Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 18
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ١ؕ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ١ؕ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا١٘ وَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ
وَقَالَتِ : اور کہا الْيَھُوْدُ : یہود وَالنَّصٰرٰى : اور نصاری نَحْنُ : ہم اَبْنٰٓؤُا : بیٹے اللّٰهِ : اللہ وَاَحِبَّآؤُهٗ : اور اس کے پیارے قُلْ : کہدیجئے فَلِمَ : پھر کیوں يُعَذِّبُكُمْ : تمہیں سزا دیتا ہے بِذُنُوْبِكُمْ : تمہارے گناہوں پر بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم بَشَرٌ : بشر مِّمَّنْ : ان میں سے خَلَقَ : اس نے پیدا کیا (مخلوق) يَغْفِرُ : وہ بخشدیتا ہے لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَيُعَذِّبُ : اور عذاب دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مُلْكُ : سلطنت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَ : اور الْاَرْضِ : زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان وَاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف الْمَصِيْرُ : لوٹ کر جانا ہے
اور کہا یہودیوں نے اور نصرانیوں نے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ۔ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ‘ پس وہ تمہیں کیوں سزادیتا ہے تمہارے گناہوں پر۔ (ایسا نہیں ہے) بلکہ تم انسان ہو ان میں سے جن کو اللہ نے پیدا کیا ‘ وہ بخشتا ہے جس کو چاہے اور سزا دیتا ہے جس کو چاہیے اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ‘ اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
ربط آیات گذشتہ آیت میں اللہ ن عیسائیوں کے عقیدہ عنیبت کا ر ۔۔ فرمایا تھا نصاری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بعینہ خدا سمجھ کر حلولی اور اتحادی عقیدہ کے قائل ہیں ۔ مگر ذات خداوندی اس چیز سے پاک ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) یا کسی دیگر شخصیت میں حلول کرے ‘ وہ کسی روپ میں ظاہر نہیں ہوتا ‘ لہٰذا عقیدہ عینیت سخت کا فرانہ عقیدہ ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ چاہے تو عیسیٰ (علیہ السلام) ۔ ان کی والدہ اور روئے زمین پر بسنے والی ساری مخلوق کو یکدم ہلاک کردے ‘ اس کو کون روک سکتا ہے بہر حال اللہ نے یہود و نصاری دونوں گروہوں کی تردید فرمائی کہ دونوں گمراہی اور شرک میں مبتلا ہیں۔ اس سے پہلے یہودیوں کے متعلق بیان ہوچکا ہے کہ انہوں نے عہد کو توڑا جس کی پاداش میں وہ طعون ٹھہرے ‘ سنگدل بن گئے اور پھر انہوں نے کتاب الٰہی میں تحریف کی اس میں انہوں نے لوگوں کے لیے گمراہی کا سامان پیدا کردیا۔ نصاریٰ کا حال بھی یہودیوں سے مختلف نہیں ہے ‘ وہ بھی نصیحت کو فراموش کر کے سزا کے مستحق ہوئے نصاریٰ کو اس دنیا میں یہ سزا دی گئی کہ ان کے لئے اپنے درمیان عداوت اور دشمنی پیدا کردی گئی ۔ پوری عیسائیت کی تاریخ میں ان کے فرقے پارٹیاں اور حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہی ہیں۔ اور آج بھی ان کا یہی حال ہے۔ یہ نہ اعتقادی لحاظ سے آپس میں متفق ہیں اور نہ سیاسی طور پر۔ ایک دوسرے کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہتے ہیں ۔ تاہم اہل اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے اکھٹے ہوجاتے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ آج بھی ایک دوسرے سے متنفر ہیں۔ ہم عقیدہ ہونے کے باوجود برطانیہ کا زار روس کے ساتھ بڑے عرصے تک اختلاف رہا۔ اٹلی ‘ فرانس اور جرمنی سے بھی جنگیں ہوتی رہیں۔ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” فاغرینا بینھم العداوۃ والبغضآء کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ تو اس دنیا کی سزا ہے۔ اس کے بعد آخرت کا عذاب تو اپنے وقت پر آنے والا ہے۔ محبوبان خدا ہونے کا دعویٰ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ کی روایت میں آتا ہے ۔ کہ کسی موقع پر کچھ یہودی عالم حضور ﷺ کے پاس آئے ۔ آپ نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور کہا کہ اللہ سے ڈرو اور گمراہی کا راستہ چھوڑ دو ‘ اس کے بچائے ایمان کا صراط مستقیم اختیار کرو۔ حضور ﷺ کے صحابہ ؓ نے بھی یہودیوں سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘ آپ کا تذکرہ ‘ آپ کی صفات و علامات تمہاری کتابوں میں موجود ہیں مگر تم آپ پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ یہودی کہنے لگے آپ ہمیں اپنے دین سے بد ظن کر رہے ہیں اور کسی ممکنہ عذاب سے ڈرا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب کو اس آیت میں دہرایا ہے وقالت الیھود والنصری یہودیوں اور نصرانیوں نے کہا نحن ابنئو اللہ واحبآء ہ ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا حقیقی باپ تو نہیں ہے مگر وہ ہم پر باپ کی طرح شفیق ہے ‘ لہذا تم ہمیں کس چیز سے ڈرا رہے ہو ہم محبوبان خدا ہیں ‘ وہ ہمیں کوئی سزا نہیں دے گا۔ یہودیوں کے اس باطل عقیدہ کا تذکرہ سورة بقرہ میں بھی ہوچکا ہے۔ ” وقالوا لن تمسنا النار الآ ایاما معدودۃ “ کہنے لگے ہم انبیاء کی اولاد میں سے ہیں۔ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف نسبت رکھتے ہیں ‘ وہ ہمیں دوزخ میں نہیں جانے دیں گے اور اگر بالفرض سزا ملی بھی تو معدو دے چند دن کے لیے جتنے دنوں ان کے آبائو اجداد نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔ اور وہ صرف چالیس دن تھے۔ وگرنہ ہم تو محبوبان خدا ہیں ‘ وہ ہمارے ساتھ بیٹوں جیسا مہربان ہے ‘ وہ ہمیں دوزخ میں کیسے داخل کرے گا۔ ان کی کتابوں میں یہ بھی موجود ہے۔ کہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوزخ کے دروازے پر موجود ہوں گے اور کسی ختنہ شدہ اسرائیلی کو اس میں نہیں جانے دیں گے۔ عیسائی بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں رہے۔ سورة بقرہ میں موجود ہے کہ انہوں نے بھی ایسا ہی دعوی کیا وقالوا لن یدخل الجنۃ الا من کان ھودا اونصری “ یعنی جنت کے ٹھیکیدار ہم ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ کوئی شخص جنت میں نہیں جاسکتا۔ جنت میں وہی جائیگا جو ہمارے اعتقاد پر ہوگا۔ بہر حال۔۔ جب مسلمانوں نے اہل کتاب کو آخرت کے عذاب سے ڈرانا چاہا تو کہنے لگے ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ‘ ہمیں کسی دوزخ کا خوف نہیں ہے۔ ہماری نجات قطعی ہے۔ ہمیں کوئی عمل کر نیکی بھی ضرور ت نہیں ۔ کفارے کا عقیدہ رکھنے والوں نے تو صاف کہہ دیا کہ مسیح (علیہ السلام) سولی پر چڑھ کر ہمارا کفارہ بن چکے ہیں ‘ لہٰذا ہمیں اب کسی نیک عمل کی ضرورت نہیں۔ ہم ہر صورت میں نجات یافتہ ہیں۔ محبوبیت کی بنیاد حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کے شرائع میں یہ بات موجود ہے کہ انسان کو اللہ کی محبوبیت صحیح اعتقاد اور اچھے اعمال کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔ یحبونہ ویحبھم “ اللہ کے بندے اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔ اللہ ایمان والوں کو محبوب رکھتا ہے جو نیک اعمال انجام دیتے ہیں ‘ باطل اعتقاد صرف صاجب زادگی یا محض کسی بزرگ کے ساتھ نسبت کچھ مفید نہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے صبلی بیٹے متعلق اللہ نے فیصلہ دے دیا تھا انہ لیس من اھلک یہ تیرا بیٹا نہیں ہے۔ اللہ نے حقیقی بیٹے کی نفی کردی کیونکہ انہ عمل غیر صالح “ اس کا عمل اچھا نہیں ہے۔ غرضیکہ محبوبیت کا مدار ایمان ‘ تقویٰ اور اعمال صالحہ پر ہے مگر اہل کتاب کہتے ہیں کہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ سورة بقرہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد موجود ہے کہ جو نیکی کریگا۔ تقویٰ اختیار کریگا۔ اور اعمال صالحہ انجا دے گا ‘ ہ بہشت میں جائیگا اور جو اعتقادی یا عملی برائی کا ارتکاب کریگا ‘ وہ یقیناً جہنمی ہوگا ‘ وہ خدا کا پیارا کیسے ہو سکتا ہے۔ شرک کی ابتداء دنیا میں جس قدر شرک پایا جاتا ہے وہ کسی قوم میں یکدم وارد نہیں ہوا۔ بلکہ بتدریج آیا ہے۔ انجیل میں لفظ باپ کا اطلاق خدا تعالیٰ کے لیے کیا گیا ہے چناچہ مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ ” میں تمہارے اور اپنے باپ ( خدا) کے پاس جاتا ہوں ‘ وہ تمہاے پاس ایک اور مدد گار کو بھیجے گا جو تمہارے ساتھ رہے گا ‘ میں جائوں گا تو وہ آئیگا “ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ابتداء میں باپ سے یہی مراد لیا جاتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر شفقت کے اعتبار سے ان کے نمبرلہ باپ کے ہے۔ مگر بعد میں اہل کتاب نے اسے حقیقی باپ اور بیٹے پر محمول کرلیا۔ مشرکین میں بھی شرک آہستہ آہستہ آیا۔ ابتداء میں ان کا اعتقاد یہ تھا کہ بت اللہ کے ہاں ان کے سفارشی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی بات رد نہیں کرتا ‘ مگر بعد میں آنے والی نسلوں میں یہ اعتقاد جڑ پکڑ گیا کہ یہ بت خود خدا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں اعتقادات کا رد فرمایا۔ کہیں فرمایا کہ دیکھو ! انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے مورتیاں بنائیں اور انہیں خدا کا درجہ دیا اور پھر خود ہی ان کی پوجا شروع کردی۔ سفارشی عقیدے کے متعلق فرمایا کہ جن کو تم خدا کے ساتھ شریک کرتے ہو یا جبری سفارشی بناتے ہو ان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اور نہ کوئی ایسی سفارش کرسکتا ہے۔ ” من ذا ا لذی یشفع عندہ الا باذنہ “ کون ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش پیش کرے سفارش تو ساری اللہ کے ساتھ میں ہے۔ انہوں نے کیسا عقیدہ بنا لیا کہ یہ معبود اللہ کے ہاں ان کی لازماً سفارش کرکے چھڑا لیں گے۔ بہرحال ابتدا میں عیسائیوں کے عقیدہ انبیست کا مطلب یہ تھا کہ وہ خدا کے محبوب ہیں مگر بعد میں اسے حقیقی بیٹے پر محمول کرنے لگے۔ چونکہ میسح (علیہ السلام) کا باپ کوئی نہیں لہٰذا خدا ہی اس کا باپ ہے (العیاد باللہ) اور اس طرح انہوں نے یہ باطل عقیدہ وضع کیا۔ اہل کتاب کی تعذیب اہل کتاب کے دعویٰ محبوبیت کے خلاف اللہ تعالیٰ نے ایک دلیل پیش کی ہے۔ ارشاد ہے قل اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہدیں کہ اگر تم واقعی اللہ کے پیارے ہو فلم یعذبکم بذنوبکم تو اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے۔ ان کی پوری تاریخ ان پر نازل ہونے والی آفات سے بھری پڑ ی ہے۔ کبھی ان پر بخت نصر کو مسلط کیا ‘ کبھی غلام بنایا گیا۔ اور کبھی صحرائوں میں دوڑایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا خدا اپنے پیاروں کو ایسی ہی سزائیں دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا دعوی ہی باطل ہے ۔ یہ جھوٹے ہیں ‘ ان میں کوئی خصوصیت نہیں اللہ نے فرمایا بل انتم بشر ممن خلق بلکہ تم اس کی مخلوق میں سے ایک بشر ہو ‘ انسان ہو۔ بشرہ کھال کو کہتے ہیں انسان کی کھال دوسرے جانداروں کی نسبت واضح ہوتی ہے۔ جب کہ دیگر چرند ‘ پرند وغیرہ کے جسموں پر بال یا پَر ہوتے ہیں اور ان کی کھال نظر نہیں آتی ‘ نوع انسانی کی اس خصوصیت کی وجہ سے اسے بشر کہا جاتا ہے ۔ بہر حال فرمایا کہ اللہ کے نزدیک تمہیں دیگر انسانوں کی نسبت کوئی خصوصیت حاصل نہیں اور اس کا قانون یہ ہے کہ یغفر لمن یشآء جسے چاہے معاف کر دے ۔ دنیا میں یہ معانی رعایتاً بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ مہلت دے دے مگر حقیقی معافی اسی کے لیے ہے جو ایمان لانے اور نیک اعمال انجام دے ۔ برخلاف اس کے ویعذب من یشآء وہ جس کو چاہتا ہے ‘ سزا بھی دیتا ہے۔ اس کے راستے میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی اور اس کی سزا کا قانون یہ ہے کہ وہ کسی گستاخی ‘ بےادبی ‘ بد عقیدگی یا بد اعمالی کی وجہ سے آیا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سزا میں مبتلا کرے گا جو ظالم ‘ مشرک ‘ منافق یا فا سد ہوگا۔ کوئی انبیا اور ان کی شرائع کا انکار کریگا۔ وہ اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکے گا۔ فرمایا یاد رکھو ! وللہ ملک السموت ولار وما بینھما آسمان و زمین اور ان کے درمیان ہر چیز پر اختیار وقدرت اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔ وہ کمال حکمت کا مالک ہے۔ جس کو چاہے معاف کردے یا عدل و انصاف کے ساتھ سزادیدے ‘ اس کی مشیت اور ارادے میں کوئی مزاحم نہیں ہو سکتا ” وھو یجر ولا یجارو “ وہ دوسروں کو پناہ دیتا ہے مگر اس کے مقابلے میں کوئی دوسری ہستی پناہ نہیں دے سکتی ‘ ارض و سما کی ساری بادشاہی اسی کے پاس ہے والیہ المصیر اور ہر ایک آدمی کو اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے ۔ دوسری زندگی بھی اسی کے قبضہ وقدرت میں ہے وللہ الاخرۃ والاولی “ اگر پہلی زندگی کا مالک وہ ہے تو دوسری زندگی بھی اسی کی ملکیت ہے۔ لہٰذا محبت کے جھوٹے دعویدار اور باپ بیٹے کا رشتہ جتلانے والوں کو اگر اس دنیا میں قدرے مہلت بھی مل گئی تو آخرت میں ضرور پکڑے جائیں گے۔ رسولوں کے درمیان وقفہ آخری نبی اور رسول کی آمد کا تذکرہ گزشتہ آیات میں بھی ہوچکا ہے ‘ اب پھر بطور نصیحت فرمایا یا ھل الکتب اے اہل کتاب ! قد جآ ئکم رسولنا تحقیقی آگیا ہے تمہارے پاس ہمارا رسول اور وہ کرتا کیا ہے۔ یبین لکم علی فترۃ من الرسل جو کھول کر بیان کرتا ہے تمہارے لیے رسولوں کے وقفے پر۔ یعنی یہ رسول آخرالزمان ایسے وقت میں آیا ہے کہ اس سے ۔ پہلے عرصے تک کوئی رسول مبعوث نہیں ہوا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا انا اولی بعیسی ابن مریم میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ زیادہ اولیٰ یعنی قریب ہوں لیس بینی و بینہ نبی ان کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں آیا۔ گویا بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی تھے حضور ﷺ کی ولادت باسعادت 570 ء میں ہوئی اور آپ کو نبوت 610 ئ؁ میں عطا کی گئی۔ اس طرح آپ کے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان پورے چھ سو سال کا وقفہ ہے۔ البتہ عربوں میں رسول کی بعثت کو ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا تھا کیونکہ اس سرزمین کے گزشتہ نبی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی تھے۔ اس دوران دوسری اقوام میں تو انبیاء مبعوث ہوتے رہے مگر عرب ایک طویل عرصہ تک محروم رہے لہذا اتنی لمبی مدت یہ رسول کے چرچے سے ناواقف رہے۔ اسی لیے عربوں میں لقب امی مشہور ہوگیا۔ فترۃ الرسل کا تذکرہ حضرت حسان بن ثابت ؓ کے شعر سے بھی ملتا ہے نبی جآء نا من بعد فترۃ وفی الارض اوثان تعبد عرب میں شرک کی ابتداء حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد پندرہ یا سولہ سو سال تک عرب لوگ آپ ہی کے دین پر رہے۔ حضور ﷺ کی بعثت سے تقریباً چار سو سال قبل اس خطے میں شرک کی ابتداء ہوئی۔ ایک شخص عمر و ابن قنئیۃ یا عمرو ابن تحتی عرب سے باہر کسی دوسرے علاقہ میں گیا اور وہاں سے کچھ مورتیاں سے آیا پھر اس نے یہاں بھی مورتیاں بنانی شروع کیں اور اس طر ح عرب میں شرک کا آغاز ہوا۔ قصی ابن کلاب کے زمانے تک لوگ بالکل دین اسماعیلی پر تھے اس کے عبد شرک کی لعنت پیدا ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضور ﷺ کی بعثت تک عرب بھی دوسرے علاقوں کی طرح شرک میں ڈوب چکا تھا اس زمانے تک اکثر یت شرک میں ملوث ہوچکی تھی۔ اہل کتاب میں سے بھی ا کے د کے لوگ توحید پر قائم تھے تاہم مجموعی طور پر پوری دنیا شرک کی اتاہ گہرائیوں میں غرق ہوچکی تھی۔ مسیح (علیہ السلام) کے فرائض قرآن حکیم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو دو فرائض سوپنے تھے۔ پہلی ڈیوٹی یہ تھی کہ آپ بنی اسرائیل کو صراط مستقیم کی تبلیغ کریں کیونکہ آپ کو مبعوث ہی اس قوم کی طرف کیا گیا تھا جیسے فرمایا ورسولا الی بنی اسرائیل (آل عمران) آپ کا حلقہ تبلیغ صرف بنی اسرائیل تھے نہ کہ پوری دنیا۔ آپ کا دوسرا فرض منصبی یہ تھا ” و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “ (صف) یعنی آپ اس بات۔۔ کی خوشخبری سنادیں۔ کہ میرے بعد ایک عظیم الشان رسول آنے والا ہے جس کا نام احمد ہوگا۔ اس کو سریانی زبان میں فار قلیط کہتے ہیں جس کا معنی ستو وہ جہان ہے۔ “ اہم جیسا کہ گزشتہ دروس میں بیان ہوچکا ہے۔ عیسائیوں نے اس لفظ کو انجیل سے حذف کردیا کیونکہ یہ حضور ﷺ پر صادق آتا تھا۔ گزشتہ ڈیرہ صدی تک یہ لفظ انجیل میں موجود تھا مگر موجودہ انجیلوں سے حذف کیا جاچکا ہے۔ انجیل میں تحریف کے متعلق خو د ان کے بڑے بڑے پادریوں نے تسلیم کیا ہے۔ کہ موجودہ اناجیل میں تین ہزار سے زیادہ اغلاط موجود ہیں۔ اب اصل انجیل کو تلاش کرنا ممکن نہیں رہا ‘ جملہ اناجیل کی ایک سو بیس تک کی تعداد کا پتہ چلتا ہے مگر اس وقت چار انجیلیں ‘ مستی ‘ لوقا ‘ یوحنا اور مرقس تو بائیبل کے ساتھ ملی ہوئی ہیں اور پانچویں انجیل بربنا س بھی موجود ہے۔ اتمام حجت بہر حال فرمایا کہ رسولوں کے اس طویل عرصہ کے بعد تمہارے پاس ہمارا رسول آگیا ہے ‘ جو تمہیں تمام احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ مصلحت کے مطابق بعض احکام کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیتا ہے اور جسے بنی اسرائیل چھپاتے تھے انہیں ظاہر کرتا ہے اور بعض کم اہمیت کے معاملات سے درگزر کرتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا مقصود یہ ہے کہ وہ تم پر اپنی حجت پوری کر دے ان تقولوا ما جآء نا من بشیر ولا نذیر “ تاکہ تم کل کو یہ نہ کہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی خو شخبری دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ فرمایا فقد جآء کم بشیر و نذیر “ پس تمہارے پاس آگیا ہے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا۔ اللہ کا یہ آخری رسول خدا کی رحمت کی خوشخبری سناتا ہے اور تمہیں تمہارے برے انجام سے ڈراتا ہے ” لئلا یکون للناس علی للہ حجۃ بعد الرسول “ ( النسائ) تاکہ لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی حجت باقی نہ رہے۔ اور وہ قیامت کو کوئی عذر پیش نہ کرسکیں امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے تمام سامان مہیا کردیے ہیں۔ اس نے انسانوں کو حواس خمسہ عطا کیے ‘ عقل و شعور دیا تاکہ دیکھ کر سمجھ کر اچھے برے میں تمیز کرسکیں۔ پھر اس نے رسول مبعوث کیے ان کے نائب آتے رہے اپنی کتابیں بھیجیں قدرت کی تمام نشانیاں پھیلادیں ‘ غرضیکہ ظاہری اور باطنی ہدایت کے تمام سامان مہیا کردیے تاکہ کسی کو کلام کی گنجائش نہ رہے اس کے باوجود اگر کوئی ہدایت کا راستہ اختیار نہیں کرتا ‘ تو پھر وہ گمراہی کا خود ذمہ دار ہے۔ جب سورج طلوع ہو کر اپنی روشنی چار دانگ عام میں پھیلا چکا ہو ‘ اور اس کے بعد اگر کوئی شخص آنکھیں بند کر کے کہے کہ مجھے کچھ نظر نہیں آتا ‘ تو اس کا کوئی علاج نہیں اس کا واحد انجام جہنم رسیدگی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے کوئی عذر باقی نہیں رہنے دیا۔ واللہ علی کل شیٔ قدیر “ وہ ہر چیز پر قادر ہے ‘ اس اتمام حجت کے بعد جب چاہے گا مجرموں کو پکڑلے گا اور پھر ان کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا۔
Top