Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 48
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ قَالُوْا مَاۤ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ : والے الْاَعْرَافِ : اعراف رِجَالًا : کچھ آدمی يَّعْرِفُوْنَهُمْ : وہ انہیں پہچان لیں گے بِسِيْمٰىهُمْ : ان کی پیشانی سے قَالُوْا : وہ کہیں گے مَآ اَغْنٰى : نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں جَمْعُكُمْ : تمہارا جتھا وَمَا : اور جو كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ : تم تکبر کرتے تھے
اور پکاریں گے اعراف والے لوگ ان کو جن کو پہچانیں گے ان کی نشانیوں سے اور کہیں گے نہ بچایا تم کو تمہاری جماعتوں نے اور جو کچھ تم تکبر کرتے تھے
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی کامیابی کا ذکر کیا ان کا جنت کی نعمتوں سے متمع ہونا اور خدا کی مہربانی کے مقام میں داخل ہونے کا باین ہوا پھر اللہ نے جنت اور دوزخ والوں کے مکالمے کا ذکر کیا کہ جنت والے دوزخیوں سے کہیں گے کہ اللہ نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا ہم نے تو اس کو برحق پایا اب بتائو تمہارے ساتھ اللہ نے جو وعدہ کیا تھا کہ تمہیں دوزخ میں داخل کرے گا کیا تم نے بھی اس وعدے کو سچا پایا دوزخ والے کہیں گے کہ ہاں ہم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا پھر درمیان میں ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ خدا تعالیٰ کی لعنت اور پھٹکار ہو ظلم کرنے والوں پر وہ جو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں تاکہ لوگ اس راستے پر گامزن نہ ہوسکیں اور وہ آخرت پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ ادھر جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار (حجاب) ہوگی اس اونچے مقام پر کچھ لوگ بیٹھے ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی نشانیوں سے پہچانیں گے وہ جنت والوں کو سلام کریں گے اور جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف اٹھیں گی تو وہ خدا تعالیٰ سے التجا کریں گے کہ اے اللہ ! ہمیں دوزخ والوں کے ساتھ نہ ٹھہرانا یہ اصحاب اعراف ہوں گے جن کے متعلق کل عرض کردیا تھا اب آج کے درس میں بھی اصحاب اعراف کا اہل دوزخ سے گفتگو کرنے کا بیان ہے۔ اہل اعراف کا خطاب اہل دوزخ سے ارشاد ہوتا ہے ونادی اصحب الاعراف رجالاً اور پکاریں گے اعراف والے کچھ مردوں کو تعرفونھم بسیمھم جن کو وہ پہچانیں گے ان کی نشانیوں سے گزشتہ درس میں اہل اعراف کا جنتیوں سے خطاب تھا کہ انہیں پکار کر اسلام کریں گے اور اس آیت میں اہل اعراف کا اہل دوزخ سے خطاب ہے کہ انہیں پہچان کر ان سے گفتگو کریں گے۔ اعراف کے متعلق کل بھی عرض کیا تھا کہ یہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک اونچا مقام ہوگا جنتیوں اور دوزخیوں کے علاوہ کچھ لوگ اس مقام پر بھی ٹھہرائے جائیں گے یہاں ان کا قیام مستقل نہیں ہوگا ان لوگوں میں وہ صلاحیت مکمل نہیں ہوگی جو جنت سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے آہستہ آہستہ جب وہ مطلوبہ استعداد حاصل کرلیں گے تو ان کو بھی جنت میں داخل کردیاجائے گا گزشتہ درس میں یہ بیان آچکا ہے لم یدخلوھا وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے وھم یطمعون مگر وہ وہاں جانے کی خواہش رکھتے ہوں گے مقام اعراف کے متعلق سعدی صاحب نے گلستان میں ایک مثال بیان کی ہے کہ اعراف ایسی جگہ ہوگی کہ اہل دوزخ اسی جگہ کو جنت سمجھیں گے کیونکہ وہ سخت عذاب کے مقام سے ایسی جگہ آجائیں گے جہاں اگر آرام نہیں ہوگا تو تکلیف بھی کوئی نہیں ہوگی مگر ان کا اعراف میں پہنچنا بھی ممکن نہ ہوگا اسی طرح اگر جنت کی حوروں کو اعراف کے مقام پر پہنچا دیاجائے تو ان کے لیے وہ دوزخ کے برابر ہوگا وجہ ظاہر ہے کہ کہاں جنت کی راحتیں اور کہاں اعراف جیسا معمولی مقام۔ باقی رہی یہ بات کہ اہل اعراف کس قسم کی نشانیوں سے اہل جنت اور اہل دوزخ کو پہچانیں گے تو اس کا ذکر قرآن پاک میں مختلف مقامات پر موجود ہے سورة ال عمران میں ہے یوم تبیض وجوہ وستود وجوہ اس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے کامیاب لوگ تعرفوجوھھم نضرۃ النعیم (للطفنین) اپنے نورانی چہروں سے پہچانے جائیں گے حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ میری امت کے لوگ وضو کے اعضا کی چمک سے پہچانے جائیں گے اہل ایمان نماز کے لیے وضو کے دوران جن اعضا کو دھوتے تھے یا مسح کرتے تھے وہ قیامت کے دن چمکتے ہوں گے اور یہ صرف حضور علیہ الضلوٰۃ والسلام کی امت کو ہی شرف حاصل ہوگا باقی امتوں کے لیے یہ نشانی نہیں ہوگی ویسے چہروں کا مطلق روشن ہونا ایمان والوں کی نشانی ہوگی اس کے برخلاف کافروں ، مشرکوں اور منافقوں کے چہرے سیاہ ہوں گے ترھقہا فترۃ (سورۃ عبس) ان پر گردوغبار چڑھا ہوا ہوگا پتہ چلے گا کہ انہوں نے برے کام انجام دیے ان کے گندے فکر کی سیاہی ان کے چہروں سے نمایاں ہوگی تو ان نشانیوں سے اہل اعراف جنتی اور دوزخی لوگوں کو پہچان سکیں گے اور قالو اعراف والے دوزخیوں سے کہیں گے ما اغنی عنکم جمعکم تمہارا گروہ کچھ کام نہ آیا تم نے بڑی بڑی پارٹیاں بنا رکھی تھیں کسی کو نقصان پہنچانا ہو دنگا فساد کرنا ہو تمہارے ورکر ہر وقت حاضر رہتے ہیں اور اپنی حفاظت کے لیے تم نے باڈی گارڈ رکھے ہوئے تھے مگر یہ تمام وسائل آج تمہارے کچھ کام نہ آئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یاتینا ھرداً (سورۃ مریم) ہر شخص کو ہمارے روبرو اکیلا ہی آنا ہے محاسبے کی منزل کے بعد پھر دوزخ میں بھی اکیلے ہی جانا ہوگا اس دنیا میں قائم کردہ تمام انتظامات بےسود ثابت ہوں گے۔ بہرحال اعراف والے دوزخ والوں سے کہیں گے کہ ایک تو تمہاری پارٹی کچھ مفید نہ ہوئی وما کنتم تستکبرون اور جو کچھ تم تکبر کرتے تھے آج وہ بھی کام نہ آیا اہل اعراف پوچھیں گے آج تمہارا غرور وتکبر کہاں گیا تم بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے شیخیاں بگھارتے تھے وہ سب ختم ہوگئے تکبر اقتدار اور مال کی وجہ سے ہوتا ہے دنیا میں تمہارے پاس حکومت تھی اقتدار تھا اس کے علاوہ بےانتہا مال تھا جس کے متعلق تم سمجھتے تھے یحسب ان مالہ اخلادہ (سورۃ ھمزہ) کہ یہ تمہیں بچالے گا ہر دولت مند بخیل یہی سمجھتا ہے کہ مشکل وقت میں اس کا مال اس کے کام آئے گا مگر بتائو آج تمہارا مال کہاں گیا جب اللہ تعالیٰ پکڑنے پر آتا ہے تو پھر کوئی نہیں بچا سکتا تو اہل اعراف کہیں گے اے بدقسمت لوگو ! آج تمہارا نہ جتھا کام آیا اور نہ مال مفید ہوا جس کی وجہ سے تم تکبر کیا کرتے تھے۔ دوزخیوں کی غلط فہمی اہل دوزخ سے خطاب کے دوران اہل اعراف جنتیوں کی طرف اشارہ کرکے کہیں گے اھولاء الذین اقسم کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھاتے تھے لاینالھم اللہ برحمۃ ، کہ ان کو اللہ تعالیٰ رحمت نہیں پہچائے گا تم ان لوگوں کو اپنی نظروں میں حقیر سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کو کون پوچھے گا ان کو بھلائی کہاں سے ملے گی یہ عزت کے مقام میں کیسے پہنچ سکتے ہیں مگر آج تو ان کو یہ حکم ہوا ہے ادخلو الجنۃ جنت میں داخل ہوجائو لاخوف علیکم ولا انتم تحزنون تمہیں اب کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ تم غمگین ہوگے اس کے برخلاف جو لوگ تمہیں حقیر سمجھتے تھے وہ خود دوزخ میں جل رہے ہیں مگر تم بالخوف و خطر جنت میں چلے جائو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ جنت اور دوزخ والے ایک دوسرے کو دیکھ کر پہچان سکیں گے وہ آپس میں بات چیت بھی کریں گے ہر شخص اپنے عزیزوں اور قرابت داروں کو بھی پہچانے گا۔ ایک دوسرے سے ملاقات کرنا چاہیں گے تو کرادی جائے گی اور وہ ایک دوسرے کی بات سن سکیں گے۔ دوزخیوں کی فرمائش اہل اعراف سے مکالمے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنتیوں اور دوزخیوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کا تذکرہ فرمایا ہے ونادی اصحب النار اصحاب الجنۃ دوزخ والے جنت والوں سے پکار کر کہیں گے ان افیضو علینا من الماء خدا کے لیے ہمارے اوپر تھوڑا سا پانی بہادو تمہارے پاس باغات ہیں نہریں ہیں اور آسائش کی ہر چیز میسر ہے مگر ہم یہاں سخت پیاس میں تڑپ رہے ہیں لہٰذا مہربانی کرکے ہمیں تھوڑا سا پانی دے دو اومما رزقکم اللہ یا اس روزی میں سے کچھ دے دو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے ہم اس وقت بہت تکلیف میں ہیں سخت بھوک اور پیاس میں مبتلا ہیں حلق خشک ہو رہے ہیں لہٰذا اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ہمیں بھی کچھ دے دو ایسے لوگوں کی حالت تو اللہ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ عذاب میں جل رہے ہیں جب وہ پیاس سے بیتاب ہوجائیں گے تو وہ پانی کی طرف اس طرح دوڑتے ہوئے جائیں گے جس طرح پیاسے اونٹ پانی پر جاتے ہیں مگر وہاں لھم شراب من حمیم (یونس) ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا اگر ایک گھونٹ بھی حلق سے نیچے اتاریں گے تو وہ آنتوں کو کاٹ کر پھینک دے گا اور کھانے کے لیے ان شجرۃ الزقوم طعام الاثیم (الدخان) جہنم کا تھوہر ہوگا جو اس قد کوڑا اور بدبو دار ہوگا کہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ بہرحال دوزخیوں کی فرمائش کے جواب میں قالو ان اللہ حرمھما علی الکفرین جنت والے کہیں گے بیشک یہ دونوں چیزیں یعنی کھانا پینا اللہ تعالیٰ نے کافروں پر حرام کردیا ہے لہٰذا جنت کی یہ نعمتیں تمہیں حاصل نہیں ہوسکتیں تمہیں نہ تو پانی کا ایک قطرہ مل سکتا ہے اور نہ کھانے کے لیے ایک دانہ میسر آسکتا ہے تمہیں دوزخ کا کھولتا ہوا پانی پینا ہوگا اور کڑوا ترین تھوہر کھانا ہوگا ، فرمایا یہ وہ کافر ہیں الذین اتخذو دینھم لھوا ولعباً جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا تھا دین برحق اور دینداروں کا تمسخر اڑایا کرتے تھے قرآن پاک میں کئی مثالیں موجود ہیں جیسے اذا مروابھم یتغامرون (الطففین) ایمان والوں کے پاس سے گزرتے تھے تو ان کا مذاق اڑاتے تھے اشارے کرتے تھے دیکھو یہ جنت کے والی اور حوروں کے خاوند جا رہے ہیں جن کے پاس نہ پہننے کو کپڑا اور نہ کھانے کو روٹی ، نہ مکان اور نہ سواری ، یہ اپنے آپ کو جنت کے وارث کہتے ہیں اس قسم کا استہزاء کرتے تھے اور طعنے دیتے تھے اس قسم کا ذکر سورة توبہ میں منافقین کے متعلق بھی آتا ہے ” ابا للہ وایتہ ورسولہ کنتھم تستھزون “ بدبختو ! کیا تم اللہ ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ٹھٹا کرتے ہو ، اللہ نے منافقین کی بھی مذمت بیان فرمانی ہے جو کہ کافروں کی طرح دین حق اور انبیاء کا مذاق اڑاتے تھے یہاں بھی فرمایا کہ وہ کافر لوگ ایسے تھے جنہوں نے دین کو کھیل تماشا بنا لیا تھا۔ دنیوی زندگی کا دھوکا اس کے علاوہ ان کی بدنصیبی یہ بھی تھی وغرتھم الحیوۃ الدنیا کو دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا انہوں نے دنیا کے آرام و آسائش کو ہی اول و آخر سمجھ لیا تھا اور کہتے تھے کہ یہ ہم سے کبھی جدا نہیں ہوں گی برخلاف اس کے ترمذی شریف میں حضور ﷺ کی یہ دعا منقول ہے الھم لاتجعل الدنیا الکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا اے اللہ دنیا ہی کو ہمارا منتہائے مقصود نہ بنادے کہ ہم اس میں مشغول ہو کر آخرت کو بھول جائیں انسانی زندگی کیا ہے کھانا پینا ، لباس ، مکان زن ، کاروبار یا اقتدار یہی چیزیں انسان کو آخرت سے غافل کرنے والی ہیں جو شخص ان چیزوں میں الجھ کر رہ گیا وہ دھوکا کھا گیا فرمایا جن بےنصیبوں نے دین کو کھیل تماشہ بنالیا اور دنیا کی زندگی میں پھنس کر رہ گئے انہیں جنت کی کوئی نعمت میسر نہیں آسکے گی۔ اللہ کی طرف سے بےاعتنائی اور پھر سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے فالیوم ننسھم آج کے دن ہم انہیں فراموش کردیں گے بالکل نظر انداز کردیں گے کما نسوالقاء یومھم ھذا جس طرح انہوں کے اس قیامت کے دن کو فراموش کردیا تھا کہتے تھے کوئی حساب کتاب نہیں نہ کوئی جنت دوزخ ہے اور نہ کسی نے مرکر دوبارہ جی اٹھنا ہے انہیں اس بات کا تصور ہی نہیں تھا کہ ان کے ساتھ یہ معاملہ پیش آنے والا ہے تو جس طرح انہوں نے آج کے دن کو بھلا دیا اس طرح ہم بھی انہیں فراموش کردیں گے۔ نسیان کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو نہیں کیا جاسکتا کہ نعوذ باللہ وہ بھی کسی بات کو بھول جائے گا مگر مطلب یہ ہے کہ ایسے منکرین کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے گا جو کسی فراموش شدہ آدمی کے ساتھ کیا جاتا ہے بعض اوقات بڑے بڑے واقعات ، حادثات اور تقریبات میں بعض لوگ یاد ہی نہیں آتے بعد میں یاد آتا ہے کہ فلاں شخص رہ گیا اس کی اطلاع نہیں دی جاسکی اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ قیامت کے دن ہم ایسے لوگوں کو اپنی رحمت سے دور کردیں گے۔ فرمایا ہم انہیں جنت کی نعمتوں سے اس لیے بھی محروم کردیں گے وماکانو بایتنا یجحدون کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے ہمارے احکام کی تکذیب کرتے تھے نبی کے فرمان کو جھٹلاتے تھے توحید و رسالت پر ایمان نہیں لاتے تھے قیامت کے دلائل کو تسلیم نہیں کرتے تھے ہم نے دلائل دیے طرح طرح کی مثالیں پیش کیں مگر انہوں نے کسی بات کو نہ مانا ۔ لہٰذا آج یہ اسی سلوک کے مستحق ہیں کہ ان کے لیے جنت کی نعمتیں ممنوع ہیں۔
Top