Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 124
اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
جُعِلَ
: مقرر کیا گیا
السَّبْتُ
: ہفتہ کا دن
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اخْتَلَفُوْا
: انہوں نے اختلاف کیا
فِيْهِ
: اس میں
وَاِنَّ
: اور بیشک
رَبَّكَ
: تمہارا رب
لَيَحْكُمُ
: البتہ فیصلہ کریگا
بَيْنَهُمْ
: ان کے درمیان
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ
: روز قیامت
فِيْمَا
: اس میں جو
كَانُوْا
: وہ تھے
فِيْهِ
: اس میں
يَخْتَلِفُوْنَ
: اختلاف کرتے
بیشک مقرر کی گئی ہفتے کے دن کی تعظیم ان لوگوں پر جنہوں نے اس میں اختلاف کیا اور بیشک تیرا پروردگار البتہ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان قیامت کے دن ان باتوں میں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے فضائل و کمالات بیان فرمائے ، ان کی ملت کا ذکر کیا اور ان کی پیروی کا حکم دیا خود حضور ﷺ بھی ملت ابراہیمی کو پیروی کا حکم دیتے تھے ، مشرکین عرب اگرچہ نسلی طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے مگر وہ آپ کا طریقہ چھوڑ چکے تھے ، ابراہیم (علیہ السلام) تو حنیف اور مؤحد تھے اور شرک سے قطعی طور پر بیزار تھے ، مگر عرب کے لوگ شرک میں ملوث ہوچکے تھے ، ان کی اکثریت کفریہ اور شرکیہ رسوم ہی میں پھنس کر رہ گئی تھی اور اصل دین بھول چکی تھی عرب میں کوئی جگہ بت پرستی سے خالی نہ تھی حتی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا تعمیر کردہ خانہ کعبہ بھی بت پرستی کا گڑھ بن چکا تھا ، اللہ نے فرمایا کہ ان شرکیہ اور کفریہ افعال کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرنا کتنی زیادتی اور مشرکوں کے لیے باعث شرم ہے ۔ (ہفتے کے دن کی تعظیم) بعض اہل کتاب اعتراض کرتے تھے کہ اگر حضور ﷺ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ پر ہیں تو پھر ہفتے کے دن کی تعظیم اور اس دن خاص عبادت کیوں نہیں کرتے ، اللہ نے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا (آیت) ” انما جعل السبت علی الذین اختلفوا فیہ “۔ بیشک ہفتے کے دن کی خصوصیت (تعظیم اور خاص عبادت) ان لوگوں کے لیے مقرر کی گئی تھی جنہوں نے اس دن کے بارے میں اختلاف کیا تھا ، ہفتے کے دن کی خصوصیت کا ذکر سورة بقرۃ اور سورة مائدہ میں بھی موجود ہے مگر اس دن کو یہ حیثیت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں حاصل نہیں ہوئی تھی ، بلکہ اس کا حکم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت داؤد (علیہ السلام) اور بعد والے انبیاء کے زمانہ میں نافذ ہوا تھا کیونکہ اسی دور میں لوگوں نے اس خاص دن کے متعلق اختلاف کیا تھا ، اس اختلاف کی حقیقت کا تذکرہ حضور ﷺ کی حدیث مبارکہ میں ملتا ہے ، تفسیری روایات میں بھی آتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ نے تمہارے لیے جمعہ کا خصوصی دن مقرر فرمایا ہے ، لہذا اس دن کاروبار ترک کرکے محض اللہ کی عبادت کیا کرو ، مگر یہودیوں نے اس دن کی فضیلت کو تسلیم کرنے میں اختلاف کیا ، وہ کہنے لگے کہ ہم تو اس دن کو خاص دن تسلیم کریں گے تعطیل منائیں گے اور کاروبار چھوڑ کر صرف اللہ کی عبادت کریں گے جس دن اللہ تعالیٰ کائنات کو پیدا کرنے کے بعد فارغ ہوا تھا ، اور وہ ہفتے کا دن بنتا ہے ، اس کی تفصیل تورات میں موجود ہے اور قرآن میں بھی اشارۃ ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو چھ دن میں مکمل کیا اور پھر آدم (علیہ السلام) کی تخلیق جمعہ کے دن آخری وقت میں ہوئی ، کائنات کی تخلیق کا سلسلہ تو چھ دن میں مکمل ہوگیا ، اور ہفتہ کا دن خالی تو انہوں نے اس دن کو اختیار کرلیا ، گویا انہوں نے جمعہ کے دن میں اختلاف کیا ، اسی طرح نصاری پر بھی جمعہ کا دن پیش کیا گیا کہ اس دن اللہ کی خاص عبادت کیا کریں مگر انہوں نے بھی اس طرف توجہ نہ کی اور کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہود کی عید ہمارے بعد ہو ، لہذا انہوں نے یہودیوں کے ہفتہ سے بعد والا دن اتوار اختیار کرلیا کہ ہم اس دن چھٹی کرکے اللہ تعالیٰ کی خصوصی عبادت کیا کریں گے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی سعادت ہمارے حصے میں رکھی تھی جب کہ یہود ونصاری اس سے محروم رہے ، آپ کا ارشاد مبارک ہے ” نحن الاخرون والاولون یوم القیمۃ بعد ان اوتوالکتب من قبلنا “۔ ہم سب سے آخر میں آنے والے ہیں مگر قیامت والے دن سب سے اول ہوں گے ، یہود ہم سے ایک دن بعد اور نصاری ان کے ایک دن بعد یعنی علی الترتیب ہفتہ اور اتوار کو پیش ہوں گے ، اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کو تمام ایام پر فضیلت بخشی ہے اور اسے سیدالایام کا خطاب دیا ہے کہ یہ ان تمام دنوں کا سردار ہے ۔ صاحب تفسیر حسینی لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک شخص کو دیکھا جو ہفتے کے دن سامان اٹھائے کاروبار کے لیے جا رہا تھا آپ نے اسے روک لیا اور حکم دیا کہ اس کی گردن اتار دو کیونکہ اس نے ہفتہ کے دن کی تعظیم نہ کرکے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ہے چناچہ اس شخص کو قتل کردیا گیا اور اس کی لاش کھلے عام پھینک دی گئی جیسے چالیس دن تک درندے اور پرندے نوچ نوچ کر کھاتے رہے اس دن کی تعظیم کا اتنا سخت حکم تھا پھر داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں لوگوں نے اس دن کی تحقیر کی ان کو ہفتے کے دن شکار سے منع کیا گیا تھا مگر وہ اس دن براہ راست تو مچھلی کا شکار نہیں کرتے تھے ، البتہ انہیں حوض میں بند کردیتے اور اتوار کو علی الصبح پکڑ لیتے تھے ، اس طرح وہ حیلہ سازی سے اللہ کے حکم کی نافرمانی اور ہفتہ کے دن کی ناقدری کرتے تھے ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا قہر نازل ہوا ، اور ان لوگوں کی شکلیں بندروں اور خنزیروں میں تبدیل ہوگئیں اور پھر صفحہ ہستی سے بالکل ہی ناپید کردیے گئے ، اللہ نے اتنی سخت سزا دی ۔ (جمعہ کے دن آسانی) اللہ تعالیٰ نے امت آخر الزمان کے لیے جمعہ کا دن مقرر فرمایا ہے مگر زیادہ سختی نہیں کی بلکہ اہل ایمان کے لیے آسانی پیدا فرمائی ہے ، اس دن کے متعلق سورة جمعہ میں موجود ہے ۔ اے ایمان والو ! (آیت) ” اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وذروالبیع “۔ جب جمعہ کی اذان ہوجائے تو فوری طور پر نماز کے لیے حاضر ہوجاؤ اور کاروبار ترک کر دو ، اس حکم میں دو چیزیں ہیں ایک ذکر الہی یعنی خطبہ سننا اور دوسرا نماز پڑھنا ، فرمایا (آیت) ” فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ “۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوجاؤ تو زمین میں پھیل کر روزی تلاش کرو ، سارا دن تعطیل منانے کی ضرورت نہیں بلکہ نماز کے بعد اپنے کاروبار ، کھیتی باڑی ، تجارت ، ملازمت ، مزدوری ، جہاں بھی تم کام کرتے ہو جاسکتے ہو ، صرف نماز جمعہ کا حکم موکد ہے اگر کوئی شخص بلاعذر تین جمعے مسلسل ترک کر دے تو وہ منافقوں میں شمار ہوگا ، دل پر مہر لگ جائے گی ، بہرحال اللہ نے ہمارے لیے بڑی آسانی فرما دی ہے کہ سید الایام بھی عطا فرمایا اور زیادہ سختی بھی نہیں فرمائی ہفتے کے دن کی سختی ان لوگوں پر تھی جنہوں نے جمعہ کا دن تو قبول نہ کیا اور اس کی بجائے ہفتہ کو پسند کیا اور پھر اس پر پورے نہ اترے فرمایا (آیت) ” وان ربک لیحکم بینھم یوم القیمۃ فیما کانوا فیہ یختلفون “۔ بیشک تیرا پروردگار قیامت والے دن ان کے درمیان ان باتوں میں فیصلہ کریگا جن میں یہ اختلاف کرتے تھے ان کا حتمی فیصلہ اللہ تعالیٰ کی آخری عدالت میں ہی ہوگا ، (فریضہ تبلیغ (1) حکمت) ابراہیم (علیہ السلام) کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نصیحت کی بات کی ہے اور تبلیغ کا طریقہ کار بیان فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ادع الی سبیل ربک “۔ اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے تین طریقے تجویز کیے ہیں جن کا ذکر آگے آرہا ہے تاہم ہر نبی دعوت الی اللہ کا داعی ہوتا ہے کہ یہ امر اس کے فرائض منصبی میں داخل ہے خود حضور خاتم النبیین کے متعلق قرآن پاک نے فرمایا کہ آپ ” داعیا الی اللہ باذنہ وسراجا منیرا “۔ (الاحزاب) ہیں ، آپ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی طرف دعوت دینے والے اور روشن چراغ ہیں ، اللہ نے عام اہل ایمان کے متعلق بھی فرمایا (آیت) ” ومن احسن قولاممن دعا الی اللہ “۔ (حم سجدہ) اس شخص سے اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کے راستے کی دعوت دیتا ہے خود بھی ایمان رکھتا ہے اور عامل بالاحکام بھی ہے ۔ مومن ، عامل اور داعی ہونا انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا طریق کار ہے ، بہرحال اللہ نے دعوت کے تین طریقے بیان فرمائے ہیں جن میں سے پہلا طریقہ فرمایا ” بالحکمۃ “ حکمت اور دانائی کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیں امام مالک (رح) نے سنت کو حکمت سے تعبیر کیا ہے گویا حضور ﷺ کی تمام صحیح ، یقینی اور قطعی باتیں حکمت میں داخل ہیں ، ان کے ذریعے شکوک و شبہات دور ہوتے ہیں اور دل میں یقین پیدا ہوتا ہے ، سورة البقرہ میں ہے (آیت) ” ومن یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا “۔ جس کو حکمت دے دی گئی ، سمجھ عطا کردی گئی ، اسے گویا کہ بہت بڑی بھلائی مل گئی ، جب حکیم اور دانا لوگوں کے سامنے حقائق بیان کیے جائیں تو وہ فورا سمجھ جاتے ہیں اور یقین کرلیتے ہیں اسی لیے حضور ﷺ نے دعا میں سکھایا ” اللھم ارنا الحقآئق کما ھی “۔ اے اللہ ! ہمیں چیزوں کی حقیقت سمجھا دے ، جیسا کہ وہ واقع میں ہیں ، یہ پہلے درجے کے لوگ ہوتے ہیں جو حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت اور استعداد رکھتے ہیں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس قسم کے لوگوں کے سامنے کوئی چیز پیش کی جائے تو فورا سمجھ جاتے ہیں ، پھر دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو پہلے درجے کی عقل وفہم نہیں رکھتے ، بات سمجھانے کے لیے ان کے سامنے کوئی مثال ، اچھا کلام یا کوئی اچھا شعر پیش کیا جائے جس سے ان کی طبیعت متاثر ہو تو پھر وہ بات کو سمجھتے ہیں ۔ (2) (موعظت حسنہ) (آیت) ” والموعظۃ الحسنۃ “۔ اور اچھی نصیحت کے ساتھ ، ایسے لوگوں کے لیے موعظت حسنہ کا طریقہ کارآمد ہوتا ہے ” ان من البیان لسحرا “۔ اچھا بیان جادو اثر ہوتا ہے ، اچھے اشعار بھی بعض اوقات بڑے موثر ثابت ہوتے ہیں ہمارے دور کے لوگوں میں مولانا ابو الکلام (رح) کو اپنی تحریر وتقریر پر کمال حاصل تھا ، آپ کوئی چیز پیش کرنے کے بعد اس کے مناسب حال شعر نقل کرتے ہیں تو ساری بات ذہن میں اتر جاتی ہے ، مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری (رح) کو بھی اللہ نے کمال ملکہ عطا فرمایا تھا ، آپ اپنے مواعظ وتقاریر میں ایسے برمحل اشعار پیش کرتے تھے کہ ایک ان پڑھ آدمی بھی لطف اندوز ہوئے بغیر نہ رہتا تھا گویا عمدہ الفاظ اور اعلی بیان کے ذریعے کسی چیز کو پیش کرنا موعظت حسنہ یا اچھی نصیحت کہلاتا ہے ، ایسا وعظ ونصیحت جس میں طعن وتشنیع اور گالی گلوچ نہ ہو ، ضرور اثر کرتا ہے ” الفتح الربانی “ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کے ہفتہ وار مواعظ ہیں جن میں اللہ نے کمال درجے کا اثر رکھا ہے ، عربی زبان میں یہ نصائح دل میں اترتے چلے جاتے ہیں لوگ ذوق وشوق کے ساتھ سنتے ہیں ۔ خود قرآن پاک کا ایک نام موعظۃ بھی ہے کہ اسے پڑھ کر لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں ، اس سے عقیدے اور اخلاق کی اصلاح ہوتی ہے عمدہ طریقے سے نصیحت کی مثال خود قرآن نے بھی بیان کی ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس جا کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو ساتھ فرمایا (آیت) ” فقولا لہ قولا لینا “۔ (طہ) اس سے نرم لہجہ میں بات کرنا تاکہ وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے ، غرضیکہ نصیحت کرتے وقت ہمیشہ نرم بات کرنی چاہئے تاکہ مخاطب کے لیے موثر ثابت ہو ، حضور ﷺ ایک موقع پر خطہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور دوران خطبہ ہی کہنے لگا کہ حضرت ! آپ مجھے وہ بات سکھائین جس سے میں ناواقف ہوں اور اللہ نے آپ کو اس سے واقف کیا ہے ، آپ نے لوہے کی منگوائی اس پر تشریف فرما ہوئے ، اس شخص کو بات سمجھائی اور اس کے بعد اپنا پہلا خطبہ جاری رکھا ، اسی طرح ایک دیہاتی حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا ” انی سآئلک فصدق علینا “ حضرت ! میں ایک سائل ہوں ، دیہاتی آدمی ہوں ، آدب وآداب کی پاسداری نہیں ۔ لہذا سختی سے سوال کروں گا ، آپ ناراض نہ ہونا بلکہ میرے سوالوں کا جواب دینا ، آپ نے فرمایا پوچھ کیا پوچھتا ہے ، اس نے سوالات کیے اور آپ نے نہایت نرمی سے جواب دیے ایک اور موقع پر آپ ﷺ اونٹنی پر سوار جا رہے ہیں کہ ایک شخص آگے بڑھ کر اونٹنی کی مہار پکڑ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ آگے پھرجائیں ، پہلے میری راہنمائی کردیں ، اس شخص نے سوال کیا حضور ﷺ نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو جمع کر کے فرمایا کہ یہ شخص سوال پیش کررہا ہے تم بھی سنو ، پھر اس شخص نے اپنا سوال دہرایا اور آپ نے اس کا جواب دیا ، سائل کی تسلی ہوگئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو بھی اطمینان حاصل ہوا آپ نے اس شخص سے فرمایا ” خل “ یعنی اب مہار چھوڑ دے اور ہمیں جانے دے چناچہ آپ آگے تشریف لے گئے ۔ ایک دفعہ حضور ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے ہمراہ نماز ادا کر رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور نماز کے دوران ہی گفتگو شروع کردی ، لوگوں نے خاموش رہنے کا اشارہ بھی کیا مگر وہ شخص غصے میں بولتا رہا ، پھر جب نماز ختم ہوگئی تو حضور ﷺ نے اسے قریب بٹھا کر سمجھایا کہ نماز اللہ کے ذکر اور اس کی تسبیح وتہلیل کے لیے ادا کی جاتی ہے ، اس میں قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ہے ، اس لیے نماز کے دوران کلام نہیں کرنا چاہئے ، آپ نے اچھے طریقے سے اس کی اصلاح فرما دی تو وہ شخص کہنے لگا ، خدا کی قسم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں نے آج تک ایسا شفیق معلم نہیں دیکھا ، آپ نے نہ تو مجھے ڈانٹ ڈپٹ کی ، نہ مارا پیٹا اور نہ ہی کسی قسم کی زجر وملامت کی بلکہ نہایت اچھے طریقے سے بات سمجھا دی ، غرضیکہ تبلیغ کا دوسرا طریقہ اچھی نصیحت ہے جو عمدہ پیرائے میں کی گئی ہو اور جو مخاطب کے دل و دماغ پر اثر کرے ، فرمایا دوسرے درجے کے لوگوں کو اچھے طریقے سے نصیحت کریں ۔ (3) (مباحث بطریق احسن) فرمایا تبلیغ دین کا تیسرا طریقہ یہ ہے (آیت) ” وجادلھم بالتی ھی احسن “۔ اور اگر مخاطب سے بحث مباحثہ کی ضرورت پیش آجائے سوال و جواب کا موقع ہو ، اعتراض کا جواب دینا مطلوب ہو تو سختی اور تندخوئی کی بجائے نرمی اور حکمت عملی سے ہر سوال کا جواب دیں گالی گلوچ کی نبوت نہیں آنی چاہئے کسی کے ساتھ جھگڑنے کی ضرورت نہیں ، اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے ہر اعتراض کو خندہ پیشائی سے سنیں اور اس کا اچھے طریقے سے جواب دیں ، اگر اچھے طریقے سے معاملہ کو سلجھائیں گے تو اس کا مثبت اثر ہوگا ، برخلاف اس کے ہمارے ہاں ہر فرقہ کے پیروکار دوسرے فرقہ والوں کو مغلوب کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں اور پھر اس سلسلہ میں اخلاقی حدود کو پامال کرتے ہوئے گالی گلوچ اور طعن وتشنیع تک نوبت پہنچ جاتی ہے جو کہ کسی طرح بھی احسن طریقہ نہیں ، اس سے نہ تو مقرر کو کچھ حاصل ہوتا ہے اور نہ لوگوں کے پلے کچھ پڑتا ہے یہ طریقہ تبلیغ ہرگز اسلامی طریقہ نہیں ہے اور اس سے پرہیز کرنا چاہئے اہل کتاب بڑے جھگڑالو قسم کے لوگ ہیں مگر ان کے متعلق بھی اللہ نے فرمایا (آیت) ” ولا تجادلوا اھل الکتب الا بالتی ھی احسن “۔ (العنکبوت) ان کے ساتھ بھی بحث ومناظرہ کی ضرورت پیش آئے تو اچھے طریقے سے مجادلہ کریں تقریر وتحریر میں دوسرے کے خلاف گندی زبان وقلم کا استعمال قطعا پسندیدہ امر نہیں ، اللہ کے نزدیک دوسرے کی تذلیل کرنا بہت بری بات ہے لہذا مباحث میں شریت کی حدود سے تجاوز نہ کرو ، ایسا کرو ایسا کرو گے تو فائدے کی بجائے نقصان ہی ہوگا ۔ تین قسم کے لوگوں کے لیے اللہ نے تین طریقے بتلا دیے ہیں کہ ان اصولوں کی روشنی میں فریضہ تبلیغ ادا کرو ، تمام انبیاء نے یہی طریقہ اختیار کیے ، مخالفین نے انبیاء کے حق میں سخت ترین الفاظ استعمال کیے ، جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچائی مگر انہوں نے ہمیشہ اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے نرم گفتاری کو اپنا شعار بنایا ، نوح (علیہ السلام) کی قوم آپ کے خلاف سخت ترین الفاظ استعمال کرتی تھی ، کہتے تھے تیری بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی ، قوم نے کہا ہم تمہیں کھلی گمراہی میں مبتلا پاتے ہیں مگر اللہ کے سچے نبی نے جواب میں صرف اتنا فرمایا (آیت) ” یقوم لیس بی ضللۃ “۔ اے میری قوم ! میں گمراہ نہیں ہوں بلکہ تمام جہانوں کے پروردگار کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور تمہیں ان کا حکم سنا رہا ہوں ، سورة سبا میں حضور ﷺ کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں (آیت) ” ان تقوموا للہ مثنی وفرادی ثم تتفکروا “۔ کہ تم خدا کے لیے دو دو ہو کر یا فردا فردا کھڑے ہو کر غور کرو تو اسی نتیجے پر پہنچو گے ” مابصاحبکم من جنۃ “ کہ تمہارے صاحب یعنی محمد ﷺ میں دیوانگی والی کوئی بات نہیں ہے ، تو علم و حکمت کے دریا بہا رہا ہے ، اس کے ایک ایک کلمے میں ہزاروں حکمتیں پوشیدہ ہیں ، غرضیکہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے تبلیغ دین کے لیے ہمیشہ نرم خوئی کو اختیار کیا اور یہی طریقہ اللہ نے عام لوگوں کو بھی سکھلایا ہے ، ہمارے دور کے مولاناشاہ اشرف علی تھانوی (رح) اس طریقہ تبلیغ کے مجسم نمونہ تھے ، ان کے مواعظ حسنہ سے کمال حکمت اور ایمان کی باتیں سمجھ میں آتی ہیں ، جب کوئی آپ کو کسی دوسرے فرقے کے ساتھ مناظرے کی دعوت دیتا تو آپ انکار کردیتے تھے ، فرماتے تھے کہ اگر مخالف نے کوئی صحیح بات کہہ دی تو میں فورا مان جاؤں گا اور تم کہو گے کہ میں تمہاری تحقیر کر ادی ہے لہذا میں مناظرہ بازی کے چکر میں نہیں پڑونگا ، ہمارے مدارس میں علم مناظرہ کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حق بات کو دلائل کے ساتھ واضح کردیا جائے اگر کوئی مخالف فریق حق بات کہتا ہے تو اس کو تسلیم کرنے میں تامل نہ کرو اور جو غلط بات کہتا ہے اس کا احسن طریقے سے جواب دو مگر اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ کوئی کسی کی حق بات بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا ، مخالفت برائے مخالفت کا بھوت سر پر سوار ہے اور یہی چیز اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے آج ہم اسلام کا نام لے کر اسی کے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک بھی نہیں ہے ۔ فرمایا کسی کے ساتھ مناظرہ ، مباحثہ یا جھگڑا کرو تو بہتر طریقے سے (آیت) ” ان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہ “۔ بیشک تیرا پروردگار اس شخص کو جانتا ہے جو راستے سے بہکا ہوا ہے (آیت) ” وھو اعلم بالمھتدین “۔ اور وہ ہدایت والوں کو بھی خوب جانتا ہے ، ہدایت اور گمراہی ، اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے سب لوگوں کے درمیان فیصلہ بھی اسی نے کرنا ہے لہذا تم کبھی غلط راستہ اختیار نہ کرو۔
Top