Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 139
قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰهِ وَ هُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ١ۚ وَ لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١ۚ وَ نَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَۙ
قُلْ : کہہ دو اَتُحَآجُّوْنَنَا : کیا تم ہم سے حجت کرتے ہو فِي ۔ اللہِ : میں۔ اللہ وَهُوْ : وہی ہے رَبُّنَا : ہمارا رب وَرَبُّكُمْ : اور تمہارا رب وَلَنَا : اور ہمارے لئے اَعْمَالُنَا : ہمارے عمل وَ : اور لَكُمْ : تمہارے لئے اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل وَنَحْنُ : اور ہم لَهُ : اسی کے ہیں مُخْلِصُوْنَ : خالص
اے پیغمبر ﷺ آپ کہہ دیجئے (اہل کتاب سے) کیا تم ہمارے ساتھ اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو حالانکہ وہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب بھی ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں ، اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ، اور ہم اسی کے لیے اخلاص کرنے والے ہیں ۔
گذشتہ سے پیوستہ : گذشتہ درس میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ یہود ونصاری مسلمانوں کو اپنے باطل مذہب کی طرف دعوت دیتے تھے کہ یہودی اور نصرانی ہوجاؤ تو ہدایت پا جاؤ گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے کہلوایا کہ ہم تو ملت ابراہیمی کے پیروکار ہیں اور اسی پر کاربند رہیں گے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حنیف تھے اور شرک کرنے والوں میں نہیں تھے اس کے بعد ملت اسلام اور ملت ابراہیم کا اہل اصول اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری بیان کیا گیا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایا کہ تم اعلان کر دو کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اس کی توحید اور اس کی کتاب کو مانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف نازل کی ہے اور آل صحائف کو بھی مانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، اسماعیل ، (علیہ السلام) ، اسحاق (علیہ السلام) ، اور یعقوب (علیہ السلام) ، اور ان کی اولاد کی طرف نازل فرمائے ہمارا اس شریعت اور دین پر بھی ایمان ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا ، خلاصہ یہ کہ تمام انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کو جو چیز بھی عطا کی گی ، ہمارا اس پر ایمان ہے اور ہم تفریق بین الرسل نہیں کرتے کہ کسی کو مان لیا اور کسی کو نہ مانا ، بلکہ سب کو یکساں طور پر اللہ تعالیٰ کے رسول تسلیم کرتے ہیں اور تمام کتب سماویہ پر ایمان رکھتے ہیں البتہ عمل کے لیے صرف قرآن پاک کو کافی پاتے ہیں ۔ حضور ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی اسی اصول پر عمل درآمد کرتے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہود ونصاری بھی اسی طرح ایمان لے آئیں ، جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ایمان لائے ہیں تو ہو بھی ہدایت پاجائیں گے ، اگر مخالفت کریں تو یہ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی ہے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تسلی دی کہ اہل کتاب کے شر سے خائف نہ ہوں آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کفایت کرے گا پھر فرمایا کہ یہودیت یا نصرانیت کا پکڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرو ، اور وہ دین توحید اور ملت ابراہیمی والا رنگ ہے آخر میں اہل ایمان سے کہلوایا کہ ہم اسی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہیں جس کی وحدت کا اقرار کرچکے ہیں ۔ (اہل کتاب کے ساتھ جھگڑا) آیت زیر درس میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے ساتھ مقاطعہ کی بنیاد رکھی ہے کیونکہ ان کے ساتھ مصالحت کا کوئی امکان باقی نہیں رہا ، پیغمبر اسلام ﷺ سے خطاب کیا قل آپ ان اہل کتاب سے کہہ دیں (آیت) ” اتحاجوننا فی اللہ “ کیا تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم سے جھگڑا کرتے ہو کیا بنائے مخاصمت اللہ کی واحدانیت اس کا دین یا اس کی عبادت ہے بلکہ جھگڑے کی بنیاد یہ ہے کہ اہل کتاب اس زعم میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالیٰ ان پر بڑا مہربان ہے اس کی تمام تر نوازشیں انہیں کے لیے ہیں لہذا آخری نبی بھی بنو اسحاق میں سے ہی آنا چاہئے تاکہ ان کے خاندان کی برتری قائم رہے اسی لیے وہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی نبوت و رسالت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے ، حالانکہ گذشتہ آیات میں گذر چکا ہے کہ (آیت) ” واللہ یختص برحمتہ من یشآئ “۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے خاص کرلیتا ہے کسی ایک فرد یا قوم نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمتیں صرف انہیں کے لیے ہیں اسی چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کہلوایا کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم سے جھگڑا کرتے ہو (آیت) ” وھو ربنا وربکم “۔ حالانکہ وہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب بھی اس میں جھگڑا کی کون سی بات ہے اگر اس ن کے ایک زمانے میں کسی ایک خاندان کو برتری عطا کی ہے تو دوسرے زمانے میں دوسرے خاندان کو شرف بخشا ہے کیونکہ وہ ساری مخلوق کا رب ہے اس کی نظر میں سب برابر ہیں ، وہ سب کا مالک ہے ، لہذا تمہیں آپس میں مخاصمت نہیں پیدا کرنی چاہئے اور اگر تم نے ضرور جھگڑا ہی کرنا ہے تو (آیت) ” ولنا اعمالنا ولکم اعمالکم “۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے یعنی ہم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں اور تم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہو ۔ (آیت) ” ونحن لہ مخلصون “۔ اور ہم تو صرف اسی خالق ومالک کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں ۔ (اخلاص فی الدین) اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری ہی ملت ابراہیم (علیہ السلام) کا بنیادی اصول ہے تم باطل نظریات کی طرف دعوت دیتے ہو یعنی یہودیت یا نصرانیت کو اختیار کیا جائے یہ ممکن نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت لا محدود ہے وہ جسے چاہے اپنی رحمت سے فیضیاب کرے کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں بحمد اللہ ہم نے ایمان قبول کرکے اپنے اندر اخلاص پیدا کیا ہے اور صحیح معنوں میں ملت ابراہیمی میں شامل ہوتے ہیں حضور ﷺ کا فرمان ہے (1) (فیض القدیر ص 216 ج 1 بحوالہ مستدرک عن معاذ ؓ) ” اخلص فی دینک یکفیک قلیل من العمل “۔ یعنی اپنے دین میں اخلاص پیدا کرو ، تمہارا تھوڑا عمل بھی کفایت کر جائے گا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صرف مخلص عمل ہی قابل قبول ہوتا ہے ریا کاری اور دکھاوے کا عمل ہمیشہ مردود ہوتا ہے اہل کتاب کے عقائد اخلاص سے خالی میں وہ ضدی اور عنادی ہیں لہذا ہماری ان سے مصالحت نہیں ہو سکتی مشرکین کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ، (آیت) ” لکم دینکم ولی دین “۔ یعنی تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور ہمارے لیے ہمارا دین ، اب صلح کی گنجائش نہیں یہاں بھی اہل کتاب کو فرمایا کہ تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہیں اور ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں گویا یہ ایک چیلنج ہے کہ آئندہ جہاد کرنا پڑے گا اس کے بغیر کوئی چارہ کار باقی نہیں رہ گیا ۔ (انبیائے سابقین کا عقیدہ) اہل کتاب کا دعوی تھا کہ پہلے جتنے بھی انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام تشریف لائے ہیں وہ سب کے سب انہیں کے عقیدہ پر یہودی یا نصرانی تھے ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان کے اس غلط دعوی کا جواب دے رہے ہیں (آیت) ” ام تقولون “ کیا تم یہ کہتے ہو (آیت) ” ان ابرھیم واسمعیل واسحق ویعقوب والاسباط کانوا ھودا او نصری “۔ کہ حضرت ابراہیم ، اسمعیل (علیہ السلام) ، اسحاق (علیہ السلام) یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ قل “ اے پیغمبر ﷺ آپ ان سے فرما دیں ، کہ اس دعوے کے متعلق (آیت) ” ء انتم اعلم ام اللہ “۔ کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ انبیائے سابقین کس طریقے پر تھے فرمایا یہ حضرات نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو حنیف تھے یعنی خالص اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والے تھے ، تمہاری یہ یہودیت یا نصرانیت تو توراۃ اور انجیل کے بگاڑ کا نتیجہ ہے اور انبیائے متعلقین سے صدیوں بعد کی پیداوار ہے ان کا ان باطل عقائد کے ساتھ کیا تعلق وہ تو خالص ملت اسلامیہ پر کار بند تھے اور اسی کی تبلیغ کرتے رہے خاص طور پر جد الانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق تو پہلے بھی کسی درس میں آچکا ہے (آیت) ” ماکان ابرھیم یھودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وماکان من المشرکین “۔ یعنی آپ تو حنیف اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے ، آپ مشرکین میں سے قطعا نہیں تھے لہذٓ ان کی نسبت یہودیت یا نصرانیت کی طرف کرنا نہایت ہی قبیح حرکت ہے ، بھلا اللہ تعالیٰ کے نبی یہودیت اور نصرانیت کا باطل طریقہ کیسے اپنا سکتے ہیں جو انکار نبوت ، عقیدہ تشبیہ ، اور تفریق بین الانبیاء والا طریقہ ہے ایسے باطل عقائد تمہیں مبارک ہوں ، انبیائے سابقین ان سے مبرا تھے ۔ (کتمان شہادت ظلم ہے) آگے اہل کتاب کی ایک اور زیادتی کو بیان فرمایا (آیت) ” ومن اظلم ممن کتم شھادۃ عندہ من اللہ “۔ اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا ، جس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے گواہی موجود ہو اور وہ اسے چھپائے یہ گواہی کون سی تھی جسے بنی اسرائیل چھپاتے تھے یہ گواہی حضور ﷺ کی بعثت قرآن پاک کی حقانیت اور آخری امت کے بارے میں تھی آگے آئے گا کہ بنی اسرائیل ایسا جان بوجھ کر کرلیتے تھے (آیت) ” یعرفونہ کما یعرفون ابنآء ھم “۔ یہ لوگ حضور خاتم النبیین ﷺ کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنے بیٹوں کو مگر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے توراۃ میں حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے متعلق واضح پیشین گوئیاں موجود تھیں مگر یہ لوگ عناد اور حسد کی وجہ سے آپ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے تھے گویا توراۃ نے جو گواہی پیش کی تھی اور جو خود ان کے پاس موجود تھی ، اسے چھپاتے تھے انہیں کے متعلق فرمایا کہ اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اپنے پاس موجود شہادت کو چھپا جائے ۔ شہادۃ کا چھپانا ویسے بھی گناہ ہے (آیت) ” ومن یک تمھا فانہ اثم قلبہ “۔ شہادت کو چھپانے والے کا دل گنہگار ہے بلکہ صحیح گواہی دینا تو ضروری ہوجاتا ہے خاص طور پر جب کہ وہ دین کے متعلق ہو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واقیموا الشھادۃ للہ “۔ اللہ تعالیٰ کے لیے شہادۃ کو قائم کرو ، اس کو چھپانے کی کوشش نہ کرو ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے ، اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی طرف سے کتمان شہادت کو سورة اعراف میں یوں بیان فرمایا (آیت) ” یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل “۔ اس نبی امی کی پیش گوئیاں اور حال توراۃ اور انجیل میں ان کے پاس لکھا ہوا موجود ہے مگر یہ حق بات کو چھپا لیتے ہیں فرمایا کہ یہ لوگ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی قبیح حرکات کا علم نہیں بلکہ وہ تو ہر چیز کو جانتا ہے (آیت) ” وما اللہ بغافل عما تعملون “۔ وہ غافل نہیں ہے تمہاری تمام کاروائی کو جانتا ہے اور مناسب وقت پر تم سے مواخذہ کرے گا ۔ (جھوٹی نسبت مفید نہیں) یہ آیت گذشتہ سے پیوستہ درس میں آچکی ہے یہاں اس کو دہرایا جا رہا ہے (آیت) ” تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم “۔ یہ ایک امت تھی جو گذر چکی ، اس کے لیے وہی کچھ ہے جو اس امت نے کمایا اور تمہارے لیے وہ ہے جو تم نے کمایا (آیت) ” ولا تسئلون عما کانوا یعملون “۔ تم سے ان کے بارے میں سوال نہیں کیا جائیگا۔ کہ وہ کیا کرتے رہے بلکہ تم اپنے کردار کے ذمہ دار ہو ، وہ اپنے فعال کے ذمہ دار ہیں مطلب یہ کہ اے اہل کتاب اگرچہ تم اپنی نسبت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف کرتے ہو مگر تم ان کے عقیدے پر قائم نہیں رہ سکے ، لہذا تمہاری یہ جھوٹی نسبت کچھ فائدہ نہیں دے سکتی ، ان کے عقیدے اور اعمال بیشک درست تھے لیکن وہ تمہارے کسی کام نہیں آسکتے ، تمہیں اپنے افعال کی خود جوابدہی کرنا ہوگی ، ملت ابراہیمی کا ایک اہم ترین اصول (آیت) ” ولا تزروا وازرۃ وز اخری “۔ ہے یعنی کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان مبارک بھی ہے (1) (شمائل مع ترمذی ص 571) ” لا یجنی علیک ولا تجنی علیہ “۔ باپ اور بیٹے کے متعلق فرمایا کہ باپ کا گناہ بیٹے کی گردن پر نہیں ہوگا اور نہ بیٹے کی زیادتی پر باپ کو پکڑا جائے گا ہر کوئی اپنے کام کا ذمہ دار ہے اسی لیے فرمایا انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف محض نسبت کرلینا کچھ فائدہ نہیں دے گا جب تک ان کی پوری پوری اتباع نہیں کی جائے گی ۔ ّ (اہل اسلام کے لیے لمحہ فکریہ) مفسرین کرام فرماتے ہیں (2) (تفسیر عزیزی فارسی ص 410 پارہ 1) کہ آیت ” تلک امۃ “۔ کا دہرایا جانا خاص مقصد کی بناء پر ہے صرف اہل کتاب کے لیے تو یہ آیت ایک دفعہ ہی کافی تھی ، اب جو دوسری دفعہ اس کا تکرار کیا گیا ہے تو اس سے مراد اہل اسلام کی تنبیہ ہے کہ اہل کتاب کی طرح وہ بھی خالی نسبت پر تکیہ کیا گیا ہے تو اس سے مراد اہل اسلام کی تنبیہ ہے کہ اہل کتاب کی طرح وہ بھی خالی نسبت پر تکیہ لگا کر نہ بیٹھے رہیں بلکہ وہ اپنے عقائد اور اعمال کو پاک کریں ، اللہ تعالیٰ اور نبی کریم ﷺ کے احکام کی پابندی کریں تو ان کے لیے بھی راہ نجات کھل سکتی ہے اپنے اعمال کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں آج کل کے پیر زادوں ، امیر زادوں ، گدی نشینوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے آپ کا محاسبہ کریں ، آباؤ اجداد کی خالی نسبت کسی کام نہیں آئیگی ، باپ نیک و صالح تھا تو اس کا عمل اس کے ساتھ ہے بیٹے کو اپنی جوابدہی خود کرنا ہوگی ، نسبت تو جب مفید ہوگی جب بزرگوں کے خصائص سے حصہ پایا ہو ۔ اماموں کے ساتھ نسبت کرنا بھی اسی قبیل سے ہے یہی حال مشائخ طریقت کا ہے اپنی نسبت بلند خانوادوں کی طرف کرتے ہیں مگر ان کی ایک خوبی بھی نہیں پائی جاتی آج چشتیہ اور قادریہ سلسلہ کی طرف نسبت کرنے والے کتنی لغویات میں ملوث ہیں کیا شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کا یہی طریقہ تھا ، ان کی کتابیں موجود ہیں ، ان کے مواعظ اور دیگر تصنیفات ہیں ایک ایک لفظ سے ایمان اور حقیقت ٹپک رہی ہے کفر اور شرک اور بدعت میں ڈوبے ہوئے ہیں ان کے عرس منائے جا رہے ہیں ان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں رسومات باطلہ کا دور دورہ ہے مگر نسبت ان کی طرف ہے ایسی نسبت کیا فائدہ دے گی ۔ چشتی اپنے آپ کو خواجہ معین الدین چشتی (رح) سے منسوب کرتے ہیں اس ملک میں خواجہ معین الدین چشتی (رح) خواجہ فرید الدین شکر گنج (رح) خواجہ نظام الدین اولیاء (رح) جیسے مشائخ کے ذریعے اسلام کی آبیاری ہوئی ان کے ذریعے برصیغر کے کتنے لوگوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی ، کتنے لوگوں کا تعلق باللہ قائم ہوا ایسے بزرگوں کا اس خطہ ارضی پر کتنا احسان ہے مگر آج انہیں کے پیروکار چشتیہ خاندان کی طرف نسبت کرنے والے راگ ، رنگ اور گانے بجانے میں مشغول ہیں قوالی کا نام دے کر کتنی ہی رسوم باطلہ کو اپنایا جا رہا ہے مگر جیسا کہ بیان ہوچکا یہ کالی نسبت کام نہیں آئیگی جب تک ان بزرگوں کے نقش قدم پر نہ چلیں گے اسی چیز کو یہودیت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اہل ایمان کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ بھی یہودیوں کے راستے پر نہ چل نکلیں بلکہ اپنے اندر حقیقی ایمان پیدا کریں ۔ ہمارے ہاں امام ابوحنیفہ (رح) کی طرف نسبت کرکے حنفی کہلانے والے لوگوں کی اکثریت ہے مگر ان میں سے کتنے ہیں جو صحیح معنوں میں امام صاحب (رح) کے طریقے پر چل رہے ہیں محض حنفی کہلانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ، جب تک آپ کا اتباع نہ ہوگا ، اسی طرح امام شافعی (رح) کی طرف نسبت کرنے والے ہیں ، وہ بھی اپنے طریقہ پر قائم نہیں ہیں ، دل میں تعصب بھرا ہوا ہے لاکھ شافعی کہلائیں کچھ فائدہ نہیں ، اس قسم کی خالی نسبت تو وہی یہودیوں والی نسبت ہے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خبردار کیا ہے کہ ایمان لانے کے باوجود یہودیت کا راستہ اختیار نہ کریں اور صحیح معنوں میں ملت ابراہیمی اور شریعت محمدی پر قائم رہیں ، خود حضور اکرم ﷺ نے اپنے خاندان والوں کا نام لے لے کر فرمایا (1) (تفسیر ابن کثیر ص 350 ج 3 بحوالہ مسند احمد ومسلم ص 114 ج 1) اے بنی ہاشم ، اے بنی عبدالمطلب خبردار ! ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن لوگ اعمال لے کر آئیں اور تم محض خاندانی تعلق اور رشتہ داری لے کر آؤ ، اللہ تعالیٰ کے حضور میں تمہیں نہیں بچا سکوں گا ، آج اپنی فکر کرلو ” انقذوا انفسکم من النار “ اپنی جانوں کو دوزخ سے بچا لو ، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایمان کو درست کرو ، اعمال صالحہ کی دولت حاصل کرو ، اس طرح تم کو آخرت میں درجات نصیب ہوں گے ۔ فرمایا یہ امت ہے جو گذر چکی جو کچھ اس امت نے کمایا وہ اس کے لیے ہے اور جو تم نے کمایا وہ تمہارے لیے ہے تم سے ان کے اعمال کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے ، بلکہ تمہاری باز پرس تمہارے اعمال کی وجہ سے ہوگی ، تم سے سوال ہوگا ، کہ تم نیکی اور توحید پر کاربند تھے یا نہیں تم شرک ، بدعات اور رسومات باطلہ سے بچ سکے یا نہیں تم توحید کی دعوت دیتے تھے یا شرکیہ افعال کی طرف بلاتے تھے تم نیکی اختیار کرتے تھے یا لڑائی جھگڑے میں مصروف رہے آج اپنا محاسبہ کرلو قیامت کے دن تمہارے کاموں کے متعلق تم سے پوچھا جائے گا ۔
Top