Mualim-ul-Irfan - At-Tur : 43
اَمْ لَهُمْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
اَمْ لَهُمْ : یا ان کے لیے اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ ۭ : کوئی الہ ہے اللہ کے سوا سُبْحٰنَ اللّٰهِ : پاک ہے اللہ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں
کیا ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی اور الہٰ ہے ؟ پاک ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ان چیزوں سے جن کو یہ لوگ اس کا شریک بناتے ہیں
ربط آیات پہلے رسالت کے متعلق بیان ہوچکا ہے کہ مشرک اور کافر لوگ اللہ کے نبی کو کبھی کاہن کہتے ، کبھی شاعر اور کبھی العیاذ باللہ دیوانہ کہتے ۔ اللہ نے ان کے اس غلط نظریے کی تردید کی اور فرمایا کہ یہ تو خود بےعقل لوگ ہیں جو حق و باطل میں تمیز ہی نہیں کرتے۔ کفار قرآن کو وحی الٰہی بھی تسلیم نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تو اس مدعی نبوت کا خود ساختہ کلام ہے ۔ اللہ نے چیلنج کیا کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو تم بھی ایسا کلام پیش کر کے دکھائو ۔ پھر ان لوگوں کے انکار کی بعض ممکنہ وجوہات کا تذکرہ فرمایا کہ کیا یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ان کا کوئی خالق نہیں ہے ، یا ان کی تخلیق بےمقصد ہے یا ان کے پاس خزانے ہیں جن کی وجہ سے انہیں کوئی دوسری بات سننے کی ضرورت ہی نہیں ۔ فرمایا ، یا یہ اقتدار کے مالک ہیں یا سیڑھی لگا کر عالم بالا کی باتیں سنتے ہیں جسکی وجہ سے یہ اللہ کی طرف سے آمدہ ہدایت سے بےنیاز ہیں ۔ فرمایا اگر ان کے پاس ایسی چیز ہے تو وہ پیش کریں تا کہ پتہ چل جائے کہ انہیں عقیدہ وحدانیت اور نبی کی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ہر معاملہ میں خود کفیل ہیں ۔ پھر فرمایا کہ کیا یہ لوگ اس وجہ سے انکار کرتے ہیں کہ اللہ کا نبی ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتا ہے یا ان کے پاس غیب ہے جس کو یہ لکھ کر رکھ لیتے ہیں ۔ اور یہ ان کی کفالت کرتا ہے یا یہ کوئی انوکھی تدبیر کرتے ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خود ہی ایسی تدبیر اور دائو پیچ میں مبتلا ہو کر ختم ہوجائیں گے۔ توحیدکا بیان آج کا درس توحید کے بیان سے شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید فرمائی ہے۔ ام لھم الہ غیر اللہ کیا ان منکرین کے لیے اللہ کے سوا کوئی معبود ہے جس کی وجہ سے یہ اپنے خالق اور مالک کو پہچاننے سے انکار کر رہے ہیں ؟ کون ہے جو ان کی مشکلات میں مشکل کشائی اور حاجات میں حاجت روائی کرتا ہے ؟ اگر یہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت نہیں کرتے تو پھر ۔۔۔ اور کس کی عبادت کریں گے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود حقیقی ہے اس کے علاوہ کوئی بھی مصیبت میں کام آنے والا نہیں ہے ، کوئی خالق ، مدبر اور متصرف نہیں ، کوئی روزی رساں اور نفع نقصان کا مالک نہیں ، پھر یہ لوگ اپنے پروردگار کا کس طرح انکار کرتے ہیں ۔ اس کی وحدانیت پر کیوں ایمان نہیں لاتے ؟ فرمایا حقیقت یہ ہے سبحن اللہ عما یشرکون اللہ تعالیٰ کی ذات تو ان تمام چیزوں سے پاک اور منزہ ہے جن کو یہ لوگ اپنے زعم باطل کے مطابق اس کا شریک بناتے ہیں اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں ۔ اللہ نے ایسی تمام شرکیہ باتوں کی تردید فرما دی ہے۔ منکرین کی ہٹ دھرمی پھر اللہ نے ان لوگوں کی بد بختی کی مثال بیان فرمائی کہ ان بد اعمالیوں کی بدولت اگر ان پر عذاب بھی آجائے تو اس کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے ، چناچہ فرمایا وان یرواکسفا من السماء ساقطا ً اور اگر یہ لوگ آسمان کی طرف سے گرتا ہوا کوئی ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو اس سے خوف کھانے کی بجائے یقولوا سبحاب مرکوم کہیں گے کہ یہ تو کوئی بادل کا منجمد ٹکڑا ہے یعنی بادلوں میں برف جم گئی ہے اور وہ اولوں کی صورت میں آ رہا ہے۔ اللہ نے ان کی بےخوفی کا تذکرہ فرمایا ہے وگرنہ جب اللہ کا عذاب آجاتا ہے تو پھر وہ رکتا نہیں بلکہ نافرمان قوم کو تہت نہس کر کے چھوڑتا ہے۔ اللہ نے نافرمان قوموں کی کئی مثالیں بیا فرمائی ہیں ، جن میں قوم نوح ، قوم لوط ، قوم ہود ، قوم شعیب وغیرہ ہیں ۔ ان پر اللہ کا عذاب آیا اور وہ صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ گئیں اللہ نے سورة بنی اسرائیل میں مشرکین کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ایک طرف تو وہ معجزات طلب کرتے تھے اور دوسری طرف اپنے منہ سے عذاب کا مطالبہ کرتے تھے او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفا (آیت : 92) یا ہم پر کوئی آسمان کا ٹکڑا ہی گرا دے تا کہ ہمیں پتہ چل جائے کہ جس عذاب سے تو ہمیں ڈراتا ہے۔ وہ واقعی آسکتا ہے ، اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ از حد متعصب ہے اور عنادی ہیں ، اگر ان پر آسمان کا کوئی ٹکڑا بھی گرا دیا جائے تو پھر بھی یہ نہیں مانیں گے بلکہ اپنی ضد پر اڑے رہیں گے اور کہیں گے کہ یہ عذاب نہیں بلکہ برف باری ہو رہی ہے۔ اللہ نے فرمایا فذرھم آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑدیں اور ان کی طرف زیادہ توجہ نہ دیں ۔ یہ حد سے بڑھے ہوئے لوگ ہیں جو کسی عقلی اور نقلی دلیل کو ماننے کے لیے تیار نہیں حتیٰ یلقوا یومھم الذی فی یصعقون یہاں تک کہ یہ جاہلیں اپنے اس دن سے جس میں ان پر کڑک پڑے گی ۔ صعق کا معنی بجلی کا کڑک کے ساتھ گرنا ہے اور اس سے مراد قیامت کا دن ہے جس کہ صور پھونکا جائیگا اور ہر چیز فنا ہوجائے گی ۔ یہ بجلی اسرائیلیوں پر بھی پڑی تھی ، کہنے لگے اے موسیٰ (علیہ السلام) ! ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ۔ اللہ نے فرمایا تمہاری اس گستاخی پر فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ تمہیں کڑک نے پکڑ لیا اور تم دیکھ رہے تھے ۔ بہر حال اس کڑک سے دنیا کا عذاب بھی ہو سکتا ہے اور قیامت کی بےہوشی بھی مراد ہو سکتی ہے۔ فرمایا آپ ان سے در گزر کریں اس وقت تک جب یہ خود اپنی شامت اعمال میں گرفتار ہوجائیں گے۔ فرمایا وہ دن ایسا ہوگا یوم لا بغنی عنھم کیدھم شیئا ً جس دن اس کے دائو پیچ کچھ بھی کام نہیں آسکیں گے ، اور ان کی تمام تدابیر دھری کی دھری رہ جائیں گی ولا ھم ینصرون اور نہ ہی وہ مدد کیے جائیں گے ، گویا نہ تو وہ بذات خود عذاب الٰہی سے بچ سکیں گے اور نہ ہی انہیں کوئی بیرونی امداد پہنچ سکے گی ۔ اس دنیا میں تو مصیبت کے وقت لوگ اپنے خاندان ، قبیلے برادری اور یاروں دوستوں کی مدد حاصل کرلیتے ہیں ، وکلاء کی قانونی امداد حاصل کرتے ہیں اور رشوت و سفارش کے ذریعے کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس دن کسی قسم کی کوئی مدد نہیں پہنچے گا اور کفار و مشرکین بےیارو مدد گار اپنے کیے پر پچھتا رہے ہوں گے۔ فرمایا وان للذین ظلموا اور بیشک جن لوگوں نے ظلم کا شیوہ اختیار کیا اور سب سے بڑا ظلم کفر اور شرک ہے۔ ان کے لیے فرمایا عذابا ً دون ذلک اس سے ورے ( پہلے) بھی ایک عذاب ہے۔ آخرت کا عذاب تو وقوع قیامت کے بعد ہوگا ، لیکن اس سے پہلے اس دنیا میں بھی اللہ مختلف قسم کے عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ یہ عذاب کبھی اہل ایمان کے ہاتھوں شکست کی صورت میں آتا ہے جیسا کہ غزوہ بدر میں ہوا اور کبھی قحط سالی کے ذریعے نافرمان قوم کو جھنجھوڑا جاتا ہے ، کبھی دشمن غلبہ حاصل کر کے غلامی میں مبتلا کردیتا ہے اور کبھی کوئی آسمانی یا زمینی آفت نازل ہوجاتی ہے۔ دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی سزائیں اللہ تعالیٰ تنبیہ کے طور پر دیتا ہے لعلھم یرجعون تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں ، سابقہ گناہوں سے تائب ہو کر اللہ کی وحدانیت ، رسالت ، قرآن کی حقانیت اور جزائے عمل پر ایمان لے آئیں ، لیکن ولکن اکثرھم لا یعلمون لیکن اکثر ان میں سے نہیں جانتے۔ صبر کی تلقین اب اگلی آیت میں اللہ نے مشرکین کی ایذ اء رسانیوں کے مقابلے میں بعض چیزیں بطور علاج تجویز کی ہیں اور حضور ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کو ان پر عملدرآمد کی نصیحت کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے واصبر لحکم ربک آپ اپنے پروردگار کے حکم کے سامنے صبر کریں ۔ مکذبین کی ضد اور عناد پر دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ ان تکالیف کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کریں ۔ خدا تعالیٰ کی توحید ، اس کا ذکر ، شکر اور نماز کی طرح صبر بھی ایک بہت بڑا اصول ہے جسے اختیار کرنے کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔ آپ اپنے رب کے حکم کے سامنے صبر کریں ، اور یقین جانیں فانک باعیننا آپ کے تمام حالات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ، ہم آپ کی کسی تکلیف سے غافل نہیں ہیں ، مشرکین کی فریب کاری ، عیاری اور مکاری سے خوف واقف ہیں ، لہٰذا آپ بےحوصلہ نہ ہوں ، اللہ تعالیٰ عنقریب ان کو مغلوب کر دے گا ۔ ایسے ہی موقع پر صبر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کسی بھی تکلیف پر جزع و فزع نہ کریں بلکہ صبر کا دامن تھامے رکھیں نہ صرف آنے والی تکلیف پر صبر کریں بلکہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کے ہر کام پر صبر کا مظاہرہ کریں ، اور اگر نفسانی خواہشات پیدا ہوں تو ان کو دبانے کی کوشش کریں۔ تسبیح و تحمید فرمایا دوسرا علاج یہ ہے کہ وسبح بحمد ربک آپ اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کریں اس کی تعریف کے ساتھ حین تقوم جب کہ آپ کھڑے ہوتے ہیں ۔ کھڑا ہونے سے مجلس سے کھڑا ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے اور نماز کے لیے قیام کرنا بھی ۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ ہر مجلس کی ابتداء اور انتہاء میں اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے ۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ جو مسلمان کسی مجلس میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر نہیں کرتا اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے نبی پر درود نہیں بھیجتا ، وہ مجلس اس کے لیے ترۃ ً یعنی نقصان کا باعت ہوتی ہے ۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ ہر مجلس میں اللہ کا ذکر کرتے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص کسی مجلس سے اٹھتے وقت یوں کہے سبحنک اللھم وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک وتواب الیک تو یہ کلمہ اس کی مجلس کی تمام کوتاہیوں کا کفارہ بن جاتا ہے اس کے علاوہ بعض فرماتے ہیں کہ سو کر اٹھنے کے بعد بھی اللہ کا ذکر کرنا چاہئے اور نماز کے لیے قیام کی ابتداء بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید سے ہی ہوتی ہے۔ سبحنک اللھم وبحمدک ۔۔۔ الخ لہٰذا یہ معنی بھی درست ہے ۔ پھر فرمایا ومن الیل فسبحہ اور رات کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید بیان کریں ۔ اس سے تہجد کی نماز بھی مراد لی جاسکتی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد ادا کی جاتی ہے۔۔۔۔ بعض مفسرین نے اسے مغرب اور عشاء کی نمازوں پر محمول کیا ہے کیونکہ یہ بھی رات کے وقت ادا کی جاتی ہیں ۔ ان اوقات میں بھی اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنی چاہئے۔ فرمایا وادبار النجوم اور ستاروں کے پشت پھیر کر چلے جانے کے بعد بھی اللہ کا ذکر کریں ۔ بعض مفسرین اس سے نماز فجر مراد لیتے ہیں کیونکہ اس وقت ستاروں کی روشنی ماند پڑجاتی ہے ۔ گویا وہ جا رہے ہیں ہوتے ہیں ۔ بعض نے اسے سے فجر کی دو سنتیں مراد لی ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید بیان کرنی چاہئے۔ ان دوستوں کی بڑی تاکید آئی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیھا فجر کی یہ دو رکعتیں دنیا اور اس کی ہر چیز سے زیادہ بہتر ہیں ، لہٰذا ان کو خاص اہتمام کے ساتھ ادا کرنا چاہئے۔ اس تسبیح وتحمید سے وہ ذکر بھی مراد لیا جاسکتا ہے جو ہر نماز سے پہلے یا بعد میں سنن ، نوافل یا تسبیح و تہلیل کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ یہ سب چیزیں اس ضمن میں آجاتی ہیں ۔ بہرحال اللہ نے اپنے نبی اور اس کے پیروکاروں کو پیش آمدہ پریشانیوں کا حل صبر اور تسبیح وتحمید کی صورت میں تجویز فرمایا ہے۔ ذکر الٰہی سے دلجمعی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد بڑھتا ہے اور اس کے ساتھ بندے کا تعلق درست رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس قدر تعلق قائم رہے گا ، اسی قدر تکلیف کم محسوس ہوگی۔
Top