Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Ankaboot : 60
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا١ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ١ۖ٘ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَكَاَيِّنْ
: اور بہت سے
مِّنْ دَآبَّةٍ
: جانور جو
لَّا تَحْمِلُ
: نہیں اٹھاتے
رِزْقَهَا
: اپنی روزی
اَللّٰهُ
: اللہ
يَرْزُقُهَا
: انہیں روزی دیتا ہے
وَاِيَّاكُمْ
: اور تمہیں بھی
وَهُوَ
: اور وہ
السَّمِيْعُ
: سننے والا
الْعَلِيْمُ
: جاننے والا
اور بہت سے زمین میں چلنے پھرنے والے جانور ہیں کہ نہیں اٹھاتے وہ اپنی روزی خود۔ اللہ ہی ان کو روزی پہنچاتا ہے اور تم کو بھی۔ اور وہی ہے سننے والا اور جاننے والا
ربطہ آیات اس سورة مبارکہ میں زیادہ تر ایمان کے ساتھ ابتلا کا ذکر ہے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کی مثالیں بھی بیان فرمائیں کہ اس نے اپنے جلیل القدر بندوں کو کس طرح آزمائش میں ڈالا پھر کفرو شرک کا رد کیا ، نبوت و رسالت پر معترضین کے اعتراضات کے جوابات دئیے۔ پھر ابتلا ہی کے ضمن میں ہجرت کا مقام بیان فرمایا اور اہل ایمان کو حکم دیا کہ جب کفار اہل ایمان پر عرصہ حیات تنگ کردیں اور انہیں دینی شعائر بھی ادا نہ کرنے دیں تو موخر الذھر کا فرض ہوجاتا ہے کہ ایسی جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ ہجرت کر جائے کیونکہ اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے۔ مسند احمد کی روایت میں حضرت زبیر بین العوامہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا البلاد بلاد اللہ والعباد عباد اللہ فحیث ما کسبت خیراً فافم یعنی شہر بھی اللہ کے ہیں اور بندے بھی اسی کے ہیں ، لہٰذا جہاں تمہیں بہتری نصیب ہو وہاں جا کر قیام کرو۔ یعنی اگر کسی مقام پر کفار کا سخت غلبہ ہے تو دوسری جگہ چلے جائو۔ اس کے علاوہ اللہ نے اہل ایمان کے اچھے انجام کا ذکر فرمایا نیز یہ بھی کہ ہر نفس پر موت وارد ہونے والی ہے اور سب کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر اہل ایمان اپنا وطن ، برادری ، کاروبار ، مکان ، دکان وغیرہ چھوڑ کر ہجرت کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں عالیشان محل عطا فرمائیگا ، جو کہ اعمالِ حسنہ انجا م دینے والوں کا صلہ ہے۔ ایسے ایمان والے کہ جن کا خاصہ صبر علی المصائب اور توکل علی اللہ ہوتا ہے۔ روزیٔ سانی کی ذمہ داری ہجرت کے نتیجے کے طور پر انسانی ذہن میں یہ بات ہو سکتی ہے کہ جب آدمی اپنا گھر بار ، عزیزو اقارب ، کاروبار چھوڑ کر چلا جائے گا تو اس کی گذر اوقات کیسے ہوگی ؟ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تسلی دیتے ہوئے روزی رسانی کا اصول بیان کردیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وکاین من دابۃ لا تحمل رزقھا زمین میں چلنے پھرنے والے بہت سے جانور ہیں جو رزق کو اپنی پشتوں پر نہیں اٹھاتے پھرتے ، بلکہ اللہ یرزقھا وایاکم اللہ ہی رزق پہنچاتا ہے ۔ اُن جانوروں کو بھی اور تمہیں بھی۔ رزق رسانی کا اختیار اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کاروبار ، ملازمت ، کھیتی باڑی یا محنت مزدوری وغیرہ سے روزی ملتی ہے حالانکہ وسائل رزق تو اللہ کے پاس ہیں۔ وہ اسباب پیدا کرتا ہے تو انسان کی محنت بھی کارآمد ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت نہ ہو تو اپنی پوری جدوجہد کے باوجود انسان روزی کا بندوبست نہیں کرسکتا۔ سورة الذریت میں ہے۔ وفی السماء رزقکم وما توعدون (آیت۔ 22) بیشک اللہ تعالیٰ ہی رزق اور مضبوط قوت کا مالک ہے جو لوگ رزق کو اپنے اختیار میں سمجھتے ہیں اس پر حرص کرتے ہیں۔ ان کا نظریہ غلط ہے خواہش کے مطابق کسی کو روزی نہیں ملتی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا انتظام ہے کہ وہ مصلحت کے مطابق جس کو جتنی روزق چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ ابن ابی … کے حوالے سے امام ابن کثیر ، امام … اور بعض دوسرے مفسرین نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں حضور ﷺ کے ہمراہ ایک باغ میں داخل ہوا۔ آپ نے اس باغ میں سے کھجوریں تناول فرمانا شروع کیں اور مجھے بھی کھانے کی دعوت دی میں نے عرض کیا لا اشتھی حضرت ! مجھے تو بھوک نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا لکنی اشتھی کہ مجھے اس وقت کھانے کی خواہش ہے کیونکہ آج چوتھا دن ہے کہ میں نے کچھ نہیں کھایا۔ پھر فرمایا اے ابن عمر ؓ اگر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں تو وہ مجھے قیصرو کسریٰ سے زیادہ خزانے عطا کردے ، مگر میں یہ نہیں چاہتا میں تو اس چیز کو پسند کرتا ہوں کہ اشبع یوماً و اجوع یوماً کہ ایک دن پیٹ بھر کر کھائوں اور ایک دن بھوکا رہوں ، جب کھانے کو مل جائے گا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں گا اور نہیں ملے گا تو صبر کروں گا کہ اس پر مجھے اجر ملے گا۔ فرمایا ، اس وقت کیا حال ہوگا جب لوگ سال بھر کے لیے اناج وغیرہ وغیرہ کرکے رکھیں گے۔ یعنی لوگوں کا یقین اتنا کمزور ہوجائے گا ، ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ابھی ہم اسی باغ میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یہی آیت نازل فرمائی وکاین من…وایاکم ذخیرہ اندوزی کا مسئلہ اسی بناء پر عام حالات میں اناج وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی پسندیدہ نہیں ہے البتہ اگر اناج کے ضائع ہوجانے کا خطرہ ہو تو ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت یوسی (علیہ السلام) نے اپنے زمانے میں ایسا کیا تھا۔ ترمذی شریف میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے۔ لاید خن شیئاً تغد یعنی حضور ﷺ کوئی چیز کل کے لیے ذخیرہ بنا کر نہیں رکھتے تھے۔ البتہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ خیبر یا فدک کی زمین کی پیداوار کا اناج آتا تو حضور ﷺ اپنی ازواج مطہرات میں سال بھر کا غلہ تقسیم فرمادیتے۔ محدثین فرماتے ہیں کہ ازواج مطہرات اپنا اپنا حصہ وصول کرلیتیں مگر وہ اسے ذخیرہ بنا کر نہیں رکھتیں تھیں بلکہ فی سبیل اللہ خرچ کردیتیں اور خود خدا پر توکل کرکے گزر اوقات کرتیں۔ حضرت سلیما فارسی ؓ کا بھی یہی معمول تھا کہ وہ اپین گورنری کے دوران بیت المال سے وظیفہ تو وصول کرلیتے مگر سارے کا سارا اللہ کے راستے میں خرچ کردیتے اور خود محنت مشقت کی کمائی سے گزر اوقات کرتے۔ چناچہ امام سفیان اب عینیہ کا قول ہے کہ تمام مخلوق میں انسانوں ، چیونٹیوں اور چوہوں کے سوا کوئی مخلوق ذخیرہ اندوزی نہیں کرتی۔ اس بیماری کا آغاز انسانوں میں یہودیوں سے ہوا اور انہوں نے دنیا میں باقی لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دی۔ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عام لوگوں کو غلے کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے۔ المحتکر ملعون یعنی ذخیرہ اندوز ملعون ہے جو محض اس لیے ذخیرہ اندوزی کرتا ہے تاکہ غلے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اس کے دام بڑھائے جائیں اور مناسب وقت پر زیادہ قیمت وصول کی جائے۔ حضور ﷺ نے بھی یہ فرمایا و الجالب مرزوق جو شخص کھینچ کر مال منڈی میں لاتا ہے تاکہ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق خریداری کرسکیں اور غلے کی قلت پیدا نہ ہو تو فرمایا ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ مزید روزی دیتا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ توکل علی اللہ حضرت عمر ؓ کی روایت ترمذی اور ابن ماجہ شریف میں موجود ہے کہ حضور ﷺ ے فرمایا ، لوگو ! لوانکم تتوکلون علی اللہ حق توکلہ لرزقکم کما یرزق الطیر یعدو ا خما صاو و تروح بطانا اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرتے جس طرح توکل کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی اسی طرح رزق پہنچاتا ہے جس طرح پرندوں کو پہنچاتا ہے۔ وہ صبح کو خالی پیٹ گھونسلوں سے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔ آخر وہ بھی تو اللہ کے بھروسے پر ہی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ کونسا ذخیرہ کرکے رکھتے ہیں ؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں حضور ﷺ کے یہ الفاظ بھی آتے ہیں ما من شئی یقربکم من الجنۃ ویباعدکم من النار الا امرتکم بہ لوگو ! میں نے ہر وہ چیز جو تمہیں جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کرتی ہے۔ وہ تمہیں بتلا دی ہے اور ہر وہ چیز جو تمہیں جنت سے دور اور دوزخ کے قریب کرتی ہے اس سے تمہیں منع کردیا ہے۔ پھر فرمایا الا ان روح القدس نفث فی روعی ا ن لنفس لن تموت حتی تستکمل روقھا سنو ! جبرائیل (علیہ السلام) ے میرے جی میں یہ بات ڈال دی ہے کہ کوئی جاندار اس وقت تک موت سے ہمکنار نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے حصے کا رزق مکمل طور پر حاصل نہیں کرلیتا۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب کسی انسان کی تخلیق ہوتی ہے تو فرشتے اپے رجسٹروں میں درج کرلیتے ہیں کہ مارزقہ ما اجلہ ما عملہ شقی او سعید اس شخص کو روزق کتنی ملیگی۔ اس کی عمر کتنی ہوگی اور عملی طور پر یہ بدبخت ہوگا یا خوش بخت۔ اسی لیے حضور ﷺ ے۔ مزید فرمایا الا فاتقو اللہ واجملو فی الطلب سو ! اللہ سے ڈرو اور روزی اچھے راستے سے تلاش کرو۔ اور اگر کسی وقت روزی کے حصول میں تاخیر ہوجائے گی تو گناہوں کے ذریعے اسے تلاش نہ کرنے لگو کیونکہ لا یدرک ما عند اللہ الا بطاعتہ اللہ کے پاس جو چیز ہے وہ اس کی اطاعت سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ معصیت کے ساتھ وہ چیز حاصل نہیں کی جاسکتی۔ بہرحال ہر انسان بلکہ ہر جاندار کی روزی تو اللہ کے ہاں مقرر ہے لہٰذا اسے اسکی تلاش میں ناجائز ذرائع اختیار نہیں کرنے چاہئیں۔ خاندانی منصوبہ بندی یہ آیت کریمہ خاندانی منصوبہ بندی کے نظریہ کو بھی باطل قرار دیتی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ انسانی آبادی کو بڑھنے سے روکاجائے۔ ایسی دوائیں استعمال کی جائیں یا نس بندی کا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے جو مانع حمل ہو آجکل یہ ساری منصوبہ بندی اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ہورہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا میں خوراک کی قلت ہے اور اگر آبادی بڑھے گی تو بھوکھوں مریگی۔ یہ نظریہ دنیا میں ایک انگریز مالتھوس نے قائم کیا تھا کہ خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے آبادی پر کنٹرول کیا جائے اور اس طرح خوراک کا مسئلہ حل کیا جائے۔ نزول قرآن کے زمانہ میں عرب کے لوگ بھی قتل اولاد کے مرتکب ہوتے تھے۔ ان کے پیش نظر دو وجوہات تھیں۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ بچیوں کو محض اس لیے قتل کردیتے تھے کہ وہ اسے عار سمجھتے تھے کہ کوئی ان کا داماد بنے۔ اور دوسری وجہ یہی معاشی تھی کہ بچے زیادہ ہوں گے تو ان کی روزی کہاں سے آئیگی اس نظریہ کے برخلاف اللہ نے حکم دیا ولا تقتلو اولادکم خشیۃ املاق نحن نرقھم وایاکم ( بنی اسرائیل ، 13) اپنی اولاد کو فقر کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ انکو روزی ہم دیتے ہیں اور تمہیں بھی روزی پہنچانا تو ہمارے ذمہ ہے تم کیوں فکر کرتے ہو ؟ یہاں فرمایا کہ کتنے جاندار ہیں جو اپنی روزی اپنی پشتوں پر نہیں لاے پھرتے بلکہ انہیں اور تمہیں سب کو ہم ہی روزی پہنچاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جانداروں کے لیے روزی کی کمی نہیں بلکہ کار پروانِ اقتدار اس کی تقسیم غلط طریقے سے کر رہے ہیں ۔ اگر خوراک کی تقسیم کا نظام درست ہوجائے تو کوئی آدمی بھوکا نہ رہے۔ مگر یہاں تو حالت یہ ہے کہ صاحب ثروت لوگ دن میں چھ چھ مرتبہ کھاتے ہیں جب کہ دوسروں کو ایک وقت کا کھانا بھی با افراطِ میسر نہیں۔ اگر یہی لوگ صرف دو وقت کھائیں اور باقی چار وقت کا کھانا دوسرے لوگوں کے لیے چھوڑ دیں تو لوگوں میں فاقہ کشی کی نوبت نہ آجائے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عمومی حکمت کا تقاضا ہے کہ نسل انسانی کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے جیسے فرمایا ھو الذی ذراکم فی الارض والیہ تحشرون ( الملک۔ 42) خدا تعالیٰ کی ذات وہی ہے جو تمہیں زمین میں پھیلاتا ہے اور پھر تم سب اس کی طرف اکٹھے کیے جائو گے اس کے برخلاف جب اس زمانے کے بڑے بڑے منصوبہ ساز آبادی کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو اس سے مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ترقی یافتہ ملکوں میں فاقہ کشی نہیں ہوتی اور کیا وہاں کوئی بیماری نہیں ہوتی ؟ یہ مسائل محض غریب ممالک میں نہیں ہیں کہ ان میں خاندانی منصوبہ بندی کو رائج کیا جائے بلکہ یہ مسائل تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں مگر وہاں ایسی کوئی پلاننگ نہیں کی جاتی۔ تقسیم رزق کی حکمت الغرض ! تقسیم رزق کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اور وہ اسے خاص حکمت کے تحت تقسیم کرتا ہے ، اگر اللہ تعالیٰ ہی کسی کو بھوکوں مارنا چاہے تو پھر دنیا میں کون ہے جو ایک دانہ بھی پہنچا سکے۔ روزی کی کم و بیش تقسیم کی اللہ نے یہ حکمت بھی بیان فرمادی ہے ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض ولکن ینزل بقدر ما یشاء انہ بعبادہ خبیر بصیر (الشوری۔ 72) اگر اللہ تعالیٰ سب کے لیے روزی کے دروازے یکساں کشادہ کردیتا تو لوگ سرکشی پر اتر آتے۔ وہ تو ہر ایک کی روزی اپنے اندازے کے مطابق نازل کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے بندوں کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے اور ان کو دیکھ رہا ہے ان کی مصلحت کے مطابق ان کو روزی پہنچاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اس کی مصلحت کے مطابق جہاں روزی کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر وہاں کسی کی منصوبہ بندی کا کام نہیں کرتی بلکہ ویرزقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق۔ 3) وہ ضرورت مند کی ضرورت ایسی جگہ سے پوری کردیتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔ مشاہدہ میں آیا ہے کہ کوئی پرندہ اپنے منہ میں دانہ اٹھائے اپنے گھونسلے کی طرف جارہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اس کے منہ سے دانہ گرا کر گندی نالی میں موجود ایک معذور کپڑے کے منہ میں ڈال دیا جو بیچارہ کھانے کے لیے کہیں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ بسا اوقات اللہ تعالیٰ طاقتوروں سے چھین کر کمزوروں کو بھی دے دیتا ہے مگر یہ اس کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے وھو السمیع العلیم اور وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ درس… فرمایا ولن سالتھم من خلق السموت والارض اگر آپ ان مشرکوں سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے و سخر الشمس والقمر اور سورچ اور چاند کو کس نے کام میں رکا رکھا ہے لیقولو اللہ تو یہ لوگ ہی کہیں گے کہ وہ اللہ ہی ہے جو ہر چیز کا خالق اور مدبر ہے۔ فرمایا اگر اس چیز کو تسلیم کرتے ہو فانی یوفکون تو پھر یہ کدھر پھیرے جاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو کیوں تسلیم نہیں کرتے اور اس کے ساتھ شریک کیوں نہیں بناتے ہو ؟ فرمایا اللہ یسبط الرزق لمن یشاء من عبادہ ویقدر لہ اللہ تعالیٰ ہی رزق کشادہ کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے اور روزق تنگ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے یہ تو اس کی مرضی اور حکمت پر موقوف ہے۔ ان اللہ بکل شیء علیہم بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ وہ اپنے علم کے مطابق ہی تمام فیصلے کرتا ہے پھر فرمایا ولن سالتھم من نزل من السماء ماء اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان کی طرف سے پانی کو نازل کرتا ہے فاحیا بہ الارض بعد موتھا پھر اس پانی کے ذریعے مردہ زمین کو نئی زندگی بخشتا ہے۔ اس میں سبزہ ، اناج ، پھل اور پھول پیدا ہوتے ہیں۔ لیقولن اللہ اس کا جواب بھی یہی دیں گے کہ یہ سب کچھ بھی اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کو اس قدر قادر مطلق سمجھتے ہو تو پھر شرک کے کیوں مرتکب ہوتے ہو ؟ فرمایا کفر اور شرک کرنے کی بجائے قل الحمد للہ یوں کہو کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہی ہیں۔ وہی خالق ہے ، وہی سبب اور سباب ہے۔ جب پانی برسانے اور روزی پہنچانے والا وہی ہے تو معبود برحق بھی وہی ہے بل اکثر ھم لا یعقلون بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مشرکوں کی اکثریت اللہ کی عطا کردہ عقل کو بروئے کار نہیں لاتی جس کی وجہ سے سوچنے سمجھنے سے عاری اور شرک کی مرتکب ہوتی ہے۔
Top