Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اِنَّ : بیشک رَبَّكُمُ : تمہارا رب اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو۔ جس خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین فِيْ : میں سِتَّةِ : چھ اَيَّامٍ : دن ثُمَّ : پھر اسْتَوٰى : قرار فرمایا عَلَي : پر الْعَرْشِ : عرش يُغْشِي : ڈھانکتا ہے الَّيْلَ : رات النَّهَارَ : دن يَطْلُبُهٗ : اس کے پیچھے آتا ہے حَثِيْثًا : دوڑتا ہوا وَّالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند وَالنُّجُوْمَ : اور ستارے مُسَخَّرٰتٍ : مسخر بِاَمْرِهٖ : اس کے حکم سے اَلَا : یاد رکھو لَهُ : اس کے لیے الْخَلْقُ : پیدا کرنا وَالْاَمْرُ : اور حکم دینا تَبٰرَكَ : برکت والا ہے اللّٰهُ : اللہ رَبُّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
بیشک تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پھر وہ مستوی ہوا عرش پر۔ وہ ڈھانپ دیتا ہے رات کو دن پر طلبک رتا ہے وہ اس کو تیزی سے دوڑتا ہوا اور سورج اور چاند اور ستارے مسخر ہیں اس کے حکم کے ساتھ۔ سنو ! اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم دنیا بڑی برکت والی ہے وہ ذات اللہ تعالیٰ کی جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے
ربط آیات گزشتہ آیات میں اصحاب اعراف کے تذکرے کے بعد اہل جہنم کا ذکر ہوا ، ان کے برے انجام کو بیان کیا گیا پھر ان کی خواہش کا ذکر ہوا …………کہ ان کے لیے کوئی سفارش ہو یا انہیں دنیا میں واپس پلٹا دیا جائے جہاں ر پوہ اچھے کام انجام دیں وہ اس وقت اپنی کوتاہی کا اعتراف کریں گے مر اس وقت کا اقرار کچھ مفید نہیں ہوگا دنیا کی زندگی میں انہوں نے وقت کو ضائع کردیا اور اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا غرضیکہ پہلے اللہ تعالیٰ نے اچھے لوگوں کا انجام بھی بیان کیا اور پھر توحید ، رسالت اور معاد کے منکرین کا حال بھی بیان کیا اب آج کے درس میں اللہ نے ابتدائی تخلیق کا ذکر کیا ہے پہلے ساری کائنات کی تخلیق کا ذکر ہے اور اس کے بعد نوع انسانی کی تخلیق کا ، قرآن پاک کا ایک یہ اسلوب بیان ہے کہ مختلف چیزوں کو مختلف انداز سے بیان کیا جاتا ہے مثلاً ترغیب کے ساتھ ترہیب کا ذکر ہوتا ہے اسی طرح یہاں پر انجام کے ساتھ اب آغاز کا ذکر ہورہا ہے تخلیق کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ ، اس کی قضا و قدر اور اس کے فیصلے کا ذکر کیا جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی توحید کا مسئلہ سمجھایا جاتا ہے توحید کا بیان ، شرک کی تردید ، کفر کی مذمت ، رسالت اور معاد کا ذکر ، قضا و قدر کی تفصیلات اور کتاب الٰہی کی صداقت و حقانیت قرآن کریم کے اہم ترین مضامین میں سے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہاں پر آغاز کا ذکر کیا ہے جب آغاز ہوگا تو انجام کی بھی فکر ہوگی اور اس طرح وقوع قیامت اور قضا و قدر کی تفصیلات سے بھی آگاہی ہوگی۔ تخلیق کائنات اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کا ذکر اس طرح کیا ہے ان ربکم بیشک تمہارا پروردگار تخلیق کائنات کے سلسلے میں یہاں پر اللہ تعالیٰ کی صفت ، ربوبیت کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ عام لوگوں کو فہم صفت ربوبیت کو آسانی سے سمجھ جاتا ہے اس لیے جب الوہیت کا مسئلہ بیان کرنا مطلوب ہوتا تو اس کی ابتداء صفت ربوبیت سے ہی کی جاتی ہے البتہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کا تذکرہ خاص لوگوں کے لیے کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اسے سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں بہرحال فرمایا بیشک تمہارا پروردگار اللہ الذی وہ اللہ ہے خلق السموت والارض جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو فی ستۃ ایام چھ دن میں مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ چھ دن سے مراد یہ چوبیس گھنٹے کی رات دن کے ایام مراد نہیں ہیں بلکہ ان ایام سے دن کی وہ مقدار مراد ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ مما تعدون “ (السجدۃ) تیرے پروردگار کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے اس لحاظ سے چھ دن سے مراد ایک ایک ہزار سال کے چھ دوریا چھ وقفے یا چھ (PERIOD) ہوگا یعنی تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ادوار میں پیدا فرمایا۔ عجلت یا تدریج حضرت سعید ابن جبیر (رح) مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگرد تھے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو ایک لمحے میں بھی پیدا کرنے پر قادر ہے جیسا کہ قرآن میں مختلف مقامات پر کن فیکون کے الفاظ آتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو ہتا ہے ہو جائو تو وہ فوراً ہوجاتی ہے اسی طرح اگر وہ چاہتا تو پوری کائنات کو بھی پلک جھپکنے میں پیدا کرسکتا تھا وہ قادر مطلق ہے اس کی ایک صفت قدیر ہے وہ اپنی قدرت کاملہ سے ہر چیز پر قادر ہے اللہ تعالیٰ کی دوسری صفت حکمت بھی ہے اس کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے مگر انسان اسے نہیں سمجھ سکتے تو حضرت سعید ابن جبیر (رح) فرماتے ہیں کہ کائنات کو چھ دن میں پیدا کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو یہ تعلیم دینا چاہتا ہے کہ جلد بازی نہیں کرنی چاہیے بلکہ تمام کام آہستہ آہستہ سکون کے ساتھ بتدریج انجام دینے چاہئیں حضور ﷺ کا فرمان ہے التودہ من الرحمن والعجلۃ من لشیطن یعنی آہستگی رحمان کی طرف سے اور عجلت شیطان کی طرف سے ہے انسان جو کام جلد بازی میں کرے گا اس میں خرابی واقع ہوگی لہٰذا تمام کام سوچ سمجھ کر نہایت اطمینان کے ساتھ آہستہ آہستہ کرنے چاہئیں شیخ سعدی (رح) بھی کہتے ہیں کہ تعجیل کار شیطاطین بود ، یعنی جلد بازی شیطانی کاموں میں سے ہے غرضیکہ کائنات کو چھ یوم میں پیدا کرکے اللہ تعالیٰ نے ہر کام کو تسلی کے ساتھ انجام دینے کی تعلیم دی ہے۔ استویٰ علی العرش ابتدائے تخلیق کے ضمن میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات سے پہلے پانی کو پیدا کیا سورة ہود میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا وکان عرشہ علی الماء اور اس کا عرش اس وقت پانی پر تھا پانی کی طرح عرش بھی اللہ کی مخلوق ہے اس کی صفت نہیں اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی تجلیات اس کی صفات ہیں بہرحال فرمایا کہ تمہارا رب وہ ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ثم استویٰ علی العرش پھر وہ عرش پر مستوی ہوا مفسرین کرام عرش پر مستوی ہونے کے دو معنی بیان کرتے ہیں ایک تو مجازی معنی ہے جو متکلمین بیان کرتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات میں اللہ تعالیٰ ہی کی بادشاہی ہے عرش پر بیٹھنا صاحب اقتدار ہونے کی علامت ہوتی ہے جیسے شاعر کہتا ہے ؎ استویٰ بشر علی العراق من غیر سیف و دم مہراق بشرتخت پر بیٹھ گیا یعنی اس کو اقتدار مل گیا مگر یہ تلوار چلی اور نہ خون بہا بہرحال استویٰ علی العرش کے مجازی معنی یہ ہیں کہ تخت پر بیٹھ گیا اختیارات مل گئے یا بادشاہ وغیرہ بن گیا۔ استویٰ کو حقیقی معنی پر بھی محمول کرسکتے ہیں جیسا کہ امام مالک (رح) ، امام ابوحنیفہ (رح) ، سفیان ثوری (رح) ، امام ابن عینیہ (رح) ، امام شافعی (رح) اور دیگر آئمہ سلف کا مسلک ہے امام مالک کا قبول ہے استوی معلوم والکیف غیر معقول یعنی استویٰ کا معنی تو معلوم ہے مگر اس کی کیفیت عقل میں نہیں آسکتی یا فرماتے ہیں ولکیف مجھول یعنی اس کی کیفیت سمجھ میں نہیں آسکتی کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کا استوی بھی اسی طرح سمجھا جائے جس طرح کوئی انسان کرسی یا چارپائی پر بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا جسم ثابت ہوگا حالانکہ وہ جسمانیت او مادیت سے پاک ہے وہ مکانیت سے بھی مبرا ہے لیس کمثلہ شی وہ بےمثال ہے اس کی مثال کسی چیز سے نہیں دی جاسکتی اور نہ ہم اس کے استویٰ کی حالت کو سمجھ سکتے ہیں فرماتے ہیں والایمان بہ واجب اس کے استوی پر ایمان لانا ضروری ہے والسوال عنہ بدعہ مگر اس کی کیفیت کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے چناچہ تمام آئمہ کرام کا یہی عقیدہ ہے کہ اس چیز پر ایمان لائو کہ خدا مستوی العرش ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے باقی اس کی کیفیت کو خدا کے سپرد کرو۔ یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ جسم اور مکان سے پاک ہے اسی طرح وہ جہت سے بھی پاک ہے اگر اس کے آگے پیچھے ، دائیں بائیں یا اوپر نیچے جہت تسلیم کی جائے تو خدا تعالیٰ کی مادیت تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا اور انسان کافر اور مشرک بن جائے گا خدا تعالیٰ ان تمام چیزوں سے منزہ ہے اللہ تعالیٰ کی دائیں بائیں جہت بالکل نہیں کلتا یدی الرحمن یمین اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے میں اس کا بیاں ہاتھ نہیں ہے بائیں ہاتھ سے عموماً حقیر کام کیے جاتے ہیں لہٰذا خدا تعالیٰ کے لیے بائیں ہاتھ کا تصور اس کے لائق نہیں ہے اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے یہ بات زیادہ آسان طریقے سے سمجھائی ہے وہ استویٰ العرش کا ترجمہ یوں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ عرش پر تجلی ڈالتا ہے اس کی تجلی خصوصاً تجلی اعظم ہر وقت عرش الٰہی پر پڑتی رہتی ہے جس سے سارا عرش رنگین ہوجاتا ہے اس کے اثرات تمام کائنات پر پھیلتے ہیں اور پھر واپس پلٹتے ہیں یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے اس کی ابتداء کب ہوئی یہ انسان کے علم سے باہر ہے خدا تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے وہ سب کائنات سے جدا ہے وہ غیب الغیب ہے وہاں کسی کا ادراک کام نہیں کرسکتا۔ تجلیات کی بہت سی قسمیں ہیں مگر تجلی اعظم ہر وقت عرش الٰہی پر پڑتی ہے آخرت میں اللہ تعالیٰ کی مومنین کو جو رویت ہوگی وہ تجلی اعظم ہی کی رویت ہوگی امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ وہ تجلی اس وقت بھی کائنات کے وسط عالم مثال اور خطیرۃ القدس میں پڑ رہی ہے تاہم جب لوگ آخرت میں جائیں گے تو اس کے قریب تر ہوجائیں گے اور اسے نمایاں طریقے سے محسوس کریں گے فرماتے ہیں جس طرح کوئی شخص چودھویں رات کے چاند کو شک و شبہ کے بغیر دیکھتا ہے یا دوپہر کے وقت سورج کو دیکھتا ہے اسی طرح وہ آخرت میں تجلی اعظم کو دیکھ سکے گا۔ سب و روز کی دوڑ فرمایا ، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا یغشی الیل النھار وہ اوڑھا دیتا ہے رات کو دینی پر یعنی دن پر رات کی چادر ڈال کر اسے چھپا دیتا ہے پہلے دن ہوتا ہے پھر رات آجاتی ہے یطلبہ حثیثاً وہ طلب کرتا ہے اس کو تیزی سے دوڑتا ہوا یعنی جس طرح رات دن پر چھا جاتی ہے اسی طرح پھر دن رات پر مسلط ہوجاتا ہے اور اسی طرح شب و روز کی دوڑ جاری رہتی ہے جو کہ ہر ایک کے مشاہدہ میں ہے نابعہ زبیانی شاعر بادشاہ کے زیر عتاب آگیا تو کہنے لگا ؎ فانک کاللیل الذی ھومدرکی وان خلت ان المنتای عنک واسع تم تو رات کی مانند ہو جو دور کی مسافت سے آکر بھی پکڑ لیتی ہے اور چھا جاتی ہے اسی طرح میں تم سے بھاگ نہیں سکتا کیونکہ میں جہاں بھی جائوں تم مجھے پکڑ لو گے اسی طرح رات اور دن ہیں جو ہمیشہ ایک دوسرے کے تعاقب میں رہتے ہیں اور مقررہ وقت پر ایک دوسرے پر حاوی ہوجاتے ہیں شب و روز کے اس تغیر و تبدل میں اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی حکمت رکھی ہے دن کے وقت تمام جاندار کام کاج کرتے ہیں اپنی روزی تلاش کرتے ہیں پھر رات کے وقت آرام کرتے ہیں تو ان کے قوی اگلے دن کی عبادت اور محنت کیلئے بحال ہوجاتے ہیں رات اور دن کا برابری کی بنیاد پر تذکرے سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ رات کو کام او دن کو آرام بھی کیا جاسکتا ہے چناچہ آج کل صنعتی دور میں بعض کارخانے چوبیس گھنٹے چلتے ہیں بعض لوگ دن کی شفٹ میں کام کرتے ہیں اور رات کو آرام کرتے ہیں اور بعض رات کو ڈیوٹی دیتے ہیں اور دن کے وقت آرام کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دن رات کا یہ چکر کمال حکمت کے ساتھ وضع فرمایا ہے۔ سورج چاند اور ستارے آسمان و زمین کی تخلیق استویٰ علی العرش اور رات دن کے تغیر و تبدل کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے سیاروں اور ستاروں کی تخلیق کا ذکر بھی فرمایا ہے ارشاد ہے والشمس والقمر اللہ نے سورج اور چاند کو پیدا فرمایا ہے یہ بھی اس کے نشانات قدرت اور توحید کے دلائل میں سے ہیں والنجوم اور ستاروں کو بھی کمال قدر ت سے پیدا کیا ہے اللہ نے تمام سیاروں اور ستاروں میں الگ الگ خاصیت رکھی ہے سورج میں تیز روشنی اور حرارت پیدا کی ہے جس سے پوری کائنات متاثر ہوتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتی ہے چاند کی اپنی شان ہے وہ مدہم اور خوشنما روشنی مہیا کرتا ہے ، سبع سیارات کے باقی پانچ ارکان میں سے زحل کی روشنی نیلگوں ہوتی ہے ، مشتری کی روشنی خاکستری مائل ہے مریخ آگ کے شعلے کی طرح سرخ ہے عطارد کی روشنی زردی مائل ہے اور زہرا میں خاص قسم کی تیز چمک ہے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کا جدا جدا رنگ اور الگ الگ خاصیت رکھی ہے زمین کی طرح باقی سیارے بھی مختلف مادوں سے بنے ہیں امریکی خلا باز چاند کی سطح سے جو مٹی لائے تھے اس پر تجربات کیے گئے اس میں بھی زمین والی نشونما کی خاصیت پائی جاتی ہے تاہم زمین کے عناصر چاند کی نسبت زیاہ کثیف ہیں اور فلکیات کے عناصر لطیف ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ مختلف سیاروں کی ساخت میں تھوڑا بہت فرق ہے اسی لیے ان کے رنگوں میں بھی فرق ہے اور روشنی بھی مختلف ہے اللہ نے ہر سیارے کے مادے کو مختلف عناصر سے پیدا فرمایا ہے اخبارات میں یہ خبر بھی آچکی ہے کہ اولین امریکی خلا باز مسلمان ہوچکا ہے اس نے چاند پر کوئی عجیب آواز سنی پھر واپس آکر اس نے وہی آواز اذان کی صورت میں سنی تو اسے اسلام کی حقانیت پر یقین آگیا اور اس نے اسلام قبول کرلیا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اس نے چاند پر اپنی کسی مخلوق کی اذان کی آواز اس خلا باز کو سنادی۔ سات سیارے چھوٹے چھوٹے لاکھوں اور کروڑوں ستاروں کے علاوہ سات بڑے سیارے ہیں جن کا ابھی ذکر ہوا ہے یہ نظام شمسی کے رکن سیارے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت کے ساتھ انہیں خلا میں پھیلا دیا ہے اور ہر ایک کی اپنے محور اور اپنے اپنے مدار میں چال مقرر کردی ہے جس کی وجہ سے یہ اپنے اپنے راستے پر چل رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا جانے کی نوبت نہیں آتی سبع سیارات میں چاند اور سورج کی چال تو ایک جیسی ہے البتہ باقی پانچ سیارے (خمسہ ستحیرہ) کبھی سیدھے چلتے ہیں ، کبھی دائیں بائیں اور کبھی غائب ہوجاتے ہیں پچھلے سال مارچ میں یہ واقعہ ہوا کہ ساتوں سیارے ایک سیدھ میں آگئے نجومیوں کے ہاں یہ بڑا حادثہ ہوتا ہے جو سینکڑوں ہزاروں سال میں پیش آتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں بڑے بڑے تغیرات واقع وہتے ہیں بہرحال سورج اور چاند کی رفتار میں مماثلت پائی جاتی ہے اور یہ پورا سال بارہ برجوں میں گردش کرتے ہیں ان کا ہر ماہ کا سفر مختلف برج میں ہوتا ہے چناچہ موسموں کا تغیر و تبدیل بھی اسی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یہ سب کے سب سیارے مسخرات بامرہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں اللہ تعالیٰ جس طرح چلاتا ہے اسی طرح چلتے ہیں اس کے حکم کے پابند ہیں اللہ نے جس مدار میں ان کو چلایا ہے اور جو ڈیوٹی لگائی ہے اس کو انجام دے رہے ہیں نظام شمسی کے متعلق قرآن پاک نے یہ بھی بتلا دیا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب یہ پورا نظام تبدیل کردیاجائے گا تمام کائنات درہم برہم ہوجائے گی اور پھر اس کی جگہ دوسرا نظام لایا جائے گا قرآن پاک کی اصطلاح میں یہ واقعہ قیامت کے نام سے موسوم ہے اس نظام شمسی کے علاوہ بعض دوسرے نظام بھی کائنات میں جاری ہیں جن میں سب سے بڑا نظام خطیرۃ القدس کا نظام ہے جو ابھی تک ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے جب نظام شمسی ختم ہوجائے گا جو ابھی تک ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے جب نظام شمسی ختم ہوجائے گا تو خطیرۃ القدس کا نظام ظاہر ہوجائے گا بہرحال یہ تمام نظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں ” مسخرات بامرہ “ کا یہی مطلب ہے۔ عالم خلق اور امر فرمایا الالہ الخلق والامر سن لو ! پیدا کرنا اور حکم دینا اسی اللہ تعالیٰ کا کام ہے ” اللہ خالق کل شی “ ہر شے کا پیدا کرنے والا وہی ہے خلق العلیم بھی وہی ہے تخلیق کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی چار صفات کام کرتی ہیں پہلی صفت ابداع ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو نیست سے ہست کرتا ہے پھر دوسری صفت تخلیق ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک چیز کو دوسری چیز کے مادے سے بناتا ہے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے تخلیق کیا گیا سورة آل عمران میں موجود ہے خلقہ من تراب اور پھر آگے اللہ نے توالد اور تناسل کے ذریعے نسل انسانی کو پھیلایا سورة السجدہ میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق مٹی سے کی ثم جعل نلہ من سللۃ من مائٍ مھین پھر اس کی نسل حقیر پانی سے چلائی اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی تیسری صفت تدبیر کام کرتی ہے یعنی آگے پیچھے یا تغیر و تبدل کرنا بھی اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ہر مخلوق کے قلب میں تدلی بھی پھینکتا ہے جو کہ اس کی چوتھی صفت ہے یہ چاروں صفات تخلیق کے سلسلے میں یکے بعد دیگرے اپنا اپنا کام کرتی ہیں۔ صفت خلق کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر امر کا ذکر بھی کیا ہے کہتے ہیں کہ عرش سے اوپر عالم امر ہے جس کی کیفیت کو کوئی مخلوق نہیں جان سکتی اس سے نیچے عالم خلق ہے چناچہ اس کے متعلق فرمایا ہے کہ خلق بھی اسی کا ہے اور امر بھی اسی کا ہے گویا پیدا کرنا بھی اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور حکم دینا بھی اسی کو سزاوار ہے مولانا شیخ الہند (رح) اس حصہ آیت کا ترجمہ کرتے ہیں سن لو ! اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا ، تخلیق بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے لہٰذا عبادت بھی صرف اسی کی کرنی چاہیے چناچہ اگلی آیات میں الوہیت ککا مسئلہ بھی بیان ہوگا کہ جو خالق ، رب اور صاحب امر ہے ، عبادت بھی اسی کی کرو غیر اللہ کی عبادت کرکے کیوں شرک میں مبتلا ہوتے ہو وہ خالق ہے ہم مخلوق ہیں وہ آمر ہے ہم مامور ہیں وہ رب ہے ہم مربوب ہیں وہ مالک ہے ہم مملوک ہیں جب خالقیت اور ربوبیت کی پہچان ہوجائے گی تو پھر الوہیت کی پہچان بھی آجائے گی۔ بابرکت ذات فرمایا تبرک اللہ رب العلمین تمام جہانوں کا پروردگار اللہ تعالیٰ بڑا بابرکت ہے وہ برکتیں عطا کرنے والا ہے برکت ایسی زیادتی اور نشونما کو کہتے ہیں جس میں تقدس اور پاکیزگی پائی جائے برکت دینے والی ذات بھی فقط ذات خدا وندی ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا وجعلنی مبرکاً (سورۃ مریم) اللہ ہی نے مجھے بابرکت بنایا میرے ہاتھ سے معجزات ظاہر ہوئے اور حیرت انگیز چیزیں پیش آئیں سورة ملک کی ابتداء میں ہے تبرک الذی بیدہ الملک بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں اختیار ہے تبرک الذی نزل الفرقان علی عبدہ (الفرقان) برکتوں والی ہے وہ ذات جس نے قرآن جیسی عظیم کتاب نازل فرما کر نبی نوع انسان پر احسان فرمایا خدا تعالیٰ نے قرآن پاک کی صورت میں اپنا کلام اور صفت نازل فرمائی اور انسان کو اعزاز بخشا مگر انسان بڑا ہی ناشکرگزار اور ناقدردان ہے یہ صفت الٰہی کی قدر نہیں کرتا اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا پروردگار ہے وہ ہر ایک کی تربیت کرنے والا ہے۔ پہلے انجام کا بیان تھا اب اس آیت میں آغاز کا ذکر ہوا ابتدائے تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت اس کے تصرف اور صفت امر کا تذکرہ ہوگیا ہے اس کے ذریعے خدا تعالیٰ کی الوہیت اور عبودیت کو پہچان سکتا ہے اس کی تشریح اگلی آیات میں آئے گی۔
Top