Tadabbur-e-Quran - Al-Ankaboot : 60
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا١ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ١ۖ٘ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَكَاَيِّنْ : اور بہت سے مِّنْ دَآبَّةٍ : جانور جو لَّا تَحْمِلُ : نہیں اٹھاتے رِزْقَهَا : اپنی روزی اَللّٰهُ : اللہ يَرْزُقُهَا : انہیں روزی دیتا ہے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں بھی وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور کتنے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے۔ اللہ ہی ان کو بھی رزق دیتا ہے اور تم کو بھی۔ اور وہ سننے والاننے والا ہے۔
وکاین من فابۃ لا تحمل رزقھا ق اللہ یرزقھا وایاکم وھو السمیع العلیم (60)rnٰیعنی جس طرح خدا کی زمین بہت کشادہ ہے اسی طرح خدا کا اخوانِ کرم بھی بہت کشادہ ہے۔ اگر اللہ کی راہ میں اموال و جائداد سے دست بردار ہونا پڑجائے تو بےدرنگ ہاتھ جھاڑ کے اٹھ کھرے ہونا۔ یہ نہ سوچنا کہ آگے کیا کھائیں گے اور کہاں سے پہنیں گے ؟ دیکھتے ہو کہ اس زمین میں کتنے جاندار ہیں جو اپنے ساتھ اپنی روزی باندھے نہیں پھرتے تاہم ان کا رب ان کا رزق بہم پہنچاتا ہے۔ وہی رب ان کو بھی رزق دیتا ہے وہی تم کو بھی رزق دیتا ہے۔ وہ سمیع علیم ہے۔ اس وجہ سے ہر ایک کی فریاد سنتا اور ہر ایک کی ضرورت کو جانتا ہے۔ اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ تم اس کو پکارو گے اور وہ بیخبر رہے گا یا تم حاجت مند ہوگے اور وہ تمہاری پریشانی سے ناواقف ہوگا۔ یہی حکمت سیدنا مسیح نے اپنے اندا میں یوں واضح فرمائی ہے۔ ”تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے۔ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں ؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لئے کیوں فکر کرتے ہو ؟ جنگلی سو سن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کا تتے ہیں تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی مانند ملبس نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعقتا دو ، تم کو کیوں نہ پہنائے گا ! اس لئے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے ؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کو محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کرلے گا۔ آج کے لئے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔“ متی باب 1ـ25۔ 34 یہ قرآن کی بلاغت کا اعجاز ہے کہ سیدنا مسیح ؑ نے جو حکمت اتنے فقروں میں واضح فرمائی ہے وہ اس نے ایک ہی آیت میں سمیٹ دی ہے۔
Top