Tafseer-e-Majidi - Ibrahim : 5
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ
وَ : اور لَقَدْاَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اَنْ : کہ اَخْرِجْ : تو نکال قَوْمَكَ : اپنی قوم مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف وَذَكِّرْهُمْ : اور یاد دلا انہیں بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ : اللہ کے دن اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّكُلِّ صَبَّارٍ : ہر صبر کرنیوالے کے لیے شَكُوْرٍ : شکر کرنے والے
اور بالیقین ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو نکال لاؤ تاریکیوں سے روشنی کی طرف اور انہیں اللہ کے معاملات یاد دلاؤ،7۔ بیشک ان میں (بڑی) نشانیاں ہیں ہر صابر ہر شاکر کے لئے،8۔
7۔ (رحمت و عذاب دونوں کے اہم معاملات جو جزو تاریخ بن چکے ہیں) (آیت) ” قومک “۔ یعنی قوم بنی اسرائیل کو۔ (آیت) ” من الظلمت الی النور “۔ یعنی معاصی سے طاعت کی طرف۔ فقہاء نے یہاں سے یہ پہلو نکالا ہے، کہ وعظ وتذکیر میں واقعات اثر انگیز کا لانا جائز ہے فی ھذادلیل علی جواز الوعظ المرقق للقلوب المقوی للیقین (ابن العربی) (آیت) ” ایم اللہ “۔ یعنی جو بڑی بڑی نعمتیں قدرت کی طرف سے مختلف قوموں کو عطا ہوتی رہیں مثلا حکومت واقتدار یا جو بڑی بڑی مصیبتیں مختلف قوموں کو قدرت کی طرف سے پیش آتی رہیں۔ مثلا وباوقحط، م، حکومی وغلامی، غرض یہ کہ ایام اللہ کے تحت میں ہر قسم کے اہم تاریخی واقعات آجاتے ہیں عن ابن عباس ؓ والربیع ومقاتل وابن زید المراد بایام اللہ وقائعہ سبحانہ ونعماۂ فی الامم الخالیۃ (روح) وانذرھم بوقائع التی وقعت علی الامم قبلھم (کشاف) یعبر بالایام من الوقائع العظیمۃ التی وقعت فیھا یقال فلان عالم بایام العرب ویرید وقائعھا (کبیر) ایام کی اضافت اللہ کی جانب ان واقعات کی اہمیت پر دلالت کرنے کے لئے ہے۔ اضافۃ الایام الی اللہ تعالیٰ تشریف لامرھا لما افاض اللہ علیم من نعمۃ فیھا (راغب) (آیت) ” ان اخرج “۔ من ان اے کے معنی میں ہے اس لئے کہ ارسلنا میں قلنا کے معنی بھی شامل ہیں۔ بمعنی اے اخرج لان الارسال فیہ معنی القول کانہ قیل ارسلنا وقلنا لہ اخرج (کشاف) 8۔ (صابر کیلئے یہ کہ وہ مصیبت پر صبر کرنا سیکھے اور شاکر کے لئے یوں کہ وہ نعمت پر شکر ادا کرنا سیکھے) (آیت) ” فی ذلک “۔ یعنی اللہ میں قوم کے ساتھ اللہ کے انہی تاریخی معاملات میں، یا ان کی تذکر میں۔ اے فی التذکیر بایام اللہ تعالیٰ اوفی الایام (روح)
Top