Mualim-ul-Irfan - An-Najm : 19
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو وَالْعُزّٰى : اور عزی کو
کیا دیکھا ہے تم نے لات اور عزیٰ کو
ربطہ آیات سورة کی ابتداء میں اللہ نے ستارے کی قسم اٹھا کر جواب قسم کے طور پر نبوت و رسالت کا ذکر کیا۔ پیغمبر کی ذات مبارکہ میں شک کرنے والوں کا رّد کیا اور فرمایا کہ اللہ کا پیغمبر اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ جو کچھ پیش کرتا ہے وہ وحی الٰہی ہوتی ہے پھر اللہ نے وحی لانے والے مقرب فرشتے جبریل (علیہ السلام) کا تعارف بھی کرایا۔ پھر معراج کے واقعہ میں قرب کا تذکرہ کیا جو اللہ کے نبی کو حاصل ہوا۔ آپ کا سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا جس کے قریب جنت الماویٰ ہے۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ کی کیفیت بھی بیان فرمائی اور پھر اللہ کے پیغمبر کو عالم بالا میں ہونے والے مشاہدہ کی تصدیق فرمائی کہ آپ (علیہ السلام) نے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ نبوت و رسالت ہی کے سلسلے میں اس سے پہلے فرمایا کہ تمہارے صاحب نہ بہکے اور نہ بےراہ ہوئے ، بلکہ وہ تو اللہ کی جانب سے وحی پیش کرتے ہیں اور اللہ نے آپ کو بہت ہی بلند مقام عطا فرمایا ہے۔ وحی لانے والا فرشتہ بھی اللہ کے ہاں بہت مقدس اور قوتوں کا مالک ہے۔ بتوں کی پرستش اب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ردّ فرمایا ہے جو اللہ مالک الملک اور تمام قوتوں کے سرچشمہ کو چھوڑ کر خود ساختہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ آج کے درس میں عربوں کے تین مشہور معبودان باطلہ کا تذکرہ ہے یعنی لات ، منات اور غریٰ جن کی وہ پوجا کرتے تھے اور ان سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کے طالب ہوتے تھے۔ طائف کے قبیلہ ثفیف والے زیادہ تر لات کی پرستش کرتے تھے۔ مدینہ کے اوس اور خزرج اور غنانی قبائل منات کے پجاری تھے جب کہ قریش اور بنی کنانہ غریٰ کو معبود مانتے تھے۔ ان کے علاو ہ اور بھی بہت سے معبود بنا رکھے تھے جو مختلف تصورات پر بنائے گئے تھے۔ کہیں کوئی استھان تھا جہاں پر نذر و نیاز پیش کی جاتی تھی۔ کہیں درختوں کی پوجا ہوتی تھی اور کہیں مختلف شکلوں کے مجسمے بنائے ہوئے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے افرء یتم اللت والعزی ومنوۃ الثالثۃ الاخری کیا تم نے دیکھا ہے لات اور غری کو ، اور تیسرے منات کو جو دوسری طرف ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ کیا تم نے ان کو معبود خیال کیا ہے ؟ یہ تو بالکل غلط تصور ہے جس کے متعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے پروردگار ! واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام ( ابراہیم۔ 35) مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے دور رکھ۔ انھن اضللن کثیراً من الناس ( ابراہیم۔ 26) یہ بت بہت سی مخلوق کی گمراہی کا باعث بنے ہیں۔ مشرکین بتوں کی پوجا تو کرتے ہی تھے بعض نے جعلی کعبے بنا رکھے تھے جن کا طوف کرتے تھے۔ تاریخ ابن ہشام میں ہے کہ اس قسم کا ایک کعبہ بنی طی میں تھا۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اس کعبہ کو گرانے پر مامور کیا اس طرح یمن کے ذی الخلصہ کے مقام پر بھی ایک کعبہ تھا۔ لوگ اس کا بھی طواف کرتے تھے۔ اس کو کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا حضور ﷺ نے حضرت جریر ابن عبداللہ بجلی ؓ کو ڈیڑھ سو آدمیوں کا ایک جتھہ دے کر روانہ فرمایا کہ مجھے راحت پہنچائو۔ فرمایا ، جب میں سنتا ہوں کہ خانہ کعبہ کے مقابلے میں کسی نے مصنوعی کعبہ بنا رکھا ہے تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ حضرت جریر ؓ نے جا کر اس کعبہ کو جلا دیا۔ مشرکین عرب کے بت لات لات کا مادہ لوا سے بھی اور لات یلوت اور یلت سے بھی آتا ہے اگر اس کا لوا کا مادہ ہو تو اس کا معنی جھک جانا ہے یہ معنی بھی درست ہے کیونکہ لوگ اس بت پر اکثر جھکے رہتے تھے کوئی سجدہ کرتا ، کوئی اس کو چومتا چاٹتا اور کوئی نذر و نیاز پیش کرتا تھا اور اس سے مرادیں مانگتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اپنے زمانے میں لات ایک اچھا آدمی تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ شخص ستو اور گھی وغیرہ بیچا کرتا تھا ، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ حاجیوں کو ستو وغیرہ پلایا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے اسے بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ اور اس یوجہ سے اس کا نام لات مشہور ہوگیا۔ پھر جب وہ مر گیا تو لوگوں نے اس کا مجسمہ بنا لیا اور اس کی پوجا شروع کردی۔ اس پر نذرانے پیش ہونے لگے اور اس سے حاجت روائی اور مشکل کشائی ہونے لگی۔ سورة نوح میں اللہ نے اس قوم کے پانچ معبودان باطلہ کا ذکر کیا ہے۔ وہ بھی ایسے ہی نیک لوگ تھے یعنی ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت شیث (علیہ السلام) کے بیٹے تھے ، بڑے پارسا لوگ تھے ، مگر ان کے مرنے کے بعد ان کی پوجا شروع ہوگئی۔ وہ محبت کا دیوتا کہلاتا تھا جیسے ہندوئوں کے ہاں برہماجی مہاراج ہیں ، یہ انسان کی شکل پر بنایا ہوا تھا۔ سواع کا بت عورت کی شکل پر تھا اور اس کو حسن و جمال کی دیوی کہا جاتا تھا۔ ہندوئوں کے ہاں اس قسم کی درگادیوی ہے۔ ہندوئوں میں مال و دولت کے لیے لکشمی دیوی کی پوجا کی جاتی ہے۔ اور مصائب و آلام سے حفاظت کے لیے کلکتہ کی کالی دیوی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ اسی طرح عرب کے مشرکوں میں لات کی پوجا ہوتی تھی۔ غزیٰ غزیٰ عورت کے نام پر عزیز یا اعز کی مونث بنائی ہوئی تھی۔ اس کے اردگرد درخت تھے جن کے نیچے اس دیوی کی پوجا ہوتی تھی۔ مشرکوں کا عقیدہ تھا کہ اس کی دہلیز میں قارور تان ذی لخیر و ذی لشر الھوان دو بوتلیں رکھی ہوئی ہیں۔ ایک خیر کی اور دوسری شر کی۔ لوگ ان بوتلوں سے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے وہاں نذر و نیاز پیش کرتے تھے۔ بعض کو خیروشردونوں میں سے حصہ ملتا تھا خیر و شرکا اس قسم کا تصور یونانیوں میں بھی پایاجاتا تھا ، مگر اللہ نے اس کی تردید فرمائی ۔ غزوہ احد میں جب مسلمانوں پر افتاد پڑی تو ابو سفیان نے ہبل کا نعرہ لگایا تھا اعل ھبل یعنی ہبل کی جے۔ اس نے حضور ﷺ کے جان نثاروں کو آوازیں دیں کہ آج وہ کدھر گئے ؟ پھر خود ہی کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب ختم ہوگئے ہیں۔ ابو سفیان نے اس دن یہ نعرہ بھی لگایا تھا۔ لنا الغزیٰ والا غزیٰ لکم یعنی ہمارا حمایتی غریٰ ہے جبکہ تمہارے ہاں کوئی غریٰ نہیں ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ اس کے جواب میں کہو اللہ مولنا ولا مولیٰ لکم یعنی ہمارا کارساز اللہ تعالیٰ ہے مگر تمہارا کوئی آقا نہیں ہے۔ تم شیطان کے پجاری ہو۔ بہر حال فتح مکہ کے بعد حضور ﷺ نے غریٰ کے تینوں درخت کٹوا کر اس کا خاتمہ کردیا۔ منات اس تیسرے بت منات کے متعلق مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ یہ مشلل کے مقام پر ساحل سمندر کے قریب رکھا ہوا تھا۔ اس کے پجاری زیادہ تر مدینہ کے لوگ تھے اور یہاں آکر وہ عجیب و غریب شرکیہ حرکات کرتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں یہ لوگ اساف اور نائلہ بتوں کے نام پر احرام باندھتے تھے اور ان کے نام کے نعرے مارتے ہوئے صفا و مرہ کا طواف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام کا ظہور ہوا اور حج اور عمرہ کے لیے خانہ کعبہ کے طواف کے ساتھ ساتھ صفا ومروہ کی سعی کا حکم ہوا تو انصار مدینہ نے کچھ حرج محسوس کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم تو ان معبودان باطلہ کی وجہ سے صفا ومروہ کا طواف کرتے تھے ، مگر اب اس کا کیا جواز رہ گیا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ ( البقرہ۔ 158) بیشک صفا اور مروہ تو اللہ کے شعائر ہیں ، لہٰذا حج وعمرہ کرنے والے ان کی سعی بھی کریں۔ بتوں والی خرابیاں تو مشرکین نے بعد میں پیدا کی تھیں ، جن کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ بہرحال منات کی پوجا عمر وبن لحی کے دور سے شروع ہوئی جو حضور ﷺ سے تقریباً پانچ سو سال پہلے گزرا تھا۔ اس سے پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہا السلام) سے لیکر ڈیڑھ ہزار سال تک عرب کے سارے لوگ توحید پرست تھے۔ اس کے بعد بت پرستی کا رواج اس قدر پھیل گیا کہ خود خانہ خدا بھی بتوں سے پُر ہوگیا۔ فتح مکہ کے دن حضور ﷺ نے خانہ کعبہ کے اندر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہا السلام) کے مجسمے پڑے پائے جن کے ہاتھوں میں جوڑے کے تیر پکڑا رکھے تھے۔ آپ نے فرمایا ان مشرکوں پر خدا کی لعنت ہو ، اللہ کے نبیوں تو نے کبھی جوا نہیں کھیلا۔ تاہم آپ نے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کروایا اور پھر اس میں داخل ہوئے۔ جس طرح مشرکوں نے اللہ کے نبیوں کو جوئے جیسی قبیح حرکت میں ملوث کرلیا تھا۔ اسی طرح یہودیوں نے اللہ کے نبیوں پر زنا تک کا الزام لگایا ، العیاذ باللہ۔ بائیبل ایسی بےحیائی کی باتوں سے بھری پڑی ہے۔ اولاد کی کھوئی تقسیم اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ایک اور نظریہ کا ردّ کیا ہے جو وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد کے بارے میں رکھتے تھے۔ مشرک اپنے لیے تو بیٹوں کو پسند کرتے تھے۔ اور گھر میں بیٹی کی پیدائش پر اسے زندہ درگور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے مگر فرشتوں کو خدا کے ساتھ بحیثیت بیٹیاں منسوب کرتے تھے۔ اللہ نے اس بات کا شکوہ کیا الکم الذکر ولہ الانثیٰ کیا تمہارے لیے بیٹے ہیں ، اور اس ( اللہ تعالیٰ ) کے لیے بیٹیاں ہیں فرمایا تلک اذًا قسمۃ ضیزٰی یہ کتنی کھوٹی اور غلط تقسیم ہے جو تم نے ازخود کر رکھی ہے کہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو اور خدا تعالیٰ کے لیے بیٹیاں منسوب کرتے ہو۔ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ تو اولاد سے ہی پاک ہے چہ جائیکہ اس کی طرف بیٹیوں کی نسبت کی جائے۔ ان ھی الا اسماء سمیتمو ھا انتم واٰبائوکم یہ تو محض نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے اباو اجداد نے خود بخود رکھ لیے ہیں ، ان کے تحت کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جن لوگوں کے تصور پر تم نے یہ مجسمے بنا رکھے ہیں ، ان کے پاس تو کوئی اختیار ہی نہیں ہے جو تمہاری فریاد رسی اور داد رسی کرسکیں۔ تم خواہ مخواہ ان پر جھکتے جاتے ہو ، ان کی پوجا پاٹ کرتے ہو اور ان سے مرادیں مانگتے ہو وہ تو کسی چیز کے مالک ہی نہیں ہیں ، تمہاری کیا مدد کریں گے ؟ اللہ نے سورة النحل میں فرمایا ہے افمن یخلق کمن لا یخلق ( آیت۔ 17) بھلا کیا ہر چیز کا خالق اور مالک اس جیسا ہے جو کچھ پیدا نہیں کرسکتے ؟ یہ تو خود اللہ کے پیدا کردہ ہیں اور اللہ نے انہیں کوئی اختیار بھی نہیں دیا۔ پھر تم ان کی کیسے پرستش رتے ہو ، اور یہ کیسے تمہاری مدد کرتے ہیں ؟ ان میں سے بعض تو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے تراش رکھے ہیں۔ بھلا ان خود ساختہ معبودوں کو الوہیت کا درجہ دینے کا کیا جواز ہے ؟ فرمایا یہ تو محض نام ہی نام ہیں مام انزل اللہ بھا من سلطنٍ یعنی اللہ نے تو ان کے ح ق میں کوئی سند نہیں اتاری جس کی بناء پر تم ان کے گرویدہ ہو رہے ہو۔ مگر مشرک بھی اپنے عقیدے میں بڑے پختہ تھے۔ وہ کہتے تھے تلک الغرانیق العلیٰ ان شفاعتھن لترتجیٰ یہ بہت بڑی ہستیاں ہیں اور ان کی سفارش ضرور کارگر ہوگی کہتے تھے خدا تعالیٰ راضی ہو یا ناراض یہ ہستیاں ہمیں عذاب الٰہی سے ضرور بچالیں گی۔ اس طرح وہ لوگ گویا جبری سفارش کے قائل تھے جس کی اللہ نے قرآن میں متعدد بار نفی کی ہے ہرایرے ، غیرے ، مشرک ، منافق کیلئے تو سفارش مفید ثابت نہیں ہوسکتی ، بلکہ سفارش تو اس کے حق میں مفید ہوگی جس کا عقیدہ صحیح ہوگا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے حق میں سفارش کے لیے اجازت بھی دی ہوگی۔ قوم نوح کے پانچ معبودانِ باطلہ کا ذکر میں نے پہلے کیا ہے ، اور ان میں سے دو اور سواع کی تاریخی حیثیت بھی عرض کی ہے۔ باقی تین بتوں میں ایک یغوث تھا۔ یہ لفظ غوث کے مادہ سے ہے جس کا معنی فریاد رسی ہوتا ہے۔ مشرک لوگ اپنی مشکل کشائی کے لیے اس بت کی پوجا کرتے تھے اور اس پر چڑھاوے چڑھاتے تھے۔ یہ شیر کی شکل میں بنایا جاتا تھا۔ یعوق انسان کے لیے بمنزلہ مال کے ہے۔ مال و دولت کے حصول کے لیے اس بت کی پوجا ہوتی تھی۔ یعوق کا معنی تکلیف کو دور کرنے والا بھی ہوتا ہے۔ یہ گھوڑے کی شکل میں بنایا جاتا تھا۔ مشرکین کا تصور یہ تھا کہ یہ تیز رفتار ہونے کی وجہ سے پکارنے پر مدد کے لیے جلد پہنچ جاتا ہے۔ پانچواں معبود تسر نامی تھا جو کہ گدھ کی شکل پر بنایاجا تا تھا۔ گدھ بھی بڑا طاقتور اور تیز رفتار پرندہ ہے اور جہاں خوراک نظر آئے فوراً پہنچ جاتا ہے۔ مشرک اس کو بھی مشکل کشائی کے لیے پکارتے تھے۔ ہمارے دور میں لوگ ” یا علی مشکل کشا “ اور ” یا پیردستگیر مدد “ کے نعرے لگاتے ہیں جو کہ قوم نوح کے مشرکوں سے کم نہیں۔ نزولِ قرآن کے زمانہ کے مشرکوں میں بھی ایسے تصورات پائے جاتے تھے اور وہ غیر اللہ سے مافوق الاسباب اعانت طلب کرتے تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس کچھ اختیار نہیں۔ فرشتے ، نبی ، ولی ، جن سب اس کے عاجز بندے ہیں۔ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ کسی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے کہ لوگوں کی مشکل کشائی کرے۔ عیسائیوں کا یہ عقیدہ بالکل باطل ہے کہ مسیح (علیہ السلام) نے جان کا کفارہ پیش کرکے تمام عیسائیوں کو عذاب الٰہی سے بچالیا۔ یہ ساری غلط باتیں اور غلط نظریات عربوں میں بھی رائج تھے۔ جن کی اللہ نے تردید فرمائی ہے۔ محض گمان کا اتباع اللہ نے فرمایا کہ معبودانِ باطلہ کے متعلق تمہارے یہ خود ساختہ نام ہی نام ہیں جن کی صداقت کی کوئی سند نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے ان یتبعون الا الظن وما تھویٰ الانفس یہ لوگ تو محض گمان کا اتباع کر رہے ہیں اور خواہشات نفسانی پر چل رہے ہیں ، وگرنہ ان معبود ان باطلہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی ان کو کچھ اختیار حاصل ہے۔ فرمایا حقیقت یہ ہے ولقد جاء ھم من ربھم الھدیٰ کہ ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔ اللہ کا آخری نبی اور اس کی آخری کتاب آچکی ہے جو منبع رشد و ہدایت ہے ان دو چیزوں کی موجودگی میں ان بتوں کی کیا حیثیت ہے ؟ ان کو چاہئے تھا کہ اس ہدایت کو قبول کرکے دائمی فلاح پا لیتے مگر وہ اپنے پرانے معبودوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور انہی سے اپنی مشکل کشائی اور حاجت روائی چاہتے ہیں۔ فرمایا ام للانسان ما تمنیٰ کیا یہ ضروری ہے کہ انسان کو وہی کچھ مل جائے جس کی وہ تمنا کرے ؟ فرمایا ہرگز نہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب کوئی انسان خواہش کرتا ہے تو اس کو دیکھناچاہئے کہ وہ کیا چیز طلب کر رہا ہے اور کیا وہ اس کے حق میں بہتر ہے یا نقصان دہ ؟ انسان نہیں جانتا کہ اس کے لیے کون سی خواہش مفید ہے۔ اگر غلط خواہش کرے گا تو ممکن ہے کہ اس کے لیے وہی لکھی جائے۔ اور پھر وہ نقصان میں پڑجائے۔ اس لیے انسان کو ہمیشہ اچھی چیز کی خواہش کرنی چاہئے۔ اللہ نے انسان کو مکلف بنایا ہے ، وہ اپنی ہر کارکردگی کا جواب دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے ذرے ذرے کا حساب لے گا ، کیونکہ فللہ الاخرۃ والاولیٰ آخرت کا اور اس دنیا کا سارا اختیار بھی اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ اس نے یہ اختیار مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا ، لہٰذا انسانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کریں۔
Top