Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Najm : 19
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ
: کیا پھر دیکھا تم نے لات کو
وَالْعُزّٰى
: اور عزی کو
کیا دیکھا ہے تم نے لات اور عزیٰ کو
ربطہ آیات سورة کی ابتداء میں اللہ نے ستارے کی قسم اٹھا کر جواب قسم کے طور پر نبوت و رسالت کا ذکر کیا۔ پیغمبر کی ذات مبارکہ میں شک کرنے والوں کا رّد کیا اور فرمایا کہ اللہ کا پیغمبر اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ جو کچھ پیش کرتا ہے وہ وحی الٰہی ہوتی ہے پھر اللہ نے وحی لانے والے مقرب فرشتے جبریل (علیہ السلام) کا تعارف بھی کرایا۔ پھر معراج کے واقعہ میں قرب کا تذکرہ کیا جو اللہ کے نبی کو حاصل ہوا۔ آپ کا سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا جس کے قریب جنت الماویٰ ہے۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ کی کیفیت بھی بیان فرمائی اور پھر اللہ کے پیغمبر کو عالم بالا میں ہونے والے مشاہدہ کی تصدیق فرمائی کہ آپ (علیہ السلام) نے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ نبوت و رسالت ہی کے سلسلے میں اس سے پہلے فرمایا کہ تمہارے صاحب نہ بہکے اور نہ بےراہ ہوئے ، بلکہ وہ تو اللہ کی جانب سے وحی پیش کرتے ہیں اور اللہ نے آپ کو بہت ہی بلند مقام عطا فرمایا ہے۔ وحی لانے والا فرشتہ بھی اللہ کے ہاں بہت مقدس اور قوتوں کا مالک ہے۔ بتوں کی پرستش اب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ردّ فرمایا ہے جو اللہ مالک الملک اور تمام قوتوں کے سرچشمہ کو چھوڑ کر خود ساختہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ آج کے درس میں عربوں کے تین مشہور معبودان باطلہ کا تذکرہ ہے یعنی لات ، منات اور غریٰ جن کی وہ پوجا کرتے تھے اور ان سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کے طالب ہوتے تھے۔ طائف کے قبیلہ ثفیف والے زیادہ تر لات کی پرستش کرتے تھے۔ مدینہ کے اوس اور خزرج اور غنانی قبائل منات کے پجاری تھے جب کہ قریش اور بنی کنانہ غریٰ کو معبود مانتے تھے۔ ان کے علاو ہ اور بھی بہت سے معبود بنا رکھے تھے جو مختلف تصورات پر بنائے گئے تھے۔ کہیں کوئی استھان تھا جہاں پر نذر و نیاز پیش کی جاتی تھی۔ کہیں درختوں کی پوجا ہوتی تھی اور کہیں مختلف شکلوں کے مجسمے بنائے ہوئے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے افرء یتم اللت والعزی ومنوۃ الثالثۃ الاخری کیا تم نے دیکھا ہے لات اور غری کو ، اور تیسرے منات کو جو دوسری طرف ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ کیا تم نے ان کو معبود خیال کیا ہے ؟ یہ تو بالکل غلط تصور ہے جس کے متعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے پروردگار ! واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام ( ابراہیم۔ 35) مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے دور رکھ۔ انھن اضللن کثیراً من الناس ( ابراہیم۔ 26) یہ بت بہت سی مخلوق کی گمراہی کا باعث بنے ہیں۔ مشرکین بتوں کی پوجا تو کرتے ہی تھے بعض نے جعلی کعبے بنا رکھے تھے جن کا طوف کرتے تھے۔ تاریخ ابن ہشام میں ہے کہ اس قسم کا ایک کعبہ بنی طی میں تھا۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اس کعبہ کو گرانے پر مامور کیا اس طرح یمن کے ذی الخلصہ کے مقام پر بھی ایک کعبہ تھا۔ لوگ اس کا بھی طواف کرتے تھے۔ اس کو کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا حضور ﷺ نے حضرت جریر ابن عبداللہ بجلی ؓ کو ڈیڑھ سو آدمیوں کا ایک جتھہ دے کر روانہ فرمایا کہ مجھے راحت پہنچائو۔ فرمایا ، جب میں سنتا ہوں کہ خانہ کعبہ کے مقابلے میں کسی نے مصنوعی کعبہ بنا رکھا ہے تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ حضرت جریر ؓ نے جا کر اس کعبہ کو جلا دیا۔ مشرکین عرب کے بت لات لات کا مادہ لوا سے بھی اور لات یلوت اور یلت سے بھی آتا ہے اگر اس کا لوا کا مادہ ہو تو اس کا معنی جھک جانا ہے یہ معنی بھی درست ہے کیونکہ لوگ اس بت پر اکثر جھکے رہتے تھے کوئی سجدہ کرتا ، کوئی اس کو چومتا چاٹتا اور کوئی نذر و نیاز پیش کرتا تھا اور اس سے مرادیں مانگتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اپنے زمانے میں لات ایک اچھا آدمی تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ شخص ستو اور گھی وغیرہ بیچا کرتا تھا ، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ حاجیوں کو ستو وغیرہ پلایا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے اسے بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ اور اس یوجہ سے اس کا نام لات مشہور ہوگیا۔ پھر جب وہ مر گیا تو لوگوں نے اس کا مجسمہ بنا لیا اور اس کی پوجا شروع کردی۔ اس پر نذرانے پیش ہونے لگے اور اس سے حاجت روائی اور مشکل کشائی ہونے لگی۔ سورة نوح میں اللہ نے اس قوم کے پانچ معبودان باطلہ کا ذکر کیا ہے۔ وہ بھی ایسے ہی نیک لوگ تھے یعنی ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت شیث (علیہ السلام) کے بیٹے تھے ، بڑے پارسا لوگ تھے ، مگر ان کے مرنے کے بعد ان کی پوجا شروع ہوگئی۔ وہ محبت کا دیوتا کہلاتا تھا جیسے ہندوئوں کے ہاں برہماجی مہاراج ہیں ، یہ انسان کی شکل پر بنایا ہوا تھا۔ سواع کا بت عورت کی شکل پر تھا اور اس کو حسن و جمال کی دیوی کہا جاتا تھا۔ ہندوئوں کے ہاں اس قسم کی درگادیوی ہے۔ ہندوئوں میں مال و دولت کے لیے لکشمی دیوی کی پوجا کی جاتی ہے۔ اور مصائب و آلام سے حفاظت کے لیے کلکتہ کی کالی دیوی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ اسی طرح عرب کے مشرکوں میں لات کی پوجا ہوتی تھی۔ غزیٰ غزیٰ عورت کے نام پر عزیز یا اعز کی مونث بنائی ہوئی تھی۔ اس کے اردگرد درخت تھے جن کے نیچے اس دیوی کی پوجا ہوتی تھی۔ مشرکوں کا عقیدہ تھا کہ اس کی دہلیز میں قارور تان ذی لخیر و ذی لشر الھوان دو بوتلیں رکھی ہوئی ہیں۔ ایک خیر کی اور دوسری شر کی۔ لوگ ان بوتلوں سے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے وہاں نذر و نیاز پیش کرتے تھے۔ بعض کو خیروشردونوں میں سے حصہ ملتا تھا خیر و شرکا اس قسم کا تصور یونانیوں میں بھی پایاجاتا تھا ، مگر اللہ نے اس کی تردید فرمائی ۔ غزوہ احد میں جب مسلمانوں پر افتاد پڑی تو ابو سفیان نے ہبل کا نعرہ لگایا تھا اعل ھبل یعنی ہبل کی جے۔ اس نے حضور ﷺ کے جان نثاروں کو آوازیں دیں کہ آج وہ کدھر گئے ؟ پھر خود ہی کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب ختم ہوگئے ہیں۔ ابو سفیان نے اس دن یہ نعرہ بھی لگایا تھا۔ لنا الغزیٰ والا غزیٰ لکم یعنی ہمارا حمایتی غریٰ ہے جبکہ تمہارے ہاں کوئی غریٰ نہیں ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ اس کے جواب میں کہو اللہ مولنا ولا مولیٰ لکم یعنی ہمارا کارساز اللہ تعالیٰ ہے مگر تمہارا کوئی آقا نہیں ہے۔ تم شیطان کے پجاری ہو۔ بہر حال فتح مکہ کے بعد حضور ﷺ نے غریٰ کے تینوں درخت کٹوا کر اس کا خاتمہ کردیا۔ منات اس تیسرے بت منات کے متعلق مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ یہ مشلل کے مقام پر ساحل سمندر کے قریب رکھا ہوا تھا۔ اس کے پجاری زیادہ تر مدینہ کے لوگ تھے اور یہاں آکر وہ عجیب و غریب شرکیہ حرکات کرتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں یہ لوگ اساف اور نائلہ بتوں کے نام پر احرام باندھتے تھے اور ان کے نام کے نعرے مارتے ہوئے صفا و مرہ کا طواف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام کا ظہور ہوا اور حج اور عمرہ کے لیے خانہ کعبہ کے طواف کے ساتھ ساتھ صفا ومروہ کی سعی کا حکم ہوا تو انصار مدینہ نے کچھ حرج محسوس کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم تو ان معبودان باطلہ کی وجہ سے صفا ومروہ کا طواف کرتے تھے ، مگر اب اس کا کیا جواز رہ گیا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ ( البقرہ۔ 158) بیشک صفا اور مروہ تو اللہ کے شعائر ہیں ، لہٰذا حج وعمرہ کرنے والے ان کی سعی بھی کریں۔ بتوں والی خرابیاں تو مشرکین نے بعد میں پیدا کی تھیں ، جن کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ بہرحال منات کی پوجا عمر وبن لحی کے دور سے شروع ہوئی جو حضور ﷺ سے تقریباً پانچ سو سال پہلے گزرا تھا۔ اس سے پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہا السلام) سے لیکر ڈیڑھ ہزار سال تک عرب کے سارے لوگ توحید پرست تھے۔ اس کے بعد بت پرستی کا رواج اس قدر پھیل گیا کہ خود خانہ خدا بھی بتوں سے پُر ہوگیا۔ فتح مکہ کے دن حضور ﷺ نے خانہ کعبہ کے اندر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہا السلام) کے مجسمے پڑے پائے جن کے ہاتھوں میں جوڑے کے تیر پکڑا رکھے تھے۔ آپ نے فرمایا ان مشرکوں پر خدا کی لعنت ہو ، اللہ کے نبیوں تو نے کبھی جوا نہیں کھیلا۔ تاہم آپ نے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کروایا اور پھر اس میں داخل ہوئے۔ جس طرح مشرکوں نے اللہ کے نبیوں کو جوئے جیسی قبیح حرکت میں ملوث کرلیا تھا۔ اسی طرح یہودیوں نے اللہ کے نبیوں پر زنا تک کا الزام لگایا ، العیاذ باللہ۔ بائیبل ایسی بےحیائی کی باتوں سے بھری پڑی ہے۔ اولاد کی کھوئی تقسیم اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ایک اور نظریہ کا ردّ کیا ہے جو وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد کے بارے میں رکھتے تھے۔ مشرک اپنے لیے تو بیٹوں کو پسند کرتے تھے۔ اور گھر میں بیٹی کی پیدائش پر اسے زندہ درگور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے مگر فرشتوں کو خدا کے ساتھ بحیثیت بیٹیاں منسوب کرتے تھے۔ اللہ نے اس بات کا شکوہ کیا الکم الذکر ولہ الانثیٰ کیا تمہارے لیے بیٹے ہیں ، اور اس ( اللہ تعالیٰ ) کے لیے بیٹیاں ہیں فرمایا تلک اذًا قسمۃ ضیزٰی یہ کتنی کھوٹی اور غلط تقسیم ہے جو تم نے ازخود کر رکھی ہے کہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو اور خدا تعالیٰ کے لیے بیٹیاں منسوب کرتے ہو۔ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ تو اولاد سے ہی پاک ہے چہ جائیکہ اس کی طرف بیٹیوں کی نسبت کی جائے۔ ان ھی الا اسماء سمیتمو ھا انتم واٰبائوکم یہ تو محض نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے اباو اجداد نے خود بخود رکھ لیے ہیں ، ان کے تحت کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جن لوگوں کے تصور پر تم نے یہ مجسمے بنا رکھے ہیں ، ان کے پاس تو کوئی اختیار ہی نہیں ہے جو تمہاری فریاد رسی اور داد رسی کرسکیں۔ تم خواہ مخواہ ان پر جھکتے جاتے ہو ، ان کی پوجا پاٹ کرتے ہو اور ان سے مرادیں مانگتے ہو وہ تو کسی چیز کے مالک ہی نہیں ہیں ، تمہاری کیا مدد کریں گے ؟ اللہ نے سورة النحل میں فرمایا ہے افمن یخلق کمن لا یخلق ( آیت۔ 17) بھلا کیا ہر چیز کا خالق اور مالک اس جیسا ہے جو کچھ پیدا نہیں کرسکتے ؟ یہ تو خود اللہ کے پیدا کردہ ہیں اور اللہ نے انہیں کوئی اختیار بھی نہیں دیا۔ پھر تم ان کی کیسے پرستش رتے ہو ، اور یہ کیسے تمہاری مدد کرتے ہیں ؟ ان میں سے بعض تو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے تراش رکھے ہیں۔ بھلا ان خود ساختہ معبودوں کو الوہیت کا درجہ دینے کا کیا جواز ہے ؟ فرمایا یہ تو محض نام ہی نام ہیں مام انزل اللہ بھا من سلطنٍ یعنی اللہ نے تو ان کے ح ق میں کوئی سند نہیں اتاری جس کی بناء پر تم ان کے گرویدہ ہو رہے ہو۔ مگر مشرک بھی اپنے عقیدے میں بڑے پختہ تھے۔ وہ کہتے تھے تلک الغرانیق العلیٰ ان شفاعتھن لترتجیٰ یہ بہت بڑی ہستیاں ہیں اور ان کی سفارش ضرور کارگر ہوگی کہتے تھے خدا تعالیٰ راضی ہو یا ناراض یہ ہستیاں ہمیں عذاب الٰہی سے ضرور بچالیں گی۔ اس طرح وہ لوگ گویا جبری سفارش کے قائل تھے جس کی اللہ نے قرآن میں متعدد بار نفی کی ہے ہرایرے ، غیرے ، مشرک ، منافق کیلئے تو سفارش مفید ثابت نہیں ہوسکتی ، بلکہ سفارش تو اس کے حق میں مفید ہوگی جس کا عقیدہ صحیح ہوگا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے حق میں سفارش کے لیے اجازت بھی دی ہوگی۔ قوم نوح کے پانچ معبودانِ باطلہ کا ذکر میں نے پہلے کیا ہے ، اور ان میں سے دو اور سواع کی تاریخی حیثیت بھی عرض کی ہے۔ باقی تین بتوں میں ایک یغوث تھا۔ یہ لفظ غوث کے مادہ سے ہے جس کا معنی فریاد رسی ہوتا ہے۔ مشرک لوگ اپنی مشکل کشائی کے لیے اس بت کی پوجا کرتے تھے اور اس پر چڑھاوے چڑھاتے تھے۔ یہ شیر کی شکل میں بنایا جاتا تھا۔ یعوق انسان کے لیے بمنزلہ مال کے ہے۔ مال و دولت کے حصول کے لیے اس بت کی پوجا ہوتی تھی۔ یعوق کا معنی تکلیف کو دور کرنے والا بھی ہوتا ہے۔ یہ گھوڑے کی شکل میں بنایا جاتا تھا۔ مشرکین کا تصور یہ تھا کہ یہ تیز رفتار ہونے کی وجہ سے پکارنے پر مدد کے لیے جلد پہنچ جاتا ہے۔ پانچواں معبود تسر نامی تھا جو کہ گدھ کی شکل پر بنایاجا تا تھا۔ گدھ بھی بڑا طاقتور اور تیز رفتار پرندہ ہے اور جہاں خوراک نظر آئے فوراً پہنچ جاتا ہے۔ مشرک اس کو بھی مشکل کشائی کے لیے پکارتے تھے۔ ہمارے دور میں لوگ ” یا علی مشکل کشا “ اور ” یا پیردستگیر مدد “ کے نعرے لگاتے ہیں جو کہ قوم نوح کے مشرکوں سے کم نہیں۔ نزولِ قرآن کے زمانہ کے مشرکوں میں بھی ایسے تصورات پائے جاتے تھے اور وہ غیر اللہ سے مافوق الاسباب اعانت طلب کرتے تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس کچھ اختیار نہیں۔ فرشتے ، نبی ، ولی ، جن سب اس کے عاجز بندے ہیں۔ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ کسی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے کہ لوگوں کی مشکل کشائی کرے۔ عیسائیوں کا یہ عقیدہ بالکل باطل ہے کہ مسیح (علیہ السلام) نے جان کا کفارہ پیش کرکے تمام عیسائیوں کو عذاب الٰہی سے بچالیا۔ یہ ساری غلط باتیں اور غلط نظریات عربوں میں بھی رائج تھے۔ جن کی اللہ نے تردید فرمائی ہے۔ محض گمان کا اتباع اللہ نے فرمایا کہ معبودانِ باطلہ کے متعلق تمہارے یہ خود ساختہ نام ہی نام ہیں جن کی صداقت کی کوئی سند نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے ان یتبعون الا الظن وما تھویٰ الانفس یہ لوگ تو محض گمان کا اتباع کر رہے ہیں اور خواہشات نفسانی پر چل رہے ہیں ، وگرنہ ان معبود ان باطلہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی ان کو کچھ اختیار حاصل ہے۔ فرمایا حقیقت یہ ہے ولقد جاء ھم من ربھم الھدیٰ کہ ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔ اللہ کا آخری نبی اور اس کی آخری کتاب آچکی ہے جو منبع رشد و ہدایت ہے ان دو چیزوں کی موجودگی میں ان بتوں کی کیا حیثیت ہے ؟ ان کو چاہئے تھا کہ اس ہدایت کو قبول کرکے دائمی فلاح پا لیتے مگر وہ اپنے پرانے معبودوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور انہی سے اپنی مشکل کشائی اور حاجت روائی چاہتے ہیں۔ فرمایا ام للانسان ما تمنیٰ کیا یہ ضروری ہے کہ انسان کو وہی کچھ مل جائے جس کی وہ تمنا کرے ؟ فرمایا ہرگز نہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب کوئی انسان خواہش کرتا ہے تو اس کو دیکھناچاہئے کہ وہ کیا چیز طلب کر رہا ہے اور کیا وہ اس کے حق میں بہتر ہے یا نقصان دہ ؟ انسان نہیں جانتا کہ اس کے لیے کون سی خواہش مفید ہے۔ اگر غلط خواہش کرے گا تو ممکن ہے کہ اس کے لیے وہی لکھی جائے۔ اور پھر وہ نقصان میں پڑجائے۔ اس لیے انسان کو ہمیشہ اچھی چیز کی خواہش کرنی چاہئے۔ اللہ نے انسان کو مکلف بنایا ہے ، وہ اپنی ہر کارکردگی کا جواب دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے ذرے ذرے کا حساب لے گا ، کیونکہ فللہ الاخرۃ والاولیٰ آخرت کا اور اس دنیا کا سارا اختیار بھی اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ اس نے یہ اختیار مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا ، لہٰذا انسانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کریں۔
Top