Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ
: بیشک
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
كَانَ
: تھے
اُمَّةً
: ایک جماعت (امام)
قَانِتًا
: فرمانبردار
لِّلّٰهِ
: اللہ کے
حَنِيْفًا
: یک رخ
وَ
: اور
لَمْ يَكُ
: نہ تھے
مِنَ
: سے
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرک (جمع)
بیشک ابراہیم (علیہ السلام) تھے پیشوا اور اطاعت کرنے والے اللہ تعالیٰ کے لیے ، ایک طرف لگنے والے ، اور نہیں تھے وہ شرک کرنے والوں میں سے ۔
ربط آیات : اس سورة میں شرک کی مختلف قسمیں بیان ہوچکی ہیں ، منکرین کی طرف سے توحید و رسالت اور قیامت کے انکار کا ذکر بھی ہوچکا ہے ، مشرکین کی طرف سے حلال و حرام میں داخل اندازی کا تذکرہ بھی ہوگیا ہے ، اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا ہے ان آیات کا ربط گذشتہ سے پیوستہ درس کے ساتھ ہے ، وہاں اللہ تعالیٰ نے ایک خوشحال اور امن والی بستی کا ذکر فرمایا تھا جس کے باشندوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان پر بھوک اور خوف کو مسلط کردیا ، اس بستی سے مراد مکہ مکرمہ کی بستی ہے جس کی ابتدا ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کرکے کردی تھی اور یہی چیز ان دونوں دروس میں قدر مشترک ہے ، آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے فضائل بیان فرماتے ہوئے واضح فرمایا ہے کہ آپ اللہ کے ایماندار بندے اور بیحد شکر گزار تھے نیز آپ شرک سے سخت متنفر تھے ، اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے دعوے کی سختی سے تردید فرمائی ہے کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں ، فرمایا ملت ابراہیمی کے حقیقی وارث حضور خاتم النبیین ﷺ اور آپ کے پیروکار ہیں ، لہذا آپ کو بھی ملت ابراہیمی کے اتباع کا ہی حکم دیا گیا ہے ۔ (امامت ابراہیمی) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان ابرھیم کان امۃ “۔ بیشک ابراہیم (علیہ السلام) پیشوا اور امام تھے قرآن پاک میں لفظ امت کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے امت کا عام فہم معنی جماعت ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے (آیت) ” ولو شآء اللہ لجعلکم امۃ واحدۃ “۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی جماعت یا گروہ بنا دیتا ، یا جیسے فرمایا (آیت) ” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس “۔ (آل عمران “۔ تم ایک بہترین جماعت ہو جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو ، امت کا ایک اور معنی مدت بھی ہوتا ہے جیسے سورة یوسف میں جیل سے رہائی پانے والے بادشاہ کے مصاحب کے متعلق آتا ہے (آیت) ” وادکر بعد امۃ “ کہ اسے ایک مدت کے بعد یاد آیا کہ یوسف (علیہ السلام) نے اس سے کوئی بات کی تھی امت کا معنی اطاعت اور ملت بھی آتا ہے تاہم اس آیت کریمہ میں امت کا لفظ امام اور پیشوا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی ابراہیم (علیہ السلام) لوگوں کے امام تھے ، سورة بقرۃ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گزر چکا ہے (آیت) ” انی جاعلک للناس امام “ اے ابراہیم (علیہ السلام) ! میں تجھے لوگوں کا امام بناؤں گا کہ جس کا اتباع ضروری ہوگا ، ویسے امت کا لفظ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر اس لحاظ سے بھی صادق آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں وہ تمام کمالات جمع فرما دیے تھے جو ایک پوری جماعت میں بحیثیت مجموعی ہو سکتے ہیں ، وہ مالک ہے چاہے تو ایک شخص میں جہان بھر کی خوبیاں جمع کر دے جیسا کہ مقولہ ہے ” ’ لیس علی اللہ بمستنکران تجمع العالم فی واحد “۔ تاہم اس مقام پر مقتداء پیشوا اور معلم مراد ہے ۔ امام ابن کثیر (رح) نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول نقل کیا ہے ” ان معاذا کانت امۃ قانتا للہ “۔ یعنی حضرت معاذ ؓ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے ایک مکمل امت تھے کسی شخص نے آپ کے حق میں لفظ امت کے استعمال پر اعتراض کیا تو ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ امت کا ایک معنی معلم الخیر بھی ہوتا ہے ، حضرت معاذ بڑے پائے کے نیکی کی بات بتلانے والے معلم تھے ، اس لیے ان کے حق میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے آپ کی ذات وہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس نے قرآن سیکھنا ہو وہ ان چار آدمیوں سے سیکھے یعنی عبداللہ بن مسعود ؓ ، معاذ بن جبل ؓ ، ابی بن کعب ؓ ، اور سالم ؓ تو گویا آپ معلم الخیر تھے اور ظاہر ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) سے بڑھ کر نیکی کی بات بتلانے والا کون ہوگا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) ایک امت یعنی امام ، پیشوا ، مقتدا اور معلم الخیر تھے ۔ (اطاعت اور حنیفیت) فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) پیشوا تھے (آیت) ” قانتا للہ “ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والے بھی تھے ، قنوت کا معنی اطاعت اور خشوع و خضوع بھی ہوتا ہے ، جیسے سورة الزمر میں ہے (آیت) ” امن ھو قانت انآء الیل سجدا وقائما “۔ بھلا جو شخص رات کی گھڑیوں میں سجدے اور قیام کے ذریعے اطاعت کا حق ادا کرتا ہے کیا وہ ناشکر گزاروں اور نافرمانوں کی طرح ہو سکتا ہے ؟ مطلب یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے مکمل اطاعت گزار تھے اور ساتھ ساتھ حنیفا حنیف بھی تھے ، یعنی ہر طرف سے کٹ کر ، ہر باطل دین سے ہٹ کر صرف اور صرف خدا کے سچے دین کی طرف لگنے والے تھے ، لغوی طور پر حنف کا معنی چلتے وقت پاؤں کا اندر کی طرف مائل ہونا ہے اور حنیف اس اونٹ کو کہتے ہیں جو پاؤں جھکا کر چلتا ہو یعنی ایک طرف کو مائل ہو تو ابراہیم (علیہ السلام) اس لحاظ سے حنیف ہیں کہ وہ ہر طرف سے ہٹ کر صرف ایک طرف لگنے والے تھے ۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) نے اپنی کتاب الفوز الکبیر میں مزید وضاحت فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے والا ہو ، نماز پڑھتے وقت اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف کرتا ہو ، بیت اللہ شریف کا حج کرتا ہو ، ختنہ کرتا ہو اور غسل جنابت کرتا ہو ، وہ حنیف ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں یہ ساری خوبیاں موجود تھیں ، آپ پکے موحد تھے خود خانہ کعبہ تعمیر کیا ، خود اس کا حج کیا ، اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ، ختنہ کیا اور غسل جنابت تو آپ کے بعد عربوں میں زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھا جو کہ ملت ابراہیمی کا ایک جزو ہے تو اس لحاظ سے ابراہیم (علیہ السلام) حنیف تھے ، پھر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عام مومنوں کو بھی حنیفیت کا درس دیا ہے جیسا کہ سورة الحج میں ہے (آیت) ” حنفآء للہ غیر مشرکین بہ “ تم سب کے سب حنیف یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنے والے بن جاؤ ، اور مشرک نہ بنو ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مشرک نہ ہونے کے متعلق اللہ نے قرآن میں بار بار ذکر کیا ہے (آیت) ” وما کان من المشرکین “۔ (الانعام ، النحل) آپ مشرکوں میں سے نہیں تھے ۔ (ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف نسبت) ابراہیم (علیہ السلام) تو اس قدر خدا پرست تھے ، لہذا مشرکوں کو شرم آنی چاہیے جو تمام ترشرک کے باوجود اپنی نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کرتے ہیں کہ ہم ان کے دین پر ہیں ، ان کا حال تو یہ ہے کہ حلال و حرام خود اپنی طرف سے ٹھہرا لیتے ہیں ، خدا تعالیٰ کی صفات ، عبادت اور نذر ونیاز میں اس کا شریک ٹھہراتے ہیں ، غیر اللہ کو مافوق الاسباب پکارتے ہیں ، شرکیہ رسوم ادا کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ابراہیمی کہ لانا چاہتے ہیں کتنے افسوس کی بات ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو حنیف تھے ، ہر طرف سے کٹ کر صرف خدا تعالیٰ کی طرف لگے ہوئے تھے (آیت) ” ولم یک من المشرکین “۔ اور مشرکوں میں سے قطعا نہیں تھے بلکہ کفر ار شرک سے سخت بیزار تھے آپ نے کفر اور شرک کی تردید میں بڑے دلائل پیش کیے ہیں اور توحید پرستی کے عملی دلائل بہم پہنچائے ہیں ، قیام عراق کے دوران بادشاہ اور تمام لوگ آپ کے مخالف تھے حتی کہ سگا باپ اور پورا قبیلہ بھی آپ کے خلاف تھے ، بابل جیسے وسیع و عریض شہر میں آپ کا ایک بھی حامی نہیں تھا ، آپ تن تنہا کفر اور شرک کا مقابلہ کرتے رہے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے مگر مشرک لوگ اپنی نسبت ان کی طرف کرکے حقائق کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ (شکر نعمت) فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) حنیف تھے (آیت) ” شاکرا لانعمہ “۔ آپ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے والے تھے ، ادھر مشرکین کا حال گیارہویں رکوع میں گذر چکا ہے (آیت) ” یعرفون نعمت اللہ ثم ینکرونھا “۔ کہ وہ اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے تھے مگر ان کا انکار اور ناقدری کرتے تھے جیسا کہ گذشتہ رکوع میں بیان ہوچکا ہے ، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام یہ تھا (آیت) ” ولقد جآء ھم رسول منھم “۔ کہ ان کے پاس انہی میں سے اللہ کا عظیم الشان رسول آیا ” فکذبوہ “ مگر ان بدبختوں نے اسے بھی جھٹلا دیا ، ایمان نہ لائے اور اس طرح اللہ کی ایک عظیم نعمت کی ناقدردانی کی کفران نعمت کے متعلق سورة ابراہیم میں گزر چکا ہے (آیت) ” الم تر الی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا ان لوگوں کی طرف جنہوں نے اللہ کی نعمت کی سخت ناقدری کی ، یہ نعمت اللہ کا رسول ہی تھا جسے جھٹلا دیا گیا ، ان کے برخلاف ابراہیم (علیہ السلام) تو انعامات الہیہ کے حد درجہ قدر دان تھے اور اس کا شکر ادا کرنے والے تھے ، امام رازی (رح) نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ ابراہیم اللہ کی طرف سے عطا کردہ روزی کے اس قدر قدر دان اور شکر گزار تھے کہ مہمان کے بغیر کا کھانا نہیں کھاتے تھے کہ کہیں اللہ کی نعمت کی ناقدری نہ ہوجائے ، مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ مسافر کے انتظار میں رہتے حتی کہ جب فرشتے قوم لوط پر عذاب لے کر آئے اور آپ کے پاس انسان شکل میں حاضر ہوئے (آیت) ” فما لبث ان جآء بعجل حنیذ “ (ھود) تو آپ فورا بچھڑا تل کرلے آئے تاکہ مہمانوں کی خدمت کرسکیں ۔ قرآن پاک نے آپ کی یہ صفت بھی بیان کی ہے (آیت) ” وابراھیم الذی وفی “۔ (النجم) ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنا عہد پورا فرمایا جب ابتلاء کا وقت آیا ، آپ کو آگ میں پھینک دینے کی تیاری ہوگئی تو آپ کو ذرا بھی تردد یا وہم نہیں ہوا بلکہ خداوندی پر راضی رہے ، سورة الصفت میں ہے (آیت) ” اذ جآء ربہ بقلب سلیم “۔ آپ اپنے پروردگار کے پاس قلب سلیم لے کر حاضر ہوئے آپ ابو الانبیاء اور امام الانبیاء ہیں ، آپ حنیفیت کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے امام ہیں ، فرمایا ” اجتبہ “ اللہ تعالیٰ نے آپ کو برگزیدہ بنایا (آیت) ” وھدہ الی صراط مستیقم “۔ اور آپ کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی ، یہ سب اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں جو اس نے ابراہیم (علیہ السلام) پر کیے اور پھر آپ نے بھی ان احسانات کا پورا پورا شکریہ ادا کیا ، اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ کیا اور ایک لحظہ بھر کے لیے بھی اس کی یاد سے غافل نہیں ہوئے ، (دنیا کی بھلائی) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے فرمایا (آیت) ” واتینہ فی الدنیا حسنۃ “۔ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں بھلائی عطا فرمائی ، روزی میں فراخی عطا کی ۔ صاحب وجاہت اور کمال درجے کی اولاد دی ، تمام حق پرست آپ کی عزت کرتے تھے ، اللہ نے آپ کو نیکی اور شہرت عطا فرمائی ، آپ کی اولاد میں سلسلہ نبوت قائم کیا ، چناچہ قیامت تک کے لیے آپ کے حق میں دعائیں ہونے لگیں ، ہم آخری امت کے لوگ بھی جب نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفے ﷺ کی ذات اقدس پر درود پڑھتے ہیں ” اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد “۔ تو ساتھ یہ بھی کہتے ہیں ” کما صلیت علی ابرھیم وعلی ال ابرھیم “۔ اے مولا کریم تو حضور ﷺ اور آپ کی آل پر اپنی رحمتوں کا نزول فرما جس طرح کہ تو نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی آل کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازا یہود ونصاری ، غلط کار ہونے کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا احترام کرتے ہیں ، یہی دنیا کی بھلائی ہے ، پھر واضح کیا کہ دنیا میں بھلائی حاصل ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ آخرت سے محروم رہ جائیں گے بلکہ (آیت) ” وانہ فی الاخرۃ لمن الصلحین “۔ آپ آخرت میں بھی نیکو کار لوگوں میں شامل ہوں گے ، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آپ کو مقتداء اور پیشوا بنایا ، دین قیم اور صراط مستقیم پر چلایا اور سب لوگوں کو اسی راستے پر چلنے کا حکم دیا تو آخرت میں بھی آپ اگلی صفوں میں نیک لوگوں کے ساتھ ہوں گے یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے فضائل کا بیان بھی ہوگیا ۔ (ملت ابراہیمی کا اتباع) پھر فرمایا (آیت) ” ثم اوحینا الیک “۔ پھر ہم نے آپ کی طرف وحی نازل فرمائی یعنی حضور خاتم النبیین ﷺ کو خطاب فرمایا (آیت) ” ان اتبع ملۃ ابرھیم حنیفا “۔ کہ آپ ملت ابراہیمی کی پیروی اختیار کریں ، آپ کی ملت وہی دین حق اور دین اسلام ہے جو ابتداء سے چلا آرہا ہے ، دین تمام نبیوں کا ہمیشہ ایک ہی رہا ہے ، ملت بھی تقریبا سب کی ایک ہی ہے ، دین اور ملت سے مراد موٹے موٹے اصول ہیں جو ہمیشہ یکساں رہے ہیں البتہ مختلف انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی شرائع میں مکان وزمان کی مناسبت سے بعض تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ، یہ چھوٹے چھوٹے مسائل اور جزئیات ہوتی ہیں جو مصلحت کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہیں ، البتہ ملت اور دین تبدیل نہیں ہوتا ، اسی لیے فرمایا کہ آپ بھی ملت ابراہیمی کا اتباع کریں ، وہ ابراہیم (علیہ السلام) جو حنیف یعنی ہر طرف سے کٹ کر اور ہر دین سے بیزار ہو کر صرف ایک اللہ کی طرف اور اس کے دین کی طرف رجوع کرنے والے تھے (آیت) ” وما کان من المشرکین “۔ اور آپ مشرکوں میں سے نہیں تھے ، اللہ نے شرک کی دوبارہ تاکیدا تردید کردی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق سرمو بھی احتمال نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے کبھی کسی قسم کے شرک کی حمایت کی ہو ، وہ تو پکے مؤحد تھے لہذا مشرکوں کو آپ کا نام لیتے ہوئے اور آپ کی طرف اپنی نسبت کرتے ہوئے کچھ تو شرم آنی چاہئے ۔
Top