Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 89
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا١ۚ وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ
مَنْ جَآءَ : جو آیا بِالْحَسَنَةِ : کسی نیکی کے ساتھ فَلَهٗ : تو اس کے لیے خَيْرٌ : بہتر مِّنْهَا : اس سے وَهُمْ : اور وہ مِّنْ فَزَعٍ : گھبراہٹ سے يَّوْمَئِذٍ : اس دن اٰمِنُوْنَ : محفوظ ہوں گے
جو شخص نیکی لے کر آیا ، پس اس کے لیے اس سے بہتر بدلہ ہوگا ۔ اور وہ اس دن کی گھبراہٹ سے امن میں ہوں گے
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ نے کافروں اور مشرکوں کا رد کیا ۔ پھر توحید کے دلائل بیان کئے ، اللہ کی صفات کا ذکر ہوا ، انسانوں کو نصیحت کی باتیں سمجھائی گئیں اور پھر جزئے عمل کی منزل کا ذکر ہوا ۔ آج تو لوگ اکڑ دکھاتے ہیں اور انبیاء کی بات کو تسلیم نہیں کرتے مگر جس دن صور پھونکا جائے گا تو سب گھبرا جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ محفوظ رکھے گا ۔ اس دن پہاڑ بادلوں کی طرح اڑیں گے اور پھر جزائے عمل کی منزل آئے گی۔ وحی کا بدلہ اب اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے من جاء بالحسنہ فلہ خیر منھا جو شخص نیکی لے کر آیا اس کے لیے اس نیکی سے بہتر بدلہ ہوگا کیونکہ اللہ کے ہاں ہر نیکی کا اجر کم از کم دس گنا ہے من جاء بالحسنہ فلہ عشر امثھالھا ( الانعام : 161) اور خلوص نیت اور اعمال کے اعتبار سے اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے واللہ یضعف لمن یشاء واللہ واسع علیہ ( البقرہ : 162) اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے مزید بڑھا دیتا ہے کیونکہ و ہ بڑی وسعت والا اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ تا ہم شرط یہ ہے کہ نیکی ایسی ہو جو اللہ کے ہاں مقبول ہو ۔ اگر نیکی نا مقبول ہے تو اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَـلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ (الانبیائ : 49) جس شخص نے کوئی نیک عمل کیا بشرطیکہ وہ مومن ہو ، تو اس کی محنت کی ناقدری نہیں کی جائے گی بلکہ اس کی نیکی مقبول ہوگی۔ بہر حال مقبول نیکی کا کم از کم بدلہ دس گناہ ہے ، البتہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اللہ کے دین کی اقامت اور اشاعت کے لیے جہاد کرتا ہے۔ وہ اگر خدا کی راہ میں ایک درہم خرچ کرتا ہے تو اس کا بدلہ سات سو درہم یا اس سے بھی زیادہ ہوگا ۔ تا ہم عام نیکی کا بدلہ دس گنا ہے ، اور اگر کوئی برائی کرتا ہے تو اس کا بدلہ ایک سے زیادہ نہیں ہوگا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا (الانعام : 061) یعنی جو کوئی برائی لے کر آئیگا تو اس کا بدلہ اس برائی کے برابر ہوگا ۔ البتہ نیکی کے بدلے کی ایک خصویت یہ ہوگی کہ نہ تو اس میں کمی ہوگی اور نہ وہ ختم ہوگا ، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم رہے گا ۔ انسان کا عمل تو بہر حال ایک محدود وقت میں انجام پاتا ہے مگر اس کا اجر ہمیشہ ملتا رہے گا جو کبھی ختم نہ ہوگا ۔ صحیح حدیث میں آتا ہے زکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیھا قبل از نماز فجر دو سنتیں دنیا ومافیہا سے بہترین ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کی نعمتیں تو کبھی نہ کبھی ختم ہونے والی ہیں ، مگر ان دوسنتوں کا اجر ہمیشہ ملتا رہے گا ، اسی بناء پر فرائض سے پہلے فجر کی دو سنتوں کی بڑی تاکید آئی ہے ، ان کو بر وقت ادا کرنا چاہئے ۔ حضور ﷺ دوران سفر بھی ان سنتوں کا اہتمام کرتے تھے۔ بہتر بدلہ فرمایا جو شخص نیکی یا بھلائی لے کر آیا اس کے لیے اس نیکی سے بہتر بدلہ ہوگا ، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہتر بدلہ کیا ہے اور کیسے ہے ؟ نیکی سے بعض مفسرین کلمہ توحید لا الہ الا اللہ مراد لیتے ہیں اور بعض اسے مطلق اطاعت پر محمول کرتے ہیں لہٰذا نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج ، جہاد ، خیرات اور دیگر عبادات نیکی میں شمار ہوتی ہیں اور جو بدلہ ان کا ملے گا وہ جنت کی آسائش ہوں گی ۔ جن میں عمدہ کھانے ، فروٹ ، شہد ، دودھ ، شراب طہور ، پہننے کے لیے ریشم و کم خواب کا عمدہ لباس رہنے کے لیے بہترین کوٹھیاں اور بالا خانے ، پاکیزہ بیویاں ، حوریں اور غلمان وغیرہ شامل ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ایمان اور اطاعت کی نسبت یہ چیزیں کیسے بہتر ہو سکتی ہیں کیونکہ ایمان اور اطاعت تو ان مادی چیزوں سے بلند ہیں ۔ اس کے جواب میں مفسر قرآن مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ نیکی اور اطاعت بندے کا فعل ہے جب کہ انعامات دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ تو بد لے میں یہ انعامات بایں اعتبار بہتر ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو کہ بندے کے فعل کے مقابلہ میں ہر صورت بہتر ہے۔ دہشت سے ایمان فرمایا وھم من فزع یومئذ امنون اور یہ نیکی والے لوگ قیامت والے دن گھبراہٹ سے مامون ہوں گے ۔ یعنی اس دن انہیں کوئی دہشت نہیں ہوگی اور یہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں گے ۔ گزشتہ درس میں بھی گزرچکا ہے کہ جب صور پھونکا جائیگا تو زمین و آسمان میں رہنے والے سب گھبرا جائیں مگر وہ بچ جائیں گے جنہیں اللہ چاہے گا ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عذاب یا تکلیف کی گھبراہٹ اہل ایمان پر نہیں ہوگی ۔ البتہ قیامت کے دن کی گھبراہٹ بہر حال سب پر ہوگی ۔ احادیث میں آتا ہے کہ بعض بزرگوں کو اللہ تعالیٰ اس دہشت سے بھی محفوظ رکھے گا جیسے فرمایا لیس علی اھل لا الہ الا اللہ وحشۃ یعنی کلمہ توحید پر ایمان رکھنے والوں پر کوئی دہشت نہیں ہوگی ۔ جب وہ قبروں سے نکلیں گے تو انہیں کسی حد تک سکون حاصل ہوگا ، اگرچہ قیامت کی دہشت عام ہوگی۔ برائی کا بدلہ فرمایا ومن جاء بالسیۃ اور جو شخص برائی لے کر آیا یعنی جن کے نامہ ہائے اعمال میں برائیاں ہی برائیاں ہوں گی۔ فکبت وجوھھم فی النار ان کو وندھے منہ دوزخ کی آگ میں گرایا جائے گا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت معاذ ؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا ۔ حضور ﷺ ! ہم پانی زبانوں سے بھی بعض ایسی باتیں کر جاتے ہیں ۔ کیا ان پر بھی ہم سے مواخذہ ہوگا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ھل یکبھم فی النار الا حصائد السنتھم لوگوں کو دوزخ میں اوندھے منہ گرانے والی ان کے منہ سے کاٹی ہوئی باتیں ہی ہوتی ہیں ۔ لوگ اکثر زبان دراز ہوتے ہیں اور زبان کو جائز ناجائز چلاتے رہتے ہیں جو ان کے لیے جہنم کا باعث بن جاتی ہے۔ فرمایا ان لوگوں سے کہا جائیگا ھل تجزون الا ما کنتم تعملون کیا تمہیں تمہارے اعمال ہی کا بدلہ نہیں دیا جاتا ، تم پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی ، بلکہ جو کچھ دنیا میں کر کے آئے ہو آج اسی کا بھگتان کرو ۔ یہ تو عام مقولہ ہے ” جو کرتا ہے وہ بھرتا ہے “۔ رب کعبہ کی عبادت اس کے بعد پیغمبر (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ آپ یہ اعلان فرما دیں انما امرت ان اعبد رب ھذہ البدۃ الذی حرمھا کہ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے پروردگار کی عبادت کروں جس نے اس کی عزت و حرمت والا بنایا ہے۔ اس شہر سے مراد مکہ معظمہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے محترم بنایا ہے۔ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ ( آل عمران : 69) یہ وہ شہر مکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانے کے لیے سب سے پہلا گھر تعمیر کیا گیا ۔ یہ بڑا با برکت مقام ہے اور جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت ہے۔ دراصل شہر کی آبادی تو بعد میں ہوئی ۔ البتہ یہ محترم گھر پہلے تعمیر ہوچکا تھا۔ یہ گھر یعنی عبادت خانہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے تعمیر کیا تھا۔ پھر حوادثات زمانہ کی وجہ سے اس کی عمارت گر گئی۔ مگر اللہ کے نبی وہاں آ کر طواف اور دعائیں کیا کرتے تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی تعمیر نو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں سے کرائی ۔ اس وقت بھی وہاں کوئی آبادی نہ تھی ۔ آپ نے حضرت ہاجر ؓ اور اسماعیل (علیہ السلام) کو وہاں ٹھہرایا ، تو آہستہ آہستہ شہر مکہ آباد ہوگیا ۔ حرم کی حدود شہر مکہ سے کئی کئی میل باہر ہیں جس کے خاص احکام ہیں ۔ ان حدود کے اندر نہ تو خود رو گھاس کاٹی جاسکتی ہے نہ درخت کا ٹے جاسکتے ہیں ، نہ شکار کیا جاسکتا ہے ، اور نہ لڑائی جھگڑا روا ہے کیونکہ یہ حرمت والا خطہ ہے۔ اس گھر کے مالک نے ہی قریش خاندان کو پورے عرب میں عزب بخشی ۔ قریش اپنے آپ کو خاندانی طور پر بڑا سمجھتے تھے۔ یعنی ان میں قومیت کی خرابی پیدا ہوگئی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی یہی حکم دیا فلیعبد وا رب ھذا البیت (سورۃ القریش : 3) کہ تم بھی اسی گھر کے رب کی عبادت کرو ، اور کفر ، شرک اور معصیت سے بچ جائو۔ شہر مکہ کی عظمت شہر مکہ محبان الٰہی کی بستی ہے۔ لوگ اس کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس امن والے شہر کی قسم کھائی ہے وھذا البلد الامین ( التین : 3) اللہ نے اس شہر میں بڑی کشش رکھی ہے۔ فتح مکہ کے دن حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ شہر ہمیشہ کے لیے مرکز اسلام رہے گا ۔ اب کسی غیر مسلم کو اس پر تسلط حاصل نہیں ہوگا جب تک اس شہر میں واقع بیت اللہ شریف موجود ہے۔ دنیا قائم ہے ۔ قرب قیامت 1 ؎ میں حبشہ کا پست قد اور موٹی پنڈلیوں والا شخص اس کو گرا دیگا ، اس کے بعد جلدی ہی قیامت برپا ہوجائے گی ۔ اللہ نے اس خطہ میں وہ خیر و برکات رکھی ہیں ، جو کسی دوسرے خطے میں نہیں ہیں۔ فرمایا ، مجھے اس شہر کے پروردگار کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ولہ کل شی ہر چیز اسی پروردگار کی ملک ہے ۔ ہر چیز کا خالق ، مالک اور مصرف وہی ہے ۔ وامرت ان اکون من المسلمین اور مجھے تو حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کے فرمانبرداروں میں ہو جائوں ۔ اپنے آپ کو ہمہ تن اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دوں کیونکہ اسلام کا معنی ہی اطاعت اور فرمانبرداری ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ میں احکام الٰہی کی ظاہراً و باطنا تعمیل کرنے والا بن جائوں۔ تلاوت قرآن کا حکم فرمایا : اس کے علاوہ مجھے یہ حکم بھی حکم دیا یا ہیوان اتلوا القرآن کہ میں قرآن پاک کی تلاوت کروں یعنی لوگوں کو پڑھ کر سنائوں ۔ تلاوت قرآن 1 ؎۔ بخاری ص 612 ، 712 ج 1 ( فیاض) دو مقاصد کے لیے ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ تلاوت سے اجر وثواب حاصل کیا جائے جس شخص کا ایمان اور عقیدہ درست ہے اس ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں حاصل ہوئی ہیں ۔ اور اس تلاوت کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس کو سمجھا جائے اس کے مطابق عقیدہ اور ایمان بنایا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ یہ دوسرا مقصد پہلے پر فوقیت رکھتا ہے۔ بہر حال فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا کہ میں لوگوں کو قرآن پڑھ کر سنائوں تا کہ اس کے ذریعے لوگوں کو ایمان کی دعوت پہنچے۔ سورة الانعام میں ہے کہ یہ قرآن میری طرف اس لیے وحی کیا گیا ہے۔ لانذرکم بہ ومن بلغ ( آیت : 91) تا کہ میں اس کے ذریعے تمہیں اور ان لوگوں کو ڈرا دوں جن تک یہ پہنچے۔ میں سب کو خبردار کردوں کہ قرآن کی دعوت کر کے عذاب الٰہی سے بچ جائو ۔ کفر ، شرک ، اور معصیت سے باز آ جائو ، خدا تعالیٰ کی عبادت و ریاضت کا راستہ اختیار کرلو ۔ قرآن کی تلاوت کا یہ مقصد ہے۔ ہدایت اور گمراہی قرآن سنانے کے باقی باقی رہا ہدایت کا مسئلہ تو یہ ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ ہدایت قبول کرتا ہے یا نہیں ۔ اللہ نے فرمایا ہے فمن اھتدی فانما یھتدی لنفسہ جو کوئی ہدایت قبول کرتا ہے تو وہ اپنے ہی نفس کے لیے کرتا ہے۔ ہدایت کا فائدہ خود اسی کی ذات کو ہوگا ۔ تمہارے ہدایت قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کو تو کچھ فائدہ نہیں ہوگا ۔ بلکہ تمہاراہی فائدہ ہے کہ خدا کے کامل بندے بن کر اس کے انعامات کے مستحق بن جائو گے۔ ومن ضل اور جو شخص گمراہ رہا ۔ اس نے ایمان اور توحید کو قبول نہ کیا ۔ بلکہ کفر اور شرک میں ہی مبتلا رہا ۔ معصیت کا ارتکاب کرتا رہا ، تو یہ اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اللہ نے فرمایا فقل اے پیغمبر ﷺ ! آپ ان سے کہہ دیں انما انا من المنذرین میں تو ڈر سنانے والوں میں سے ہوں ۔ میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا ہے ، اللہ کا پیغام پہنچا ہے ، اسے قبول کرنا یا نہ کرنا تمہاری ذمہ داری ہے اگر ہدایت کو قبول نہیں کرو گے تو تمہاری گمرہی تم پر پڑے گی اور اس کا نقصان خود تم ہی کو ہوگا ۔ اللہ کی حمد و ثناء سورۃ کی ابتداء بھی قرآن کریم کی حقانیت سے ہوئی تھی اور اس کے آخر میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اور اب آخری آیت میں فرمایا وقل الحمد للہ آپ کہہ دیجئے کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے نبوت عطا فرمائی شریعت اور احکام دین عطا فرمائے ، تمام ظاہری اور باطنی انعامات سے نوازا ۔ جس نے قرآن جیسی عظیم کتاب عطا کی ، سب تعریفیں اسی کے لیے ہے سیریکم ایتہ وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں رکھا دیگا ۔ فتعرفونھا پھر تم ان کو پہچان بھی لو گے۔ نبی آخر الزمان کی بعثت اور شق القمر کی نشانیاں تو تم نے دیکھ لیں اب عنقریب مسیح (علیہ السلام) کا نزول اور دجال کا خروج بھی دیکھ لو گے۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے ایمان لے آئو ۔ اور اگر اپنی ضد پر اڑ رہو گے ۔ وما ربک بغافل عما تعملون تو اللہ تعالیٰ تمہاری کارکردگی سے غافل نہیں ہے تمہارا ہر عمل اس کی نگاہ میں ہے اور اسی کے مطابق تمہیں بدلہ دیگا۔
Top