Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 153
یَسْئَلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ١ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ١ۚ وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا
يَسْئَلُكَ : آپ سے سوال کرتے ہیں اَهْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اَنْ : کہ تُنَزِّلَ : اتار لائے عَلَيْهِمْ : ان پر كِتٰبًا : کتاب مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَقَدْ سَاَلُوْا : سو وہ سوال کرچکے ہیں مُوْسٰٓى : موسیٰ اَكْبَرَ : بڑا مِنْ ذٰلِكَ : اس سے فَقَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَرِنَا : ہمیں دکھائے اللّٰهَ : اللہ جَهْرَةً : علانیہ فَاَخَذَتْهُمُ : سو انہیں آپکڑا الصّٰعِقَةُ : بجلی بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے باعث ثُمَّ : پھر اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا (گؤسالہ) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ جَآءَتْهُمُ : ان کے پاس آئیں الْبَيِّنٰتُ : نشانیاں فَعَفَوْنَا : سو ہم نے درگزر کیا عَنْ ذٰلِكَ : اس سے (اس کو) وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دیا مُوْسٰى : موسیٰ سُلْطٰنًا : غلبہ مُّبِيْنًا : ظاہر (صریح)
اے پیغمبر ! آپ سے اہل کتاب سوال کرتے ہیں کہ آپ اتاریں ان پر کتاب آسمان کی طرف سے۔ بیشک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے انہوں نے سوال کیا اس سے بھی بڑی چیز کا پس انہوں نے کہا کہ دکھا ہمیں اللہ سامنے۔ پس پکڑا ان کو بجلی نے ان کے ظلم کی وجہ سے۔ پھر بنایا انہوں نے بچھڑے کو معبود بعد اس کے کہ ان کے پاس واضح باتیں پہنچ چکی تھیں۔ پھر ہم نے معاف کیا اس سے اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کھلا غلبہ عطا کیا
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کے نبیوں اور رسولوں کے درمیان تفریق کرنے والوں کو مذمت بیان فرمائی اور واضح کیا کہ اللہ کے بعض نبیوں پر ایمان لانا اور بعض پر نہ لانا خالص کفر ہے کیونکہ کسی ایک نبی کا انکار بھی پورے گروہ انبیاء کے انکار کے مترادف ہے۔ مشرکین تو انبیاء کو ویسے ہی نہیں مانتے ، وہ تو مطلقا انکار کی وجہ سے کافر ہیں ، انہوں نے توحید کا بھی انکار کیا اور خود خاتم النبین ﷺ کا بھی انکار کرگئے ، البتہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اعتقادی منافقوں کا ذکر کیا ہے جو بظاہر زبان سے تو توحید و رسالت کا اقرار کرتے ہیں مگر ان کے دل اسی طرح کفر سے بھرے ہوئے ہیں ، بہرحال اللہ تعالیٰ نے منافقین کا تذکرہ کرکے انہیں برے انجام سے خبردار کیا ہے۔ نزول کتاب کا مطالبہ مدینہ طیبہ میں یہودیوں کی اکثریت تھی اور وہی تفریق بین الرسل کے مرتکب ہوتے تھے ، انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نہ تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم کای اور نہ پیغمبر آخر الزمان (علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ چناچہ ان میں سے بعض متعصب یہودی حضور نبی کریم (علیہ السلام) سے بعض بیہودہ قسم کے سوال بھی کرتے تھے۔ ان میں کعب بن اشرف پیش پیش ہوتا تھا۔ یہ شخص مدینے کے قریب ایک گڑھی میں رہتا تھا ، اس کا اپنا قلعہ تھا ، بڑا ظالم اور سود خور تھا تو اس نے یہودیوں کی ایک جماعت کے ساتھ حضور ﷺ سے سوال کیا تھا جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔ یسئلک اھل الکتب اہل کتاب آپ سے سوال کرتے ہیں ان تنزل علیھم کتبا من السماء کہ آپ ان پر آسمان سے لکھی ہوئی کتاب نازل کریں۔ یہودیوں کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ قرآن پاک کے سبقا سبقا نزول پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ وہ اسے اللہ کی کتاب اس وقت تسلیم کریں گے جب کہ یہ پوری کی پوری تحریری صورت میں آسمان سے نازل ہو ، اپنے اس مطالبے کی حمایت میں وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مثال پیش کرتے تھے کہ آپ نے کوہ طور پر اعتکاف کیا ، روزے رکھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر تختیوں پر لکھی ہوئی تورات نازل فرمائی تورات کے علاوہ دیگر صحائف کے متعلق بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر صحیفہ وقت کے نبی پر مکمل صورت میں نازل ہوا۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) ، ابرایہ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کے صحائف کا اسی طرح ذکر ملتا ہے۔ چناچہ انہوں نے حضور ﷺ سے بھی یہی مطالبہ کیا کہ اگر آپ اللہ کے سچے نبی ہیں تو آپ پر قرآن پاک مکمل اور یکبارگی نازل ہونا چاہئے۔ یہودیوں کا یہ اعتراض محض ضد اور دشمنی کی وجہ سے تھا۔ ان کا خیال تھا کہ حضور ﷺ ہمارے سوال کا جواب ہماری تسلی کے مطابق نہیں دے سکیں گے ، اس لئے ہمیں آپ کے انکار کا جواز مل جائیگا اور ایمان لانے سے بچ جائیں گے۔ سورۃ نبی اسرائیل میں موجود ہے کہ مشرکین مکہ نے بھی نبی (علیہ السلام) سے اسی قسم کے سوال کئے۔ انہوں نے چشموں اور باغات کا مطالبہ ، آسمان پر چڑھ جانے کا مطالبہ اور اللہ اور فرشتے ان کے سامنے لانے کا مطالبہ کیا حتی کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمہارے لئے سونے کا گھر ہونا چاہئے اور یہ کہ آپ آسمان پر چڑھ جائین۔ ولن نومن لرقیک حتی تنزل علینا کتبا نقروہ۔ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ آپ آسمان سے کتاب نہ لے آئیں جسے ہم خود پڑھیں۔ وہ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں آپ پر وحی نازل ہوتی ہے ، یہ وحی یا کتاب ہم پر کیوں نہیں نازل ہوتی۔ اگر ہم پر کوئی فرشتہ اترے تو اس کی بات سن کر ہم آپ کی تصدیق کردیں گے۔ بہرحال مدینے کے یہودیوں نے آپ پر اس قسم کے بیہودہ سوال کئے تاکہ نہ آپ ان کا جواب دے سکیں اور نہ وہ آپ پر ایمان لائیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہودیوں کے اس سوال کے جواب میں تسلی دی ہے کہ ان کا اعتراض ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے۔ اگر کسی شخص کو کوئی غلط فہمی ہو یا وہ واقعی کسی چیز کو سمجھنا چاہے تو اسے مطلوبہ تعلیم دی جاسکتی ہے مگر جس شخص کا سوال ہی بربنائے عناد ہو وہ کبھی ایمان نہیں لاسکتا ، وہ ہر بات کے جواب میں مزید اعتراضات کرتا چلا جائیگا ، اس لئے اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ آپ سے کتاب کا مطالبہ کرتے ہیں مگر سوال کرنا تو ان کی عادت قدیمہ ہے۔ فقد سالوا موسیٰ اکبر من ذلک انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بھی بڑے بڑے سوال کئے تھے۔ یہ لوگ اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ ان کی ذہنیت ہی بگڑ چکی ہے۔ روئیت الٰہی کا مطالبہ فرمایا یہودیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑا سوال یہ کیا تھا فقالوا ارنا اللہ جھرۃ ہمیں اللہ تعالیٰ کے سامنے دکھا دے ، اس کے بغیر ہم ایمان کے لئے تیار نہیں۔ یہ بڑی گستاخی کی بات تھی۔ یہ بدبخت اپنے آپ کو اس قابل سمجھتے تھے کہ اس مادی دنیا میں ان آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکتے ہیں۔ حالانکہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں ہوسکتا ، خود موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی جب اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تھا رب ارنی انظر الیک اے اللہ ! میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے یہی جواب دیا تھا لن ترنی کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ فرمایا کہ اس پہاڑ کی طرف دیکھو۔ اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہ سکا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی پہاڑ پر ڈالی تو وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) بیہوش ہو کر گر پڑے۔ پھر اللہ کے حضور توبہ کی۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی اس ضمن میں یہ ہے۔ انکم لن تروا ربکم حتی تموتوا یعنی تم گرنے سے پہلے اپنے رب تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتے۔ جب یہ دنیا ختم ہوجائے گی ، نیا جہان پیدا ہوگا ، نئی قوتیں اور صلاحیتیں پیدا ہونگی تو وہاں عالم قدس میں اللہ تعالیٰ آنکھوں کو وہ قوت عطا کردیگا جن سے وہ دیدار الٰہی کرسکیں۔ چناچہ تمام اہل حق اس بات پر متفق ہیں کہ جنت میں پہنچنے والے اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کی رویت نصیب ہوگی۔ اس مسئلہ میں صرف رافضی اور معتزلہ وغیرہ دیدار الٰہی کا انکار کرتے ہیں ، باقی سب متفق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے پیغمرب (علیہ السلام) ! آپ سے تو یہ صرف کتاب لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ، یہ بدبخت موسیٰ (علیہ السلام) سے دیدار الٰہی کا مطالبہ بھی کرچکے ہیں اور پھر اس مطالبے کے جواب میں فاخذتھم الصعقۃ بظلمھم ان کی اس زیادتی یعنی بیہودہ سوال کی وجہ سے ان پر بجلی گری۔ وہ سب مر گئے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اللہ نے انہیں دوبارہ زندگی بخشی۔ بچھڑے کی پوجا فرمایا پھر یہودیوں نے ایک اور قبیح کام کیا۔ ئم اتخذوا العجل من بعد ماجاء تھم البینت انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھنے کے باوجود بچھڑے کی پوجا کی۔ فعفونا عن ذلک پھر ہم نے ان کا یہ جرم بھی معاف کردیا۔ ان کی توبہ اس شرط کے ساتھ قبول ہوئی فاقتلوا انفسکم کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو۔ چناچہ بچھڑے کی پوجا کرنے والے گنہگاروں کو بےگناہ لوگوں نے قتل کیا اور پھر واتینا موسیٰ سلطنا مبینا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کھلا غلبہ عطا کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بچھڑے کو توڑ پھوڑ کر جلا دیا اور جیسا کہ دوسری سورة میں موجود ہے راکھ کا کچھ حصہ پانی میں بہا دیا اور کچھ حصہ ہوا میں اڑا دیا۔ بچھڑا چونکہ شرک کا شعار تھا اسے مکمل طور پر نیست و نابود کردیا گیا اور اس کے 70000 ستر ہزار پجاریوں کو بھی قتل کردیا گیا۔ ارتفاقع طعر یہودی تاریخ کے ایک اہم واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ورفعنا فوقھم الطور بمیناقھم ان سے عہد لیتے وقت ہم نے طور پہاڑ ان کے سروں پر معلق کردیا تھا۔ بعض جدید مفسر رفعنا کی غلط تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہاڑ کو اٹھا کر بنی اسرائیل کے سروں پر نہیں کھڑا کیا گیا تھا بلکہ ان لوگوں کو پہاڑ کے دامن میں اس طرح کھڑا کیا تھا کہ پہاڑ کا کچھ حصہ ان پر جھکا ہوا تھا۔ یہ بالکل غلط ہے۔ سورة اعراف میں آتا ہے۔ واذ ننقنا الجبل فوقھم جب ہم نے پہاڑ ان کے سروں پر لا کھڑا کیا۔ نتق کا معنی اکھاڑنا ہے اور مطلب صاف ظاہر ہے کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ کر بنی اسرائیل کے اوپر معلق کردیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اگر نہیں مانتے تو یہ پہاڑ تمہارے اوپر گرادیا جائے گا اور تم چکنا چور ہوجائوگے۔ اس مقام پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ دین میں جبر تو روا نہیں۔ اللہ کا حکم واضح ہے لا اکماہ فی الدین مگر یہودیوں کو پہاڑ کے خوف سے زبردستی منایا گیا۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کو فرعون سے آزادی ملی اور صحرائے سینا میں پہنچے تو انہوں نے خود موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ ہمارے لئے کوئی قانون کی کتاب لائیں جس پر ہم عمل کریں جو اللہ تعالیٰ نے تورات نازل فرمائی۔ تورات کا معنی ہی قانون (LAW) ہے جب کتاب آگئی تو کہنے لگے اس کے احکام بڑے مشکل ہیں ، ہم ان کی تعمیل نہیں کرسکیں گے۔ لہذا اللہ نے ان سے عہد لیا تھا خذوا ما اتینکم بقوۃ جو احکام ہم نے دیئے ہیں انہیں مضبوطی سے پکڑو واذکروا مافیہ اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو۔ ان احکام پر عمل کرو۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خوفزدہ اس لئے کیا تھا کہ ایک چیز انہوں نے خود مانگ کرلی ہے اور اب اس پر عمل کرنے سے اعتراض کر رہے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ لا اکراہ فی الدین کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو دین قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ کسی شخص کو جبراً اسلام میں داخل نہیں کیا جاسکتا ، ہاں تبلیغ کرو ، اگر کوئی مان جاتا ہے تو ٹھیک ہے فمن شاء فلیومن ومن شاء فیکفر جس کا دل چاہے ایمان لائے اور نہ چاہے تو کفر پر اڑا رہے۔ اسے اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کفر کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں سزا کا مستحق ہوگا ، بہرحال اسے زبردستی مسلمان نہیں بنایا جاسکتا۔ البتہ اگر اسلام لانے کے بعد کوئی شخص اس کے احکام کی خلاف ورزی کریگا تو وہ جبر کا مستحق ہوگا۔ اس پر حد جاری ہوگی یا تعزیر لگے گی بہرحال دین میں لانے کے لئے جبر نہیں بلکہ دین کا قانون توڑنے پر ضرور جبر ہے۔ سجدہ سے انکار فرمایا دیکھو ! یہ کیسے بدعہد اور بدلینت لوگ ہیں وقلنا لھم ادخلوا الباب مسجدا ہم نے ان سے کہا کہ دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونا مگر انہوں نے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کی۔ جب یہودیوں نے کہا ، لن نصبر علی طعام واحد ہم ایک ہی کھانے یعنی من وسلویٰ پر صبر نہیں کرسکتے لہذا ہمارے لئے اپنے رب سے سبزیاں ، پیاز اور دال وغیرہ کا مطالبہ کیجئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا پر اللہ نے فرمایا کہ انہیں کہو کہ اس بستی (اریحا) میں داخل ہوجائو ، وہاں تمہیں مطلوبہ اشیاء حاصل ہوجائیں گی۔ البتہ یہ ہے کہ شہر میں داخل ہوتے وقت دو رکعت نفل ادا کرنا۔ مفسرین نے سجدا کے دو معنی بیان کیے ہیں یعنی جھک کر یا سجدہ کرکے مگر یہ ایسے بدطینت لوگ ہیں کہ اللہ کے حکم کے خلاف جھکنے کی بجائے اکڑ کر داخل ہوئے۔ صحیحین کی روایت میں آتا ہے کہ چتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے تاکہ جھکنا نہ پڑے۔ سبت کی بےحرمتی اللہ نے یہ بھی فرمایا وقلنا الھم لاتعدوا فی السبت ہم نے انہیں کہا کہ دیکھو ! ہفتے کے دن تجاوز نہ کرنا ، انہیں حکم تھا کہ اس روز صرف عبادت کرنی ہے ، کوئی کاروبار ، تجارت ، شکار وغیرہ بالکل نہیں کرنا ، حتی کہ چولہے بھی نہیں جلانا مگر انہوں نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانے میں وہ تجاوز شروع کردیا جس کا ذکر سورة اعراف میں موجود ہے۔ واسئلھم عن القریۃ التی کانت حاضرۃ البحر دریا کے کنارے اس بستی کا حال دیکھو کہ انہوں نے اللہ کے قانون کو توڑا تو پھر انہیں کیسی سزا ملی۔ ان کا کردار یہ تھا کہ ہفتے کے دن مچھلیوں کا شکار تو نہیں کرتے تھے مگر انہیں حوض میں بن کرلیتے تھے اور پھر اگلے دن جمع شدہ تمام مچھلیاں پکڑ لیتے تھے۔ بعض لوگ انہیں ایسا کرنے سے منع کرتے تھے مگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے لاترکبوا ما ارتکبت الیھود تم اس جرم کا ارتکاب نہ کرنا جس کا یہودیوں نے کیا تھا۔ فتستحلوا خارم اللہ بادنی الحیل کہ حیلے بہانے سے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بناتے پھرو ، آپ نے یہ بھی فرمایا لعن اللہ الیھود یہود پر اللہ کی لعنت ہو کہ ان پر حلال جانور کی چربی بھی حرام تھی مگر وہ لوگ اسے فروخت کرکے رقم کھا جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم حکم الٰہی کی تعمیل میں چربی نہیں کھاتے ھالان کہ جو چیز بنفسہ حرام تھی اس کی قیمت بھی حرام تھی مگر انہوں نے حیلے بہانے سے حرام کو حلال بنالیا مچھلی کے شکار کے متعلق بھی انہوں نے ایسا ہی حیلہ کیا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کا عذاب آیا اور ان کی شکلیں مسخ ہوگئیں۔ کچھ بندر بن گئے اور کچھ خنزیر۔ اللہ نے فرمایا یہ ایسی سزا تھی جو نکالا لما بین یدیھا وما خلقنا موجود اور آئندہ آنے والے لوگوں کے لئے عبرت تھی۔ دلوں پر مہر فرمایا واخذنا منھم میثاقا غلیظا ہم نے ان سے پختہ عہد لیا تھا کہ وہ اللہ کے احکام کی پابندی کریں گے۔ فبما نقضھم میثاقھم مگر اس عہد کو توڑ دینے کی وجہ سے وکفرھم بایت اللہ اور ان کے اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے کی وجہ سے وقتلھم الانبیاء بغیر حق اور اللہ کے نبیوں کے ناحق قتل کی وجہ سے وقولھم قلوبنا غلف اور ان کے اس قول کی بنا پر کہ ان کے دل بند ہوچکے ہیں اور اب ان میں کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی۔ فرمایا یہودیوں کی ان تمام حرکات کی وجہ سے نہیں۔ بل طبع اللہ علیھا بکفرھم بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں۔ نافرمانیاں کر کر کے ان کے دل سیاہ ہوچکے ہیں۔ ان پر زنگ چڑھ چکا ہے اور اب ان میں کوئی چیز نہیں اتر سکتی۔ وہ من مانی کرتے ہیں ، برائی کو برائی نہیں سمجھتے۔ لہذا ختم اللہ علی قلوبھم اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ یہ کفر میں راسخ ہوچکے ہیں اور راہ راست پر آنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے فلا یومنون الا قلیلا ان کی ایک قلیل تعداد ایمان لاتی ہے اور اکثریت کفر پر ہی قائم رہتی ہے۔ چناچہ مدینے کے اطراف میں آباد یہودیوں کے دس بڑے عالموں میں سے صرف حضرت عبداللہ بن سلام ؓ ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے باقی سب بےایمان ہی رہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، اگر یہ دس علمائے یہود ایمان لے آتے تو دنیا میں کوئی یہودی باقی نہ رہتا۔ مگر یہ لوگ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود ویسے کے ویسے ہی عنادی ہیں۔ قرآن کو اللہ کی کتاب نہیں مانتے اور نبی آخرالزمان کو نبی تسلیم نہیں کرتے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ آپ سے طرح طرح کے مطالبات کرتے ہیں ، آپ گھبرائیں نہیں ، اس سے پہلے یہ موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بھی بڑے مطالبات کرچکے ہیں۔ ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے اور اب ان کی اکثریت ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔
Top