Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 123
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ نَصَرَكُمُ : مدد کرچکا تمہاری اللّٰهُ : اللہ بِبَدْرٍ : بدر میں وَّاَنْتُمْ : جب کہ تم اَذِلَّةٌ : کمزور فَاتَّقُوا : تو ڈروا اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہو
البتہ تحقیق اللہ نے تمہاری مدد کی ہے بدر کے مقام میں اور تم نہایت کمزور بےسروسامان تھے۔ پس ڈرو اللہ سے تاکہ تم شکر ادا کرسکو۔
ربط آیات : گذشتہ آیت میں غزوہ احد کا ذکر تھا اور آمدہ آیات بھی احد ہی سے متعلق ہیں ، تاہم درمیان میں اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر کا بطور مثال ذکر فرمایا ہے کہ دیکھو ! بدر کے موقع پر تم بےسروسامانی کی حالت میں تھے ، افرادی قوت بھی کم تھی ، رسد بھی بالکل قبیل تھی۔ مگر تمہارے صبر اور تقویٰ کے درجہ کمال کی وجہ سے بھی کم تھی ، رسد بھی بالکل قلیل تھی۔ مگر تمہارے صبر اور تقویٰ کے درجہ کمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں طاقتور دشمن پر عظیم فتح نصیب فرمائی ، اور اب احد کے موقع پر تمہاری پوزیشن بہت بہتر تھی۔ مگر صبر اور تقوی کی کمی اور بعض غلطیوں کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ، اس میں مسلمانوں کی کمزوری ان کے قائد کی قیادت کے کسی نقص کی بناء پر نہٰں تھی ، کیونکہ جنگ کی کمان تو خود اللہ کا رسول کر رہا تھا ، بلکہ یہ نقصان دوسرے مسلمانوں کے خود اپنے پیدا کردہ اسباب کی بناء پر ہوا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مسلمانوں کی کمزوری کے اسباب کو رفع کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور آئندہ کے لیے مستعد رہنے کی تلقین کی ہے۔ سابقہ غلطیوں کی معافی کا ذکر بھی موجود ہے۔ بہرحال اس سورة میں غزوہ احد کے متعلق بہت سی تفصیلات آگئی ہیں غزوہ بدر : جیسا کہ پہلے عرض کیا آج کے درس میں غزوہ بدر کے متعلق اللہ تعالیٰ کی مدد کا تذکرہ ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ولقد نصرکم اللہ ببدر البتہ تحقیق اللہ تعالیٰ بدر کے مقام پر تمہاری ممد کرچکا ہے۔ بدر ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان مدینہ سے ستر یا اسی میل کے فاصلے پر ہے۔ در اصل جاہلیت کے زمانے میں بدر بن قیس یا امام ابن کثیر کے مطابق بدر ابن نارین نامی ایک شخص نے اس مقام پر کنواں کھودا تھا ، جس کے نام پر ، اس کنویں کا نام بدر مشہور ہوگیا ، اور اسی نسبت سے اس جگہ کا نام بھی بدر ہی پڑگیا۔ چار پانچ میل کا یہ ایک میدانی علاقہ ہے جس کے ارد گرد پہاڑیاں ہیں ، تاہم ساحل سمندر سے قریب ہی ہے۔ اس مقام پر بروز جمعہ سترہ ماہ رمضان 2؁ھ میں اہل حق اور اہل باطل کے درمیان ایک عظیم واقعہ پیش آیا ، جو مسلمانوں کے لیے ہجرت کے بعد سب سے اہم لڑائی تھی۔ اس سے پہلے چھوٹ چھوٹی دو تین جھڑپیں ہوچکی تھیں ، تاہم یہ سب سے بڑا معرکہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورة انفال میں جنگ بدر کو یوم الفرقان سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ حق و باطل کے درمیان عظیم فیصلے کا دن تھا۔ جب دنیا کو پتہ چل گیا۔ کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کی کس طرح نصرت فرماتا ہے جنگ کی تفصیلات سورة انفال میں آتی ہیں۔ اما م بخاری اور مسلم وغیرہ نے اپنی کتب میں مستقل باب باندھ کر مختلف جنگوں کا حال بیان کیا ہے اور وہ تمام احادیث جمع کی ہیں ، جو اہل اسلام اور دشمنان اسلام کی لڑائیوں کے متعلق ہیں ، امام بخاری کی کتاب المغازی میں سب سے پہلے غزوہ بدر کا حال آتا ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری بدر کے میدان میں مدد کرچکا ہے۔ اس حالت میں۔ وانتم اذلۃ۔ کہ تم نہایت ہی کمزور تھے۔ اذلۃ ، ذلیل کی جمع ہے اور یہ لفظ عربی زبان میں کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا ایک معنی کمزور اور بےسروسامان ہوتا ہے۔ اور اس موقع سے یہی معنی زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کے پاس صرف ایک یا دو گھوڑے ، ستر اونٹ اور چند ایک شکستہ تلواریں تھیں ، کچھ زرہیں بھی تھیں۔ مجاہدین کی تعداد 313 یا 319 تھی۔ برخلاف اس کے کفار کی تعداد ایک ہزار افراد پر مشتمل تھی ، ان کے پاس ایک سو زبردست گھوڑے ، ماہر سوار ہر سپاہی کے پاس دو دو اونٹ اور سامان خوردو نوش کی فراوانی تھی۔ وہ سامان ضرب و حرب سے لیس تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کے مقابلے میں مسلمان کمزور اور بےسروسامان ہی تھے ، اور یہی اذلۃ کا معنی ہے۔ عربی زبان میں لفظ ذلیل نرم مزاج آدمی پر بھی بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ سورة مائدہ میں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے۔ اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکفرین۔ یعنی اہل ایمان مومنوں کے لیے نرم مزاج اور کافروں پر سکت ہوتے ہیں۔ گویا مومن آپس میں رحماء بینھم کا نقشہ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے بڑے ہی نرم مزاج ہوتے ہیں۔ ذلیل کا ایک تیسرا معنی حقیر اور رسوا بھی ہوتا ہے۔ و تعز من تشاء و تزل من تشاء۔ اے باری تعالیٰ تو جسے چاہے عزت دے دے اور جسے چاہے ذلیل و رسوا کردے۔ اس معنی کی مثال سورة نمل میں بھی ملتی ہے۔ ملکہ سبا نے اپنے درباریوں سے کہا تھا۔ کہ جب بادشاہ دوسرے ملک پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ وجعلوا اعزۃ اھلہا اذلۃ۔ تو وہاں کے شرفا کو رسوا کردیتے ہیں۔ بہرحال اس مقام پر اذلۃ کا معنی کمزور اور بےسروسامان ہی زیادہ مناسب ہے۔ تقوی اور شکر : الغرض ! اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ اور اہل ایمان کو یاد دلایا کہ اس کہ اس نے تمہاری اس کمزوری اور بےسروسمانی کی حالت مٰں عظیم الشان فتح عطا کی۔ غزوہ بدر دنیا کی تاریخ میں ناقابل فراموش جنگ کی حیثیت سے محفوظ ہے فرانسیسی اور انگریز اور بعض دیگر غیر مسلم مفکرین نے اپنی کتابوں میں تسلیم کیا ہے ، کہ مشرکین مکہ کے خلاف مسلمانوں کی یہ فتح مبین تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یادگار فتح عطا فرمائی ، لہذا اے مسلمانو ! فاتقوا اللہ لعلکم تشکرون۔ اللہ سے ڈر جاؤ، تاکہ تم شکر ادا کرسکو۔ تقوی سے مراد کفر ، شرک اور معاصی سے بچنا حدود شریعت کی کی حفاظت کرنا اور عدل و انصاف پر عمل پیرا ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اس معیار پر پورا اترے گا ، وہ یقینا شکر گزار ہوگا۔ برخلاف اس کے کافر ، مشرک بدعقیدہ لوگ اس معیار پر پورے نہیں اترتے اس لیے وہ ناشکر گزقار ہوتے ہیں مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر اسی صورت میں ادا ہوسکتا ہے کہ انسان تقوی اختیار کرے جس کی تشریح میں نے عرض کردی ہے۔ فرشتوں کے ذریعے مدد : اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ واذ تقول للمومنین۔ جب آپ ایمان والوں سے کہہ رہے تھے۔ الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلثۃ الاف من الملئکۃ منزلین۔ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں کے ساتھ۔ اس آیت کریمہ کا پس منظر یہ ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کافروں کی تعداد تو پہلے ہی زیادہ تھی ، بعض نے یہ تعداد ایک ہزار لکھی ہے جو زیادہ مشہور ہے اور بعض نے پندرہ سو بھی لکھی ہے۔ اس کے باوجود وہاں یہ مشہور ہوگیا۔ کہ کافروں کی مدد کے لیے کرز بن جابر مزید لشکر لا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس خبر سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے کا کطرہ تھا۔ لہذا اس وحشت کو دور کرنے کے لیے اللہ نے اپنے بذریعہ وحی یہ بشارت دی ، کہ مسلمان دشمن کی کثرت تعداد سے خوف نہ کھائیں ، اللہ تمہاری مدد کے لیے آسمان سے تین ہزار فرشتوں کو نازل فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تین ہزار فرشتوں کا ذکر کیا ، بلکہ جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے ، بوقت ضرورت اللہ نے پانچہزار فرشتوں کے نزول کا بھی وعدہ فرمایا ، مگر حقیقت میں صرف ایک ہزار فرشتوں ہی مدد دی گئی۔ اس کی تفصیل سورة انفال میں آئے گی۔ بہرحال چونکہ کافروں کو مزید کمک نہیں پہنچی تھی۔ اس لیے اللہ نے صرف ایک ہزار فرشتوں کے ذریعے ہی مشرکین کو شکست فاش دیدی۔ یہاں پر فرشتوں کے متعلق منزلین کا لفظ فرمایا ہے یعنی اتارے ہوئے ، ظاہر ہے۔ کہ یہ فرشتے اللہ ہی کے حکم سے اترے تھے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کا بیان ہے۔ کہ بدر کے میدان میں میں نے حضور ﷺ کے دائیں بائیں سفید پگڑی والے دو آدمیوں کو دیکھا ، جو کافروں کا مقابلہ کر رہے تھے وہ گھوڑی پر سوار تھے اور گھوڑی کو کہہ رہے تھے۔ اقدم حیزوم۔ اے حیزوم ! آگے بڑھ ، اتنے میں میں نے ایک کافر مرا ہوا دیکھا۔ فرماتے ہیں میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ ایسے لوگ پہلے کبھی نہیں دیکھے یہ کون ہیں ، تو آپ نے ارشاد فرمایا ، کہ وہ جبرائیل اور میکائیل تھے۔ ان فرشتوں کے اتارنے کی حکمت کا تذکرہ اللہ نے سورة انفال میں بیان فرمایا ہے۔ بہرحال یہاں پر اہل ایمان کو تسلی دی گئی کہ وہ ہمت نہ ہاریں۔ بلکہ نصرت الہی پر بھروسہ رکھیں۔ نیز فرمایا۔ بلی۔ کیوں نہیں۔ ان تصبروا و تتقوا۔ اگر تم صبر کرتے رہو۔ بدر کی جنگ میں واقعی مسلمانوں نے صبر کا عطیم مظاہرہ کیا۔ صبر اور بےقرار متضاد چیزیں ہیں۔ صبر روح کی صفت ہے اور بےقرار نفس کی صفت ہے۔ جب روح کی صفت نفس کی صفت پر غالب آجائے ، تو انسان کو اطمینانِ قلب حاصل ہوجاتا ہے۔ صبر بہت بڑی صفت ہے اور اس کا امتحان مصیبت کے وقت ، اطاعت کرنے کے موقع پر اور معاصی کے ارتکاب کے وقت ہوتا ہے۔ یہ ملت ابراہیمی کا بہت بڑا اصول ہے۔ اسی لیے مسلمانوں سے فرمایا کہ اگر تم صبر کرتے رہوگے۔ وتتقوا۔ اور تقوی اختیار کرتے رہوگے۔ تقوی کے متعلق بھی بہت کچھ بیان ہوچکا۔ اگر انسان کو تقوی کی دولت حاصل ہوجائے ، تو اس کے لیے شریعت کے احکام پر چلنا نہایت آسان ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ایک عظیم صفت ہے۔ جسے حاصل ہوجائے۔ اسی لیے فرمایا۔ ویاتوکم من فورھم ھذا۔ اگر دشمن تمہارے مقابلے میں اچانک آجائیں ، دشمن کو پیچھے سے مزید کمک پہنچ جائے تو پھر بھی تم جی نہ ہارنا ، گھبرانا نہیں ، یمددکم ربکم بخمسۃ الاف من الملئکۃ۔ اللہ تمہاری مدد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا ، مطلب یہ کہ اگر دشمن کی تعداد بڑھ جائیگی ، تو ان کے مقابلے کے لیے اللہ تعالیٰ فرشتوں کی فوج بھی برھا دے گا ، اس لیے ہمت نہ ہاریں۔ آگے ان فرشتوں کی صفت بیان کی۔ مسومین۔ وہ نشان لگانے والے ہوں گے ، ہر قوم کے اپنے جنگی نشان ہوتے۔ آج کل کے دور میں ٹینک ، توپ ، بندوق ، ہوائی جہاز وغیرہ تمام آلات حرب پر مخصوص نشان ہوتے ہیں اسی طرح قدیم زمانے میں شناخت کے لیے گھوڑوں پر فوجی نشان ہوتے ہیں اسی طرح قدیم زمانے میں شناخت کے لیے گھوڑوں پر فوجی نشان ہوا کرتے تھے۔ اس سورة کے ابتدا 4 میں بھی یہ لفظ آیا تھا۔ والخیل المسومۃ۔ یعنی نشان لگے ہوئے گھوڑے۔ الغرض ! مسومین سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے فرشتوں سے مدد فرمائے گا ، جو دشمن پر ، اس کے گھوڑوں پر اور سامان حرب پر نشان لگائیں گے تاکہ انہیں تباہ و برباد کیا جاسکے۔ مسومین سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے فرشتوں سے مدد فرمائے گا ، جو دشمن پر ، اس کے گھوڑوں پر اور سامان حرب پر نشان لگائیں گے تاکہ انہیں تباہ و برباد کیا جاسکے۔ مسومین سے مراد فرشتوں کی اپنی نشانیاں بھی ہوسکتا ہے۔ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فرشتوں کی نشانی سفید عمامے تھے۔ جب کہ احد کے میدان میں ان کی نشانی شرخ عمامے تھے۔ تو اللہ نے فرمایا کہ صبر اور تقوی کا پھل یہ ہے کہ اللہ نے بدر میں فتح نصیب فرمائی۔ رہا غزوہ احد کا معاملہ تو وہاں مجاہدین سے کچھ کوتاہی ہوگئی تھی جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ اب آگے فرشتوں کے اتارنے کی حکمت کا تذکرہ ہے۔
Top