Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
پکارو اپنے پروردگار کو گڑا گڑا کر اور چپکے چپکے بیشک وہ نہیں پسند کرتا تعدی کرنے والوں کو
ربط آیات اصحاب اعراف کے ذکر کے بعد اچھے اور برے لوگوں کا انجام بیان ہوا پھر قدرت تامہ کے دلائل ذکر کیے گئے اللہ تعالیٰ نے ابتدائے تخلیق کائنات ، دن رات کے تغیر و تبدل اور سماوی کر ات کا ذکر کیا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں مقررہ رفتار سے اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں تمام سیارے اور ستارے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسخر ہیں اور اس کی قدرت تامہ کے دلائل ہیں پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے اور حکم دنیا بھی اسی کی شان ہے خدا تعالیٰ کی ذات بڑی بابرکت ہے اور وہ تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اب آج کے درس کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کو پکارنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے اور دوسری آیت میں نیکی اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے اپنی حوائج اور مشکلات میں اللہ تعالیٰ کو پکارنا چاہیے اور اسی کے سامنے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ خلق اور امر اسی کا ہے اگر اس کے علاوہ کسی دوسرے کو پکارے گا تو شرک میں ملوث ہوجائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے سوا مخلوق میں سے کوئی بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی کا اختیار نہیں رکھتا لہٰذا اس آیت میں دعا اور مناجات کا طریقہ سکھلایا گیا ہے۔ دعا کا طریقہ ارشاد ہوتا ہے ادعوربکم پکارو اپنے پروردگار کو تضرعاً گڑگڑا کر ضراعت کا معنی عاجزی کرنا اور گڑگڑانا ہے دعا کا پہلا ادب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عجزوانکساری اور خشوع و خضوع کے ساتھ دست سوال دراز کے ضراعت کا معنی میلان بھی ہوتا ہے اور ضرع ان تھنوں کو کہتے ہیں جن کا دودھ دوہنے کی طرف مائل ہوجاتا ہے تو دعا کرنے کا ایک ادب اور طریقہ تو یہ ہے کہ انسان نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کرے اور دوسرا وخفیۃ چپکے چپکے پوشیدہ طور پر شہرت اور ریا کاری سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے اس کی مناجات کرے اور اس سے سوال کرے اپنی حاجات طلب کرے۔ مناجات اور دعا عبادت ہے اور ذکر مطلقاً عبادت ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد مبارک ہے الدعا مخ العبادۃ یعنی عبادت کا مغز اور گودا دعا ہے یعنی دعا عین عبادت ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے وقال ربکم ادعونی استجب لکھ ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم دخرین (المومن) مجھ سے دعا کیا کرو میں قبول کروں گا جو خدا تعالیٰ کے سامنے دعا کرن ی سے تکبر کرتے ہیں اللہ ان کو ذلیل کرکے جہنم میں داخل کرے گا گویا اللہ تعالیٰ کو پکارنا اس کے سامنے دست سوال دراز کرنا عین عبادت ہے بلکہ عبادت کا اہم حصہ ہے بہرحال یہاں پر دعا کے دو آداب کا ذکر کیا گیا ہے ایک عجزو انسکاری اور دوسرا خفیہ طور پر چپکے ، چپکے۔ ذکر بالجہر وبالسر دعا اور ذکر کا بنیادی اصول یہ ہے کہ چپکے چپکے اور پوشیدہ طور پر ہونا چاہیے قرآن و سنت میں اس کی صراحت موجود ہے اور علما کا اس پر اتفاق ہے البتہ بعض مخصوص حالات اور شریعت کے مقررہ مواقع پر ذکر بالجہر بھی روا ہے مثلاً اذان اور اقامت بلند آواز سے کہنے کا حکم ہ کے ایام تشریق کی تکبیرات بھی بلند آواز سے پکاری جاتی ہے حج اور عمرہ کا تبیہ لبیک الھم لبیک بلند آواز سے پکارا جاتا ہے امام تین نمازوں میں قرأت بلند آواز سے کرتا ہے اور پھر ایک رکن نماز سے دوسرے کی طرف منتقلی کے لیے بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے اگر امام سے سہو ہوجائے تو مقتدی بلند آواز سے سبحان اللہ کہہ کر امام کی توجہ دلاتا ہے غرضیکہ ان خاص مواقع کے علاوہ عام حالات میں ذکر بالسر ہی افضل ہے۔ مخفی ذکر کی فضیلت مخفی ذکر کی فضیلت کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے خیرالذکر الخفی وخیرالرزق مایکفی بہتر ذکر وہ ہے جو پوشیدہ ہو اور بہتر روزی وہ ہے جو انسان کے لیے کفایت کر جائے بعض اوقات رزق کی فراوانی انسان کو غفلت میں ڈال دیتی ہے ماقل وکفیٰ خیرمما کثروالھیٰ تھوڑا اور کفایت کرنے والا بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو مگر غفلت میں مبتلا کرنے والا ہو۔ مفسر قرآن امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ ادعو امر کا صیغہ ہے یعنی پکارو اپنے رب کو خفیۃ آہستہ سے مخفی طور پر اللہ تعالیٰ نے سورة مریم میں اپنے عبد صالح زکریا (علیہ السلام) کی اس طرح تعریف فرمائی ہے اذ نادیٰ ربہ نداء خفیا جب اس نے اپنے پروردگار کو چپکے چپکے سے پکارا اس کا مطلب یہ ہے کہ دعا کا افضل طریقہ مخفی طور پر پکارنا ہے اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے مطابق امام ابوکر جصاص (رح) فرماتے ہیں التامین ھوالعبادۃ یعنی سورة فاتحہ کے بعد جو ” آمین “ کہی جاتی ہے یہ بھی دعا ہے اور دعا کا توازن یہ ہے کہ آہستہ کہنا افضل ہے لہٰذا نماز میں آمین بھی آہستہ ہی کہنی چاہیے کہ یہی افضل ہے امام شافعی (رح) آمین بلند آواز سے کہنے کے حق میں ہیں مگر ان کے مقلد صاحب تفسیر کبیر امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ آمین آہستہ کہنا زیادہ افضل ہے۔ اختلاف اسمہ ایسے مسائل میں اماموں کا جو اختلاف ہوتا ہے وہ جواز یا عدم جواز کا نہیں ہوتا بلکہ افضلیت کو طول دے کر خواہ مخواہ نفرت کا بیج بوتے ہیں آمین کا مسئلہ انہی فروعی مسائل میں سے ہے امام شافعی (رح) آمین بالجہر کو افضل کہتے ہیں جب کہ امام ابوحنیفہ (رح) آمین بالسر کو افضل سمجھتے ہیں دوسرے مقام پر یہ بھی آتا ہے واذکر ربک فی نفسک (الاعراف) اپنے رب کو اپنے جی میں یاد کرو آگے ودون الجھر من القول کے الفاظ بھی آتے ہیں یعنی بلند آواز سے یاد نہ کریں مقصد یہ ہے کہ آہستہ ذکر زیادہ افضل ہے اگر وجوب ثابت نہ بھی ہو تو استحباب کے درجے میں تو بہرحال ہے اسی طرح رفع یدین کا مسئلہ ہے بعض آئمہ کہتے ہیں کہ کرنا افضل ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں مسئلہ صرف اولیٰ اور غیر اولیٰ کا ہے لہٰذا ایسے مسائل میں الجھنا مناسب نہیں ذکر بالجہر اور بالسر میں بھی یہی بات پیش نظر رکھنی چاہیے۔ ذکر بالجہر کی ممانعت صحیح احادیث میں آتا ہے کہ بعض مواقع پر جب صحابہ کرام نے بلند آواز سے ذکر کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا اربعوا علی انفسکم لاتدعون اصماً ولاغائباً اپنے نفسوں پر نرمی کرو تم کسی ایسی ہستی کو تو نہیں پکار رہے ہو جو معاذ اللہ بہری یا غائب ہو بلکہ تم توسمیع اور قریب ہستی کو پکار رہے ہو جو ہر بات کو سنتی ہے آپ نے ایک صحابی سے یہ بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے جس کو تم پکارتے ہو لہٰذا بلند آواز سے پکارنے کی ضرورت نہیں ہے قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ شریعت کے مذکورہ مقامات کے علاوہ بلند آواز سے ذکر کرنا مکروہ ہے خاص طور پر جب کہ دوسرے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث ہو قاضی صاحب نے ذکر کے تین مراتب بیان کیے ہیں جن میں سے پہلا مرتبہ ذکر بالجہر کی کراہت ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بلند آواز سے ذکر کررہا ہے تو دوسرے کی نماز یا تلاوت میں خلل واقع ہوتا ہے جس بیما کو آرام کی ضرورت ہے وہ ذکر بالجہر کی وجہ سے مکمل آرام نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی ہے مسند احمد میں تو یہ روایت بھی ہے لایجھر بعضکم علی بعض تم میں سے بعض دوسروں کے سامنے بلند آواز سے قرآن پاک کی تلاوت بھی نہ کریں تاکہ کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ ہو۔ امام ابن ہمام (رح) آٹھویں ، نویں صدی میں مصر میں بہت بڑے فقیہہ ہوئے ہیں آپ نے ہدایہ کی شرح بھی لکھی ہے سجرالرائق والے ابن نجیم (رح) بھی بڑے فقیہ گزرے ہیں آپ کی کتاب پر فتویٰ دیا جاتا ہے اسی طرح شیخ ابراہیم حلبی (رح) جنہوں نے منیتہ المصلی کی شرح لکھی ہے وہ بھی بڑے پایہ کے محدث اور فقیہ تھے ان سب حضرات نے امام ابوحنیفہ (رح) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بلند آواز سے ذکر کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ لوگوں کیلئے ایذاء رسانی کا باعث ہوتا ہے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں بلند آواز سے ذکر کرے گا سو اس میں دو بدعتیں پائی جائیں گی ایک تو یہ آداب مسجد کے خلاف ہے اور دوسرے لوگوں کے لیے ایذاء کا باعث ہے۔ ہمارے ملک میں تو خاص طور پر ذکر بالجہر کے ذریعے بڑا ظلم اور تعدی ہوتی ہے نہ مسجد میں دوسرے نمازیوں کا خیال آتا ہے نہ محلے کے بیماروں کی پروا کی جاتی ہے گھر میں کوئی عورت نماز پڑھنا چاہتی ہے ذکر کرنا چاہتی ہے تلاوت کا شوق رکھتی ہے مگر بعض حضرات لائوڈ سپیکر کھول کر وقت بےوقت صلوٰہ وسلام یا نعت خوانی شروع کردیتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس کی وجہ سے کتنے لوگوں کو پر یشنی لاحق ہورہی ہے فقہا و محدثین کے فتوے موجود ہیں مگر کون مانتا ہے ان کے سامنے تو ایک ہی فلسفہ ہے کہ اس کی آواز دوسری سے بلند ہوجائے اب تو بعض مسجدوں میں نماز کی قرأت بھی بلند آواز میں لائوڈ سپیکر پر ہونے لگی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اردگرد کی مسجدوں میں نمازیوں کی نمازیں خراب ہوتی ہیں عبادت میں خلل واقع ہوتا ہے یہ نیکی نہیں بلکہ بدعت اور گنا ہے اس معاملے میں حکومت بھی بےبس ہے وہ تو اکثریت کو دیکھتی ہے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں انہیں جائز ناجائز سے کوئی سروکار نہیں اب شیعوں نے زکوٰۃ جمع کرانے سے انکار کردیا کہ ہمارا مسلک اجازت نہیں دیتا تو حکومت نے انہیں مستثنیٰ قرار دے دیا ان کی دیکھا دیکھی سنی بھی شیعہ بن گئے کہ چلو زکوٰۃ اور عشر سے تو بچ جائیں گے غلط کام کا نتیجہ ہمیشہ غلط ہی نکلت ہے ذکر تو آہستہ کرنا افضل ہے مگر جب لوگوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا تو پھر اس میں قباحتیں بھی پیدا ہونے لگیں۔ زبان اور روح سے ذکر قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ ذکر کا دوسرا مرتبہ لسانی یعنی زبانی ذکر ہے اس میں افضل بات یہی ہے کہ ذکر آہستہ کرے حضور ﷺ کا ارشاد ہے لایزال لسانک رطباً من ذکر اللہ (ترمذی ، ابن ماجہ) تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے ہمیشہ تر رہنی چاہیے آپ سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل زیادہ افضل ہے فرمایا ان تفارق الدنیا و لسانک رطب من ذکر اللہ تم دنیا سے اس حالت میں رخصت ہو کہ تمہاری زبان ذکر الٰہی سے تر ہو قاضی صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ ذکر کا تیسرا مرتبہ روح اور نفس کے ساتھ ذکر کرنا ہے اور یہ بالکل ہی پوشیدہ ہوتا ہے مسند ابویعلیٰ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ مخفی ذکر جہر ذکر سے ستر مرتبہ زیادہ افضل ہے فرمایا قیامت والے دن ایک شخص کا حساب پیش ہوگا اللہ تعالیٰ اعمال لکھنے و الے اور نگرانی کرنے والے فرشتوں سے فرمائیں گے کہ اس شخص کا اگر اور کوئی عمل ہے تو لے آئو فرشتے عرض کریں گے باری تعالیٰ ! اس کا کوئی عمل باقی نہیں رہا ہم نے تمام عمل جو لکھے تے پیش کردیے ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے فرشتو ! اس شخص کا ایک ایسا عمل بھی ہے جسے تم نہیں جانتے ، اسے میں جانتا ہوں یہ اس کا قلب و روح کے ساتھ ذکر ہے جو تم نے نہیں لکھا مگر میرے علم میں ہے۔ تجاوز کی ناپسندیدگی فرمایا اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے پکارو انہ لایحب المعتدین بیشک اللہ تعالیٰ تعدی و تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرمایا ت ذکر کرتے وقت چیخنا چلانا اور شور کرنا ہرگز پسندیدہ نہیں اسی طرح اپنی دعا میں کسی غلط اور ناجائز چیز کا طلب کرنا بھی روا نہیں کیونکہ یہ بھی تعدی میں داخل ہے صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مغضل ؓ نے سنا کہ ان کا بیٹا یوں دعا کررہا ہے الھم انی اسئلک القصر الابیض عن یمین الجنۃ اے اللہ ! میں جنت میں دائیں طرف سفید محل کا سوال کرتا ہوں یہ سن کر آپ نے فرمایا بیٹے ! ایسا مت کہو بلکہ سل اللہ الجنۃ اللہ تعالیٰ سے صرف جنت کا سوال کرو و تعوذبہ من النار اور اس کی ذات کے ساتھ جہنم سے پناہ مانگو فرمایا یہ دعا بھی کرو اسئلک الجنۃ وما قرب الیھا من القول والعمل اے اللہ ! میں تجھ سے جنت طلب کرتا ہوں اور ایسی بات اور ایسا عمل طلب کرتا ہوں جو جنت کے قریب کردے………… نیز یہ بھی انی اعوذبک من النار وما قرب الیھا من القول والعمل اور میں دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں اور اس بات اور عمل سے بھی جو جہنم کے قریب کردے حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ دعا سنی تھی لہٰذا کہا اے بیٹے تیرے لیے اتنی دعا ہی کافی ہے اپنی دعا میں قصر ابیض (WHITE HOUSE) کا سوال مت کرو پھر آپ نے یہی آیت پڑھی انہ لایحب المعتدین یعنی اللہ تعالیٰ تعدی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ فساد فی الارض آگے ارشاد ہوتا ہے ولا تفسدوفی الارض بعد اصلاحھا نہ فساد کرو زمین میں اصلاح کے بعد امام بیضادی (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں پر فساد سے مراد کفر ، شرک اور بدعات ہیں مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑ کر فساد کا باعث نہ بنو فساد اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب قانون شکنی کی جائے جب تک قوانین الٰہیہ پر عمل ہوتا رہے انسانوں کو امن اور چین نصیب ہوتا ہے ایمان ہوگا تو سکون ہوگا اور جب شرک ہوگا تو بدامنی اور شروفساد پیدا ہوگا اسی لیے فرمایا زمین میں اصلاح کے بعد فساد مت کرو اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق بھی اسی قسم کی بات کی ہے واذا قیل لھم لاتفسدو فی الارض قالو انما نحن مصلحون جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں حالانکہ وہ کفر و شرک اور نفاق کا ارتکاب کرکے فساد فی الارض کا بیج بوتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف جھگڑا ، فساد ، سازش ایمان اور اخلاص کے منافی ہیں بدعات اور خلاف سنت امور بھی فساد کا باعث بنتے ہیں اسی لیے فرمایا کہ زمین میں فساد مت کرو۔ خوف و امید اس کے بعد فرمایا وادعوہ خوفاً وطمعاً اللہ تعالیٰ کو خوف اور امید کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پکارو ، اللہ تعالیٰ خلق اور امر کا مالک ہے وہ کسی مجرم کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑے گا لہٰذا اس کا خوف ہمیشہ دل میں جاگزین رہنا چاہیے ہر شخص کے دل میں یہ بات اچھی طرح نقش ہونی چاہیے کہ جب وہ کوئی کوتاہی کرے گا پکڑے جائے گا یہی خوف ہے اور اس سے گناہوں کی بخشش اور معافی کی امید بھی رکھنی چاہیے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیے غلطی کرکے جب اس کے دروازے پر دستک دے تو پورے یقین اور امید کے ساتھ کہ وہ اپنے بندوں پر نہایت ہی رحیم و کریم ہے وہ کسی پر زیادتی نہیں کرتا اور جب اس کا کوئی بندہ خلوص نیت کے ساتھ اس کے دروازے پر آجاتا ہے تو پھر وہ اس کو خالی نہیں بھیجتا بلکہ اس کی جھولی اور دامن کو مراد سے بھر دیتا ہے خوف کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی اس کے ساتھ وابستہ ہونی چاہیے الایمان بین الخوف والرجی ایمان تو وہی ہے جو خوف اور امید کے درمیان ہو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی ایک صفت اور امید کے درمیان ہو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی ہے ” یدعوننا رغباً ورھبا “ (الانبیائ) کہ وہ ہمیں پکارتے ہیں ہماری نعمتوں کی طرف رغبت کرتے ہوئے اور ہماری گرفت سے ڈرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہی حکم دیا ہے کہ ہمارے انعام کی خواہش رکھتے ہوئے اور ہماری گرفت سے ڈرتے ہوئے ہمیں پکارو ، یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ فرمایا یاد رکھو ! ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین اللہ تعالیٰ کی مہربانی نیکی کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے جو بھی ایمان لاکر اعمال صالحہ انجام دے گا اعلیٰ درجے کی نیکی کرے گا ، قوانین الٰہیہ کا خیال رکھے گا سنت کے مطابق چلنے کی کوشش کرے گا بدعات سے بچے گا شرکیہ افعال سے اجتناب کرے گا وہ محسن ہوگا اور جو نیکی والا ہوگا وہ اللہ کی رحمت کے قریب ہوگا ہر موقع پر خدا تعالیٰ کی مہربانی اس کے شامل حال ہوگی۔
Top