بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Az-Zukhruf : 1
حٰمٓۚۛ
حٰمٓ : حا۔ میم
حم
نام اور کوائف اس سورة مبارکہ کا نام سورة الزخرف ہے جو کہ اس کی آیت 35 میں آمدہ لفظ زخرف سے مآخوذ ہے زخرف اور اصا ہونے کی ملمع سازی Glid کو کہتے ہیں ۔ اگر پیتل یا کسی دوسری دھات پر سونے کا پانی چڑھا دیا گیا ہو تو وہ چیز زخرف یا سنہری کہلائے گی ۔ یہ لفظ قرآن پاک میں بات چیت میں ملمع سازی کے ضمن میں بھی استعمال ہوا ہے۔ سورة الانعام میں ہے کہ ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں میں سے دشمن بنائے یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرور ( آیت : 12) جو اپنے حواریوں کو ملمع شدہ یا دھوکے والی بات القاء کرتے ہیں۔ یہ سورة باقی حوامیم سبعہ کی طرح مکی سور ۃ ہے اور گزشتہ سورة الشوریٰ کے بعد نازل ہوئی ، اس کی نواسی آیات اور سات رکوع ہیں ، یہ سورة 833 کلمات اور 2340 حروف پر مشتمل ہے۔ مضامین سورة جیسا کہ گزشتہ سورتوں کے تعارف میں بیان کیا جا چکا ہے حوامیم سبعہ میں عام طور پر بنیادی اعتقادات یعنی توحید ، رسالت ، معاد اور قرآن پاک کی صداقت و حقانیت کا ذکر ہے ، تا ہم ہر سورة میں بعض ضمنی مسائل بھی آگئے ہیں ، چناچہ اس سورة میں بھی توحید کے عقلی اور نقلی دلائل پیش کیے گئے ہیں اور مختلف عنوانات اور مثالوں کے ذریعے شرک کا رد کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مثال بھی بیان کی ہے کہ انہوں نے کس طرح قوم کے سامنے شرک سے بیزاری کا اظہار کیا اور تبلیغ کے لیے بہترین طریقہ کار کو بھی واضح کردیا ۔ اس سلسلہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے ۔ آپ کو بڑی سر کش قوم سے مقابلہ کرنا پڑا ۔ شرک کی مختلف قسموں میں ایک قسم انسان پرستی کی بھی ہے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کی صفت اور عبادت میں شریک کیا ۔ اس کا رد آئے گا ، تمام رسولوں کی اطاعت ضروری ہے کیونکہ شریعت کا مدار کسی تجربہ یا عقل پر نہیں ہوتا بلکہ یہ رسولوں کے واسطہ سے آتی ہے۔ تمام کتب سماویہ اور خاص طور پر قرآن پاک پر ایمان لانا بھی جزو ایمان ہے کہ اس کے بغیر دین مکمل نہیں ہوتا جزائے عمل کے ضمن میں ترغیب و ترہیب کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے ، غرضیکہ اس سورة میں بھی تما م بنیادی اصولوں کا ذکر آ گیا ہے ، اگر انسان کا عقیدہ درست ہوگا تو دین پر عمل درآمد ہو سکے گا ، اور اگر عقیدے میں خرابی ہوگی تو فرقہ بندی شروع ہو جائیگی اس لیے دین کی اساس اور بنیاد کو اچھی طرح واضح کردیا گیا ہے۔ حروف مقطعات یہ سورة بھی چونکہ حوامیم سبعہ میں سے ہے ، لہٰذا اس کی ابتداء بھی حم کے حروف سے ہوئی ہے۔ حم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یا قرآن پاک کا نام ہے ۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ان حروف کا اشارہ اس سورة میں بیان کردہ مضامین کی طرف ہے ۔ ان کا اشارہ خدا تعالیٰ کی بعض صفات کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے ح سے حنان اور م سے منان ، انتہائی درجے کی شفقت و مہربانی کرنا خدا تعالیٰ کی صفت ہے ، لہٰذا حم سے یہ مراد بھی لی جاسکتی ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذریعے خدائے رحمان و رحیم کی قسم اٹھا کر آگے بات کی گئی ہے تا ہم امام جلال الدین سیوطی (رح) اور بعض دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حروف مقطعات میں زیادہ الجھنا نہیں چاہئے بلکہ ان کی تلاوت کے وقت یہی کہنا چاہئے اللہ اعلم بمراد بذلک یعنی ان حروف کی مراد کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ان حروف سے اللہ کی جو بھی مراد ہے ہمارا اس پر ایمان ہے اور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔ باقی مفسرین نے تقریب فہم کے لیے جو باتیں کی ہیں وہ حتمی ہیں ہیں ، لہٰذا ان حروف کے متعلق زیادہ کرید نہیں کرنی چاہئے ، بلکہ ان پر ایمان لاناہی کافی ہے۔ 1 ؎۔ جلالین ص 4 کتاب مبین حروف مقطعات کے بعد سورة کا آغاز قسم سے ہوتا ہے ۔ ولکتب المبین قسم ہے کھول کر بیان کرنے والی کتاب کی ، کتاب سے مراد قرآن حکیم ہے جس میں کسی مسئلہ کو مجمل نہیں چھوڑا گیا بلکہ واضح کردیا گیا ہے اگر کسی ایک مقام پر اجمال ہے تو دوسری جگہ پر اس کی تفصیل بھی موجود ہے اور پھر بعض چیزوں کی وضاحت اللہ کے نبی کے سپرد کردی گئی ہے ۔ جیسے سورة النمل میں فرمایا وانزلنا الیک الذکر التبین للناس ما نزل الیھم ( آیت : 44) ہم نے یہ ذکر یعنی کتاب اس لیے نازل کی ہے تا کہ آپ لوگوں کو وہ چیز کھول کر بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہے ، گویا حضور ﷺ آیات نبی کی تشریح بھی کرتے ہیں اور یہ تشریح و توضیح بھی منجانب اللہ ہوتی ہے جسے وحی غیر متلو کہا جاتا ہے ، بہر حال اللہ نے اکثر بنیادی عقائد اور اصولوں کو بڑے واضح طریقے پر بیان کردیا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو ہر چیز انسان کی سمجھ میں آجاتی ہے اور کوئی اشکال باقی نہیں رہتا ۔ الغرض ! اللہ نے اس کو کھول کر بیان کرنے والی کتاب کی قسم اٹھا کر اگلی بات کی ہے۔ قرآن اور عربی زبان کتاب مبین کی قسم کے جواب کے متعلق مفسرین کرام کی دورانیں میں بعض فرماتے ہیں کہ اس مقام پر بھی جواب قسم وہی ہے جو سورة یٰسین کے آغاز میں والقراٰن الحکیم میں ہے یعنی انک لمن المرسلین اے پیغمبر ﷺ آپ اللہ کے رسولوں میں سے ہیں ۔ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ اس مقام پر کتاب مبین کی قسم کا جواب قسم وہی ہے جو اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ انا جعلنہ قرانا غربیا بیشک ہم نے اس قرآن پاک کو عربی زبان میں نازل کیا ہے اور اس کی حکمت یہ ہے لعلکم تعقلون تا کہ آپ لوگ اس کو بخوبی سمجھ سکیں ۔ قرآن کا عربی زبان میں نزول ایک بہت بڑ ی حقیقت ہے ۔ جس کو پچھلی سورة میں بھی بیان کیا جاچکا ہے وکذلک او حینا الیک قرانا عربیا ( الشوریٰ : 7) اسی طرح ہم نے یہ قرآن آپ کی طرف عربی زبان میں بھیجا تا کہ آپ اہل مکہ اور گرد و بیش والوں کو ڈرا دیں ۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اس نے تورات عبرانی زبان میں اور انجیل سریانی زبان میں نازل کی ، وہ اس قرآن کو کسی دوسری غیر عربی زبان میں بھی نازل کرنے پر قادر تھا مگر اس کا یہ اصولی فیصلہ ہے وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لھم ( ابراہیم : 4) ہم نے ہر رسول کو اس کی قوی زبان میں بھیجا تا کہ وہ ان کو اللہ کا پیغام کھول کر بیان کرسکیں ۔ اللہ نے اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد ﷺ کو ان کی قوم قریش کی طرف مبعوث فرمایا ، جو عربی زبان بولتے تھے ، لہٰذا قرآن کو بھی عربی زبان میں نازل فرمایا تا کہ اس کے اولین مخاطبین اس کو اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر اس کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیں ۔ نزول قرآن کے زمانہ میں عربی زبان انتہائی عروج پر تھی ۔ اس کی ترقی کا دور حضور ﷺ کی بعثت سے دو ہزار سال پہلے شروع ہوا ۔ اور آپ کے زمانے تک شعر و ادب کی دنیا میں یہ زبان تمام زبانوں پر فوقیت حاصل کرچکی تھی ، یہ زبان آج بھی اختصار مفہوم کی ادائیگی اور اس کی گرائمر کے سائنٹیفک ہونے کے اعتبار سے اول نمبر پر ہے ۔ اس کی شرینی میں بھی کوئی دوسری زبان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ انگریز ی زبان اگرچہ دنیا بھر میں بولی جاتی ہے ، مگر اس میں بھی بہت سے روائد موجود ہیں جب کہ عربی ہی ایک واحد زبان ہے جو زائد حروف سے بالکل پاک ہے اور کم از کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عربی زبان میں کوئی حرف ایسا نہیں ہے جس کا کوئی مفہوم یا معنی نہ نکلتا ہو ۔ بہر حال اس فصیح وبلیغ زبان میں اللہ نے قرآن پاک کو نازل فرمایا ۔ طبرانی اور بعض دیگر کتب احادیث میں حضور ﷺ کا یہ فرمان موجود ہے کہ عربوں سے محبت کیا کرو ، کیونکہ میں بھی عربی ہوں ، اللہ نے قرآن کو بھی عربی زبان میں نازل فرمایا ہے اور پھر اہل جنت کی زبان میں بھی عربی ہوگی ۔ یہ قریش اور عربوں کی سعادت تھی کہ اللہ کا آخری نبی ان میں پیدا ہوا ۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا جس کی ایک حکمت اللہ نے یہ بھی بیان فرمائی لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا (البقرہ : 143) کہ اللہ کا رسول تمہارا معلم ہے اور تم دیگر لوگوں کے معلم بنو گے ، مطلب یہ کہ تم قرآن پاک کو اپنی مادری زبان میں ہونے کی وجہ سے اچھی طرح سمجھ لو اور پھر آگے غیر غریبوں کو پہنچا دو ۔ فرمایا یہ بلند مرتبت کتاب ہے وانہ فی ام الکتب لدینا لعلی حکیم اور بیشک یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں بہت برتر اور مستحکم ہے ۔ حکیم کے دونوں معنی آتے ہیں یعنی مضبوط و مستحکم بھی اور حکمت والی بھی ہے۔ بہر حال قرآن کریم میں یہ ساری صفات پائی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون (الحجر : 9) بیشک ہم نے اس کو نازل فرمایا ہم اسی کے محافظ ہیں ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اس دنیا میں کڑوڑوں حفاظ کے سینوں میں بھی محفوظ کردیا ہے اور ادھر لوح محفوظ میں بھی اس کو محفوظ و مستحکم بنا رکھا ہے۔ منکرین قرآن کے لیے تنبیہ جو لوگ نبی آخر الزمان کی رسالت اور قرآن حکیم کی حقانیت میں شک کرتے ہیں اللہ نے ان کو سخت تنبیہ فرمائی ہے افتضرب عنکم الذکر صحفا کیا ہم تمہیں نصیحت کرنے سے پہلو تہی کریں گے۔ محض اس وجہ سے کہ ان کنتم قوما ًمسرفین تم ایک اسراف کرنے والی یعنی حد سے گزرنے والی قوم ہو ؟ اگر تم اس نبی یا قرآن کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم اپنے احکام کے ذریعے نصیحت کرنا ترک کردیں ؟ ایسا نہیں ہوگا بلکہ تمہیں ہر حالت میں نصیحت کی جاتی رہے گی ، ہمارا پیغام پہنچتا رہے گا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت کا یہ تقاضا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام تر مخالفت کے باوجود نزول قرآن کو موقوف نہیں کیا ، لہٰذا قرآن پاک بدستور نازل ہو رہا ہے ، اللہ کی منشاء یہ ہے کہ وہ اپنے رسول اور قرآن کے ذریعے اتمام حجت کر دے تا کہ کل کو کوئی عذر نہ کرسکے ان تقولوا ما جاء نا من بشیر ولا نذیر کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا نہیں آیا ۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے آخری رسول کو مبعوث فرمایا اور اس عذر کو رفع کردیا ہے فقد جاء کم بشر و نذیر ( لمائدہ : 19) پس تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا آ گیا ہے ، لہٰذا اب تمہارا کوئی عذر مسموع نہیں ہے۔ اگر بھی حقیقت کو پہچان کر اس پر ایمان نہیں لاتے تو پھر آگے اللہ تعالیٰ کی گرفت بھی بڑے سخت ہے ، وہ تمہیں سزا میں مبتلا کرنے پر بھی قادر ہے۔ سابقہ الزام کا انجام اسی ضمن میں اللہ نے سابقہ اقوام کی نافرمانی اور پھر ان کے انجام کا حال بھی ذکر کیا ہے وکم ارسلنا من نبی فی الاولین ہم نے تم سے پہلے لوگوں میں بہت سے رسول بھیجے وما یاتیھم من بنی مگر ان کے پاس جو بھی نبی آیا الا کانوا بہ یستزء ون ان بد بختوں نے ان انبیاء کے ساتھ ٹھٹا ہی کیا ۔ اللہ کے نبی اور رسول انہیں خدا کا پیغام پہنچاتے رہے ، نہیں کیا انجام کی خوشخبری دیتے رہے اور برے انجام سے ڈراتے رہے مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور الٹا نبیوں سے مذاق کرتے رہے ۔ سورة الرعد میں بھی ہے ولقد اسھزی برسل من قبلک ( آیت : 32) آپ سے پہلے رسولوں کا بھی مذاق ہی اڑایا گیا ۔ پس ہم نے انکار کرنے والوں کو مہلت دی اور پھر ان کو پکڑ لیا ۔ جب نوح (علیہ السلام) کے حکم سے کشتی تیار کر رہے تھے ۔ وکلما مر علیہ ملامن قومد سخروارفہ ( ھود : 31) تو ان کی قوم کا جو بھی سرکردہ آدمی ادھر سے گزرتا ان کے ساتھ مذاق کرتا ، غرضیکہ اللہ نے فرمایا کہ اللہ کے ہر نبی اور رسول کے ساتھ تمسخر کیا گیا ۔ اگر آج یہ لوگ آپ کو دیوانہ شاعر یا کاہن کہتے ہیں تو آپ ان کی باتوں کو خاطر میں نہ لائیں ۔ یہ تمسخر تو پہلے نبیوں کے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے۔ آپ اپنا کام جاری رکھیں انکی بری حرکات کی پرواہ نہ کریں ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد آپ کے متبعین کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ لوگوں کے ٹھٹے مذاق سے دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے رہیں ۔ البتہ اللہ نے یہاں پر تنبیہ کردی ہے کہ نافرمانوں کا انجام بھی عبرتناک ہی ہوتا رہا ہے ۔ سورة سبا میں اللہ نے فرمایا کہ مکہ کے کافر کس بات پر اتراتے ہیں اور اللہ کے رسول کو جھٹلاتے ہیں ۔ والذین الذین من قبلھم وما بلغوا معشار ما تینھم (آیت : 45) ان سے پہلے لوگوں نے بھی اپنے اپنے رسولوں کی تکذیب کی مگر ان کا انجام کتنا عبرتناک ہوا ، ان مکہ والوں کو تو انکا عشر عشیر بھی نہیں دیا گیا ، بھلا ان کی کیا حثیت ہ۔ سب سے کس طرح بچ سکتے ہیں ؟ فرمایا یہ ……فاھلدنا اسد منھم بطثا پھر ہم نے ان سے زیادذہ گرفت والوں کو ہلاک کر ڈالا ۔ مطلب یہ کہ مکہ والے بھی اپنے انجام کو پہنچ کر رہیں گے۔ فرمایا ومضی مثل الاولین پہلے لوگوں کی اس قسم کی مثالیں گزر چکی ہیں کہ وہ لوگ عبرت ناک سزا میں مبتلا ہوئے۔ قرآن پاک نے ایسے لوگوں کو جستہ جستہ واقعات بیان کردیے ہیں ۔ جن کو اللہ نے اس دنیا میں ہلاک کیا ، کسی قوم پر زلزلہ آیا ، کسی کو پانی میں غرق کیا ، کسی پر تیز ہوا مسلط کردی گئی اور کسی پر سخت چیخ آئی ، اللہ نے بعض کی شکلیں ہی مسح کردیں ، غرضیکہ اللہ نے تنبیہ کے انداز میں فرمایا کہ مکہ والوں کو سابقہ اقوام کا انجام پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اگر وہ انکار کر کے عذاب الٰہی سے نہیں بچ سکے تو ان کا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا ۔
Top