Mualim-ul-Irfan - Az-Zukhruf : 4
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَیِّنَ لَهُمْ١ؕ فَیُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : ہم نے نہیں بھیجا مِنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر بِلِسَانِ : زبان میں قَوْمِهٖ : اس کی قوم کی لِيُبَيِّنَ : تاکہ کھول کر بیان کردے لَهُمْ : ان کے لیے فَيُضِلُّ : پھر گمراہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جو کو چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ بیان کرے ان کے لیے پھر گمراہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے اور راستہ دکھاتا ہے جس کو چاہے ، اور وہ غالب اور حکمت والا ہے ۔
(ربط آیات) سورة ہذا کی ابتدائی آیت میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی صداقت اور اس سے نزول کی حکمت بیان فرمائی ، اس کتاب کے نزول کی غرض وغایت یہ ہے کہ اس کتاب کے ذریعے پیغمبر خدا لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں ، کفر ، شرک ، نفاق ، بدعقیدگی ، بداخلاقی ، اور بداعمالی اندھیرے ہیں ، اس کے مقابلے میں توحید ، اخلاق ، نیکی اور اطاعت بمنزلہ روشنی کے ہیں ، پھر اللہ نے قرآن کے پروگرام کی مخالفت کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی اور ان کے لیے عذاب کی وعید سنائی ، فرمایا یہ لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور دین میں کجی تلاش کرتے ہیں ، بیہودہ اعتراضات کرتے ہیں لہذا گمراہی میں دور پڑے ہوئے ہیں ۔ (رسول در زبان قوم) آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے رسالت کا مسئلہ بیان فرمایا ہے مکی سورتوں میں یہی بنیادی مسائل توحید ، رسالت ، معاد ، کفر ، شرک کی تردید وغیرہ بیان ہوئے ہیں ، جس طرح قیامت پر ایمان لانا ضروری ہے ، اسی طرح تمام انبیاء اور رسل کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے ، وحی الہی ، ملائکہ تقدیر بھی ایمانیات میں داخل ہیں ، تاہم ان آیات میں رسالت کے متعلق ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ “۔ ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اپنی قوم کی زبان میں گفتگو کرنے والا ، اللہ نے اسی کی زبان میں اسے تعلیم دی (آیت) ” لیبین لھم “۔ تاکہ ان لوگوں کے لیے وہ تمام چیزیں بیان کر دے جو ان کے لیے ضروری ہیں ، اگر وحی کسی غیر زبان میں ہوتی تو لوگوں کا اس سے استفادہ کرنا مشکل ہوجاتا ، لہذا اللہ نے ہر نبی کی قومی زبان میں وحی نازل کی ، احکام وشرائع دیے اور اسی زبان میں آگے تبلیغ کی تلقین کی ، موسیٰ (علیہ السلام) عبرانی زبان بولتے تھے ، لہذا تورات عبرانی زبان میں نازل ہوئی ، عیسیٰ (علیہ السلام) کی قومی زبان سریانی تھی تو انجیل بھی اسی زبان میں آئی حضور خاتم النبین ﷺ کو اللہ نے عربوں اور خاص طور پر قوم قریش میں مبعوث فرمایا ، آپ اسی زبان میں گفتگو کرتے تھے اور قرآن کریم قریش کی عربی زبان میں نازل ہوا۔ دوسرے مقام پر اس کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر یہ غیر زبان میں نازل ہوتا تو لوگ اعتراض کرتے کہ ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں ، مگر اللہ نے اس اعتراض کی گنجائش نہیں رکھی ، چناچہ ہر نبی نے اپنی قومی زبان میں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا ، دوسرے مقام پر یہ بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک سزا نہیں دیتا جب تک ان تمام باتوں کو واضح نہیں کردیا جاتا جن سے بچنا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی اور رسول کو اس کی قومی زبان میں مبعوث فرمایا ، جزائے عمل کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو شرائع اور احکام ٹھیک طریقے سے پہنچا دیے جائیں اور ان کی اچھی طرح وضاحت کردی جائے تاکہ کسی کے پاس عدم تبلیغ کا کوئی بہانہ نہ رہے ۔ (جزائے عمل کے اسباب) امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ انسان کے اعمال کی جزا چار اسباب کی بناء پر ہوتی ہے ، پہلا سبب یہ ہے کہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کے لیے جزائے عمل ضرور واقع ہو ، شاہ صاحب فرماتے ہیں فطرتی طور پر اللہ تعالیٰ نے انسان میں ملکیت اور بہمیت کے دو مادے رکھے ہیں جو ہمیشہ اس میں موجود رہیں گے حتی کہ جنت میں پہنچ کر بھی یہ مادے انسان سے علیحدہ نہیں ہوں گے ان کی تفصیل یہ ہے کہ انسانی نفس یا نسمہ کا جو رخ عالم بالا کی طرف ہے وہ ملکیت کہلاتا ہے اور جو رخ مادی جہان کی طرف ہے ، اسے بہمیت کہا جاتا ہے ملکیت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان میں کمال والی باتیں پیدا ہوں جب کہ بیمیت چاہتی ہے کہ انسان من مرضی کرتا رہے ، ان دونوں مادوں کی آپس میں کشمکش ہوتی رہتی ہے انسان کا فرض ہے کہ وہ بہیمیت پر اس حد تک کنٹرول کرے کہ اسے ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دے اگر بہیمیت نے اس حد کو پار کرلیا تو پھر خرابی پیدا ہو جائیگی ملکیت کمزور ہو جائیگی اور انسان حظیرۃ القدس ، جنت یا بلند مقام تک نہیں پہنچ سکے گا ، غرضیکہ ملکیت چاہتی ہے کہ اسے تقویت حاصل ہو اور بہمیت کی اصلاح ہوتی رہے اس کشمکش کے نتیجہ میں جو بھی قوت غالب آتی ہے ، اس کے مطابق جزا کا عمل ضروری ہے ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں جزائے عمل کے اسباب میں سے دوسرا سبب یہ ہے کہ اگر انسان اچھے اعمال انجام دیتا ہے تو فرشتے اس کے حق میں دعا کرتے ہیں اور اگر برے اعمال کرتا ہے تو فرشتے بددعا کرتے ہیں اور اس پر لعنت بھیجتے ہیں ، تو فرشتوں کی دعا یا بدعا ضرور نتیجہ خیز ہوگی اور جزائے عمل بھی ضرورواقع ہوگا ۔ جزائے عمل کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اللہ نے ہر دور میں اپنے پیغمبر بھیجے ہیں اور شریعت نازل فرمائی ہے جس کی پابندی ضروری ہے ، اس شریعت یا قانون کی پابندی یا عدم پابندی کا نتیجہ برآمد ہونا بھی ضروری ہے ، ورنہ نزول شریعت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے ۔ تو اس سبب سے بھی جزائے عمل کا واقع ہونا ضروری ہے ۔ انبیاء کی بعثت جزائے عمل کا چوتھا سبب ہے ، ہر نبی اللہ کے احکام امت تک پہنچا دیتا ہے اور ان کو اچھی طرح واضح کردیتا ہے اور دین و شریعت میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں رہنے دیتا ، اس کے بعد اللہ کا واضح فرمایا ہے (آیت) ” لیھلک من ھلک عن ابینۃ ویحی من حی عن ابینۃ “۔ (انفال) اب جس شخص کو زندہ رہنا ہے وہ کھلی دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور جسے ہلاک ہونا ہے وہ کھلی دلیل کے ساتھ ہلاک ہو تو گویا انبیاء کی بعثت اور احکام وشرائع کی وضاحت کا تقاضا بھی ہے کہ انسان کے لیے جزائے عمل واقع ہو۔ (قومی وبین الاقوامی نبی) ایک بات تو واضح ہوگئی کہ حضور نبی کریم ﷺ اپنی قوم کی زبان عربی میں تکلم فرماتے ہیں ، اور قرآن پاک بھی عربی زبان میں نازل ہوا تاکہ آپ کے اولین مخاطبین دین متین کو اچھی طرح سمجھ سکیں مگر دوسری طرف اللہ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے (آیت) ” قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا “۔ (الاعراف) اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، یہ دنیا جہاں کے لوگوں کو خطاب ہے اس سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حضور ﷺ عربوں کی طرف مبعوث ہوئے اور وہی زبان بولتے تھے ، تو آپ کی رسالت تمام انسانوں کی طرف کیسے ثابت ہوئی ، اس اشکال کو امام شاہ ولی اللہ (رح) نے اپنی کتاب تفہیمات الہیہ میں رفع کیا ہے ، فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی نبوت و رسالت دو حیثیت سے ہے اولا آپ کو قریش کی طرف بھیجا گیا ہے ، اور آپ کے ساتھ انہی کی سعادت وابستہ کی گئی ہے ، اس لحاظ سے آپ قومی نبی ہیں ، اس کے بعد اللہ نے قریش کو آلہ اور جارحہ بنا کر اپنا پیغام تمام اقوام عالم کو پہنچایا ہے ، تو اس لحاظ سے آپ بین الاقوامی نبی ہیں سورة بقرہ میں موجود ہے ، (آیت) ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا لتکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا “۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر شہید کا معنی معلم اور استاد ہے اور مطلب یہ ہے کہ نبی تمہارا معلم ہے اور تم باقی اہل جہان کے لیے بمنزلہ استاد اور معلم ہو چناچہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام عربوں ہی کے ذریعہ ساری دنیا میں پھیلایا ، تاہم اولا حضور ﷺ کو عربوں کی طرف ہی مبعوث کیا گیا تھا ، حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے ” الناس تبع لقریش فی الخیر والشر “۔ نیکی اور بدی میں سارے لوگ قریش ہی کے تابع ہیں ، جاہلیت کے زمانے میں بھی قریش کو باقی عربوں پر فوقیت حاصل تھی اور اسلام آنے کے بعد بھی تمام اقوام کے مقابلے میں قریش ہی کو برتری حاصل ہوئی ، بہرحال قریش کے واسطہ سے آپ بین الاقوامی نبی ہیں ۔ (مسلمانوں کا عروج زوال) امت مسلہ کی خلافت کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب تک قریش میں دو باصلاحیت آدمی بھی موجود ہیں ، خلافت کا سلسلہ انہیں میں رہیگا چناچہ تاریخ گواہ ہے کہ ابتدائے زمانہ سے لے کر ساڑھے چھ سو سال تک خلافت قریش میں ہی رہی ، پھر جب مسلمانوں میں کمزوری آگئی تو خلافت سلجوقیوں کو منتقل ہوگئی پھر ترکوں کے پاس چلی گئی اور پھر آخر میں یہ سلسلہ ہی ختم ہوگیا ، اس وقت دنیا میں مسلمانوں کو چھوٹی چھوٹی باون ریاستیں ہیں مگر سب اغیار کی دست نگر ہیں غیر مسلم اقوام نے مسلمانوں کی اجتماعیت سے خائف ہو کر خلافت کا ہمہ گیر تصور ہی ختم کردیا ہے ، اب مسلمانوں کو اس طرح تقسیم کردیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کو نہ پہنچ سکیں ، اب ان کی اپنی کوئی سیاست نہیں ، نیم غلامانہ زندگی بسر کر رہے ہیں ، پوری دنیا میں کفار کو غلبہ حاصل ہے ان میں یا تو مذہبی کافر عیسائی ہیں یا پھر دہرئیے کافر اشتراکی ہیں ، آدھی دنیا پر ایک طاقت چھائی ہوئی ہے جب کہ باقی نصف دنیا دوسری طاقت کے تسلط میں ہے ۔ فرمایا ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان کو ہر چیز کی وضاحت کر دے پیغمبر کی طرف سے حق تبلیغ ادا کرنے کے بعد (آیت) ” فیضل اللہ من یشآئ “۔ گمراہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے ، جو کفر ، شرک اور نفاق پر اصرار کرتا ہے اس کو ہدایت نصیب نہیں ہوتی ، بلکہ وہ گمراہی میں پڑا رہتا ہے (آیت) ” ویھدی من یشآء “۔ اور ہدایت دیتا ہے ، اللہ تعالیٰ جس کو چاہے جو ایمان کو قبول کرلیتا ہے اسے ہدایت نصیب ہوجاتی ہے ۔ (آیت) ” وھو العزیز الحکیم “۔ اور خدا تعالیٰ کمال قدرت کا مالک بھی ہے اور کمال حکمت کا مالک بھی ، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رسالت کے متعلق بنیادی اصول بیان کردیا ہے ۔ (موسی (علیہ السلام) کی بعثت) رسالت کا بحیثیت مجموعی ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر بطور مثال بیان فرمایا ہے (آیت) ” ولقد ارسلنا موسیٰ بایتنا “ اور البتہ تحقیق ہم نے بھیجا موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ نشانیوں سے مراد معجزات ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو عصا اور یدبیضا وغیرہ نو معجزات عطا فرمائے تھے جن کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل اور قبطی دو قوموں کی طرف مبعوث فرمایا تھا ، قبطیوں نے تو آپ کی رسالت کو تسلیم نہ کیا جس کی پاداش میں وہ تباہ وبرباد ہوئے بنی اسرائیل آپ پر ایمان لائے تو اللہ نے انہیں فرعونیوں کے ظلم وستم سے نجات دے کر ان پر طرح طرح کے انعام بھی فرمائے ، اور یہ سلسلہ ہزاروں سال تک چلتا رہا ، بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبی مبعوث فرما کر حکم دیا (آیت) ” ان اخرج قومک من الظلمت الی النور “۔ کہ آپ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں ، ہر نبی کا یہی کام ہوتا ہے ، سورة کی ابتدائی آیت میں خود حضور خاتم النبین ﷺ کو بھی یہی حکم ہوا کہ ہم نے یہ کتاب آپ پر اس لیے اتاری ہے تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئیں موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اللہ نے یہی حکم دیا کہ قوم کو کفر ، شرک اور معاصی کے اندھیروں سے نکال کر ایمان اور توحید کی روشنی میں لے آئیں ۔ ّ (تذکیر بایام اللہ) اور ساتھ یہ بھی حکم دیا (آیت) ” وذکرھم بایم اللہ “۔ آپ ان کو اللہ کے دن یاد دلائیں ، ایام اللہ سے وہ تاریخی واقعات مراد ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے بعض قوموں پر انعام فرمائے اور بعض کو سزائیں دیں ، بعض قومیں اللہ تعالیٰ کے احکام کو تسلیم کرکے اور ان پر عمل پیرا ہو کر کامیاب ہوئیں اور بعض انکار کر کے طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہوئیں ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ علوم قرآن پانچ اقسام سے ہیں ، پہلی قسم علم احکام ہے جس کے ذریعے فرائض ، سنت ، واجبات ، حلال ، حرام ، اور مباح وغیرہ کا پتہ چلتا ہے ، دوسری قسم علم مناظرہ ہے جس کے ذریعہ چار فرقوں یعنی کافر ومشرک ، یہود نصاری اور منافقین سے بحث مباحثہ کیا جاتا ہے ، اس علم کے ذریعہ ان فرقوں کا رد مطلوب ہوتا ہے ، علوم قرآن کی تیسری قسم علم تذکیربما بعد الموت ہے ، موت اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ اس حصہ علوم میں کیا گیا ہے تاکہ لوگ ان واقعات سے عبرت حاصل کریں اور محاسبہ اعمال کے لیے تیاری کریں ، علوم قرآن کی چوتھی قسم تذکیر بالاء اللہ ہے اس حصہ میں اللہ نے اپنی نشانیوں کا تذکرہ کر کے انسان کو یاددہانی کرائی ہے کہ وہ ان میں غور وفکر کرے ، عجائبات قدرت کا مشاہدہ کرے اور پھر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائے قرآن کے علوم کی پانچویں قسم تذکری بایام اللہ ہے جس کا ذکر اس آیت مبارکہ میں کیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام پر گزرنے والے واقعات بیان کر کے انسان کو عبرت دلائی ہے تاکہ وہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرے ، اللہ نے قوم عاد ، ثمود ، قوم لوط ، قوم نوح وغیرہ کے حالات مختلف مقامات پر ذکر کیے ہیں ، صرف قوم فرعون کا واقعہ قرآن پاک میں چھیالیس مرتبہ سے زیادہ ذکر ہوا ہے کیونکہ محض علم کے لیے کسی واقعہ کو ایک ہی دفعہ بیان کردینا کافی نہیں بلکہ بار بار یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے ، تاکہ متعلقہ بات لوگوں کے اذہان میں اچھی طرح جم جائے اور وہ نصیحت حاصل کرسکیں ۔ فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایت لکل صبار شکور “۔ بیشک ان تاریخی واقعات میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو صبر کرتے ہیں ، مصائب میں صبر اور برداشت سے کام لیتے ہیں ، اپنے آپ پر کنٹرول کرتے ہیں اور جب کوئی نعمت میسر آتی ہے ، تو اس کی قدر کرتے ہیں ، اس کو برمحل صرف کرتے ہیں ، اور پھر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے ہیں ۔ (فرعونوں سے نجات) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرے میں ہی فرمایا (آیت) ” واذ قال موسیٰ لقومہ اذکروا نعمۃ اللہ علیکم “۔ جب کہا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہ اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر کی ، اللہ کا احسان یہ تھا (آیت) ” اذانجکم من ال فرعون “۔ کہ اس نے تمہیں نجات دی فرعون والوں سے ، اور فرعونیوں کی کارگزاری یہ تھی (آیت) ” یسومونکم سوء العذاب “۔ وہ تم کو پہنچاتے تھے برا عذاب تمہیں غلامی میں مبتلا کر رکھا تھا جو کہ بدترین عذاب ہے ، غلامی ایک غیر فطری چیز ہے غلام بےضمیر ہوتا ہے اور اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی ، غلامی اور آزادی کا مسئلہ اللہ تعالیٰ نے آمدہ سورة النحل میں بیان فرمایا ہے ۔ فرعونیوں کے عذاب کی تفصیل یہ ہے (آیت) ” ویذبحون ابنآء کم “۔ تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے ، تفسیر روایات میں آتا ہے کہ فرعون نے نوے ہزار بنی اسرائیل بچے قتل کروائے ، مگر اللہ کی حکمت میں جو بات ہونے والی تھی وہ ہو کر رہی اور اتنا عظیم ظلم بھی اسے روک نہ سکا ، فرمایا لڑکوں کو قتل کرتے تھے (آیت) ” ویستحیون نسآء کم “ اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے تاکہ لونڈیاں بن کر ان کی خدمت کریں انہیں خطرہ صرف مردوں سے تھا کہ ان کی سلطنت نہ چھین لیں ، چناچہ فرعون کی پویس تعاقب میں رہتی تھی اور بچہ پیدا ہوتے ہی والدین کے سامنے ذبح کردیا جاتا تھا ۔ فرمایا وفی ذلکم بلآء من ربکم عظیم “۔ اس میں تمہارے لیے بہت بڑی آزمائش تھی سورة اعراف میں ہے بنی اسرائیل نے بڑا صبر کیا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اس ظالم دشمن کو صفحہ ہستی سے ناپید کردیا اور زمین میں اقتدار بھی بنی اسرائیل کو عطا فرمایا یہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھا ، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ یہ بات قوم کو یاد دلائیں تاکہ وہ اس نعمت کی قدر کریں ۔ آزادی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ، جب یہ نعمت حاصل ہوجائے تو پھر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہی کام کرنے چاہئیں جو آزاد لوگوں کے شایان شان میں ، جھگڑا ، فساد لڑائی ، فرقہ واریت غلامی کے اثرات ہیں جب کہ آزاد قوموں کو اخلاق وکردار بہت بلند ہوتا ہے آزاد لوگوں میں مساوات اور عدل و انصاف کا دوردورہ ہونا چاہئے نیکی اور طہارت ہونی چاہئے ، رسومات باطلہ کو ختم کردینا چاہئے ہم میں انگریز کی غلامی کے اثرات ابھی تک موجود ہیں ، نامعلوم یہ کب ختم ہوں گے ، جب تک غلامی کے اثرات ختم نہیں ہوتے ، قوم عزت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتی ، حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آزادی کی قدر ہی نہیں کی ، ورنہ ہمیں اقوام عالم میں بلند مقام حاصل ہوتا ۔
Top