Tafseer-e-Madani - Nooh : 42
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَۙ
يَوْمَ يُكْشَفُ : جس دن کھول دیاجائے گا عَنْ سَاقٍ : پنڈلی سے وَّيُدْعَوْنَ : اور وہ بلائے جائیں گے اِلَى السُّجُوْدِ : طرف سجدوں کے فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : تو وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں گے
(اور یاد رکھنے کے لائق ہے وہ دن کہ) جس دن تجلی فرمائی جائے گی ساق کی اور بلایا جائے گا ان لوگوں کو سجدے کی طرف تو (اس روز) یہ لوگ سجدہ نہیں کرسکیں گے
33 کشف ساق کا ذکر اور اس کا معنی ومطلب ؟: سو ارشاد فرمایا گیا اور جس دن تجلی فرمائی جاء گی ساق کی۔ بعض حضرات مفسیرن نے محاورہ کی زبان میں کشف ساق کو شدت اور سختی سے کنایہ قرار دیا ہے کہ وہ بڑا سخت اور ہولناک دن ہوگا ‘ اس لئے اس کو یاد کرکے اپنی اصلاح کی فکر کرو ‘ کما قال ابن عباس وغیرہ (رواہ ابن جریر ‘ محاسن التاویل وغیرہ) اور بعض نے اس کو کشٰ و ظہور حقائق غیبۃ سے کنایہ قرار دیا ہے (جامع البیان ‘ المراغی اور صفوۃ التفاسیر وغیرہ) اور بعض حضرات نے اس کو اپنے ظاہر پر رکھا ہے جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ قیامت کے دن رب تعالیٰ کشف ساق فرمائے گا (جیسا کہ اس کی شان اقدس و اعلیٰ کے لائق ہے) تو اس وقت ہر مومن مرد و عورت اس کے حضور سجدے میں گرجائے گا ‘ مگر کافر و منافق لوگ جو کہ دنیاوی زندگی میں سرے سے سجدہ نہیں کرتے تھے ‘ یا ریاکارانہ سجدہ کرتے تھے ‘ وہ اس سے محروم ہوجائیں گے (والعیاذ باللہ العظیم) ان کی پیٹھ تختے کی طرح سخت ہوجائے گی ‘ جس سے وہ کوشش کے باوجود سجدہ نہیں کرسکیں گے ‘ سو سجدے کی یہ دعوت ان کی تخجیل و تقریع اور توبیخ و تذلیل کیلئے ہوگی ‘ کہ یہ لوگ جب دنیا میں اپنے رب کے حضور اپنے طوع و اختیار سے سجدہ ریز ہونے کے شرف سے محروم رہے تھے تو آج یعنی قیامت کے دن یہ اس شرف سے مشرف نہیں ہوسکیں گے ‘ ورنہ سجدے کی یہ دعوت تکلیف و تعبد کے طور پر نہ ہوگی کہ اس کا وقت تو بہرحال گزر چکا ہوگا ‘ لہٰذا ابو مسلم اصفہانی کا یہ کہ نا کہ اس آیت میں مشرکین کیلئے دنیوی وعید ہے نہ کہ اخروی کہ قیامت کے دن کوئی تعبد و تکلیف نہیں ہوگی ‘ صحیح نہیں ‘ کیونکہ یہ دعوت تکلیف و تعبد کیلئے سرے سے ہوگی ہی نہیں ‘ بلکہ یہ ان کی توبیخ و تقریع اور تحقیر و تذلیل کیلئے ہوگی ‘ اس لئے اس بارہ اس تاویل و توجیہہ کی ضرورت ہی نہیں جس کو ابو مسلم نے اختیار کیا ہے (کبیر ‘ و محاسن التاویل وغیرہ) سو آج اس دنیاوی زندگی میں اپنے رب کے حضور اور اس کی رضا و خوشنودی کیلئے سجدہ ریز ہونا ایک عظیم الشان سعادت اور قرب خداوندی کا عظیم الشان ذریعہ ہے ‘ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویریدو ھو الہادی الی سواء السبیل۔ جل جلالہ۔ 34 منکرین و مکذبین کی تذلیل و تحقیر کے ایک منظر کا بیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز ان کو سجدے کیلئے بلایا جائے گا لیکن یہ لوگ سجدہ نہیں کرسکیں گے کہ ان کی پیٹھیں اکڑ کر تختے بن چکی ہوں گی ‘ اور یہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریزی کے شرف سے محروم ہوجائیں گے ‘ اور میدان حشر میں موجود سب خلائق کے سامنے ننگے اور ذلیل ہوجائیں گے ‘ والعیاذ باللہ اور یہ ان کیلئے صلہ و ثمر ہوگا ان کے اس کفر و انکار کا ‘ جس کو انہوں نے دنیا میں اپنا رکھا تھا ‘ اور جس کی بناء پر یہ دنیا میں بلائے اور پکارے جانے کے باوجود اپنے رب کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوتے تھے ‘ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس طرح اس دن اس مقام پر منکرین و مکذبین کی تذلیل و تحقیر کا ایک اور منظر سامنے آجائے گا۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایمان و یقین کی دولت اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے اور سجدہ ریز ہونے کی سعادت کتنی بڑی دولت اور کس قدر عظیم الشان سعادت ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر گامزن رکھے۔ آمین ثم آمین۔
Top