Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا
: پکارو
رَبَّكُمْ
: اپنے رب کو
تَضَرُّعًا
: گر گڑا کر
وَّخُفْيَةً
: اور آہستہ
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
لَا يُحِبُّ
: دوست نہیں رکھتا
الْمُعْتَدِيْنَ
: حد سے گزرنے والے
پکارو اپنے پروردگار کو گڑا گڑا کر اور چپکے چپکے بیشک وہ نہیں پسند کرتا تعدی کرنے والوں کو
ربط آیات اصحاب اعراف کے ذکر کے بعد اچھے اور برے لوگوں کا انجام بیان ہوا پھر قدرت تامہ کے دلائل ذکر کیے گئے اللہ تعالیٰ نے ابتدائے تخلیق کائنات ، دن رات کے تغیر و تبدل اور سماوی کر ات کا ذکر کیا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں مقررہ رفتار سے اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں تمام سیارے اور ستارے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسخر ہیں اور اس کی قدرت تامہ کے دلائل ہیں پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے اور حکم دنیا بھی اسی کی شان ہے خدا تعالیٰ کی ذات بڑی بابرکت ہے اور وہ تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اب آج کے درس کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کو پکارنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے اور دوسری آیت میں نیکی اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے اپنی حوائج اور مشکلات میں اللہ تعالیٰ کو پکارنا چاہیے اور اسی کے سامنے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ خلق اور امر اسی کا ہے اگر اس کے علاوہ کسی دوسرے کو پکارے گا تو شرک میں ملوث ہوجائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے سوا مخلوق میں سے کوئی بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی کا اختیار نہیں رکھتا لہٰذا اس آیت میں دعا اور مناجات کا طریقہ سکھلایا گیا ہے۔ دعا کا طریقہ ارشاد ہوتا ہے ادعوربکم پکارو اپنے پروردگار کو تضرعاً گڑگڑا کر ضراعت کا معنی عاجزی کرنا اور گڑگڑانا ہے دعا کا پہلا ادب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عجزوانکساری اور خشوع و خضوع کے ساتھ دست سوال دراز کے ضراعت کا معنی میلان بھی ہوتا ہے اور ضرع ان تھنوں کو کہتے ہیں جن کا دودھ دوہنے کی طرف مائل ہوجاتا ہے تو دعا کرنے کا ایک ادب اور طریقہ تو یہ ہے کہ انسان نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کرے اور دوسرا وخفیۃ چپکے چپکے پوشیدہ طور پر شہرت اور ریا کاری سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے اس کی مناجات کرے اور اس سے سوال کرے اپنی حاجات طلب کرے۔ مناجات اور دعا عبادت ہے اور ذکر مطلقاً عبادت ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد مبارک ہے الدعا مخ العبادۃ یعنی عبادت کا مغز اور گودا دعا ہے یعنی دعا عین عبادت ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے وقال ربکم ادعونی استجب لکھ ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم دخرین (المومن) مجھ سے دعا کیا کرو میں قبول کروں گا جو خدا تعالیٰ کے سامنے دعا کرن ی سے تکبر کرتے ہیں اللہ ان کو ذلیل کرکے جہنم میں داخل کرے گا گویا اللہ تعالیٰ کو پکارنا اس کے سامنے دست سوال دراز کرنا عین عبادت ہے بلکہ عبادت کا اہم حصہ ہے بہرحال یہاں پر دعا کے دو آداب کا ذکر کیا گیا ہے ایک عجزو انسکاری اور دوسرا خفیہ طور پر چپکے ، چپکے۔ ذکر بالجہر وبالسر دعا اور ذکر کا بنیادی اصول یہ ہے کہ چپکے چپکے اور پوشیدہ طور پر ہونا چاہیے قرآن و سنت میں اس کی صراحت موجود ہے اور علما کا اس پر اتفاق ہے البتہ بعض مخصوص حالات اور شریعت کے مقررہ مواقع پر ذکر بالجہر بھی روا ہے مثلاً اذان اور اقامت بلند آواز سے کہنے کا حکم ہ کے ایام تشریق کی تکبیرات بھی بلند آواز سے پکاری جاتی ہے حج اور عمرہ کا تبیہ لبیک الھم لبیک بلند آواز سے پکارا جاتا ہے امام تین نمازوں میں قرأت بلند آواز سے کرتا ہے اور پھر ایک رکن نماز سے دوسرے کی طرف منتقلی کے لیے بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے اگر امام سے سہو ہوجائے تو مقتدی بلند آواز سے سبحان اللہ کہہ کر امام کی توجہ دلاتا ہے غرضیکہ ان خاص مواقع کے علاوہ عام حالات میں ذکر بالسر ہی افضل ہے۔ مخفی ذکر کی فضیلت مخفی ذکر کی فضیلت کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے خیرالذکر الخفی وخیرالرزق مایکفی بہتر ذکر وہ ہے جو پوشیدہ ہو اور بہتر روزی وہ ہے جو انسان کے لیے کفایت کر جائے بعض اوقات رزق کی فراوانی انسان کو غفلت میں ڈال دیتی ہے ماقل وکفیٰ خیرمما کثروالھیٰ تھوڑا اور کفایت کرنے والا بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو مگر غفلت میں مبتلا کرنے والا ہو۔ مفسر قرآن امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ ادعو امر کا صیغہ ہے یعنی پکارو اپنے رب کو خفیۃ آہستہ سے مخفی طور پر اللہ تعالیٰ نے سورة مریم میں اپنے عبد صالح زکریا (علیہ السلام) کی اس طرح تعریف فرمائی ہے اذ نادیٰ ربہ نداء خفیا جب اس نے اپنے پروردگار کو چپکے چپکے سے پکارا اس کا مطلب یہ ہے کہ دعا کا افضل طریقہ مخفی طور پر پکارنا ہے اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے مطابق امام ابوکر جصاص (رح) فرماتے ہیں التامین ھوالعبادۃ یعنی سورة فاتحہ کے بعد جو ” آمین “ کہی جاتی ہے یہ بھی دعا ہے اور دعا کا توازن یہ ہے کہ آہستہ کہنا افضل ہے لہٰذا نماز میں آمین بھی آہستہ ہی کہنی چاہیے کہ یہی افضل ہے امام شافعی (رح) آمین بلند آواز سے کہنے کے حق میں ہیں مگر ان کے مقلد صاحب تفسیر کبیر امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ آمین آہستہ کہنا زیادہ افضل ہے۔ اختلاف اسمہ ایسے مسائل میں اماموں کا جو اختلاف ہوتا ہے وہ جواز یا عدم جواز کا نہیں ہوتا بلکہ افضلیت کو طول دے کر خواہ مخواہ نفرت کا بیج بوتے ہیں آمین کا مسئلہ انہی فروعی مسائل میں سے ہے امام شافعی (رح) آمین بالجہر کو افضل کہتے ہیں جب کہ امام ابوحنیفہ (رح) آمین بالسر کو افضل سمجھتے ہیں دوسرے مقام پر یہ بھی آتا ہے واذکر ربک فی نفسک (الاعراف) اپنے رب کو اپنے جی میں یاد کرو آگے ودون الجھر من القول کے الفاظ بھی آتے ہیں یعنی بلند آواز سے یاد نہ کریں مقصد یہ ہے کہ آہستہ ذکر زیادہ افضل ہے اگر وجوب ثابت نہ بھی ہو تو استحباب کے درجے میں تو بہرحال ہے اسی طرح رفع یدین کا مسئلہ ہے بعض آئمہ کہتے ہیں کہ کرنا افضل ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں مسئلہ صرف اولیٰ اور غیر اولیٰ کا ہے لہٰذا ایسے مسائل میں الجھنا مناسب نہیں ذکر بالجہر اور بالسر میں بھی یہی بات پیش نظر رکھنی چاہیے۔ ذکر بالجہر کی ممانعت صحیح احادیث میں آتا ہے کہ بعض مواقع پر جب صحابہ کرام نے بلند آواز سے ذکر کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا اربعوا علی انفسکم لاتدعون اصماً ولاغائباً اپنے نفسوں پر نرمی کرو تم کسی ایسی ہستی کو تو نہیں پکار رہے ہو جو معاذ اللہ بہری یا غائب ہو بلکہ تم توسمیع اور قریب ہستی کو پکار رہے ہو جو ہر بات کو سنتی ہے آپ نے ایک صحابی سے یہ بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے جس کو تم پکارتے ہو لہٰذا بلند آواز سے پکارنے کی ضرورت نہیں ہے قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ شریعت کے مذکورہ مقامات کے علاوہ بلند آواز سے ذکر کرنا مکروہ ہے خاص طور پر جب کہ دوسرے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث ہو قاضی صاحب نے ذکر کے تین مراتب بیان کیے ہیں جن میں سے پہلا مرتبہ ذکر بالجہر کی کراہت ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بلند آواز سے ذکر کررہا ہے تو دوسرے کی نماز یا تلاوت میں خلل واقع ہوتا ہے جس بیما کو آرام کی ضرورت ہے وہ ذکر بالجہر کی وجہ سے مکمل آرام نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی ہے مسند احمد میں تو یہ روایت بھی ہے لایجھر بعضکم علی بعض تم میں سے بعض دوسروں کے سامنے بلند آواز سے قرآن پاک کی تلاوت بھی نہ کریں تاکہ کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ ہو۔ امام ابن ہمام (رح) آٹھویں ، نویں صدی میں مصر میں بہت بڑے فقیہہ ہوئے ہیں آپ نے ہدایہ کی شرح بھی لکھی ہے سجرالرائق والے ابن نجیم (رح) بھی بڑے فقیہ گزرے ہیں آپ کی کتاب پر فتویٰ دیا جاتا ہے اسی طرح شیخ ابراہیم حلبی (رح) جنہوں نے منیتہ المصلی کی شرح لکھی ہے وہ بھی بڑے پایہ کے محدث اور فقیہ تھے ان سب حضرات نے امام ابوحنیفہ (رح) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بلند آواز سے ذکر کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ لوگوں کیلئے ایذاء رسانی کا باعث ہوتا ہے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں بلند آواز سے ذکر کرے گا سو اس میں دو بدعتیں پائی جائیں گی ایک تو یہ آداب مسجد کے خلاف ہے اور دوسرے لوگوں کے لیے ایذاء کا باعث ہے۔ ہمارے ملک میں تو خاص طور پر ذکر بالجہر کے ذریعے بڑا ظلم اور تعدی ہوتی ہے نہ مسجد میں دوسرے نمازیوں کا خیال آتا ہے نہ محلے کے بیماروں کی پروا کی جاتی ہے گھر میں کوئی عورت نماز پڑھنا چاہتی ہے ذکر کرنا چاہتی ہے تلاوت کا شوق رکھتی ہے مگر بعض حضرات لائوڈ سپیکر کھول کر وقت بےوقت صلوٰہ وسلام یا نعت خوانی شروع کردیتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس کی وجہ سے کتنے لوگوں کو پر یشنی لاحق ہورہی ہے فقہا و محدثین کے فتوے موجود ہیں مگر کون مانتا ہے ان کے سامنے تو ایک ہی فلسفہ ہے کہ اس کی آواز دوسری سے بلند ہوجائے اب تو بعض مسجدوں میں نماز کی قرأت بھی بلند آواز میں لائوڈ سپیکر پر ہونے لگی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اردگرد کی مسجدوں میں نمازیوں کی نمازیں خراب ہوتی ہیں عبادت میں خلل واقع ہوتا ہے یہ نیکی نہیں بلکہ بدعت اور گنا ہے اس معاملے میں حکومت بھی بےبس ہے وہ تو اکثریت کو دیکھتی ہے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں انہیں جائز ناجائز سے کوئی سروکار نہیں اب شیعوں نے زکوٰۃ جمع کرانے سے انکار کردیا کہ ہمارا مسلک اجازت نہیں دیتا تو حکومت نے انہیں مستثنیٰ قرار دے دیا ان کی دیکھا دیکھی سنی بھی شیعہ بن گئے کہ چلو زکوٰۃ اور عشر سے تو بچ جائیں گے غلط کام کا نتیجہ ہمیشہ غلط ہی نکلت ہے ذکر تو آہستہ کرنا افضل ہے مگر جب لوگوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا تو پھر اس میں قباحتیں بھی پیدا ہونے لگیں۔ زبان اور روح سے ذکر قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ ذکر کا دوسرا مرتبہ لسانی یعنی زبانی ذکر ہے اس میں افضل بات یہی ہے کہ ذکر آہستہ کرے حضور ﷺ کا ارشاد ہے لایزال لسانک رطباً من ذکر اللہ (ترمذی ، ابن ماجہ) تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے ہمیشہ تر رہنی چاہیے آپ سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل زیادہ افضل ہے فرمایا ان تفارق الدنیا و لسانک رطب من ذکر اللہ تم دنیا سے اس حالت میں رخصت ہو کہ تمہاری زبان ذکر الٰہی سے تر ہو قاضی صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ ذکر کا تیسرا مرتبہ روح اور نفس کے ساتھ ذکر کرنا ہے اور یہ بالکل ہی پوشیدہ ہوتا ہے مسند ابویعلیٰ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ مخفی ذکر جہر ذکر سے ستر مرتبہ زیادہ افضل ہے فرمایا قیامت والے دن ایک شخص کا حساب پیش ہوگا اللہ تعالیٰ اعمال لکھنے و الے اور نگرانی کرنے والے فرشتوں سے فرمائیں گے کہ اس شخص کا اگر اور کوئی عمل ہے تو لے آئو فرشتے عرض کریں گے باری تعالیٰ ! اس کا کوئی عمل باقی نہیں رہا ہم نے تمام عمل جو لکھے تے پیش کردیے ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے فرشتو ! اس شخص کا ایک ایسا عمل بھی ہے جسے تم نہیں جانتے ، اسے میں جانتا ہوں یہ اس کا قلب و روح کے ساتھ ذکر ہے جو تم نے نہیں لکھا مگر میرے علم میں ہے۔ تجاوز کی ناپسندیدگی فرمایا اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے پکارو انہ لایحب المعتدین بیشک اللہ تعالیٰ تعدی و تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرمایا ت ذکر کرتے وقت چیخنا چلانا اور شور کرنا ہرگز پسندیدہ نہیں اسی طرح اپنی دعا میں کسی غلط اور ناجائز چیز کا طلب کرنا بھی روا نہیں کیونکہ یہ بھی تعدی میں داخل ہے صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مغضل ؓ نے سنا کہ ان کا بیٹا یوں دعا کررہا ہے الھم انی اسئلک القصر الابیض عن یمین الجنۃ اے اللہ ! میں جنت میں دائیں طرف سفید محل کا سوال کرتا ہوں یہ سن کر آپ نے فرمایا بیٹے ! ایسا مت کہو بلکہ سل اللہ الجنۃ اللہ تعالیٰ سے صرف جنت کا سوال کرو و تعوذبہ من النار اور اس کی ذات کے ساتھ جہنم سے پناہ مانگو فرمایا یہ دعا بھی کرو اسئلک الجنۃ وما قرب الیھا من القول والعمل اے اللہ ! میں تجھ سے جنت طلب کرتا ہوں اور ایسی بات اور ایسا عمل طلب کرتا ہوں جو جنت کے قریب کردے………… نیز یہ بھی انی اعوذبک من النار وما قرب الیھا من القول والعمل اور میں دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں اور اس بات اور عمل سے بھی جو جہنم کے قریب کردے حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ دعا سنی تھی لہٰذا کہا اے بیٹے تیرے لیے اتنی دعا ہی کافی ہے اپنی دعا میں قصر ابیض (WHITE HOUSE) کا سوال مت کرو پھر آپ نے یہی آیت پڑھی انہ لایحب المعتدین یعنی اللہ تعالیٰ تعدی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ فساد فی الارض آگے ارشاد ہوتا ہے ولا تفسدوفی الارض بعد اصلاحھا نہ فساد کرو زمین میں اصلاح کے بعد امام بیضادی (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں پر فساد سے مراد کفر ، شرک اور بدعات ہیں مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑ کر فساد کا باعث نہ بنو فساد اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب قانون شکنی کی جائے جب تک قوانین الٰہیہ پر عمل ہوتا رہے انسانوں کو امن اور چین نصیب ہوتا ہے ایمان ہوگا تو سکون ہوگا اور جب شرک ہوگا تو بدامنی اور شروفساد پیدا ہوگا اسی لیے فرمایا زمین میں اصلاح کے بعد فساد مت کرو اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق بھی اسی قسم کی بات کی ہے واذا قیل لھم لاتفسدو فی الارض قالو انما نحن مصلحون جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں حالانکہ وہ کفر و شرک اور نفاق کا ارتکاب کرکے فساد فی الارض کا بیج بوتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف جھگڑا ، فساد ، سازش ایمان اور اخلاص کے منافی ہیں بدعات اور خلاف سنت امور بھی فساد کا باعث بنتے ہیں اسی لیے فرمایا کہ زمین میں فساد مت کرو۔ خوف و امید اس کے بعد فرمایا وادعوہ خوفاً وطمعاً اللہ تعالیٰ کو خوف اور امید کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پکارو ، اللہ تعالیٰ خلق اور امر کا مالک ہے وہ کسی مجرم کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑے گا لہٰذا اس کا خوف ہمیشہ دل میں جاگزین رہنا چاہیے ہر شخص کے دل میں یہ بات اچھی طرح نقش ہونی چاہیے کہ جب وہ کوئی کوتاہی کرے گا پکڑے جائے گا یہی خوف ہے اور اس سے گناہوں کی بخشش اور معافی کی امید بھی رکھنی چاہیے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیے غلطی کرکے جب اس کے دروازے پر دستک دے تو پورے یقین اور امید کے ساتھ کہ وہ اپنے بندوں پر نہایت ہی رحیم و کریم ہے وہ کسی پر زیادتی نہیں کرتا اور جب اس کا کوئی بندہ خلوص نیت کے ساتھ اس کے دروازے پر آجاتا ہے تو پھر وہ اس کو خالی نہیں بھیجتا بلکہ اس کی جھولی اور دامن کو مراد سے بھر دیتا ہے خوف کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی اس کے ساتھ وابستہ ہونی چاہیے الایمان بین الخوف والرجی ایمان تو وہی ہے جو خوف اور امید کے درمیان ہو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی ایک صفت اور امید کے درمیان ہو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی ہے ” یدعوننا رغباً ورھبا “ (الانبیائ) کہ وہ ہمیں پکارتے ہیں ہماری نعمتوں کی طرف رغبت کرتے ہوئے اور ہماری گرفت سے ڈرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہی حکم دیا ہے کہ ہمارے انعام کی خواہش رکھتے ہوئے اور ہماری گرفت سے ڈرتے ہوئے ہمیں پکارو ، یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ فرمایا یاد رکھو ! ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین اللہ تعالیٰ کی مہربانی نیکی کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے جو بھی ایمان لاکر اعمال صالحہ انجام دے گا اعلیٰ درجے کی نیکی کرے گا ، قوانین الٰہیہ کا خیال رکھے گا سنت کے مطابق چلنے کی کوشش کرے گا بدعات سے بچے گا شرکیہ افعال سے اجتناب کرے گا وہ محسن ہوگا اور جو نیکی والا ہوگا وہ اللہ کی رحمت کے قریب ہوگا ہر موقع پر خدا تعالیٰ کی مہربانی اس کے شامل حال ہوگی۔
Top