Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 14
قَالَ اَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
قَالَ : وہ بولا اَنْظِرْنِيْٓ : مجھے مہلت دے اِلٰي يَوْمِ : اس دن تک يُبْعَثُوْنَ : اٹھائے جائیں گے
کہا (شیطان) نے مہلت دے مجھے اس دن تک جب یہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے
ربط آیات سورۃ کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کا ذکر فرمایا اور اس کے اتباع کا حکم دیا پھر نافرمانی کرنے والوں کا انجام بیان فرمایا محاسبے کے عمل اور اعمال کے وزن سے آگاہ کیا اس کے بعد انسان پر کیے جانے والے دو انعامات کا ذکر کیا ایک زمین تسلط اور دوسرا ذرائع معیشت ، پھر انسان کی تخلیق کا مسئلہ بھی بیان فرمایا انہیں بہترین شکل و صورت عطا کی اور زمین میں اپنا خلیفہ بنایا نیز آدم (علیہ السلام) کو مسجود ملائکہ بنایا تاکہ اس کی اولاد کی برتری تمام مخلوق پر ثابت ہوجائے۔ پھر اسی ضمن میں یہ بھی بیان فرمایا کہ شیطان لعین نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور غرور میں مبتلا ہو کر اپنی بڑائی کا اظہار کیا اور اپنے آپ کو آدم (علیہ السلام) پر فوقیت دینے کی کوشش کی شیطان نے اپنی برتری کے متعلق یہ فلسفہ بیان کیا کہ اسے آگ سے پیدا کیا گیا ہے جب کہ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے ، اللہ تعالیٰ نے شیظان کے اس تکبر کا رد کیا کیونکہ تکبر کرنا صرف خدا تعالیٰ کی شان ہے ، مخلوق کی شان عاجزی اور انکساری میں ہے جس نے اکڑ دکھائی اللہ نے اسے ذلیل قرار دیا اور اسے اپنی رحمت کے مقام سے دور کردیا پھر مضناً یہ بات بھی آگئی کہ آگ کو خاک پر کوئی برتری حاصل نہیں آگ میں طیش ، غصہ ، تپش اور بلندی ہے جو کہ تکبر کی نشانی ہے جب کہ مٹی میں سکون ، وقار ، عاجزی اور انکساری ہے اور مخلوق کے لیے یہی چیز بہتر ہے حضور ﷺ نے فرمایا بس العبد وہ آدمی کتنا برا ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی کو فراموش کردیتا ہے غفلت اختیار کرتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی سمجھا دی کہ شیطان کی طرح جو بھی تکبر کرے گا وہ ذلیل و خوار ہوگا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد مبارک ہے یحشرالمتکبرون کا مثال ذرٍ یوم القیمۃ قیامت والے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بناکر اٹھائے جائیں گے تاکہ وہ ذلیل ہوجائیں پھر جب حساب کتاب کی منزل آئے گی تو ان کے قد معمول کے مطابق بڑے ہوجائیں گے شیطان کو ذلیل کرنے والی دوسری چیز حسد تھی بزرگان دین کا قول ہے ماخلا جسدً عن حسدٍ یعنی شاید ہی کوئی جسم حسد سے خالی ہوگا یہ بھی بہت بری بیماری ہے بہرحال ان دو وجوہات سے شیطان بارگاہ رب العزت سے مردود ہوگیا اور اللہ نے فرمایا فاخرج انک من الصغرین یہاں سے نکل جائو تم ذلیل ہو اس طرح شیطان نہ صرف اپنی لاکھوں سال کی عبادت گنوا بیٹھا بلکہ اپنی صلاحیت ہی کھو بیٹھا۔ شیطان کی دعا حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور شیطان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر کیا ہے اس میں ایک طرف تو انسان کو اپنی حیثیت یاد دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر انعامات کیے ہیں اسے اپنا خلیفہ بنایا ہے لہٰذا اس کا فرض ہے کہ وہ ایسے کام انجام دے جو اس کی شان کے لائق ہیں اور دوسری طرف اسے اس کے دشمن شیطان سے خبردار کیا ہے ” ان الشیطن لکھ عدو فاتخذوہ عدواً (فاطر) شیطان تمہارا دشمن ہے اس کو دشمن ہی سمجھو ، اسی سورة میں شیطان کی دشمنی کے متعلق اور بھی بہت سی باتیں آئیں گی کہ وہ کس طرح لوگوں کو گمراہ کرکے کفر اور شرک کے راستے پر ڈال دیتا ہے مگر لوگ بالکل بیخبر ہیں انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی ہے کہ انہیں کس طرف لے جایا جارہا ہے جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مردود قرار دے دیا تو اس وقت اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں درخواست کی قال انظرنی الی یوم یبعثون مجھے مہلت دے دیں اس دن تک جس دن یہ اٹھائے جائیں گے اللہ تعالیٰ نے درخواست قبول فرما لی اور فرمایا قال انک من المنظرین جائو تمہیں حسب خواہش مہلت دے دی گئی دوسرے مقام پر آتا ہے الی یوم الوقت المعلوہ (الحجر) تمہیں معلوم وقت تک مہلت دی یہاں پر وقت سے مراد حساب کتاب کا وقت نہیں بلکہ پہلی دفعہ صور پھونکے جانے کا وقت ہے یعنی اس وقت تک تجھے لوگوں کو ورغلانے کی اجازت ہے۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) بزرگان دین کا قول نقل کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی دعا قبول ہوجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بن گیا ہے اور نہ اسے اس پر مغرور ہونا چاہیے کیونکہ دعا کی قبولیت کسی کی بحیثیت مجموعی قبولیت کی علامت نہیں دیکھو شیطان رامذہ درگاہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا بھی قبول فرمالی اور اسے قیامت تک کے لیے مہلت دیدی اسی طرح دعا تو کسی کافر اور بڑے نافرمان کی بھی منظور ہوسکتی ہے مگر یہ کوئی بزرگی کی نشانی نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقرب کی بنیاد ایمان ، توحید اور نیکی ہے سورة حجرات میں موجود ہے ان اکرمکم عنداللہ اتقسکم اللہ کے نزدیک صاحب عزت وہ شخص ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے محض کرشمہ ظاہر ہونے کی بناء پر بھی کوئی شخص اللہ کا مقرب نہیں بن سکتا کیونکہ کرشمے تو دجال کے ہاتھ سے بھی ظاہر ہوں گے اور دنیا دنگ رہ جائے گی۔ شیطان کا عزم جب شیطان کی یہ دعا قبول ہوگئی کہ اسے قیامت تک مہلت دیدی گئی ہے تو اس نے اپنے عزم کا اظہار اسی وقت کردیا قال فبما اغویتنی شیطان نے کہا پس اس وجہ سے ہ تو نے مجھے گمراہ ٹھہرا دیا ہے شرارت تو بیشک میری ہی تھی میں نے یہی تکبر کا اظہار کیا اب جبکہ تو نے میرے متعلق فیصلہ کر ہی دیا ہے تو اب میرا ارادہ یہ ہے لاقعدن لھم صراطک الستقیم کہ میں بنی نوع انسان کیلئے تیرے سیدھے راستے پر ضرور بیٹھوں گا اور انہیں گمراہ کرکے تیرے صراط مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کروں گا حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب آدمی جہاد کیلئے جاتا ہے تو راستے میں شیطان ملتا ہے اور اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ جہاں میں جا رہے ہو ، مارے جائو گے تمہاری بیوی بیوہ اور بچے یتیم ہوجائیں گے اس کام سے باز آجائو اس طرح جو آدمی زکوٰۃ کا مال لے کر نکلتا ہے اس کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ اتنی رقم دے کر تم قلاش ہوجائو گے سورة بقرہ میں آتا ہے ” الشیطن یعدکم الفقر “ شیطان تمہیں محتاجی سے ڈراتا ہے کہ مال خرچ نہ کر بیٹھنا ، خود کنگال ہوجائو گے ، نمازی جب نماز کے لیے نکلتا ہے تو شیطان پھر حملہ آور ہوتا ہے کہ کوئی کام کی بات کرو جس سے تمہیں اور تمہارے گھر والوں کا فائدہ ہو محض ٹکریں مارنے سے کیا فائدہ ، غرضیکہ شیطان ہر طریقے سے انسان کو نیکی کے کام لے روکنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اس نے چیلنج کررکھا ہے کہ اے مولا کریم ! میں تیرے سیدھے راستے میں بیٹھوں گا اور اس پر چلنے والے ہر انسان کو ورغلانے کی کوشش کروں گا کہ وہ اس راستے سے ہٹ کر میرے گروہ میں شامل ہوجائے۔ آگے اور پیچھے سے اغوا شیطان نے کہا کہ اے اللہ ! میں تیرے صراط مستقیم پر بیٹھ جائوں گا ثم لاتینمھم من بین ایدھم پھر اس راستے پر چلنے والوں کے پاس آگے سے بھی آئوں گا ومن خلفھم اور ان کے پیچھے سے بھی آئوں گا حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ اس کی تفسیر یوں بیان فرماتے ہیں کہ آگے سے مراد آخرت ہے انسان اپنی آخری منزل کی طرف ہی رواں دواں ہے اور مطلب یہ ہے کہ شیطان نے کہا کہ میں انسان کو آخرت کے معاملہ میں گمراہ کروں گا اس کے دل میں وسوسہ ڈالوں گا کہ قیامت یعنی آخرت کا کوئی تصور نہیں ہے نہ کوئی حساب کتاب کی منزل آئے گی نہ دوزخ جنت کوئی چیز ہے یہ سب بنائی ہوئی کہانیاں ہیں لہٰذا تم آگے کا کچھ فکر نہ کرو غرضیکہ شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسان کا آخرت پر اعتقاد ضعیف کردے تاکہ وہ محاسبے کے عمل سے بےنیاز ہو کر من مانی کرتا پھرے اور اس طرح بالآخر جہنم میں پہنچ جائے۔ اور پیچھے سے مراد یہ دنیا ہے یعنی میں دنیا کے راستے سے بھی آکر لوگوں کو گمراہ کروں گا اور اس کی صورت یہ ہے کہ میں اس دنیا کے لوازمات کو لوگوں کے لیے مزین کرکے دکھائوں گا لازینن لھم فی الارض (الحجر) میں دنیا کو لوگوں کے سامنے اس خوبصورت انداز میں پیش کروں گا کہ وہ اس کے گرویدہ ہو کر رہ جائیں گے میں لوگوں کو حجاب طبع اور حجاب رسم پر ڈال دوں گا وہ یا تو ذاتی زیب وزینت میں مصروف رہیں گے ، کوٹھی ، کا اور بینک بیلنس کے چکر میں پھنسے رہیں گے بیوی بچوں میں الجھے رہیں گے یا پھر قوم اور برادری کے رسم و رواج میں پھنس کر رہ جائیں گے کبھی شادی کے لیے زیورات ، کپڑے ، جہیز اور فرنیچر کے چکر میں پھنسے رہیں گے اور کبھی مرنے پر ساتے اور چالیسویں کریں گے کبھی عرس منائیں گے کبھی چادریں چڑھائیں گے اس طرف لگا کر میں انہیں اللہ کے سیدھے راستے سے ہٹا دوں گا۔ دائیں اور بائیں سے اغوا شیطان نے یہ بھی کہا کہ میں آئوں گا تیرے بندوں کے پاس وعن ایمانھم ان کے دائیں سے وعن شمایلھم اور ان کے بائیں سے ، حضرت ابن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق دائیں سے مراد نیکی اور حسنات ہے جب کہ بائیں سے مراد برائی ہے نیکی میں گمراہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو نیکی کرنے ہی نہ دی جائے یا یہ کہ نیکی کرنے کے باوجود اس کا کوئی فائدہ نہ ہو اس معاملے میں بھی شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے نیکی سے روکنے کی صورت تو یہ ہے کہ وسوسہ اندازی کے ذریعے کسی کو جہاد ، نماز ، زکوٰۃ یا حج سے روک دے یا کسی غریب کی امداد نہ کرنے دے اور اگر نیکی کا کام انجام دینے کے باوجود اس میں ریا کاری کا عنصر شامل ہوجائے تو وہ کی ہوئی نیکی بھی ضائع ہوگئی یا نیکی کے ضیاع کی یہ صورت بھی ہے کہ حضور ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ ہو نبی (علیہ السلام) نے فرمایا من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھو رد (بخاری مسلم) جو کام ہمارے طریقے کے مطابق نہ ہو ، وہ مردود ہے ، بدعات کی اسی لیے مذمت کی جاتی ہے کہ وہ کام حضور ﷺ کے طریقے کے مطابق نہیں ہوتا اس طرح گویا شیطان دائیں یعنی نیکی اور دین کے کاموں میں بہکانے کی کوشش کرے گا۔ اور بائیں طرف یعنی برائی سے مراد یہ ہے کہ شیطان انسان کو برائی کے کاموں کی ترغیب دے اس نے اعلان کیا کہ میں برائیوں کی مزین کرکے دکھائوں گا اور لوگوں کو گمراہ کروں گا سورة بقرہ میں ہے انما یا مرکم بالسوء والحشاء شیطان تمہیں برائی اور بےحیائی کی ترغیب دیتا ہے ایسا وسوسہ ڈالتا ہے اور ایسی حکمت بیان کرتا ہے کہ انسان برائی پر آمادہ ہوجاتا ہے کبھی کہتا ہے کہ گزر ، کوئی دیکھنے والا نہیں ، کوئی نہیں پوچھے گا ، کبھی کہتا ہے پکڑا جائے گا تو فلاں چھڑا لے گا کبھی کہتا ہے کوئی بات نہیں ابھی بڑی عمر ہے توبہ کرلینا غرضیکہ ہر طریقے سے انسان کو ورغلانے کی کوشش کرتا ہے بائیں طرف سے نفساتی خواہشات بھی مراد ہیں ساری عمر انسان انہی کی تکمیل میں لگا رہتا ہے اور نیکی کرنے کا موقع نہیں ملتا حتیٰ کہ انسان کی موت کا وقت آجاتا ہے۔ بہرحال جب شیطان مردود ٹھہرا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگی جو عطا کی گئی تو اس نے کہا کہ میں تیرے بندوں کو چار سمتوں یعنی آگے ، پیچھے ، دائیں اور بائیں سے آکر گمراہ کروں گا ان کے دلوں میں وسوسے ڈالوں گا پھر کوئی منکر ہوجائے گا اور کوئی شک میں پڑجائے گا تو میرا کام پورا ہوجائے گا دوسرے مقام پر آتا ہے کہ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو جو چاہے کرلے ” ان عبادی لیس لک علیھم سلطن “ (الحجر) میرے بندوں پر تیرا دائو نہیں چلے گا البتہ جو تیرا اتباع کریں گے ان کا انجام بہت برا ہوگا۔ اوپر اور نیچے کی جہت اس مقام پر چار جہتوں کا ذکر آیا ہے حالانکہ کل چھ جہات ہیں شیطان نے اغوا کے لیے اوپر اور نیچے کی جہت کے متعلق کچھ نہیں کہا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ نیچے سے توغضب الٰہی یا سزا ہی آسکتی ہے اس لیے اس طرف سے شیطان کے بہکانے کا کوئی چانس نہیں اور اوپر کی طرف سے بھی شیطان کا بس نہیں چل سکتا کیونکہ اوپر کی طرف سے صرف اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے البتہ باقی چاروں اطراف سے شیطان کے بہکاوے اور گمراہی کا امکان ہے اس کے متعلق سعدی صاحب (رح) نے بھی کہا ہے۔ برسائبان حسن عمل اعتماد نیست سعدی مگر بہ سایہ لطف خدا رود یعنی ہمیں اچھے عمل کے سائبان پر تو کچھ اعتبار نہیں لہٰذا سعدی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں ہی جارہا ہے غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کی خواہش پر اسے مہلت دیدی خواہ وہ اس کے بندوں کو بہکانا ہی چاہتا تھا مہلت دینا بھی اللہ کی رحمت کا فیضان ہے وہ بسا اوقات مجرموں کو مہلت بھ یدے دیتا ہے۔ اکثریت ناشکر گزار ہے شیطان نے کہا کہ اے اللہ ! میں تیرے بندوں کو چاروں جہات سے گمراہ کروں گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا ولا تجد اکثر ھم شیکرین اور تو نہیں پائیکا ان میں سے اکثر کو شکر نے والے یعنی لوگوں کی اکثریت میرے بہکاوے میں آجائے گی دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا کہ اس وقت شیطان نے یہ بات محض اندازے سے کہی تھی کہ میں تیرے بندوں کو ہر طریقے سے گمراہ کروں گا ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ فاتبعوہ الا فریقاً من المومنین (سورۃ سبا) مگر ابلیس نے اپنے اندازے کو سچا کر دکھایا ، اکثر لوگوں نے دنیا میں شیطان ہی کا اتباع کیا اور ناشکر گزار ثابت ہوئے ہر زمانے اور ہر دور میں اکثریت منکرین ہی کی رہی ہے اکثر لوگ شیطان کے پیچھے لگنے والے ہوتے ہیں شیطان نے اپنا یہ عزم تخلیق آدم کے وقت کیا تھا جو کہ ایک گمان کی بات تھی مگر اب اس نے حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔ بہرحال شیطان کے سا ارادے کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اسی وقت کہہ دیا قال اخرج منھا یہاں سے نکل جائو جس مقام پر بھی یہ مکالمہ ہوا وہ جنت تھی یا کوئی اور جگہ اللہ نے فرمایا یہاں سے دفع ہوجائو مذء وماً مذمت کیے ہوئے ظاہر ہے کہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرکے اور اس کے بندوں کو بہکانے کی مہلت حاصل کرکے شیطان قابل مذمت ٹھہرا نہ کہ قابل تحسین ، تو فرمایا نکل جائو مذمت کیے ہوئے مدحوراً دھکیلے ہوئے یعنی رجیم اور مردود ، شیطان حکم عدولی کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے دھکیلا ہوا یعنی دور ہوگیا اب اسکے قبضہ میں صرف اغوا اور وسوسہ اندازی ہی رہ گئی ہے اور پھر آگے آخرت میں چل کر بہت برا انجام ہوگا آگے پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح کردی لمن تبعک منھم ان میں سے جو کوئی تیرا اتباع کرے گا یعنی بنی نوع انسان میں سے جو آدمی تیرے بہکاوے میں آجائے گا لاملئن جھنم منکم اجمعین تو میں ضرور بھردوں گا جہنم کو تم سب سے یعنی جو بھی شیطان کی پیروی کرے گا اس کو بھی اور اس کے پیچھے لگنے والوں سب کو جہنم میں داخل کروں گا گویا قیامت کے دن تابع اور متبوع سب جہنم کا ایندھن بن جائیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان اور اس کے سب پجاری جہنم رسید ہوں گے یہ بات اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم کے وقت ہی واضح کردی اس کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت حوا کا ذکر بھی آرہا ہے اور ساتھ ساتھ شیطان کی کشمکش بھی دور تک چلی گئی ہے شیطان نے مشرکین کو شرک اور بےحیائی کی باتوں پر جس طریقے سے لگایا اس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔
Top