Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 139
قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰهِ وَ هُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ١ۚ وَ لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١ۚ وَ نَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَۙ
قُلْ
: کہہ دو
اَتُحَآجُّوْنَنَا
: کیا تم ہم سے حجت کرتے ہو
فِي ۔ اللہِ
: میں۔ اللہ
وَهُوْ
: وہی ہے
رَبُّنَا
: ہمارا رب
وَرَبُّكُمْ
: اور تمہارا رب
وَلَنَا
: اور ہمارے لئے
اَعْمَالُنَا
: ہمارے عمل
وَ
: اور
لَكُمْ
: تمہارے لئے
اَعْمَالُكُمْ
: تمہارے عمل
وَنَحْنُ
: اور ہم
لَهُ
: اسی کے ہیں
مُخْلِصُوْنَ
: خالص
اے پیغمبر ﷺ آپ کہہ دیجئے (اہل کتاب سے) کیا تم ہمارے ساتھ اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو حالانکہ وہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب بھی ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں ، اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ، اور ہم اسی کے لیے اخلاص کرنے والے ہیں ۔
گذشتہ سے پیوستہ : گذشتہ درس میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ یہود ونصاری مسلمانوں کو اپنے باطل مذہب کی طرف دعوت دیتے تھے کہ یہودی اور نصرانی ہوجاؤ تو ہدایت پا جاؤ گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے کہلوایا کہ ہم تو ملت ابراہیمی کے پیروکار ہیں اور اسی پر کاربند رہیں گے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حنیف تھے اور شرک کرنے والوں میں نہیں تھے اس کے بعد ملت اسلام اور ملت ابراہیم کا اہل اصول اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری بیان کیا گیا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایا کہ تم اعلان کر دو کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اس کی توحید اور اس کی کتاب کو مانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف نازل کی ہے اور آل صحائف کو بھی مانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، اسماعیل ، (علیہ السلام) ، اسحاق (علیہ السلام) ، اور یعقوب (علیہ السلام) ، اور ان کی اولاد کی طرف نازل فرمائے ہمارا اس شریعت اور دین پر بھی ایمان ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا ، خلاصہ یہ کہ تمام انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کو جو چیز بھی عطا کی گی ، ہمارا اس پر ایمان ہے اور ہم تفریق بین الرسل نہیں کرتے کہ کسی کو مان لیا اور کسی کو نہ مانا ، بلکہ سب کو یکساں طور پر اللہ تعالیٰ کے رسول تسلیم کرتے ہیں اور تمام کتب سماویہ پر ایمان رکھتے ہیں البتہ عمل کے لیے صرف قرآن پاک کو کافی پاتے ہیں ۔ حضور ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی اسی اصول پر عمل درآمد کرتے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہود ونصاری بھی اسی طرح ایمان لے آئیں ، جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ایمان لائے ہیں تو ہو بھی ہدایت پاجائیں گے ، اگر مخالفت کریں تو یہ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی ہے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تسلی دی کہ اہل کتاب کے شر سے خائف نہ ہوں آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کفایت کرے گا پھر فرمایا کہ یہودیت یا نصرانیت کا پکڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرو ، اور وہ دین توحید اور ملت ابراہیمی والا رنگ ہے آخر میں اہل ایمان سے کہلوایا کہ ہم اسی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہیں جس کی وحدت کا اقرار کرچکے ہیں ۔ (اہل کتاب کے ساتھ جھگڑا) آیت زیر درس میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے ساتھ مقاطعہ کی بنیاد رکھی ہے کیونکہ ان کے ساتھ مصالحت کا کوئی امکان باقی نہیں رہا ، پیغمبر اسلام ﷺ سے خطاب کیا قل آپ ان اہل کتاب سے کہہ دیں (آیت) ” اتحاجوننا فی اللہ “ کیا تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم سے جھگڑا کرتے ہو کیا بنائے مخاصمت اللہ کی واحدانیت اس کا دین یا اس کی عبادت ہے بلکہ جھگڑے کی بنیاد یہ ہے کہ اہل کتاب اس زعم میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالیٰ ان پر بڑا مہربان ہے اس کی تمام تر نوازشیں انہیں کے لیے ہیں لہذا آخری نبی بھی بنو اسحاق میں سے ہی آنا چاہئے تاکہ ان کے خاندان کی برتری قائم رہے اسی لیے وہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی نبوت و رسالت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے ، حالانکہ گذشتہ آیات میں گذر چکا ہے کہ (آیت) ” واللہ یختص برحمتہ من یشآئ “۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے خاص کرلیتا ہے کسی ایک فرد یا قوم نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمتیں صرف انہیں کے لیے ہیں اسی چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کہلوایا کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم سے جھگڑا کرتے ہو (آیت) ” وھو ربنا وربکم “۔ حالانکہ وہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب بھی اس میں جھگڑا کی کون سی بات ہے اگر اس ن کے ایک زمانے میں کسی ایک خاندان کو برتری عطا کی ہے تو دوسرے زمانے میں دوسرے خاندان کو شرف بخشا ہے کیونکہ وہ ساری مخلوق کا رب ہے اس کی نظر میں سب برابر ہیں ، وہ سب کا مالک ہے ، لہذا تمہیں آپس میں مخاصمت نہیں پیدا کرنی چاہئے اور اگر تم نے ضرور جھگڑا ہی کرنا ہے تو (آیت) ” ولنا اعمالنا ولکم اعمالکم “۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے یعنی ہم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں اور تم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہو ۔ (آیت) ” ونحن لہ مخلصون “۔ اور ہم تو صرف اسی خالق ومالک کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں ۔ (اخلاص فی الدین) اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری ہی ملت ابراہیم (علیہ السلام) کا بنیادی اصول ہے تم باطل نظریات کی طرف دعوت دیتے ہو یعنی یہودیت یا نصرانیت کو اختیار کیا جائے یہ ممکن نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت لا محدود ہے وہ جسے چاہے اپنی رحمت سے فیضیاب کرے کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں بحمد اللہ ہم نے ایمان قبول کرکے اپنے اندر اخلاص پیدا کیا ہے اور صحیح معنوں میں ملت ابراہیمی میں شامل ہوتے ہیں حضور ﷺ کا فرمان ہے (1) (فیض القدیر ص 216 ج 1 بحوالہ مستدرک عن معاذ ؓ) ” اخلص فی دینک یکفیک قلیل من العمل “۔ یعنی اپنے دین میں اخلاص پیدا کرو ، تمہارا تھوڑا عمل بھی کفایت کر جائے گا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صرف مخلص عمل ہی قابل قبول ہوتا ہے ریا کاری اور دکھاوے کا عمل ہمیشہ مردود ہوتا ہے اہل کتاب کے عقائد اخلاص سے خالی میں وہ ضدی اور عنادی ہیں لہذا ہماری ان سے مصالحت نہیں ہو سکتی مشرکین کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ، (آیت) ” لکم دینکم ولی دین “۔ یعنی تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور ہمارے لیے ہمارا دین ، اب صلح کی گنجائش نہیں یہاں بھی اہل کتاب کو فرمایا کہ تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہیں اور ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں گویا یہ ایک چیلنج ہے کہ آئندہ جہاد کرنا پڑے گا اس کے بغیر کوئی چارہ کار باقی نہیں رہ گیا ۔ (انبیائے سابقین کا عقیدہ) اہل کتاب کا دعوی تھا کہ پہلے جتنے بھی انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام تشریف لائے ہیں وہ سب کے سب انہیں کے عقیدہ پر یہودی یا نصرانی تھے ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان کے اس غلط دعوی کا جواب دے رہے ہیں (آیت) ” ام تقولون “ کیا تم یہ کہتے ہو (آیت) ” ان ابرھیم واسمعیل واسحق ویعقوب والاسباط کانوا ھودا او نصری “۔ کہ حضرت ابراہیم ، اسمعیل (علیہ السلام) ، اسحاق (علیہ السلام) یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ قل “ اے پیغمبر ﷺ آپ ان سے فرما دیں ، کہ اس دعوے کے متعلق (آیت) ” ء انتم اعلم ام اللہ “۔ کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ انبیائے سابقین کس طریقے پر تھے فرمایا یہ حضرات نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو حنیف تھے یعنی خالص اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والے تھے ، تمہاری یہ یہودیت یا نصرانیت تو توراۃ اور انجیل کے بگاڑ کا نتیجہ ہے اور انبیائے متعلقین سے صدیوں بعد کی پیداوار ہے ان کا ان باطل عقائد کے ساتھ کیا تعلق وہ تو خالص ملت اسلامیہ پر کار بند تھے اور اسی کی تبلیغ کرتے رہے خاص طور پر جد الانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق تو پہلے بھی کسی درس میں آچکا ہے (آیت) ” ماکان ابرھیم یھودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وماکان من المشرکین “۔ یعنی آپ تو حنیف اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے ، آپ مشرکین میں سے قطعا نہیں تھے لہذٓ ان کی نسبت یہودیت یا نصرانیت کی طرف کرنا نہایت ہی قبیح حرکت ہے ، بھلا اللہ تعالیٰ کے نبی یہودیت اور نصرانیت کا باطل طریقہ کیسے اپنا سکتے ہیں جو انکار نبوت ، عقیدہ تشبیہ ، اور تفریق بین الانبیاء والا طریقہ ہے ایسے باطل عقائد تمہیں مبارک ہوں ، انبیائے سابقین ان سے مبرا تھے ۔ (کتمان شہادت ظلم ہے) آگے اہل کتاب کی ایک اور زیادتی کو بیان فرمایا (آیت) ” ومن اظلم ممن کتم شھادۃ عندہ من اللہ “۔ اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا ، جس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے گواہی موجود ہو اور وہ اسے چھپائے یہ گواہی کون سی تھی جسے بنی اسرائیل چھپاتے تھے یہ گواہی حضور ﷺ کی بعثت قرآن پاک کی حقانیت اور آخری امت کے بارے میں تھی آگے آئے گا کہ بنی اسرائیل ایسا جان بوجھ کر کرلیتے تھے (آیت) ” یعرفونہ کما یعرفون ابنآء ھم “۔ یہ لوگ حضور خاتم النبیین ﷺ کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنے بیٹوں کو مگر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے توراۃ میں حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے متعلق واضح پیشین گوئیاں موجود تھیں مگر یہ لوگ عناد اور حسد کی وجہ سے آپ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے تھے گویا توراۃ نے جو گواہی پیش کی تھی اور جو خود ان کے پاس موجود تھی ، اسے چھپاتے تھے انہیں کے متعلق فرمایا کہ اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اپنے پاس موجود شہادت کو چھپا جائے ۔ شہادۃ کا چھپانا ویسے بھی گناہ ہے (آیت) ” ومن یک تمھا فانہ اثم قلبہ “۔ شہادت کو چھپانے والے کا دل گنہگار ہے بلکہ صحیح گواہی دینا تو ضروری ہوجاتا ہے خاص طور پر جب کہ وہ دین کے متعلق ہو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واقیموا الشھادۃ للہ “۔ اللہ تعالیٰ کے لیے شہادۃ کو قائم کرو ، اس کو چھپانے کی کوشش نہ کرو ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے ، اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی طرف سے کتمان شہادت کو سورة اعراف میں یوں بیان فرمایا (آیت) ” یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل “۔ اس نبی امی کی پیش گوئیاں اور حال توراۃ اور انجیل میں ان کے پاس لکھا ہوا موجود ہے مگر یہ حق بات کو چھپا لیتے ہیں فرمایا کہ یہ لوگ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی قبیح حرکات کا علم نہیں بلکہ وہ تو ہر چیز کو جانتا ہے (آیت) ” وما اللہ بغافل عما تعملون “۔ وہ غافل نہیں ہے تمہاری تمام کاروائی کو جانتا ہے اور مناسب وقت پر تم سے مواخذہ کرے گا ۔ (جھوٹی نسبت مفید نہیں) یہ آیت گذشتہ سے پیوستہ درس میں آچکی ہے یہاں اس کو دہرایا جا رہا ہے (آیت) ” تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم “۔ یہ ایک امت تھی جو گذر چکی ، اس کے لیے وہی کچھ ہے جو اس امت نے کمایا اور تمہارے لیے وہ ہے جو تم نے کمایا (آیت) ” ولا تسئلون عما کانوا یعملون “۔ تم سے ان کے بارے میں سوال نہیں کیا جائیگا۔ کہ وہ کیا کرتے رہے بلکہ تم اپنے کردار کے ذمہ دار ہو ، وہ اپنے فعال کے ذمہ دار ہیں مطلب یہ کہ اے اہل کتاب اگرچہ تم اپنی نسبت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف کرتے ہو مگر تم ان کے عقیدے پر قائم نہیں رہ سکے ، لہذا تمہاری یہ جھوٹی نسبت کچھ فائدہ نہیں دے سکتی ، ان کے عقیدے اور اعمال بیشک درست تھے لیکن وہ تمہارے کسی کام نہیں آسکتے ، تمہیں اپنے افعال کی خود جوابدہی کرنا ہوگی ، ملت ابراہیمی کا ایک اہم ترین اصول (آیت) ” ولا تزروا وازرۃ وز اخری “۔ ہے یعنی کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان مبارک بھی ہے (1) (شمائل مع ترمذی ص 571) ” لا یجنی علیک ولا تجنی علیہ “۔ باپ اور بیٹے کے متعلق فرمایا کہ باپ کا گناہ بیٹے کی گردن پر نہیں ہوگا اور نہ بیٹے کی زیادتی پر باپ کو پکڑا جائے گا ہر کوئی اپنے کام کا ذمہ دار ہے اسی لیے فرمایا انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف محض نسبت کرلینا کچھ فائدہ نہیں دے گا جب تک ان کی پوری پوری اتباع نہیں کی جائے گی ۔ ّ (اہل اسلام کے لیے لمحہ فکریہ) مفسرین کرام فرماتے ہیں (2) (تفسیر عزیزی فارسی ص 410 پارہ 1) کہ آیت ” تلک امۃ “۔ کا دہرایا جانا خاص مقصد کی بناء پر ہے صرف اہل کتاب کے لیے تو یہ آیت ایک دفعہ ہی کافی تھی ، اب جو دوسری دفعہ اس کا تکرار کیا گیا ہے تو اس سے مراد اہل اسلام کی تنبیہ ہے کہ اہل کتاب کی طرح وہ بھی خالی نسبت پر تکیہ کیا گیا ہے تو اس سے مراد اہل اسلام کی تنبیہ ہے کہ اہل کتاب کی طرح وہ بھی خالی نسبت پر تکیہ لگا کر نہ بیٹھے رہیں بلکہ وہ اپنے عقائد اور اعمال کو پاک کریں ، اللہ تعالیٰ اور نبی کریم ﷺ کے احکام کی پابندی کریں تو ان کے لیے بھی راہ نجات کھل سکتی ہے اپنے اعمال کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں آج کل کے پیر زادوں ، امیر زادوں ، گدی نشینوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے آپ کا محاسبہ کریں ، آباؤ اجداد کی خالی نسبت کسی کام نہیں آئیگی ، باپ نیک و صالح تھا تو اس کا عمل اس کے ساتھ ہے بیٹے کو اپنی جوابدہی خود کرنا ہوگی ، نسبت تو جب مفید ہوگی جب بزرگوں کے خصائص سے حصہ پایا ہو ۔ اماموں کے ساتھ نسبت کرنا بھی اسی قبیل سے ہے یہی حال مشائخ طریقت کا ہے اپنی نسبت بلند خانوادوں کی طرف کرتے ہیں مگر ان کی ایک خوبی بھی نہیں پائی جاتی آج چشتیہ اور قادریہ سلسلہ کی طرف نسبت کرنے والے کتنی لغویات میں ملوث ہیں کیا شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کا یہی طریقہ تھا ، ان کی کتابیں موجود ہیں ، ان کے مواعظ اور دیگر تصنیفات ہیں ایک ایک لفظ سے ایمان اور حقیقت ٹپک رہی ہے کفر اور شرک اور بدعت میں ڈوبے ہوئے ہیں ان کے عرس منائے جا رہے ہیں ان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں رسومات باطلہ کا دور دورہ ہے مگر نسبت ان کی طرف ہے ایسی نسبت کیا فائدہ دے گی ۔ چشتی اپنے آپ کو خواجہ معین الدین چشتی (رح) سے منسوب کرتے ہیں اس ملک میں خواجہ معین الدین چشتی (رح) خواجہ فرید الدین شکر گنج (رح) خواجہ نظام الدین اولیاء (رح) جیسے مشائخ کے ذریعے اسلام کی آبیاری ہوئی ان کے ذریعے برصیغر کے کتنے لوگوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی ، کتنے لوگوں کا تعلق باللہ قائم ہوا ایسے بزرگوں کا اس خطہ ارضی پر کتنا احسان ہے مگر آج انہیں کے پیروکار چشتیہ خاندان کی طرف نسبت کرنے والے راگ ، رنگ اور گانے بجانے میں مشغول ہیں قوالی کا نام دے کر کتنی ہی رسوم باطلہ کو اپنایا جا رہا ہے مگر جیسا کہ بیان ہوچکا یہ کالی نسبت کام نہیں آئیگی جب تک ان بزرگوں کے نقش قدم پر نہ چلیں گے اسی چیز کو یہودیت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اہل ایمان کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ بھی یہودیوں کے راستے پر نہ چل نکلیں بلکہ اپنے اندر حقیقی ایمان پیدا کریں ۔ ہمارے ہاں امام ابوحنیفہ (رح) کی طرف نسبت کرکے حنفی کہلانے والے لوگوں کی اکثریت ہے مگر ان میں سے کتنے ہیں جو صحیح معنوں میں امام صاحب (رح) کے طریقے پر چل رہے ہیں محض حنفی کہلانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ، جب تک آپ کا اتباع نہ ہوگا ، اسی طرح امام شافعی (رح) کی طرف نسبت کرنے والے ہیں ، وہ بھی اپنے طریقہ پر قائم نہیں ہیں ، دل میں تعصب بھرا ہوا ہے لاکھ شافعی کہلائیں کچھ فائدہ نہیں ، اس قسم کی خالی نسبت تو وہی یہودیوں والی نسبت ہے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خبردار کیا ہے کہ ایمان لانے کے باوجود یہودیت کا راستہ اختیار نہ کریں اور صحیح معنوں میں ملت ابراہیمی اور شریعت محمدی پر قائم رہیں ، خود حضور اکرم ﷺ نے اپنے خاندان والوں کا نام لے لے کر فرمایا (1) (تفسیر ابن کثیر ص 350 ج 3 بحوالہ مسند احمد ومسلم ص 114 ج 1) اے بنی ہاشم ، اے بنی عبدالمطلب خبردار ! ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن لوگ اعمال لے کر آئیں اور تم محض خاندانی تعلق اور رشتہ داری لے کر آؤ ، اللہ تعالیٰ کے حضور میں تمہیں نہیں بچا سکوں گا ، آج اپنی فکر کرلو ” انقذوا انفسکم من النار “ اپنی جانوں کو دوزخ سے بچا لو ، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایمان کو درست کرو ، اعمال صالحہ کی دولت حاصل کرو ، اس طرح تم کو آخرت میں درجات نصیب ہوں گے ۔ فرمایا یہ امت ہے جو گذر چکی جو کچھ اس امت نے کمایا وہ اس کے لیے ہے اور جو تم نے کمایا وہ تمہارے لیے ہے تم سے ان کے اعمال کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے ، بلکہ تمہاری باز پرس تمہارے اعمال کی وجہ سے ہوگی ، تم سے سوال ہوگا ، کہ تم نیکی اور توحید پر کاربند تھے یا نہیں تم شرک ، بدعات اور رسومات باطلہ سے بچ سکے یا نہیں تم توحید کی دعوت دیتے تھے یا شرکیہ افعال کی طرف بلاتے تھے تم نیکی اختیار کرتے تھے یا لڑائی جھگڑے میں مصروف رہے آج اپنا محاسبہ کرلو قیامت کے دن تمہارے کاموں کے متعلق تم سے پوچھا جائے گا ۔
Top