Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكُمُ
: تمہارا رب
اللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جو۔ جس
خَلَقَ
: پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
فِيْ
: میں
سِتَّةِ
: چھ
اَيَّامٍ
: دن
ثُمَّ
: پھر
اسْتَوٰى
: قرار فرمایا
عَلَي
: پر
الْعَرْشِ
: عرش
يُغْشِي
: ڈھانکتا ہے
الَّيْلَ
: رات
النَّهَارَ
: دن
يَطْلُبُهٗ
: اس کے پیچھے آتا ہے
حَثِيْثًا
: دوڑتا ہوا
وَّالشَّمْسَ
: اور سورج
وَالْقَمَرَ
: اور چاند
وَالنُّجُوْمَ
: اور ستارے
مُسَخَّرٰتٍ
: مسخر
بِاَمْرِهٖ
: اس کے حکم سے
اَلَا
: یاد رکھو
لَهُ
: اس کے لیے
الْخَلْقُ
: پیدا کرنا
وَالْاَمْرُ
: اور حکم دینا
تَبٰرَكَ
: برکت والا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
رَبُّ
: رب
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان
بیشک تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پھر وہ مستوی ہوا عرش پر۔ وہ ڈھانپ دیتا ہے رات کو دن پر طلبک رتا ہے وہ اس کو تیزی سے دوڑتا ہوا اور سورج اور چاند اور ستارے مسخر ہیں اس کے حکم کے ساتھ۔ سنو ! اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم دنیا بڑی برکت والی ہے وہ ذات اللہ تعالیٰ کی جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے
ربط آیات گزشتہ آیات میں اصحاب اعراف کے تذکرے کے بعد اہل جہنم کا ذکر ہوا ، ان کے برے انجام کو بیان کیا گیا پھر ان کی خواہش کا ذکر ہوا …………کہ ان کے لیے کوئی سفارش ہو یا انہیں دنیا میں واپس پلٹا دیا جائے جہاں ر پوہ اچھے کام انجام دیں وہ اس وقت اپنی کوتاہی کا اعتراف کریں گے مر اس وقت کا اقرار کچھ مفید نہیں ہوگا دنیا کی زندگی میں انہوں نے وقت کو ضائع کردیا اور اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا غرضیکہ پہلے اللہ تعالیٰ نے اچھے لوگوں کا انجام بھی بیان کیا اور پھر توحید ، رسالت اور معاد کے منکرین کا حال بھی بیان کیا اب آج کے درس میں اللہ نے ابتدائی تخلیق کا ذکر کیا ہے پہلے ساری کائنات کی تخلیق کا ذکر ہے اور اس کے بعد نوع انسانی کی تخلیق کا ، قرآن پاک کا ایک یہ اسلوب بیان ہے کہ مختلف چیزوں کو مختلف انداز سے بیان کیا جاتا ہے مثلاً ترغیب کے ساتھ ترہیب کا ذکر ہوتا ہے اسی طرح یہاں پر انجام کے ساتھ اب آغاز کا ذکر ہورہا ہے تخلیق کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ ، اس کی قضا و قدر اور اس کے فیصلے کا ذکر کیا جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی توحید کا مسئلہ سمجھایا جاتا ہے توحید کا بیان ، شرک کی تردید ، کفر کی مذمت ، رسالت اور معاد کا ذکر ، قضا و قدر کی تفصیلات اور کتاب الٰہی کی صداقت و حقانیت قرآن کریم کے اہم ترین مضامین میں سے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہاں پر آغاز کا ذکر کیا ہے جب آغاز ہوگا تو انجام کی بھی فکر ہوگی اور اس طرح وقوع قیامت اور قضا و قدر کی تفصیلات سے بھی آگاہی ہوگی۔ تخلیق کائنات اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کا ذکر اس طرح کیا ہے ان ربکم بیشک تمہارا پروردگار تخلیق کائنات کے سلسلے میں یہاں پر اللہ تعالیٰ کی صفت ، ربوبیت کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ عام لوگوں کو فہم صفت ربوبیت کو آسانی سے سمجھ جاتا ہے اس لیے جب الوہیت کا مسئلہ بیان کرنا مطلوب ہوتا تو اس کی ابتداء صفت ربوبیت سے ہی کی جاتی ہے البتہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کا تذکرہ خاص لوگوں کے لیے کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اسے سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں بہرحال فرمایا بیشک تمہارا پروردگار اللہ الذی وہ اللہ ہے خلق السموت والارض جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو فی ستۃ ایام چھ دن میں مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ چھ دن سے مراد یہ چوبیس گھنٹے کی رات دن کے ایام مراد نہیں ہیں بلکہ ان ایام سے دن کی وہ مقدار مراد ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ مما تعدون “ (السجدۃ) تیرے پروردگار کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے اس لحاظ سے چھ دن سے مراد ایک ایک ہزار سال کے چھ دوریا چھ وقفے یا چھ (PERIOD) ہوگا یعنی تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ادوار میں پیدا فرمایا۔ عجلت یا تدریج حضرت سعید ابن جبیر (رح) مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگرد تھے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو ایک لمحے میں بھی پیدا کرنے پر قادر ہے جیسا کہ قرآن میں مختلف مقامات پر کن فیکون کے الفاظ آتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو ہتا ہے ہو جائو تو وہ فوراً ہوجاتی ہے اسی طرح اگر وہ چاہتا تو پوری کائنات کو بھی پلک جھپکنے میں پیدا کرسکتا تھا وہ قادر مطلق ہے اس کی ایک صفت قدیر ہے وہ اپنی قدرت کاملہ سے ہر چیز پر قادر ہے اللہ تعالیٰ کی دوسری صفت حکمت بھی ہے اس کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے مگر انسان اسے نہیں سمجھ سکتے تو حضرت سعید ابن جبیر (رح) فرماتے ہیں کہ کائنات کو چھ دن میں پیدا کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو یہ تعلیم دینا چاہتا ہے کہ جلد بازی نہیں کرنی چاہیے بلکہ تمام کام آہستہ آہستہ سکون کے ساتھ بتدریج انجام دینے چاہئیں حضور ﷺ کا فرمان ہے التودہ من الرحمن والعجلۃ من لشیطن یعنی آہستگی رحمان کی طرف سے اور عجلت شیطان کی طرف سے ہے انسان جو کام جلد بازی میں کرے گا اس میں خرابی واقع ہوگی لہٰذا تمام کام سوچ سمجھ کر نہایت اطمینان کے ساتھ آہستہ آہستہ کرنے چاہئیں شیخ سعدی (رح) بھی کہتے ہیں کہ تعجیل کار شیطاطین بود ، یعنی جلد بازی شیطانی کاموں میں سے ہے غرضیکہ کائنات کو چھ یوم میں پیدا کرکے اللہ تعالیٰ نے ہر کام کو تسلی کے ساتھ انجام دینے کی تعلیم دی ہے۔ استویٰ علی العرش ابتدائے تخلیق کے ضمن میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات سے پہلے پانی کو پیدا کیا سورة ہود میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا وکان عرشہ علی الماء اور اس کا عرش اس وقت پانی پر تھا پانی کی طرح عرش بھی اللہ کی مخلوق ہے اس کی صفت نہیں اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی تجلیات اس کی صفات ہیں بہرحال فرمایا کہ تمہارا رب وہ ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ثم استویٰ علی العرش پھر وہ عرش پر مستوی ہوا مفسرین کرام عرش پر مستوی ہونے کے دو معنی بیان کرتے ہیں ایک تو مجازی معنی ہے جو متکلمین بیان کرتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات میں اللہ تعالیٰ ہی کی بادشاہی ہے عرش پر بیٹھنا صاحب اقتدار ہونے کی علامت ہوتی ہے جیسے شاعر کہتا ہے ؎ استویٰ بشر علی العراق من غیر سیف و دم مہراق بشرتخت پر بیٹھ گیا یعنی اس کو اقتدار مل گیا مگر یہ تلوار چلی اور نہ خون بہا بہرحال استویٰ علی العرش کے مجازی معنی یہ ہیں کہ تخت پر بیٹھ گیا اختیارات مل گئے یا بادشاہ وغیرہ بن گیا۔ استویٰ کو حقیقی معنی پر بھی محمول کرسکتے ہیں جیسا کہ امام مالک (رح) ، امام ابوحنیفہ (رح) ، سفیان ثوری (رح) ، امام ابن عینیہ (رح) ، امام شافعی (رح) اور دیگر آئمہ سلف کا مسلک ہے امام مالک کا قبول ہے استوی معلوم والکیف غیر معقول یعنی استویٰ کا معنی تو معلوم ہے مگر اس کی کیفیت عقل میں نہیں آسکتی یا فرماتے ہیں ولکیف مجھول یعنی اس کی کیفیت سمجھ میں نہیں آسکتی کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کا استوی بھی اسی طرح سمجھا جائے جس طرح کوئی انسان کرسی یا چارپائی پر بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا جسم ثابت ہوگا حالانکہ وہ جسمانیت او مادیت سے پاک ہے وہ مکانیت سے بھی مبرا ہے لیس کمثلہ شی وہ بےمثال ہے اس کی مثال کسی چیز سے نہیں دی جاسکتی اور نہ ہم اس کے استویٰ کی حالت کو سمجھ سکتے ہیں فرماتے ہیں والایمان بہ واجب اس کے استوی پر ایمان لانا ضروری ہے والسوال عنہ بدعہ مگر اس کی کیفیت کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے چناچہ تمام آئمہ کرام کا یہی عقیدہ ہے کہ اس چیز پر ایمان لائو کہ خدا مستوی العرش ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے باقی اس کی کیفیت کو خدا کے سپرد کرو۔ یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ جسم اور مکان سے پاک ہے اسی طرح وہ جہت سے بھی پاک ہے اگر اس کے آگے پیچھے ، دائیں بائیں یا اوپر نیچے جہت تسلیم کی جائے تو خدا تعالیٰ کی مادیت تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا اور انسان کافر اور مشرک بن جائے گا خدا تعالیٰ ان تمام چیزوں سے منزہ ہے اللہ تعالیٰ کی دائیں بائیں جہت بالکل نہیں کلتا یدی الرحمن یمین اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے میں اس کا بیاں ہاتھ نہیں ہے بائیں ہاتھ سے عموماً حقیر کام کیے جاتے ہیں لہٰذا خدا تعالیٰ کے لیے بائیں ہاتھ کا تصور اس کے لائق نہیں ہے اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے یہ بات زیادہ آسان طریقے سے سمجھائی ہے وہ استویٰ العرش کا ترجمہ یوں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ عرش پر تجلی ڈالتا ہے اس کی تجلی خصوصاً تجلی اعظم ہر وقت عرش الٰہی پر پڑتی رہتی ہے جس سے سارا عرش رنگین ہوجاتا ہے اس کے اثرات تمام کائنات پر پھیلتے ہیں اور پھر واپس پلٹتے ہیں یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے اس کی ابتداء کب ہوئی یہ انسان کے علم سے باہر ہے خدا تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے وہ سب کائنات سے جدا ہے وہ غیب الغیب ہے وہاں کسی کا ادراک کام نہیں کرسکتا۔ تجلیات کی بہت سی قسمیں ہیں مگر تجلی اعظم ہر وقت عرش الٰہی پر پڑتی ہے آخرت میں اللہ تعالیٰ کی مومنین کو جو رویت ہوگی وہ تجلی اعظم ہی کی رویت ہوگی امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ وہ تجلی اس وقت بھی کائنات کے وسط عالم مثال اور خطیرۃ القدس میں پڑ رہی ہے تاہم جب لوگ آخرت میں جائیں گے تو اس کے قریب تر ہوجائیں گے اور اسے نمایاں طریقے سے محسوس کریں گے فرماتے ہیں جس طرح کوئی شخص چودھویں رات کے چاند کو شک و شبہ کے بغیر دیکھتا ہے یا دوپہر کے وقت سورج کو دیکھتا ہے اسی طرح وہ آخرت میں تجلی اعظم کو دیکھ سکے گا۔ سب و روز کی دوڑ فرمایا ، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا یغشی الیل النھار وہ اوڑھا دیتا ہے رات کو دینی پر یعنی دن پر رات کی چادر ڈال کر اسے چھپا دیتا ہے پہلے دن ہوتا ہے پھر رات آجاتی ہے یطلبہ حثیثاً وہ طلب کرتا ہے اس کو تیزی سے دوڑتا ہوا یعنی جس طرح رات دن پر چھا جاتی ہے اسی طرح پھر دن رات پر مسلط ہوجاتا ہے اور اسی طرح شب و روز کی دوڑ جاری رہتی ہے جو کہ ہر ایک کے مشاہدہ میں ہے نابعہ زبیانی شاعر بادشاہ کے زیر عتاب آگیا تو کہنے لگا ؎ فانک کاللیل الذی ھومدرکی وان خلت ان المنتای عنک واسع تم تو رات کی مانند ہو جو دور کی مسافت سے آکر بھی پکڑ لیتی ہے اور چھا جاتی ہے اسی طرح میں تم سے بھاگ نہیں سکتا کیونکہ میں جہاں بھی جائوں تم مجھے پکڑ لو گے اسی طرح رات اور دن ہیں جو ہمیشہ ایک دوسرے کے تعاقب میں رہتے ہیں اور مقررہ وقت پر ایک دوسرے پر حاوی ہوجاتے ہیں شب و روز کے اس تغیر و تبدل میں اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی حکمت رکھی ہے دن کے وقت تمام جاندار کام کاج کرتے ہیں اپنی روزی تلاش کرتے ہیں پھر رات کے وقت آرام کرتے ہیں تو ان کے قوی اگلے دن کی عبادت اور محنت کیلئے بحال ہوجاتے ہیں رات اور دن کا برابری کی بنیاد پر تذکرے سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ رات کو کام او دن کو آرام بھی کیا جاسکتا ہے چناچہ آج کل صنعتی دور میں بعض کارخانے چوبیس گھنٹے چلتے ہیں بعض لوگ دن کی شفٹ میں کام کرتے ہیں اور رات کو آرام کرتے ہیں اور بعض رات کو ڈیوٹی دیتے ہیں اور دن کے وقت آرام کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دن رات کا یہ چکر کمال حکمت کے ساتھ وضع فرمایا ہے۔ سورج چاند اور ستارے آسمان و زمین کی تخلیق استویٰ علی العرش اور رات دن کے تغیر و تبدل کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے سیاروں اور ستاروں کی تخلیق کا ذکر بھی فرمایا ہے ارشاد ہے والشمس والقمر اللہ نے سورج اور چاند کو پیدا فرمایا ہے یہ بھی اس کے نشانات قدرت اور توحید کے دلائل میں سے ہیں والنجوم اور ستاروں کو بھی کمال قدر ت سے پیدا کیا ہے اللہ نے تمام سیاروں اور ستاروں میں الگ الگ خاصیت رکھی ہے سورج میں تیز روشنی اور حرارت پیدا کی ہے جس سے پوری کائنات متاثر ہوتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتی ہے چاند کی اپنی شان ہے وہ مدہم اور خوشنما روشنی مہیا کرتا ہے ، سبع سیارات کے باقی پانچ ارکان میں سے زحل کی روشنی نیلگوں ہوتی ہے ، مشتری کی روشنی خاکستری مائل ہے مریخ آگ کے شعلے کی طرح سرخ ہے عطارد کی روشنی زردی مائل ہے اور زہرا میں خاص قسم کی تیز چمک ہے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کا جدا جدا رنگ اور الگ الگ خاصیت رکھی ہے زمین کی طرح باقی سیارے بھی مختلف مادوں سے بنے ہیں امریکی خلا باز چاند کی سطح سے جو مٹی لائے تھے اس پر تجربات کیے گئے اس میں بھی زمین والی نشونما کی خاصیت پائی جاتی ہے تاہم زمین کے عناصر چاند کی نسبت زیاہ کثیف ہیں اور فلکیات کے عناصر لطیف ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ مختلف سیاروں کی ساخت میں تھوڑا بہت فرق ہے اسی لیے ان کے رنگوں میں بھی فرق ہے اور روشنی بھی مختلف ہے اللہ نے ہر سیارے کے مادے کو مختلف عناصر سے پیدا فرمایا ہے اخبارات میں یہ خبر بھی آچکی ہے کہ اولین امریکی خلا باز مسلمان ہوچکا ہے اس نے چاند پر کوئی عجیب آواز سنی پھر واپس آکر اس نے وہی آواز اذان کی صورت میں سنی تو اسے اسلام کی حقانیت پر یقین آگیا اور اس نے اسلام قبول کرلیا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اس نے چاند پر اپنی کسی مخلوق کی اذان کی آواز اس خلا باز کو سنادی۔ سات سیارے چھوٹے چھوٹے لاکھوں اور کروڑوں ستاروں کے علاوہ سات بڑے سیارے ہیں جن کا ابھی ذکر ہوا ہے یہ نظام شمسی کے رکن سیارے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت کے ساتھ انہیں خلا میں پھیلا دیا ہے اور ہر ایک کی اپنے محور اور اپنے اپنے مدار میں چال مقرر کردی ہے جس کی وجہ سے یہ اپنے اپنے راستے پر چل رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا جانے کی نوبت نہیں آتی سبع سیارات میں چاند اور سورج کی چال تو ایک جیسی ہے البتہ باقی پانچ سیارے (خمسہ ستحیرہ) کبھی سیدھے چلتے ہیں ، کبھی دائیں بائیں اور کبھی غائب ہوجاتے ہیں پچھلے سال مارچ میں یہ واقعہ ہوا کہ ساتوں سیارے ایک سیدھ میں آگئے نجومیوں کے ہاں یہ بڑا حادثہ ہوتا ہے جو سینکڑوں ہزاروں سال میں پیش آتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں بڑے بڑے تغیرات واقع وہتے ہیں بہرحال سورج اور چاند کی رفتار میں مماثلت پائی جاتی ہے اور یہ پورا سال بارہ برجوں میں گردش کرتے ہیں ان کا ہر ماہ کا سفر مختلف برج میں ہوتا ہے چناچہ موسموں کا تغیر و تبدیل بھی اسی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یہ سب کے سب سیارے مسخرات بامرہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں اللہ تعالیٰ جس طرح چلاتا ہے اسی طرح چلتے ہیں اس کے حکم کے پابند ہیں اللہ نے جس مدار میں ان کو چلایا ہے اور جو ڈیوٹی لگائی ہے اس کو انجام دے رہے ہیں نظام شمسی کے متعلق قرآن پاک نے یہ بھی بتلا دیا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب یہ پورا نظام تبدیل کردیاجائے گا تمام کائنات درہم برہم ہوجائے گی اور پھر اس کی جگہ دوسرا نظام لایا جائے گا قرآن پاک کی اصطلاح میں یہ واقعہ قیامت کے نام سے موسوم ہے اس نظام شمسی کے علاوہ بعض دوسرے نظام بھی کائنات میں جاری ہیں جن میں سب سے بڑا نظام خطیرۃ القدس کا نظام ہے جو ابھی تک ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے جب نظام شمسی ختم ہوجائے گا جو ابھی تک ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے جب نظام شمسی ختم ہوجائے گا تو خطیرۃ القدس کا نظام ظاہر ہوجائے گا بہرحال یہ تمام نظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں ” مسخرات بامرہ “ کا یہی مطلب ہے۔ عالم خلق اور امر فرمایا الالہ الخلق والامر سن لو ! پیدا کرنا اور حکم دینا اسی اللہ تعالیٰ کا کام ہے ” اللہ خالق کل شی “ ہر شے کا پیدا کرنے والا وہی ہے خلق العلیم بھی وہی ہے تخلیق کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی چار صفات کام کرتی ہیں پہلی صفت ابداع ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو نیست سے ہست کرتا ہے پھر دوسری صفت تخلیق ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک چیز کو دوسری چیز کے مادے سے بناتا ہے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے تخلیق کیا گیا سورة آل عمران میں موجود ہے خلقہ من تراب اور پھر آگے اللہ نے توالد اور تناسل کے ذریعے نسل انسانی کو پھیلایا سورة السجدہ میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق مٹی سے کی ثم جعل نلہ من سللۃ من مائٍ مھین پھر اس کی نسل حقیر پانی سے چلائی اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی تیسری صفت تدبیر کام کرتی ہے یعنی آگے پیچھے یا تغیر و تبدل کرنا بھی اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ہر مخلوق کے قلب میں تدلی بھی پھینکتا ہے جو کہ اس کی چوتھی صفت ہے یہ چاروں صفات تخلیق کے سلسلے میں یکے بعد دیگرے اپنا اپنا کام کرتی ہیں۔ صفت خلق کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر امر کا ذکر بھی کیا ہے کہتے ہیں کہ عرش سے اوپر عالم امر ہے جس کی کیفیت کو کوئی مخلوق نہیں جان سکتی اس سے نیچے عالم خلق ہے چناچہ اس کے متعلق فرمایا ہے کہ خلق بھی اسی کا ہے اور امر بھی اسی کا ہے گویا پیدا کرنا بھی اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور حکم دینا بھی اسی کو سزاوار ہے مولانا شیخ الہند (رح) اس حصہ آیت کا ترجمہ کرتے ہیں سن لو ! اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا ، تخلیق بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے لہٰذا عبادت بھی صرف اسی کی کرنی چاہیے چناچہ اگلی آیات میں الوہیت ککا مسئلہ بھی بیان ہوگا کہ جو خالق ، رب اور صاحب امر ہے ، عبادت بھی اسی کی کرو غیر اللہ کی عبادت کرکے کیوں شرک میں مبتلا ہوتے ہو وہ خالق ہے ہم مخلوق ہیں وہ آمر ہے ہم مامور ہیں وہ رب ہے ہم مربوب ہیں وہ مالک ہے ہم مملوک ہیں جب خالقیت اور ربوبیت کی پہچان ہوجائے گی تو پھر الوہیت کی پہچان بھی آجائے گی۔ بابرکت ذات فرمایا تبرک اللہ رب العلمین تمام جہانوں کا پروردگار اللہ تعالیٰ بڑا بابرکت ہے وہ برکتیں عطا کرنے والا ہے برکت ایسی زیادتی اور نشونما کو کہتے ہیں جس میں تقدس اور پاکیزگی پائی جائے برکت دینے والی ذات بھی فقط ذات خدا وندی ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا وجعلنی مبرکاً (سورۃ مریم) اللہ ہی نے مجھے بابرکت بنایا میرے ہاتھ سے معجزات ظاہر ہوئے اور حیرت انگیز چیزیں پیش آئیں سورة ملک کی ابتداء میں ہے تبرک الذی بیدہ الملک بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں اختیار ہے تبرک الذی نزل الفرقان علی عبدہ (الفرقان) برکتوں والی ہے وہ ذات جس نے قرآن جیسی عظیم کتاب نازل فرما کر نبی نوع انسان پر احسان فرمایا خدا تعالیٰ نے قرآن پاک کی صورت میں اپنا کلام اور صفت نازل فرمائی اور انسان کو اعزاز بخشا مگر انسان بڑا ہی ناشکرگزار اور ناقدردان ہے یہ صفت الٰہی کی قدر نہیں کرتا اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا پروردگار ہے وہ ہر ایک کی تربیت کرنے والا ہے۔ پہلے انجام کا بیان تھا اب اس آیت میں آغاز کا ذکر ہوا ابتدائے تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت اس کے تصرف اور صفت امر کا تذکرہ ہوگیا ہے اس کے ذریعے خدا تعالیٰ کی الوہیت اور عبودیت کو پہچان سکتا ہے اس کی تشریح اگلی آیات میں آئے گی۔
Top