Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 151
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْ١ۚ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں تَعَالَوْا : آؤ اَتْلُ : میں پڑھ کر سناؤں مَا حَرَّمَ : جو حرام کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب عَلَيْكُمْ : تم پر اَلَّا تُشْرِكُوْا : کہ نہ شریک ٹھہراؤ بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کوئی وَّبِالْوَالِدَيْنِ : اور والدین کے ساتھ اِحْسَانًا : نیک سلوک وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد مِّنْ : سے اِمْلَاقٍ : مفلس نَحْنُ : ہم نَرْزُقُكُمْ : تمہیں رزق دیتے ہیں وَاِيَّاهُمْ : اور ان کو وَلَا تَقْرَبُوا : اور قریب نہ جاؤ تم الْفَوَاحِشَ : بےحیائی (جمع) مَا ظَهَرَ : جو ظاہر ہو مِنْهَا : اس سے (ان میں) وَمَا : اور جو بَطَنَ : چھپی ہو وَلَا تَقْتُلُوا : اور نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : جو۔ جس حَرَّمَ : حرمت دی اللّٰهُ : اللہ اِلَّا بالْحَقِّ : مگر حق پر ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ : تمہیں حکم دیا ہے بِهٖ : اس کا لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لو (سمجھو)
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجیے آؤ میں پڑھ کر سناؤں تمہیں وہ چیزیں جو حرام قرار دی ہیں تمہارے پروردگار نے تم پر وہ یہ ہیں کہ تم نہ شریک ٹھہراؤ اس کے ساتھ کسی چیز کو ، اور والدین کے ساتھ احسان کرو ، اور نہ قتل کرو اپنی اولادوں کو مفلسی سے ، ہم تمہیں روزی دیتے ہیں اور انہیں ، اور نہ قریب جاؤ بےحیائی کی باتوں کے جو ظاہر ہوں ان میں سے ، اور جو پوشیدہ ہوں اور نہ قتل کرو اس جان کو جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، مگر حق کے ساتھ ، ان باتوں کا اللہ نے تاکیدی حکم دیا ہے تم کو ، تاکہ تم سمجھ جاؤ۔
ربط آیات : گزشتہ دروس میں اس بات کا ذکر ہوچکا ہے کہ مشرکین نے از خود بعض چیزوں کو حلال اور بعض کو حرام قرار دے رکھا تھا ، ان میں کھیتی کی پیداوار ، باغات کے پھل اور بعض مویشی شامل تھے ، یہ لوگ مشرکانہ طریقے پر غیر اللہ کی نیاز نکالتے تھے اور پھر اس کو کھانے کے لیے بعض لوگوں کو نامزد کردیتے تھے ، جن کے علاوہ انہیں کوئی نہیں کھا سکتا تھا ، بسا اوقات ایک قسم کی چیز کو مردوں پر حلال اور عورتوں پر حرام قرار دیتے تھے ، چناچہ اللہ نے ماکولات میں سے چار چیزوں کو قطعی طور پر حرام کردیا یعنی مردار ، خون ، خنزیر کا گوشت اور نیاز لغیر اللہ ، اب اگلی تین آیات میں دس محرمات کا ذکر آرہا ہے ۔ ملت ابراہیمی کے یہ دس محرمات ایسے ہیں جن پر قرآن کریم اور تورات دونوں متفق ہیں۔ چناچہ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ صحابہ کرام میں سے بعض فرماتے ہیں کہ جو آدمی حضرت محمد کے مہر شدہ صحیفے کو پڑھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ قرآن پاک کی یہ تین آیتیں پڑھ لے ، یعنی قل تعالوا سے لے کر لعلکم تتقون تک۔ یہ تین آیات ایسا اٹل صحیفہ ہیں جس میں ملت ابراہیمی کے دائمی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ نے قرآن پاک میں مختلف ادوار کی باتیں بیان فرمائی ہیں۔ اگلی سورة اعراف میں انسان کے مادی دور سے پہلے والے روحانی دور کا تذکرہ ہے واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم ، جب نسل انسانی ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی تو اللہ نے حضرت آدم کی پشت سے تمام ارواح کو نکال کر ان سے عہد لیا تھا کہ بتاؤ میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ تو سب نے اقرار کیا تھا ، پھر اللہ نے سورة الحاقہ میں یوم حشر کی تفصیلات بیان کی ہیں ، اور آج کی آیت میں ان باتوں کا تذکرہ ہے جن کی ضرورت اس دنیا میں ہے۔ گویا مذکورہ تین آیات میں موجودہ دور کی بات کی گئی ہے ۔ حضور ﷺ کا طریقہ تبلیغ : قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اپنی تفسیر مظہری میں حضرت علی سے یہ روایت بیان کی ہے کہ جب قریش کی مخالفت حد سے بڑھ گئی تو حضور ﷺ نے اپنی دعوت دوسرے قبائل کے سامنے پیش کرنا شروع شروع کردی۔ خاص طور پر حج کے موقع پر جب لوگوں کی کثیر تعداد جمع ہوتی تو آپ ان کے سامنے دین کی تعلیمات پیش کرتے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ آپ دوسرے قبائل کے لوگوں سے فرماتے اے لوگو ! تم میں سے کوئی ہے جو میرا حمایتی بن جائے تاکہ میں اللہ کا پیغام دوسروں تک پہنچا سکوں ، فرماتے تھے ان قریشا قد منعونی ان ابلغ رسالتہ ، قریش نے تو مجھے خدا کا پیغام پہنچانے سے روک دیا ہے اب اس معاملہ میں کون میری مدد کرنے کو تیار ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایسے ہی ایک مقع پر میں اور حضرت ابوبکر صدیق موجود تھے۔ منی کے مقام پر بعض قبائل سے ملاقات ہوئی ، آپ نے قبیلہ کے سرداران مفروق اور ہانی سے تبلیغ اسلام کی بات کی تو مفروق کہنے لگا ، اے قریش کے بھائی ! آپ کیا چیز پیش کرتے ہیں ، اس پر حضور ﷺ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی تو مفروق کہنے لگا کہ اس آیت کریمہ میں ایسی بنیادی اور اخلاقی تعلیم ہے کہ ہر سلیم الفطرت انسان اسے ماننے پر مجبور ہے ، اس نے تسلیم کیا کہ قریش آپ پر جھوٹ باندھتے ہیں ، حالانکہ آپ کا قول مکارم اخلاق کا اعلی نمونہ ہے ، آپ نے اس سے مزید کچھ باتیں کیں اور فرمایا اگر اس پروگرام کو مان لو تو وہ وقت دور نہیں جب ساری دنیا کی قومیں تمہاری غلام بن جائیں گی حتی کہ قیصر و کسری بھی تمہارے ماتحت ہوجائیں گے ، اس پر دونوں اشخاص کو سخت تعجب ہوا کہ قیصر و کسری جیسی عظیم طاقتیں بھی مغلوب ہوسکتی ہیں۔ بہرحال حضور ﷺ نے دین اسلام کی حقانیت ظاہر کرنے کے لیے یہی آیت زیر درس اس مجلس میں پڑھ کر سنائی۔ دس حقیقی محرمات : ارشاد ہوتا ہے قل تعالوا ۔ اے پیغبر ! آپ کہہ دیں آؤ، اتل ما حرم ربکم علیکم ، میں تمہیں پڑھ کر سناؤں وہ چیز جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کی ہے۔ تعال اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں استعمال ہوتا ہے یعنی ادھر میری طرف آکر میری بات سنو۔ اس کے علاوہ یہ لفظ مطلقا خطاب کے موقع پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ، جیسے یہاں فرمایا ہے کہ آؤ میں تمہیں اللہ کی حرام کردہ اشیا پڑھ کر سناؤں ، مفسرین فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا جملے کے آخر میں لفظ و اوجب محذوف ہے اور پورا مطلب یہ ہے کہ آؤ میں تمہیں وہ چیزیں سناؤں جن کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور جن پر عملدر آمد کو ضروری قرار دیا ہے۔ لفظ تلاوت دو معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ تلاوت کا ایک مطلب یہ ہے کہ کلام الہی کو اجر وثواب کی خاطر پڑھا جائے اور دوسرا یہ کہ دوسرے لوگوں کو تعلیم دی جائے۔ تو یہاں پر اتل ان دونوں معانی کے لیے آیا ہے یہاں آیات الہی کی تلاوت بھی ہے اور لوگوں کو حلت و حرمت کی تعلیم دینا بھی مقصود ہے مشرکین نے بحیرہ ، سائبہ وغیرہ بعض لوگوں پر حرام قرار دے رکھتے تھے ۔ کسی جانور کا گوشت نہیں کھاتے تھے اور کسی کا دودھ نہیں پیتے تھے ، بعض جانوروں پر سواری کرنا حرام کرلیا تھا ، تو اللہ نے اس آیت کریمہ کے ذریعے اپنے نبی معظم کی زبان سے کہلوا لیا کہ جن چیزوں کو تم نے اپنی خود ساختہ شریعت کے ذریعے حرام کر رکھا ہے وہ حرام نہیں ہیں بلکہ یہ چیزیں حرام ہیں جو اللہ یہاں بیان فرما رہے ہیں۔ 1۔ الاشراک باللہ : پہلی حرام چیز یہ ہے کہ الا تشرکوا بہ شیئا ، کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، نہ ذات میں شریک ٹھہراؤ نہ صفات میں ، نہ عبادت میں اور نہ استعانت میں ، غرضیکہ کسی بھی چیز کو اللہ کا شریک نہ بناؤ۔ شرک کو اللہ نے سب سے پہلے حرام قرار دیا ہے ، توحید باری تعالیٰ ملت ابراہیمی کا اٹل اصول ہے اور تمام کتب سماویہ اس پر متفق ہیں شرک کو اللہ نے اکبر الکبائر فرمایا ہے۔ سورة لقمان میں ہے ان الشرک لظلم عظیم ، یعنی سب سے بڑا ظلم اشراک باللہ ہے ، حضرت مسیح (علیہ السلام) نے بھی اپنی امت کو یہی تعلیم دی ” انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ وماویہ النارُ “ (المائدہ) جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا ، اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ میں ہوگا۔ ذات وصفات میں شرک تو شرک جلی کہلاتا ہے اور ریاکاری شرک خفی ہے۔ اگرچہ یہ شرک کفر کی حدتک تو نہیں پہنچتا مگر ریا کاری سے انسان کے اعمال ضرور ضائع ہوجاتے ہیں ۔ بہر حال اللہ تعالٰ نے ہر قسم کے شرک کو حرام قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری چیز کے متعلق فرمایا ” وبالوالدین اھانا “ اور والدین کے ساتھ احسان کرو ، اللہ نے بد سلوکی کو حرام فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بعد سب سے اہم چیز والدین کے حقوق ہیں جن کی قرآن پاک میں بار بار تاکید کی گئی ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں ہے ” وقضی ربک الا تعبدوا الا ایا ہ وبلوالدین احسانا “ تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو۔ والدین کسی انسان کے قریب ترین محسن ہوتے ہیں ، وہ اپنے بچوں کی بےلوث پرورش کرتے ہیں ، لہٰذااُن پر احسان کرنا لازم اور عقو ق یعنی ان کو اذیت پہنچانا حرام ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ماں باپ کو نہ زبان سے تکلیف پہنچانی چاہئے وار نہ کسی عمل سے ، یہ قطعی حرام ہے۔ حضور علیہ اسلام کا ارشاد مبارک ہے کہ وہ شخص بد بخت اور شقی ہے جس نے والدین میں سے ایک یا دونوں کو پایا مگر ان کی خدمت کر کے جنت کا ٹکٹ حاصل نہ کیا۔ فرمایا والدین جنت کے دروازوں میں سے درمیان والا اور افضل دروازہ ہیں۔ اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ ماں باپ کی خدمت کر کے یہ دروازہ اپنے لیے کھول لو یا ان کے ساتھ بد سلوکی کر کے اسے اپنے لیے بند کرلو۔ بہر حال فرمایا کہ والدین کے ساتھ نیک سلوک اور احسان کرنا ضروری ہے اور ان کو تکلیف دینا حرام ہے محدثین اور فقہائے کرام فرماتے کہ ماں اور باپ دونوں حسن سلوک کے مستحق ہیں۔ البتہ ادب باپ کا زیادہ ہے اور خدمت ماں کی کیونکہ ماں ‘ باپ کی نسبت کمزور ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر والدین غیر مسلم بھی ہوں ، تب بھی ان کا احترام واجب ہے۔ البتہ اللہ کا حق ان پر مقدم ہے۔ اگر والدین شرک پر آمادہ کریں یا خلاف شرع کسی بات کا حکم دیں تو ان کی اطاعت ساقط ہوجاتی ہے ، بایں ہمہ انسان کے لیے حکم یہ ہے ” وصا جبھما فی الدنیا معروفا “ یعنی دنیا میں ان کے ساتھ بہر حال حسن سلوک سے پیش آئو۔ حجر مولانا عبید اللہ سندھی (رح) کا خاندان سکھ مذہب رکھتا تھا ، آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت نصیب فرمائی ، آپ کی والدہ آخر دم تک سکھ مذہب پر قائم رہی مگر آپ نے اس کی خدمت میں کبھی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ ناراضگی کا اظہار کرتی بھری مجلس میں جوتے تک مارتی مگر آپ نے کبھی اُف تک نہ کی ہندومت میں برہمن کو بیل کی خیرات (دان) کو بہت بڑی نیکی سمجھا جاتا ہے۔ ایک دفعہ آپ کی ماں نے فرمائش کی کہ دان دینے کے لیے اسے بیل مہیا کیا جائے۔ چناچہ آپ نے بیل خرید کردیا اور ماں خوش ہوگئی۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق کی بڑی تاکید فرمائی ہے جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں ” واخفض لھ ما جناح الذل من الرحمہ وقل رب ارجمعھما کما ربینی صغیرا اگر والدین مومن ہیں تو ان کے ادب و احترام کے علاوہ ان کے لیے دعا کو بھی اپنا وظیفہ بنا لو کہ اے مولا کریم ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی ۔ چناچہ حضور علیہ اسلام کا ارشاد مبارک ہے کہ والدین کے حقوق میں یہ بات بھی شامل ہے۔ کہ ان کی وفات کے بعد ان کے لیے دعائیں کریں اور ایصال ثواب کریں۔ بہر حال ماں باپ کے ساتھ بد سلوکی کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ تیسری بات اللہ نے یہ فرمائی ہے ولا تقتلوا اولاد کم من املاق اور مت قتل کرو اپنی اولادوں کو ناواری کی وجہ سے ۔ دوسرے مقام پر آتا ہے ” لا تقتلوا اولادکم خشیۃ املاق “ یعنی مفلسی کے آئندہ خطرے کے پیش نظر اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کا مقصودیہ ہے کہ اگر تم فی الوقت مفلس و نادار ہو تو محض اس لیے اولاد کو قتل نہ کرو۔ کہ تمہارے پاس اسے کھلانے پلانے کے لیے کچھ نہیں۔ یا اگر اس وقت تو تنگدستی نہیں مگر خدشہ ہے کہ اولاد زیادہ ہوگئی تو ان کی ضروریات زندگی مہیا کرنا دشوار ہوجائیگا۔ فرمایا اس پیشگی خطرے کی وجہ سیے بھی اپنی اولاد کی جان کو ضائع نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے قتل اولاد کو حرام قرار دیا ہے۔ تاریخ عالم سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف ادوار میں قتل اولاد کی تین مختلف صورتیں دنیا میں رائج رہی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہی ہے کہ لوگ مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کردیتے تھے کہ ان کے پاس اولاد کی پرورش کا سامان نہیں ہوتا تھا۔ قتل کی دوسری شکل دختر کشی کا رواج تھا۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ لڑکی کی پیدائش کو منحوس تصور کرتے تے لہٰذا لڑکیوں کو پیدا ہونے کے بعد زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ اور اس کی تیسری شکل یہ تھی کہ لوگ اپنے بچوں کو بتوں یا دیوی دیوتائوں کی بھینٹ چڑھا دیتے تے اور ان کے نام پر قتل کردیتے تھے۔ بر صغیر ہندوستان میں لوگ بچوں کو کالی دیوی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ اس بلدیان کا نام بھی دیا گیا ہے۔ بہر حال قتل انسانی کے یہ تینوں طریقے اللہ نے حرام قرار دیئے ہیں۔ فرمایا اپنی اولاد کو رزق کی کمی کی وجہ سے قتل نہ کرو کیونکہ حقیقت یہ ہے نخن نرزقم وایاھم کہ تمہیں بھی رزق ہم ہی دیتے ہیں اور جن کو قت قتل کرتے ہو ان کے رزق کے ذمہ دار بھی ہم ہیں۔ روزی کے تمام اسباب ہمارے قبضہ قدرت میں ہیں اور ہم ہی انہیں تقسیم کرتے ہیں۔ اللہ نے دوسرے مقام پر فرمایا ” ان اللہ ھوالرزق ذوالقوۃ المتین “ (الذاریات) رزاق اور صاحب قوت تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے بیان میں بھی آتا ہے کہ روزی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ، اسی سے طلب کرو کہ وہ تمہارے لیے روزی کے دروازے کھول دے۔ یہہ تیسرا محرم ہے کہ اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ۔ چوتھی حرام چیز کے متعلق فمایا ولا تقر بو الفواحش بےحائی کی بات کے قریب بھی نہ جائو ماظھر منھاوما بطن خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ۔ ہر دوقسم کی فحاشی کے قریب تک نہ جائو چہ جائیکہ اس کا ارتکاب کرو۔ بےحیائی کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ بعض چیزیں ذہنی اور عقلی طور پر انسان میں بُرے اخلاق پیدا کرتی ہیں۔ حدیث شریف میں چوری کو بےحیائی سے تعبیر کیا گیا ہے جب کہ قرآن پاک میں بخل کو بےحیائی کہا گیا ہے۔ زنا اور لواطت بلا شبہ بہت بڑی بےحیائی ہے بعض چیزیں لوگوں کو عریانی کی طرف مائل کرتی ہیں جس سے دین اور اخلاق خراب ہوتا ہے اسی لیے فرمایا بےحیائی کے قریب بھی نہ جائو۔ سورۃ نور اور سورة احزاب میں موجود ہے کہ عورتوں کی زیب و زنیت اور نیم برہنگی اور پھر مردوں سے غلط ملط سخت فحاشی کی بات ہے اسی طرح تصویریں ، مجسمے اور لغو گانے بےحیائی پر آمادہ کرتے ہیں ، اسی لیے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جدید تہذیب کی ساری رونق بےحیائی پر قائم ہے عورتوں کا ننگے سر اور ننگے بازو سر عام پھرنا ، اخبارات میں نیم برہنا عورتوں کی تشہیر ریڈیوں اور ٹیلیفون پر غیر اخلاقی گانے اور مناظر انسانیت کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ اخلاق بگڑ رہا ہے ، اس کی اصلاح کرنے کی بجائے فلم انڈسٹری کو ترقی دینے کے منصوبے بنتے ہیں۔ کھیل تماشے کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے کھیل کی ٹی میں اور ناچ گانے والے طائفے بیرونی ممالک میں بھیجے جاتے ہیں جس پر کروڑوں روپے کا زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے اور اس کے بدلے میں عریانی ، فحاشی اور بےحیائی پھیلائی جاتی ہے اسلام تو ایسی چیزوں کو مٹانے کے لیے آیا تھا مگر ہماری حکومتیں انہی چیزوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ دین تو کہتا ہے الحیا من الایمان حیاواری ایمان کا جزو ہے نیزلا ایمان لمن لاحیاء جس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں ، مگر آج حیاواری کا جنازہ نکل رہا ہے اور بےحیائی بلاروک ٹوک معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل رہی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ بےحیائی کے قریب نہ جائو۔ یہ قطعی حرام ہے۔ پانچویں حرام چیز قتل ناحق ہے۔ ارشاد ولا تقتلو النفس التی حرم اللہ بالحق جس جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل مت کرو ( قتال و جہاد کے علاوہ) قتل حق کی تین صورتیں معلوم ہیں۔ ان کے علاوہ باقی تمام قتل ناحق کی فہرست میں آتے ہیں پہلا قتل حق ہے النفس بالنفس یعنی جان کے بدلے جان۔ اگر کسی دوسرے شخص کو ناحق قتل کیا ہے تو قصاص کے طور پر قاتل کو قتل کرنا حق ہے اور اس کی اجازت ہے دوسرا یہ ہے کہ اگر کوئی شادی شدہ آزاد مسلمان زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے سنگسار کر کے قتل کرنا بھی برحق ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی عاقل مسلمان دین اسلام کو چھوڑ کر دہریہ بن جائے یا کوئی دوسرا دین اختیار کرے تو ایسا مرتد شخص بھی واجب القتل ہے۔ فرمایا ان تین صورتوں کے علاہ کسی شخص کا قتل قتل ناحق ہے اور حرام ہے۔ جب باغیوں نے حضرت عثمان ؓ کا محاصرہ کرلیا تو انہوں نے چھت پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا ، لوگو ! تم مجھے قتل کیوں کرنا چاہتے ہو حالن کہ میں نے آج تک کسی کو ناحق قتل نہیں کیا ، زنا کا ارتکاب تو مجھ سے اسلامی دور سے پہلے جاہلیت کے زمانہ بھی نہیں ہوا اور جب سے میں نے حضور علیہ اسلام کے دست مبارک پر بعیت کی ہے ، میں مرتد نہیں ہوائ۔ پھر تم کس جرم میں قتل کے درپے ہو ۔ مگر باغیوں نے آپ کی کوئی بات نہ سنی اور فتنے کی ایسی بنیاد ڈال دی جو قیامت تک چلتی رہے گی۔ قتل کی دبا دینا کے اکثر و بیشتر ممالک میں عام ہے قدیم تہذیب والے ہوں یا جدید والے ، قتل روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ان ماجہ شریف کی روایت میں آتا ہے کہ پوری دنیا کا تباہ ہوجانا اتنا اہم نہیں جتنا ایک مسلمان کا قتل ہوجانا۔ مگر یہاں تو معمولی معمولی وجوہات کی بنا پر ہر روز قتل ہوتے ہیں۔ ذاتی رنجشوں کے علاوہ سیاسی قتل بھی عام ہونے لگے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ میں امن وامان ناپید ہوچکا ہے۔ انسانی جانوں کی حفاظتکا واحد ذریعہ قانونِ قصاص اور دیت ہے مگر اس کو پسند نہیں کیا جاتا تو پھر دنیا میں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے۔ فرمایا یہ پانچ باتیں ایسی ہیں ذالکم وصکم بہ جن کے متعلق اللہ نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے کہ ان سے بچو۔ یہ حقیقی محرمات ہیں۔ لعلکم تعقون تا کہ تم سمجھ جائو۔ اگر مان جائو گے تو دنیا اور آخرت میں امن نصیب ہوگا ، ورنہ یہاں بھی بےسکونی اور آخرت میں عذاب ہوگا۔
Top