Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Ibrahim : 35
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَؕ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
اِبْرٰهِيْمُ
: ابراہیم
رَبِّ
: اے میرے رب
اجْعَلْ
: بنا دے
هٰذَا الْبَلَدَ
: یہ شہر
اٰمِنًا
: امن کی جگہ
وَّاجْنُبْنِيْ
: اور مجھے دور رکھ
وَبَنِيَّ
: اور میری اولاد
اَنْ
: کہ
نَّعْبُدَ
: ہم پرستش کریں
الْاَصْنَامَ
: بت (جمع)
اور (اس بات کا خیال کرو) جب کہ کہا ابراہیم (علیہ السلام) نے اے پروردگار ! بنا دے اس شہر کو امن والا ، اور دور رکھ مجھ کو اور میری اولاد کو اس بات سے کہ ہم بتوں کی عبادت کریں ۔
(ربط آیات) پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عام نعمتوں کا ذکر تھا جن میں سے ہر نعمت اللہ کی وحدانیت کی دلیل بنتی ہے ، اب اللہ نے خاص نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے ، اس ضمن میں قریش مکہ کو یہ بات سمجھائی ہے کہ تم ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا پیشوا اور جد امجد مانتے ہو ، انہوں نے جس خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی اس کی بنیاد تو حید پر تھی مگر تم کفر اور شرک میں کیسے مبتلا ہوگئے ہو ، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ان دعاؤں کا ذکر کیا ہے جن سے کفر وشرک سے بیزاری کا اظہار ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی وجہ سے سرزمین مکہ پر جو خصوصی انعامات فرمائے تھے ، ان کا ذکر بھی کیا ہے توحید کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ کفار ومشرکین کو تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو اختیار کریں اور خدا کی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں ۔ (شہرامن) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واذ قال ابرھیم “ اس وقت کو دھیان میں لاؤ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی (آیت) ” رب اجعل ھذا البلد امنا “۔ اے پروردگار ! اس شہر کو امن والا بنا دے ، شہر سے مراد شہر مکہ سے جسے ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے آباد کیا تھا ، دراصل آپ نے خانہ کعبہ کی عمارت از سر نو تعمیر کی اور پھر اپنی بیوی ہاجرہ اور بچے اسماعیل (علیہ السلام) کو وہاں چھوڑ گئے اس وقت یہ ایک بےآب وگیاہ وادی تھی مگر اللہ تعالیٰ کا فرمان تھا کہ اس جگہ پر عظیم الشان اور فضیلت والا شہر آباد ہوگا ، چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس شہر کے مامون ہونے کی دعا کی ، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا جس کا ذکر قرآن پاک میں دوسرے مقامات پر بھی آتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے اردگرد امن ومان نام کی کوئی چیز نہ تھی (آیت) ” یتخطف الناس میں حولھم “۔ لوگوں کو اچک لیا جاتا ، سوائے حرمت والے مہینوں کے کوئی آدمی سفر نہیں کرسکتا تھا ، سال کے آٹھ مہینے تک لوگ افراتفری کے عالم میں گزارتے ، پھر باقی چار ماہ میں تجارت وغیرہ اور دوسرے سفر کرتے پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان فرمایا کہ حرم مکہ کو بالکل پر امن بنا دیا ، یہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی قبولیت کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے شہر مکہ کو امن والا شہر بنا دیا ، اس کا ذکر سورة والتین میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے جن چار چیزوں کی قسم اٹھائی ہے ان میں (آیت) ” ھذا البلد الامین “۔ یہ امن والا شہر بھی شامل ہے ۔ ّ (شرک سے بیزاری) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے شہر مکہ کو مامون بنانے کی دعا کی اور شرک سے پناہ بھی مانگی (آیت) ” واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام “۔ اے پروردگار مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پوجا سے دور رکھ یہاں پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے نبی تو کفر وشرک بلکہ ہر گناہ سے پاک ہوتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے گارنٹی حاصل ہوتی ہے کہ وہ کسی معصیت میں مبتلا نہیں ہوتے تو اس صورت میں ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے بت پرستی میں ملوث نہ ہونے کی دعا کا کیا مطلب ہے ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کے انبیاء جس قدر بلند مرتبت ہوتے ہیں اسی قدر وہ اللہ سے زیادہ ڈرنے والے ہوتے ہیں اور اسی بناء پر وہ خدا تعالیٰ کی کبریائی کے سامنے ہمیشہ عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے رہتے ہیں تو ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا بھی اللہ کے حضور نیاز مندی کی ایک علامت ہے ۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ بت دو قسم کے ہوتے ہیں جو بت کسی خاص شکل و صورت پر بنایا گیا ہو اسے صنم کہتے ہیں اور جو بغیر شکل کے ان گھڑا ہو وہ وثن کہلاتا ہے ، عربوں میں بھی دو قسم کے بت پائے جاتے تھے جن کی وہ پوجا کرتے تھے حدیث شریف میں صلیب کو بھی وثن کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے ، جب عدی ؓ بن حاتم طائی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے گلے میں صلیب لٹکا رکھی تھی ، آپ نے فرمایا الق ھذا الوثن “ اس بت کو اتار پھینکو غرضیکہ صنم یا وثن وہ بت ہوتا ہے جس کے متعلق زعم ہو کہ یہ نفع نقصان کا مالک ہے یا کسی کی حاجت براری اور مشکل کشائی کرسکتا ہے ، اس قسم کے بت خانہ کعبہ میں اور اس کے اردگرد رکھے ہوئے تھے ، صفا اور مروہ پہاڑیوں پر بھی بت موجود تھے اور مکہ کے لوگ ان کی پرستش کرتے تھے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بارگاہ رب العزت میں یہ دعا کی کہ انہیں اور ان کی اولاد کو اصنام سے پاک رکھا جائے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ دعائے ابراہیم میں (آیت) ” من ذریتی “ کے الفاظ آئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دعا پوری نسل ابراہیمی کے لیے نہیں تھی بلکہ اس میں سے بعض کے لیے تھی چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابوجہل وغیرہ آپ کی نسل میں آپ کی اولاد ہونے کے باوجود شرک پر اڑے رہے اور اسی پر ان کی موت آئی البتہ آپ کی صلبی اولاد یعنی آپ کے براہ راست بیٹے مکمل طور پر شرک سے مبرا رہے ، دعا کی قبولیت کا یہی مطلب ہے ۔ (گمراہی اور معافی) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کی کارگزاری کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مزید عرض کیا (آیت) ” رب انھن اضللن کثیرا من الناس “۔ اے پروردگار ! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے یہاں پر پھر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بت تو پتھر اور مٹی کے بےجان بت ہوتے ہیں ، وہ کسی کو گمراہ کیسے کرسکتے ہیں ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ وہ خود تو گمراہ نہیں کرسکتے البتہ تسببن الاضلل “۔ گمراہی کا سبب ضرور بنتے ہیں ، انہی بتوں کی پوجا کرکے لوگ گمراہی کے گڑھے میں گرے لہذا اسے بتوں کی گمراہی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آگے یہ بھی عرض کیا ، پروردگار ! (آیت) ” فمن تبعنی فانہ منی “۔ جس نے میری پیروی کی ، وہ مجھ سے ہے یعنی میری جماعت کا آدمی ہے اور جو آپ کے گروہ میں شامل ہوگیا وہ حنیف ہوگیا اور اس نے اللہ کی توحید کو تسلیم کرلیا ، ایسا شخص کفر اور شرک سے بیزار ہوگیا ، فرمایا (آیت) ” ومن عصانی “ اور جس نے میری نافرمانی کی (آیت) ” فانک غفور رحیم “۔ تو تو بخشنے والا مہربان ہے ، اس مقام پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عاجزی ، نرمی اور رافت کا ذکر کیا گیا ہے ، آپ پر یہ بات خوب واضح ہے کہ کافر اور مشرک جس کا خاتمہ اسی باطل عقیدے پر ہوا ہو ، اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں ، سورة اعراف میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ایسا شخص کبھی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا (آیت) ” حتی یلج الجمل فی سم الخیاط “۔ حتی کہ ایک اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے مگر مشرک جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ، اللہ نے یہ بھی ارشاد فرما دیا ہے (آیت) ” انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ وماوہ النار “۔ (المائدہ) جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا تاہم ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کیا کہ مولا کریم ! تیرا فیصلہ تو یہی ہے کہ تو مشرک کو معاف نہیں کرے گا مگر تو غفور اور رحیم بھی ہے تیرے اختیار سے کوئی چیز باہر نہیں اگر تو معاف کر دے تو غفور اور رحیم ہے ایسا کرسکتا ہے ۔ (اولاد ابراہیم کی آباد کاری) ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بھی عرض کیا (آیت) ” ربنا انی اسکنت من ذریتی “۔ اے پروردگار ! میں نے بسایا ہے اپنی اولاد میں سے یہاں پر ” من تبعیضیہ “ ہے یعنی ساری اولاد نہیں بلکہ اس میں سے بعض کو آباد کیا ہے آپ کے بیٹوں میں سے اسحاق (علیہ السلام) تو شام اور فلسطین کے علاقے میں ہی رہے ۔ البتہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کو مکہ مکرمہ کی بےآب وگیاہ زمین میں آباد کیا ، اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ، جب ابراہیم (علیہ السلام) اپنی بیوی سارہ کے ہمراہ مصر پہنچے تو شاہ مصر نے حضرت ہاجرہ کو بطور خادمہ دے دیا پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے نکاح کرلیا تو ان سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے ، اس پر آپ کی پہلی بیوی سارہ کو رشک ہوا اور اس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ ہاجرہ اور اس کے بیٹے کو کہیں دور چھوڑ آئیں ، چناچہ ان حالات میں ابراہیم (علیہ السلام) نے ان دونوں کو اس سرزمین عرب میں آباد کیا غرضیکہ جس طرح آدم (علیہ السلام) کا دانہ کھانے کی وجہ سے زمین پر نزول ہوا ، اسی طرح حضرت سارہ کا رشک سرزمین مکہ کی آبادی کا سبب بن گیا ۔ فرمایا میں نے بسایا ہے اپنی اولاد میں سے (آیت) ” بواد غیر ذی زرع “۔ کھیتی باڑی کے ناقابل وادی میں ، یہ خطہ بحر احمر سے اڑتالیس میل کے فاصلے پر گرم خشک ، پتھریلا اور بےآب وگیاہ علاقہ ہے جہاں پر بارش کے علاوہ سیرابی کی کوئی صورت نہیں ، یہاں پر بظاہر کشش کا کوئی سامان موجود نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے محترم گھر کے لیے اسی خطہ کو منتخب کیا ، اب اسی بیت اللہ شریف کی کشش کا یہ عالم ہے کہ اطراف عالم سے لوگ کھنچ کھنچ کر یہاں پہنچ جاتے ہیں سخت گرمی ہو یا سردی ، بارش ہو رہی ہو یا آندھی چل رہی ہو ، چوبیس گھنٹے میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آت جب کہ اس گھر کا طواف نہ ہورہا ہو ، یہ عاشقان الہی کی بستی ہے ، ایک دفعہ جا کر تسلی نہیں ہوتی اور ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہاں کی حاضری کا بار بار موقع ملتا رہے ۔ (خطہ عرب میں سبزہ ذکر) حدیث 1 (مسلم ص 326 ج 1) میں آتا ہے کہ قیامت کے قریبی زمانہ میں تصیر ارض العرب مروجا وانھرا “۔ عرب کی سرزمین سبزہ زار اور باغات میں تبدیل ہو جائیگی ، آج سے کچھ عرصہ پہلے تک اس پیشن گوئی کے پورا ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے مگر اب وہاں پر سبزہ اور باغات کی ابتداء ہوچکی ہے ، سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے علاوہ مکہ اور مدینہ کی شاہراؤں پر بھی درخت لگائے جا رہے ہیں عرفات کے پورے میدان میں درختوں کی لمبی لمبی قطاریں اب نظر آرہی ہیں اور اس طرح حضور ﷺ کی پیشن گوئی پوری ہورہی ہے ۔ سبزہ زار اور عام استعمال کے لیے میٹھے پانی کی اشد ضرورت ہے وہاں پر زیر زمین پانی تو موجود نہیں ، قریبی سمندر کا پانی سخت کڑوا ہے جسے صاف کرنے پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے ، لہذا سعودی حکومت اب قابل استعمال پانی کی بہم رسانی کے لیے دوسرے ذرائع تلاش کر رہی ہے اس منصوبے میں دور دراز کے دریاؤں سے پانی کی سپلائی یا پھر بحر منجمند سے بڑے بڑے تودوں کی ترسیل شامل ہے ۔ (محترم گھر) فرمایا میں نے بسایا اپنی اولاد میں سے بےآباد زمین میں (آیت) ” عند بیتک المحرم “۔ تیرے محترم گھر کے پاس حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ نے جس دن سے زمین کو پیدا کیا ہے ، اسی دن سے اس خطہ ارض کو عزت والا مقام عطا کیا ہے ، یہاں پر لڑائی جھگڑا قطعی حرام ہے فتح مکہ کے دن اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو اجازت دی تھی کہ اگر کافر مقابلہ کریں تو ان کے خلاف ہتھیار اٹھا سکتے ہیں ، وگرنہ اس کے بعد قیامت تک کے لیے یہ سرزمین واجب الاحترام ہی رہے گی ، فرمایا میں نے اپنی اولاد کو یہاں اس لیے آباد کیا ہے (آیت) ” ربنا لیقیموا الصلوۃ “۔ اے پروردگار تاکہ وہ نماز قائم رکھیں ، ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں اپنی اولاد کے لیے نماز جیسی اہم ترین عبادت کا ذکر کیا ، نماز کا قیام ایک عظیم مقصد ہے جسے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام خود اختیار کرتے ہیں اور دوسروں کو تلقین کرتے آئے ہیں ، نماز کے بغیر انسان کا تعلق اپنے پروردگار کے ساتھ درست نہیں رہ سکتا ، نماز کوئی پرائیویٹ معاملہ نہیں کہ جس نے چاہا ادا کرلی اور جس کے دل نے نہ مانا اس نے چھوڑ دی بلکہ یہ تو اہم ترین عبادت ہے جس کی دعا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کیلئے کی ۔ (دلوں کی کشش) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بھی عرض کیا ، اے پروردگار ! (آیت) ” فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم “۔ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے ، آپ نے بعض لوگوں کے لیے دعا کی جو مستجاب ہوئی اور اب دنیا کے تمام انسان تو اس سرزمین کی طرف نہیں آتے ، البتہ کچھ اہل ایمان نہایت ذوق وشوق کے ساتھ اللہ کے اس گھر کی زیارت کے لیے دور دراز کا سفر اختیار کرتے ہیں یہاں پر تجارت بھی کرتے ہیں اور دل کی پیاس بھی بجھاتے ہیں ، ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بستی کے باشندوں کے لیے یہ دعا بھی کی کہ اے پروردگار ! (آیت) ” وارزقھم من الثمرت “۔ ان کو پھلوں سے رزق عطا فرما ، اللہ تعالیٰ آپ کی یہ دعا بھی قبول فرمائی ، اس بےآب وگیاہ زمین میں کہیں کہیں کھجور کے نخلستان یا ریگستان کے کسی حصہ میں تربوز تو ہوسکتا ہے عام پھلوں کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا ، مگر اللہ نے ایسا انتظام کردیا ہے کہ دنیا بھر کے بہترین پھل تروتازہ حالت میں اس سرزمین میں پہنچ رہے ہیں مولانا مناظر احسن گیلانی (رح) نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے کہ انہیں عرفات کے میدان میں لیموں کی ضرورت محسوس ہوئی تو اللہ نے وہاں بھی مہیا کردیا ، وگرنہ عام حالات میں وہاں لیموں بچنے کے لیے کون جاتا ہے ؟ الغرض ! اب مملکت سعودی عربیہ میں ہر موسم میں ہر قسم کا پھل بافراط میسر ہے ۔ فرمایا ان کو پھلوں سے روزی عطا فرما (آیت) ” لعلھم یشکرون “۔ تاکہ یہ تیرا شکریہ ادا کریں اسی سورة میں پہلے گزر چکا ہے (آیت) ” لئن شکرتم لازیدنکم “۔ اگر تم شکریہ ادا کرو گے تو میں مزید عطا کروں گا مگر عام طور پر (آیت) ” ان الانسان لظلوم کفار “۔ انسان بےانصاف اور ناشکر گزار ہی ہوتے ہیں کفر اور شرک سے بڑھ کر کون سی ناشکری ہو سکتی ہے ، مگر آج بھی انسانوں کی اکثریت اسی میں مبتلا ہے ، بہرحال ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے حق میں یہی دعا کی کہ وہ اپنے پروردگار کے شکر گزار بندے بن جائیں ۔
Top