتیں ہیں کتاب کی اور جو کچھ اترا تجھ پر تیرے رب سے سو حق ہے لیکن بہت لوگ نہیں مانتے
خلاصہ تفسیر
الۗمّۗرٰ (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (جو آپ سن رہے ہیں) آیتیں ہیں ایک بڑی کتاب (یعنی قرآن) کی اور جو کچھ آپ ﷺ پر آپ ﷺ کے رب کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے یہ بالکل سچ ہے اور (اس کا مقتضا یہ تھا کہ سب ایمان لاتے) لیکن بہت سے آدمی ایمان نہیں لاتے (ربط، اوپر حقیقت قرآن کا مضمون تھا آگے توحید کا مضمون ہے جو کہ اعظم مقاصد قرآن سے ہے) اللہ ایسا (قادر) ہے کہ اس نے آسمانوں کو بدون ستون کے اونچا کھڑا کردیا چناچہ تم ان (آسمانوں) کو (اسی طرح) دیکھ رہے ہو پھر عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہوا (جو کہ اس کی شان کے لائق ہے) اور آفتاب و ماہتاب کو کام میں لگا دیا (ان دونوں میں سے) ہر ایک (اپنے مدار پر) ایک وقت معین میں چلتا رہتا ہے (چنانچہ سورج اپنے مدار کو سال بھر میں قطع کرلیتا ہے اور چاند مہینہ بھر میں) وہی (اللہ) ہر کام کی (جو کچھ عالم میں واقع ہوتا ہے) تدبیر کرتا ہے (اور) دلائل (تکوینیہ و تشریعیہ) کو صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب کے پاس جانے کا (یعنی قیامت کا) یقین کرلو (اس کے امکان کا تو اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ ایسی عظیم چیزوں کی تخلیق پر قادر ہے تو مردوں کو زندہ کرنے پر کیوں نہیں قادر ہوگا اور اس کے وقوع کا یقین اس طرح کہ مخبر صادق نے ایک امر ممکن کے وقوع کی خبر دی لامحالہ وہ سچی اور صحیح ہے) اور وہ ایسا ہے کہ اس نے زمین کو پھیلا دیا اور اس (زمین) میں پہاڑ اور نہریں پیدا کیں اور اس میں ہر قسم کے پھلوں سے دو دو قسم کے پیدا کئے (مثلا کھٹے اور میٹھے یاچھوٹے اور بڑے کوئی کسی رنگ کا اور کوئی کسی رنگ کا اور) شب (کی تاریکی) سے دن (کی روشنی) کو چھپا دیتا ہے (یعنی شب کی تاریکی سے دن کی روشنی پوشیدہ اور زائل ہوجاتی ہے) ان امور (مذکورہ) میں سوچنے والوں کے (سمجھنے کے) واسطے (توحیدپر) دلائل (موجود) ہیں (جس کی تقریر پارہ دوم کے رکوع چہارم کے شروع میں گذری ہے) اور (اسی طرح اور بھی دلائل ہیں توحید کے چنانچہ) زمین میں پاس پاس (اور پھر) مختلف قطعے ہیں (جن کا باوجود متصل ہونے کے مختلف الاثر ہونا عجیب بات ہے) اور انگوروں کے باغ ہیں اور (مختلف) کھیتیاں ہیں اور کھجور (کے درخت) ہیں جن میں بعضے تو ایسے ہیں کہ ایک تنہ اوپر جا کردو تنے ہوجاتے ہیں اور بعضوں میں دو تنے نہیں ہوتے (بلکہ جڑ سے شاخوں تک ایک ہی چلا جاتا ہے اور) سب کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتا ہے اور) سب کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتا ہے اور (باوجود اس کے پھر بھی) ہم ایک کو دوسرے پر پھلوں میں فوقیت دیتے ہیں ان امور (مذکورہ) میں (بھی) سمجھداروں کے (سمجھنے کے) واسطے (توحید کے) دلائل (موجود) ہیں

معارف و مسائل
یہ سورة مکی ہے اور اس کی کل آیتیں تینتالیس ہیں اس سورة میں بھی قرآن مجید کا کلام حق ہونا اور توحید و رسالت کا بیان اور شبہات کے جوابات مذکور ہیں
الۗمّۗرٰ یہ حروف مقطعہ ہیں جن کے معنی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں امت کو اس کے معنی نہیں بتلائے گئے عام امت کو اس کی تحقیق میں پڑنا بھی مناسب نہیں۔
حدیث رسول بھی قرآن کی طرح وحی الہی ہے
پہلی آیت میں قرآن کریم کے کلام الہی اور حق ہونے کا بیان ہے کتاب سے مراد قرآن ہے اور ۭ وَالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ سے بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن ہی مراد ہو لیکن واؤ حرف عطف بظاہر یہ چاہتا ہے کہ کتاب اور اَلَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ دوچیزیں الگ الگ ہوں اس صورت میں کتاب سے مراد قرآن اور اَلَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ سے مراد وہ وحی ہوگی جو علاوہ قرآن کے رسول کریم ﷺ پر آئی ہے کیونکہ اس میں تو کوئی کلام نہیں ہوسکتا کہ رسول کریم ﷺ پر آنے والی وحی صرف قرآن میں منحصر نہیں خود قرآن کریم میں وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى یعنی رسول کریم ﷺ جو کچھ کہتے ہیں وہ کسی اپنی غرض سے نہیں کہتے بلکہ ایک وحی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو بھیجی جاتی ہے اس سے ثابت ہوا کہ رسول کریم ﷺ جو قرآن کے علاوہ دوسرے احکام دیتے ہیں وہ بھی منزل من اللہ ہی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے اور اس کی تلاوت نہیں ہوتی اور اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے معانی اور الفاظ دونوں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور قرآن کے علاوہ حدیث میں جو احکام آپ دیتے ہیں ان کے بھی معانی اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل ہوتے ہیں مگر الفاظ منزل من اللہ نہیں ہوتے اسی لئے نماز میں ان کی تلاوت نہیں کی جاسکتی۔
معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ یہ قرآن اور جو کچھ احکام آپ ﷺ پر نازل کئے جاتے ہیں وہ سب حق ہیں جن میں کسی شک وشبہ کی گنچائش نہیں لیکن اکثر لوگ غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے اس پر ایمان نہیں لاتے۔
دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کے دلائل مذکور ہیں کہ اس کی مخلوقات اور مصنوعات کو ذرا غور سے دیکھو تو یہ یقین کرنا پڑے گا کہ ان کی بنانے والی کوئی ایسی ہستی ہے جو قادر مطلق ہے اور تمام مخلوقات و کائنات اس کے قبضہ میں ہیں۔
Top