Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 27
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَۖۚ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہ اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہتا ہے وَيَهْدِيْٓ : اور راہ دکھاتا ہے اِلَيْهِ : اپنی طرف مَنْ : جو اَنَابَ : رجوع کرے
اور کہتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہ کیوں نہیں اتاری جاتی اس پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرف سے (اے پیغمبر ! ) آپ کہہ دیجئے بیشک اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہے اور ہدایت دیتا ہے اپنی طرف اس کو جو رجوع رکھتا ہے ۔
(ربط آیات) گذشتہ آیات میں قرآن کریم کی نصیحت سے مستفید نہ ہونے والوں کے اوصاف بیان ہوئے کہ یہ لوگ عہد کو توڑتے ہیں جس چیز کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اس کو کاٹتے ہیں اور فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں ، فرمایا ایسے لوگوں کے لیے اللہ کی لعنت اور آخرت میں برا ٹھکانا ہوگا ، اگر ایسے نافرمان لوگوں کو دنیا میں وافر روزی نصیب ہو تو اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے کیونکہ رزق کی وسعت اللہ تعالیٰ کی حکمت پر منحصر ہوتی ہے ، دنیا کا مال واسباب خدا کی جانب سے آزمائش ہوتی ہے ، یہ کسی شخص کے پسندیدہ ہونے کی علامت نہیں ہوتی ، اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ، تاہم وہ ہر شخص کی صلاحیت کے مطابق ہی کوئی فیصلہ کرتا ہے ، اس کی حکمت کو کوئی مخلوق نہیں جان سکتی ، (نشانی کا مطالبہ) آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے نافرمانی کرنے والوں کا شکوہ بیان کیا ہے ۔ کہ یہ لوگ محض ضد اور عناد کی بنا پر فضول مطالبات کرتے تھے حالانکہ ان پر حقیقت واضح ہوچکی تھی ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ویقول الذین کفروا “۔ اور کہتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا ، کفر کا لغوی معنی انکار ہی ہے ، اور اصطلاحا توحید ‘ ایمانیات ، کتاب ، انبیائ ، کتب سماویہ ، قیامت اور ملائکہ کا انکار مراد ہے ، یہ لوگ کہتے ہیں (آیت) ” لولا انزل علیہ ایۃ من ربہ “۔ کیوں نہیں اتاری جاتی اس (پیغمبر) پر نشانی اس کے رب کی طرف سے ، اس نشانی سے وہ نشانی مراد ہے جو کافر لوگ خود اپنے مونہوں سے طلب کرتے تھے نشانیاں تو ہزاروں اللہ نے آپ کے ہاتھ پر ظاہر فرمائیں اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے پیغمبر ! قل آپ کہہ دیجئے (آیت) ” ان اللہ یضل من یشآئ “۔ بیشک اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہے (آیت) ” ویھدی الیہ من اناب “ اور ہدایت دیتا ہے اپنی طرف اس کو جو رجوع رکھتا ہے ، ہدایت اور گمراہی دونوں چیزوں کے اسباب ہیں ، جو شخص ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو گمراہ کرتا ہے ، وہ راہ راست سے محروم رہتا ہے ، سورة نساء میں ہے ” بل طبع اللہ علیھا بکفرھم “ اللہ تعالیٰ نے انکے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے جس کی وجہ سے حق کو قبول نہیں کرتے اور کفر پر جمے ہوئے ہیں ، سورة بقرہ کی ابتداء میں بھی ہے (آیت) ” ختم اللہ علی قلوبھم “۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے ، ہدایت کے لیے طلب کا ہونا ضروری ہے جو شخص ہدایت کی خواہش رکھے گا ، اسے حاصل ہوگی اور جو عناد اور ضد رکھے گا اسے ہدایت نصیب نہیں ہوگی بلکہ وہ گمراہی میں ہی بھٹکتا رہے گا ۔ مکہ کے مشرکین حضور ﷺ سے من مانی نشانیاں طلب کرتے رہتے تھے ، کہتے تھے مکہ کے ان پہاڑوں کو یہاں سے چلا دے تاکہ ہم یہاں پر کھیتی باڑی کرسکیں کبھی کہتے ان پہاڑوں کو سونے کا بنا دے اس قسم کی بہیودہ فرمائشیں کرتے مگر تسلیم نہیں کرتے تھے شق القمر کا معجزہ انہوں نے خود طلب کیا ، پھر جب اللہ نے اسے ظاہر کردیا تو کہنے لگے (آیت) ” سحرمستمر “۔ (القمر) یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ، پہلے بھی ہوتا تھا ، اب بھی ہوتا ہے ، غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے منکرین کی ذہنیت کا ذکر کیا ہے کہ یہ ہٹ دھرم لوگ ، اللہ کی طرف رجوع نہیں رکھتے لہذا انہیں ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی ، ہدایت اس شخص کو حاصل ہوگی جو اللہ تعالیٰ سے اس کا طلبگار ہوگا ۔ (اطمینان قلب) کفار کے تذکرے کے بعد اب اہل ایمان کا ذکر آرہا ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” الذین امنوا “ وہ لوگ جو ایمان لائے (آیت) ” وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ “ اور مطمئن ہوتے ہیں ان کے دل اللہ کے ذکر سے ، ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ جو بھی ایماندار آدمی اللہ کا ذکر کریگا اس کے دل میں سکون پیدا ہوگا ، ساتھ یہ بھی فرمایا ” الا “ آگاہ رہو اور سن لو ، (آیت) ” بذکر اللہ تطمئن القلوب “ اللہ کے ذکر کے ساتھ ہی دلوں کو اطمینان حاصل ہوسکتا ہے ، اطمینان قلب کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے ، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب اللہ کا نام لیا جائے یا اس کا کلام پڑھا جائے یا کوئی شخص منقول ذکر کو اپنی زبان سے ادا کرتا ہے تو اس کے دل میں خاص قسم کا انس پیدا ہوتا ہے اور وحشت دور ہوتی ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے دل میں سکون پیدا ہوتا ہے جس سے وہ خاص قسم کا لطف محسوس کرتا ہے ، برخلاف اس کے دنیا کے آرام و آسائش کے تمام لوازمات بھی اکٹھے کرلیے جائیں تو جسم کو آرام تو مل سکتا ہے مگر سکون قلب حاصل نہیں ہوسکتا ، دنیا کا عیش و آرام تو ایسی چیز ہے کہ اس سے کوئی انسان کبھی بھی سیر نہیں ہوتا بلکہ اس کا معاملہ (آیت) ” ھل من مزید “۔ والا ہوجاتا ہے ، کہ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری سہولت کے لیے ہاتھ پیر مارتا ہے ، اس کی حرص بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور وہ اطمینان قلب سے محروم رہتا ہے ، بڑے بڑے دولت مند حتی کہ سلطنتوں کے مالک بھی ذکر الہی سے دوری کی وجہ سے بےچین ہی رہتے ہیں ، اس کے برخلاف اپنے دلوں کو ذکر الہی سے منور کرنے والے مزدور پیشہ لوگوں کو بھی سکون قلب حاصل ہوجاتا ہے ان کی ساری وحشت دور ہوجاتی ہے ، غرضیکہ اطمینان قلب کا واحد ذریعہ ذکر الہی ہے ۔ (ذکر الہی کے طریقے) ذکر کی مختلف صورتیں ہیں ، عام طور پر ذکر زبانی ہوتا ہے انسان نماز پڑھتا ہے ، قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے ، یا دیگر ذکر و اذکار کرتا ہے ، جنہیں زبان کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے ، امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نشانیوں اور نعمتوں میں غور وفکر کرتا ہے کہ اللہ نے انہیں کیسی حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے ، تو یہ بھی اللہ کے ذکر کے مترادف ہے ، اس کے علاوہ ایک ذکر ذکر قلبی بھی ہے ، بزرگان دین اس کا طریقہ بھی بتلاتے ہیں کہ انسان دل کے ساتھ کس طرح اللہ کا ذکر کرے متاخرین بزرگان دین جن میں حضرت مجدد الف ثانی (رح) ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) یا بعض دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر بہت سے لطائف رکھے ہوئے ہیں ، جب وہ لطائف کثرت ریاضت سے بیدار ہوجاتے ہیں تو پھر وہ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور یہ ملکہ مرشد برحق سے سیکھنے پر حاصل ہوتا ہے اس کے علاوہ نفس کے ساتھ بھی ذکر ہوتا ہے ، بزرگان دین ایسا طریقہ بھی سکھاتے ہیں کہ انسان کے جسم کے اندر جانے والی اور باہر آنے والی ہر سانس اللہ کا ذکر کرتی ہے ، تاہم آسان ترین ذکر لسانی ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہر دن کے لیے کسی مومن کا ذکر الہی میں حصہ اس سے کم نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ” سبحان اللہ “۔ الحمد للہ “ ۔ لا الہ الا اللہ ۔ اللہ اکبر ۔ سو سو مرتبہ کہے ، بعض بزرگان دین اس کے ساتھ ساتھ ایک سو مرتبہ استغفار اور ایک سو مرتبہ درود شریف پڑھنے تلقین بھی کرتے ہیں ، مشائخ چشت کے طریقے پر بیعت ہونے والے عوام کو یہ عمل ہر روز صبح وشام کرنا ہوتا ہے ، اس کے علاوہ اذکار کے تمام کلمات جو حضور ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوئے ہیں یا جو سلف صالحین سے منقول ہیں ، وہ سب اطمینان قلب کا باعث ہیں ۔ حصن حصین کی روات میں آتا ہے ” کل مطیع ذاکر اللہ “ یعنی اللہ کا ہر اطاعت گزار اس کا ذاکر ہے ، یعنی اگر وہ زبان سے ذکر نہیں بھی کرتا مگر اس کی طرف سے خدا کی اطاعت کا ہر کام اس کی طرف سے ذکر ہی سمجھا جائے گا ، تاہم زبانی ذکر ملت ابراہیمی کا بہت بڑا اصول ہے ” (آیت) ” ولذکر اللہ اکبر “۔ اللہ کا ذکر ہر چیز سے بڑا ہے ، جب انسان اللہ کا اسم پاک اپنی زبان سے ادا کرتا ہے تو اس پر خدا تعالیٰ کی تجلی نازل ہوتی ہے جس سے اسے سکون قلب حاصل ہوتا ہے ، آپ بزرگوں کی سوانح حیات پڑھ کر دیکھ لیں ، یہ اللہ والے دنیا کے سازوسامان سے بےنیاز مگر سکون قلب کی دولت سے مالا مال رہے ہیں ، انہیں کوئی پریشانی اور بےچینی نہیں ہوئی کیونکہ اللہ کے ذکر سے بڑھ کر سکون والی اور کوئی چیز نہیں مفسرین فرماتے ہیں کہ بعض بزرگ زیادہ تر ذکر الہی میں ہی منہمک رہتے ہیں ، وہ دنیا کے لوازمات کی طرف محض اس لیے راغب نہیں ہوتے کہ اس دوران خدا تعالیٰ کی تجلی کا نزول نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس سے محروم رہ جائیں گے ، لہذا وہ خدا کی تجلی کے حصول کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ، تاکہ ان کے سکون قلب کی دولت میں کسی وقت بھی کمی نہ آنے پائے ، بہرحال سکون قلب کے لیے ذکر کا طریقہ بھی صحیح ہونا ضروری ہے ، اگر کوئی بدعتی یا غیر مشروع طریقہ اختیار کیا گیا تو اس سے چین نصیب نہیں ہوگا کیونکہ بہتر نتیجہ صحیح راستہ اختیار کرنے سے ہی حاصل ہوگا ۔ (ایک اشکال) اس مقام پر بعض مفسرین نے اس اشکال کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس آیت کی رو سے تو ذکر الہی اطمینان قلب کا باعث ہوتا ہے جب کہ سورة انفال کی آیت (آیت) ” اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم “ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذکر الہی سے دل ڈر جاتے ہیں یعنی خوف طاری ہوجاتا ہے ، بظاہر یہ دونوں آیات منفارض معلوم ہوتی ہیں مگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ دونوں کیفیتوں کے مراجع مختلف ہیں ، مطلب یہ ہے کہ جن آیات میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے ان کی تلاوت سے مومنوں کے دلوں میں اطمینان پیدا ہوتا ہے اور جن آیات میں اللہ کی وعید اور اس کے عذاب کا ذکر ہے ان کی تلاوت سے اہل ایمان کے دل ڈر جاتے ہیں گویا جس وقت خدا تعالیٰ کے عدل کا تذکرہ ہوتا ہے تو مومنوں کے دل خوف سے کانپ اٹھتے ہیں اور جب خدا تعالیٰ کی رحمت بےپایاں کا ذکر ہوتا ہے تو اہل ایمان کو اطمینان قلب حاصل ہوجاتا ہے لہذا ان آیات میں درحقیقت کوئی تعارض نہیں ہے ، صاحب تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) لکھتے ہیں کہ خوف اور امید اکٹھے بھی ہو سکتے ہیں ، انسان کے دل میں یاد الہی سے جو انس پیدا ہوتا ہے اس میں خوف اور رجی دونوں چیزیں شامل ہوتی ہیں ، دونوں کی یکجائیگی کے متعلق حدیث میں مثال موجود ہے ایک نوجوان زندگی کے آخری لمحات پر تھا حضور ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور دریافت کیا کہ تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو ؟ اس نوجوان نے عرض کیا حضور ﷺ اخاف ذنوبی “ میں اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں اور گناہوں کی وجہ سے خوفزدہ ہوں ” وارجوا اللہ “ اور میں خدا تعالیٰ سے اس کی رحمت کی امید بھی رکھتا ہوں ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص میں خوف اور رجی اکھٹے ہوگئے وہ یقینا کامیاب ہوگا فرمایا ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا کرے گا جس کی وہ امید رکھتا ہے اور اس چیز سے بچا لے گا جس سے وہ ڈرتا ہے گویا ایک کامل الا ایمان آدمی میں یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہوتی ہیں ، خدا کے عدل سے ڈر بھی ہوتا ہے اور اس کی رحمت سے امید بھی ہوتی ہے قرآن پاک میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی یہ صفت بیان کی گئی ہے ” یدعوننا رغبا ورھبا “۔ (انبیائ) وہ ہمیں پکارتے ہیں ہماری نعمتوں میں رغبت رکھتے ہوئے اور ہمارے جلال سے ڈرتے ہوئے : (اہل ایمان کے لیے بشارت) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” الذین امنوا وعملوا الصلحت “۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے کام کیے ، امام مجدد (رح) فرماتے ہیں کہ ایمان کے بعد اچھے کاموں میں بنیادی طور پر عبادات اربعہ یعنی نماز ، روزہ ، زکوۃ ، اور حج ہیں ، حدیث شریف میں آتا ہے جو آدمی ایمان لانے کے بعد ان عبادات کو انجام دے گا اللہ اس کو جنت میں پہنچا دیگا ، اگرچہ وہ گھر میں ہی بیٹھا رہے بشرطیکہ اس کا خاتمہ انہی اعمال پر ہو۔ اس کے علاوہ صالحات میں ہر قسم کی بدنی ، مالی ، قولی اور فعلی نیکیاں شامل ہیں ، تو فرمایا ایمان لانے کے بعد جن لوگوں نے اچھے اعمال انجام دیئے (آیت) ” طوبی لھم “ ان کے لیے خوشخبری ہے (آیت) ” وحسن ماب “۔ اور اچھا ٹھکانا ہے ، طوبوی کا معنی خوشخبری کے علاوہ پاکیزگی بھی آتا ہے بعض فرماتے ہیں کہ طوبی جنت کے ایک درخت کا نام ہے جو اتنا لمبا چوڑا ہوگا کہ تمام جنتیوں پر چھایا ہوا ہوگا ، بعض تفسیری روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس درخت کا تنا حضور ﷺ کے گھر میں ہوگا اور اس کی شاخیں تمام بہشتوں میں سارے اہل ایمان پر سایہ فگن ہوں گی ، بہرحال طوبی کا عام فہم معنی بشارت ہے ، درخت ہونا بھی کوئی اجنبی بات نہیں کیونکہ قرآن پاک میں سدرۃ المنتہی کا ذکر بھی موجود ہے ، یہ بھی عجیب و غریب قسم کا درخت ہے جسے انسانی زندگی کے ساتھ خاص لگاؤ ہے ان چیزوں کا راز اس دنیا میں تو نہیں کھل سکتا ، جب انسان اگلے جہان میں پہنچیں گے تو سب پردے اٹھ جائیں گے اور یہ ساری چیزیں واضح ہوجائیں گی ۔ (تلاوت قرآن پاک) آگے کفار کی من مانی نشانیوں کے مطالبہ کے تسلسل میں ہی ذکر ہو رہا ہے کہ نہ تو نبوت و رسالت دنیا میں کوئی نئی چیز ہے اور نہ ہی منکرین کا انکار عجوبہ چیز ہے ، بلکہ یہ سلسلہ تو ابتداء سے ایسے ہی چلا آرہا ہے (آیت) ” کذلک ارسلنک فی امۃ “۔ اسی طرح ہم نے آپ کو بھیجا ہے ، اس آخری امت میں پہلی امتوں کی طرف بھی انسانوں میں سے ہی رسول بنا کر بھیجے گئے ، انہوں نے بھی خدا کا پیغام اس کا حکم اور شریعت لوگوں کے سامنے پیش کی مگر منکرین اسی طرح ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے رہے ، یہ کوئی نیا سلسلہ نہیں بلکہ آپ کی بعثت اور لوگوں کا انکار پرانے سلسلے کی ہی آخری کڑی ہے ، فرمایا (آیت) ” قد خلت من قبلھا امم “۔ اس سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں ، اور سابقہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی طرح ہم نے آپ کو اس لیے رسول بنا کر بھیجا ہے (آیت) ” لتتلوا علیھم الذی اوحینا الیک “۔ تاکہ آپ پڑھ کر سنا دیں ان کو وہ چیز جو ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے ، کتاب الہی کی تلاوت انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا پہلا کام ہوتا ہے ، سورة العنکبوت میں بھی موجود ہے (آیت) ” اتل ما اوحی الیک من الکتاب “۔ جو کچھ ہم نے کتاب میں سے آپ کی طرف وحی کی ہے ، آپ اسے پڑھ کر لوگوں کو سنا دیں ، یہ پہلا کام ہے ، اس کے بعد باقاعدہ تعلیم دینا ، حکمت سکھانا ، لوگوں کا تزکیہ کرنا ، یہ سب فرائض انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور کتاب الہی کے موضوعات ہیں ، چناچہ جب کوئی وحی نازل ہوتی تو حضور ﷺ تو مشہور کاتبان وحی میں سے کسی شخص کو بلا کر آیات الہی لکھوا دیتے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ نزول وحی کے بعد آپ گھر سے باہر تشریف لاتے اور جو آدمی ملتا اسے اللہ کا کلام سنا دیتے ، کلام الہی کو پڑھ کر سنانے میں دو مقصد حاصل ہوتے ہیں ایک تو مطلوبہ بات دوسروں تک پہنچ جاتی ہے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ اطمینان قلب حاصل ہو اور اجروثواب بھی ملے ، قرآن پاک کی زیادہ سے زیادہ تلاوت میں یہی راز پنہان ہے کہ ہمارا تعلق قرآن پاک سے قائم رہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمارے حکم کے مطابق آپ تو ان کو قرآن پڑھ کر سناتے ہیں مگر کفار ومشرکین کے حالت یہ ہے (آیت) ” وھم یکفرون بالرحمن “۔ کہ وہ رحمان کا انکار کردیتے ہیں ۔ ّ (اسمائے پاک) مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان کو تسلیم نہیں کرتے تھے ان کے نزدیک تو رحمان اہل یمامہ مسلیمہ کذاب تھا مگر قرآن پاک نے صاف صاف بتلایا ہے کہ رحمان اللہ تعالیٰ کی اسی طرح صفت ہے جس طرح اس کا اسم پاک اللہ ہے ، بسم اللہ الرحمن الرحیم “ میں اسم ذات اللہ کے ساتھ اس کی صفات رحمان اور رحیم دونوں کا ذکر موجود ہے ، سورة بنی اسرائیل میں موجود ہے (آیت) ” قل ادعوا اللہ اوادعوا الرحمن “۔ آپ کہہ دیں کہ اے لوگو ! جس نام سے بھی پکارو ! (آیت) ” فلہ الاسمآء الحسنی “۔ اس کے سارے کے سارے نام بھلے ہیں ، یہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانویں نام ہیں جو شخص ان کو یاد کرے گا اور ان کو پڑھتا رہے گا ، وہ جنت میں داخل ہوگا ، غرضیکہ مشرکین رحمان کے نام سے بدکتے تھے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کی بجائے بسمک اللھم کہتے تھے بعض مشرکین کہتے کہ یہ نبی ہمیں تو ایک اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے اور خود ساتھ رحمان کا ذکر بھی کرتا ہے یہ سب جہالت کی باتیں تھیں ، مشرکین کے لغو اعتراضات تھے حالانکہ رحمان اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے اور یہ اس کا صفاتی نام ہے ، فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ” ھو ربی “ وہ میرا پروردگار ہے ” لا الہ الا ھو “ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کو جس نام سے بھی پکارا جائے وہ راضی ہوتا ہے اور پھر قرآن نے یہ مسئلہ بھی بیان کردیا ہے (آیت) ” ان الذین یلحدون فی ایتنا لا یخفون علینا “۔ (حم سجدہ) اللہ تعالیٰ کے اسمائے پاک میں جو شخص الحاد کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کو بھی پہچانتا ہے الحاد کا مطلب یہ ہے کہ اسمائے پاک کا غلط مطلب لیا جائے ، جیسے پرویز کہتا ہے کہ اللہ سے مراد ذات نہیں بلکہ قانون مراد ہے حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ہے اس کے نیچے ایک حقیقت پوشیدہ ہے اور اس لفظ کا ذکر کرنے سے وہ حقیقت ذہن میں آتی ہے ، اسی طرح لفظ رحمان بھی ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک خاص صفت کو ظاہر کرتا ہے مگر مشرک لوگ اس نام کو تسلیم نہیں کرتے غرضیکہ اللہ کا معنی قانون نہیں بلکہ اس نام سے اللہ کی ذات کا اظہار ہوتا ہے ، کسی ذات کا تشخص نام کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے ، انسان بھی ناموں سے ہی پہچانے جاتے ہیں ، اسی طرح اللہ کا ذاتی نام ہے اگر لفظ اللہ کا ذکر کیا جائے تو اس سے ذات مراد ہوگی اور لفظ رحمان سے یاد کیا جائے تو اس سے اللہ کی صفت رحمت مراد ہوتی ہے فرمایا وہ میرا رب ہے اور اس کے سوال کوئی معبود نہیں ۔ (آیت) ” علی توکلت “ میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں (آیت) ” والیہ متاب “ اور ہر وقت میرا اسی کی طرف رجوع ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو ، تمہارا رجوع خود بخود اس کی طرف ہوجائیگا خدا کی رحمت ہر وقت متوجہ رہتی ہے لہذا اس سے مایوس نہیں ہونا چاہئے دوسری جگہ فرمایا (آیت) ” انیبوا الی ربکم واسلموا لہ “۔ (الزمر) رجوع کے لیے انصاف شرط ہے ، ضد ، ہٹ دھرمی اور عناد مشرکوں کا شیوہ اور محرومی کی علامت ہے ۔
Top