Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 57
وَ هُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ١ؕ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ١ؕ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : جو۔ جس يُرْسِلُ : بھیجتا ہے الرِّيٰحَ : ہوائیں بُشْرًۢا : بطور خوشخبری بَيْنَ يَدَيْ : آگے رَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت (بارش) حَتّٰى : یہاں تک کہ اِذَآ : جب اَقَلَّتْ : اٹھا لائیں سَحَابًا : بادل ثِقَالًا : بھاری سُقْنٰهُ : ہم نے انہیں ہانک دیا لِبَلَدٍ : کسی شہر کی طرف مَّيِّتٍ : مردہ فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا بِهِ : اس سے الْمَآءَ : پانی فَاَخْرَجْنَا : پھر ہم نے نکالا بِهٖ : اس سے مِنْ : سے كُلِّ الثَّمَرٰتِ : ہر پھل كَذٰلِكَ : اسی طرح نُخْرِجُ : ہم نکالیں گے الْمَوْتٰى : مردے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : غور کرو
اور وہ وہی ذات ہے جو چلاتا ہے ہوائوں کو خوشخبری دینے والی اس کی باران رحمت سے پہلے ، یہاں تک کہ جب وہ اٹھاتی ہیں بوجھل بادلوں کو تو ہم چلاتے ہیں اس کو مردہ شہر (خشک بستی) کی طرف ، پس ہم اتارتے ہیں اس سے پانی۔ پھر ہم نکالتے ہیں اس (پانی) کے ساتھ ہر قسم کے پھل۔ اسی ہم زندہ کریں گے مردوں کو تکاہ تم نصیحت پکڑو
ربط آیات اللہ تعالیٰ نے اصحاب اعراف کا ذکر کرنے کے بعد نیک و بدلوگوں کا انجام بیان فرمایا پھر تخلیق کائنات کا ذکر فرمایا ان ربکم الذی خلق السموت والارض فی ستۃ ایام “ اس کے ساتھ عرش الٰہی کا ذکر ہوا نشانات قدرت میں سے سورج ، چاند اور ستاروں کی مقررہ مدار میں گردش کے ساتھ یہ بھی واضح فرما دیا کہ خلق اور امر یعنی پیدا کرنا اور حکم دینا اللہ تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کو پکارنے کے حکم کے ساتھ اس کی دعا اور مناجات کا طریقہ بھی بتلایا کہ اس کے لیے دو باتیں ضروری ہیں ایک گڑگڑانا اور دوسری پوشیدہ طریقے سے دعا کرنا اس کے بعد زمین میں فساد کرنے سے منع فرمایا ، ظاہر ہے کہ کفر ، شرک اور معاصی فساد کی جڑ بنیاد ہیں جن کی وجہ سے نوع انسانی میں فساد برپا ہوتا ہے اور امن و سکون تباہ و برباد ہوجاتا ہے آج کی دنیا میں بےچینی کی وجہ یہی برے افعال ہیں اور ہر طرف ظھر الفساد فی البر البحر کا منظر پیش ہورہا ہے امن وامان ختم ہوچکا ہے قتل و غارت گری کا دور دورہ ہے فرقہ بندی زوروں پر ہے ہر شخص سکون کی تلاش میں سرگرداں ہے مگر اس کی مشکلات میں اضافہ ہی ہورہا ہے ہر طرف سازشوں کا جال بچھا ہوا ہے ہر شریف آدمی کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے بہرحال اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام حوائج و مشکلات میں اسے ہی پکارنے کا حکم دیا کیونکہ مشکل کشا اور حاجت رو صرف وہی ہے خوف وامید کے ساتھ اس کے سامنے دست سوال دراز کرنا چاہیے یعنی ہمیشہ اس کی گرفت سے خوفزدہ رہے اور اس کی رحمت سے کبھی مایوس بھی نہ ہو کیونکہ مایوس ہونا کافروں کا شعار ہے۔ ہوائیں اور بارش تخلیق کائنات کے سلسلے میں عالم بالا کے دلائل ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین سے متعلق دلائل کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے دو نشانیوں یعنی قیامت اور وحی الٰہی کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے چانچہ ارشاد ہوتا ہے وھوالذی یرسل الریح اللہ تعالیٰ وہی ہے جو ہوائوں کو چلاتا ہے بشراً بین یدی رحمتہ جو کہ باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہیں بارش سے پہلے عام طور پر خوشگوار ہوائیں چلتی ہیں جو کہ بارش کی آمد کی خوشخبری دیتی ہیں مگر ان ہوائوں کو کون چلاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان ہوائوں کو چلانے والا بھی میں ہی ہوں یہ ہوائیں خودبخود نہیں چلتیں سائنس دانوں اور محکمہ موسمیات والوں کا یہ دعویٰ باطل ہے کہ مون سون ہوائیں بارش لاتی ہیں مگر سوال تو یہ ہے کہ ان ہوائوں کو مختلف خطوں تک کون پہنچاتا ہے وہ ہوائوں کا رخ تو بتا سکتے ہیں کہ کس طرف جارہی ہیں مگر اس طرف انہیں کون لیجا رہا ہے اور انہیں فضا میں کون اٹھائے اٹھائے پھرتا ہے یہ باتیں ان کی نگاہ سے اوجھل ہیں اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ اپنی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کے ساتھ ہوائوں کو اپنی مرضی کے رخ پر چلاتا ہے جب کوئی خطہ ارضی سخت پیاسا ہوتا ہے تو اللہ کے حکم سے ہوائیں چلتی ہیں اسی لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب ہوا زور سے چلے ، آندھی آئے تو اسے برا بھلا مت کہو لاتسبو الریح یہ تو اللہ کے حکم سے چلتی ہیں ان کا کیا قصور ہے فرمایا جب تیز ہوائیں چلیں تو یوں کہا کرو الھم انی اسئلک من خیرھا وخیر ما ارسل وآعوذ بک من شرھا وشرما ارسل اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ان ہوائوں سے بہتری کا اور جس مقصد کی بہتری کے لیے ان کو چلایا گیا ہے اور میں پناہ مانگتا ہوں ان کے شر سے اور اس شر سے جس کے لیے انہیں چلایا گیا ہے ہوائوں کا چلنا اور بارش کا آنا خیر و شر دونوں مقاصد کے لیے ہوسکتا ہے بعض اوقات بارش تباہی کا باعث بن جاتی ہے جیسا کہ آج کل کی بارشوں سے فصلوں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے گندم کا بیشتر حصہ ضائع ہوگیا ہے حکومت تو طرح طرح کی تسلیاں دے رہی ہے کہ کچھ نہیں ہوا مگر حقیقت یہی ہے کہ فصل پک جانے کے بعد اگر بارش ہوجائے تو فصل ضائع ہوجاتی ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے اس کا اعلان ہے ونبلوا کم بالشر الخیرفتنۃ (الانبیائ) ہم خیر اور شر دونوں طریقوں سے آزماتے ہیں لوگ تو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ خود کفالت کی سکی میں بناتے ہیں اور غرور میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری فلاں حکمت عملی سے ہوا ہے حالانکہ جب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی شامل حال ہو تو انہیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ غرور وتکبر کرنا اللہ تعالیٰ بسا اوقات اس وجہ سے ناراض ہوجاتا ہے کہ اس کے بند اس کے سامنے عاجزی کا اظہار نہیں کرتے اس کی رحمت کی امید نہیں رکھتے اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے اس کی بجائے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی اور اپنے کمال پر بھروسہ کرتے ہیں اور مادی وسائل کو ہی اول و آخر سمجھ بیٹھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی آتی ہے اور پھر وہ نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ بارش باعث رحمت یا زحمت فرمایا بسا اوقات ہوائیں باران رحمت کی نوید لاتی ہیں مگر بعض اوقات یہی بارش عذاب کا پیغام بھی لاتی ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بادل اٹھتے تو حضور ﷺ پریشانی کے عالم میں کبھی اندر جاتے کبھی باہر آتے ایک موقع پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے عرض کیا حضور ! بادلوں کو دیکھ کر لوگ خوش ہوتے ہیں کیونکہ عام طور پر یہ رحمت کی نوید لاتے ہیں مگر آپ اکثر پریشان ہوجاتے ہیں فرمایا ، مجھے ڈر ہے کہ یہ بادل ویسے نہ ہوں جو قوم عاد پر اٹھے تھے اس قوم میں پہلے تین سال تک بالکل بارش نہ ہوئی قحط پڑگیا گرمی کی وجہ سے مخلوق خدا تڑپ اٹھی ، پھر یکایک بادل اٹھے ، لوگ خوش ہوئے اور بول اٹھے ” ھذا عارض ممطرنا “ (احقاف) یہ بادل بارش برسائیں گے تمام لوگ بادلوں کے نیچے جمع ہو کر باران رحمت کا انتظار کرنے لگے مگر ان بادلوں میں قوم کی ہلاکت کا سامان تھا ، اچانک اوپر سے آگ برسی اور قوم کو ہلاک کردیا غرضیکہ بادلوں میں خیرو شر کے دونوں پہلو ہوسکتے ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنی چاہیے اور شر سے پناہ مانگنی چاہیے۔ بارش اور کھیتی فرمایا اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو باران رحمت کی خوشخبری کے طور پر ہوائوں کو چلاتا ہے حتیٰ اذا قلت سحاباً ثقالاً یہاں تک کہ جب یہ ہوائیں بوجھل بادلوں کو اٹھاتی ہیں بادل پانی کی نمی کی وجہ سے سخت بوجھل ہوتے ہیں جنہیں ہوائیں اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتی ہیں پھر جہاں بارش برسانا مقصود ہو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سقنہ لبلا میت ہم انہیں مردہ شہر یعنی خشک زمین کی طرف چلاتے ہیں فانزلنا بہ الماء پھر ہم اس کے ذریعے پانی نازل کرتے ہیں جب کوئی خطہ ارضی خشک ہوجاتا ہے انسان اور جانور پانی کو ترسنے لگتے ہیں تو ہم ہوائوں کو اس طرف چلا دیتے ہیں جو بادلوں کو اٹھا کرلے جاتی ہیں اور مردہ زمین کے لیے سیرابی کا انتظام کرتی ہیں اور پھر جس قدر بارش برسانا ہماری حکمت کے مطابق ہوتا ہے اتنا برسا دیتے ہیں اگر راحت مقصود ہو تو ضرورت کے مطابق ” وانزلنا من السماء مائََ بقدرٍ “ (المومنون) ہم آسمان سے پانی نازل کرتے ہیں فاخرجنا بہ من کل الثمرات پھر ہم اس پانی کے ذریعے ہر قسم کے پھل پیدا کرتے ہیں سورة البناء میں آتا ہے کہ ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں ” لنخرج بہ حبا ونباتا وجنت القافا “ اور پھر اس کے ذریعے غلہ ، سبزیاں اور گھنے باغات پیدا کرتے ہیں۔ پانی ذریعہ حیات و نباتات وجعلنا من الماء کل شئی حی ہم نے ہر چیز کو پانی کے ذریعے حیات بخشی (سورۃ انبیائ) ہر چیز کا انحصار پانی پر ہے حتیٰ کہ تمام جانداروں کی زندگی پانی سے وابستہ ہے انسان کی تخلیق بھی قطرہ آب سے ہوئی یہی حال جانوروں ، درندوں ، پرندوں اور حشرات الارض کا ہے جس طرح جاندار کی تخلیق پانی سے ہوتی ہے اسی طرح جسم کے اعضا کو قائم رکھنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے انسانی جسم میں خون کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس میں اسی فیصدی پانی ہے اسی طرح غذائی مواد میں بھی اسی فیصدی پانی اور باقی بیس فیصدی دیگر اجزا ہیں جو عناصر خارجی دنیا میں پائے جاتے ہیں وہی عناصر انسانی جسم میں بھی موجود ہیں چونکہ انسان کی ابتدائی تخلیق تمام سطح ارضی کی مٹی سے ہوئی تھی اس لیے زمین پائی جانے والی تمام مع دنیات انسانی جسم میں بھی پائی جاتی ہیں حتیٰ کہ فولاد ، سونا ، چاندی ، ریت ، نمک وغیرہ خاص مقدار میں موجود ہیں یہ تمام چیزیں خون میں ملی ہوئی ہیں جب خون انسانی جسم میں حرکت کرتے ہوئے ہر عضو سے گزرتا ہے تو متعلقہ عضو خون سے اپنی مطلوبہ غذا حاصل کرتا ہے اور باقی چیزوں کو دوسری ساختوں کے لیے چھوڑ دیتا ہے اسی طرح ہر عضو خون سے اپنا حصہ حاصل کرکے نشونما پاتا رہتا ہے فضلات کے نک اس کے لیے دوسری نالیاں اور راستے مقرر ہیں جن کے ذریعے وہ باہر نکل جاتے ہیں خون پھیپھڑے میں آکر صاف ہوتا ہے اس میں آکسیجن شامل ہوجاتی ہے اور پھر یہ قلب میں پہنچ کر گردش میں شامل ہوجا ات ہے تو بہرحال خون میں اسی فیصدی پانی ہے جس پر ہر جاندار کی زندگی کا انحصار ہے۔ پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جب حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ افضل صدقہ کونسا ہے تو آپ نے اس میں پانی کو بھی شامل فرمایا پانی کی قدر ان لوگوں کو ہوتی ہے جہاں اس کی قلت واقع ہوتی ہے ریاض وغیرہ (سعودی عرب) میں پانی کی قدرو قیمت کا یہ حال ہے کہ پائو بھر پانی کی بوتل پر حکومت کو دو ریال خرچ کرنے پڑتے ہیں وہاں پر پانی 1200 میٹر کی گہرائی سے نکالا جاتا ہے پھر بڑی بڑی مشینوں کے ذریعے اسے صاف کرکے استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے ہمارے ہاں پانی کی قدر نہیں کیونکہ یہ 25 , 20 فٹ کی گہرائی سے بآسانی دستیاب ہے دریائوں اور نہروں میں پانی دستیاب ہے اس لیے یہاں پر بہت سا پانی ضائع بھی کردیا جاتا ہے شریعت نے اسراف فی الماء کو ناجائز قرار دیا ہے فرمایا غسل اور وضو کے لیے ضرورت سے زیادہ پانی استعمال ن کرو حتیٰ کہ اگر نہر پر بیٹھ کر وضو کرو تو بھی اسراف سے پرہیز کرو بہرحال فرمایا کہ ہم بادلوں کو خشک زمین کی طرف چلا کر اس سے پانی برساتے ہیں اور پھر اس پانی کے ذریعے زمین سے ہر قسم کے پھل پیدا کرتے ہیں۔ مردوں کی دوبارہ زندگی فرمایا جس طرح زمین سے پھل نکالتے ہیں کذلک نخرج الموتی اسی طرح ہم مردوں کو بھی نکالیں گے جس طرح بارش برسا کر زمین سے سبزیاں پیدا کیں اسی طرح قیامت کو خدا تعالیٰ ایک خاص قسم کی بارش برسا کر مردوں کو قبروں سے نکالیں گے سروۃ عبس میں آتا ہے کہ ہم نے انسان کو قطرہ آب سے پیدا کیا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا اور اس کے لیے راستہ آسان کردیا ثم اماتہ فاقبرہ پھر اس کو موت دے کر قبر میں پہنچا دیا ثم اذا شاء انشرہ پھر جب وہ چاہے گا اسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھالے گا سورة انفطار میں ہے واذا القبوربعثرت جب قبریں اکھاڑ دی جائیں گی اور اللہ کے حکم سے مردے زندہ ہو کر قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے تو بہرحال اللہ تعالیٰ نے بارش اور سبزہ اگانے کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اسی طرح ہم مردوں کو بھی نکالیں گے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے کہ جو خدا وند تعالیٰ زمین سے پھل پھول نکال سکتا ہے وہ ایک حکم کے ذریعے مردوں کو بھی زندہ کردے گا اور پھر حساب کتاب کی منزل آئے گی اور ہر شخص کو اپنے اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا جس کے مطابق جزا اور سزا کا فیصلہ ہوگا فرمایا یہ مثالیں اور دلائل اس لیے بیان کیے جاتے ہیں لعلکم تذکرون تاکہ تم نصیحت پکڑو اگر ان دلائل قدرت پر غور کرو گے تو تمہیں معاد پر بھی یقین آجائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کے احکام کو بھی بجا لائو گے۔ وحی الٰہی کی ضرورت و اہمیت جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی ظاہری حیات کے لیے پانی نازل فرمایا ہے اسی طرح اس کی باطنی حیات کے لیے وحی الٰہی کو نازل فرمایا ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت مجھے دے کر بھیجا ہے اس کی مثال بالکل بارش جیسی ہے جب بارش سخت حصہ زمین یا ٹیلوں پر ہوتی ہے تو وہ بہ جاتی ہے وہ خطہ ارضی بارش سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا بعض مقامات پر گڑھے اور تالاب ہوتے ہیں جب بارش ہوتی ہے تو پانی ان نشیبی مقامات پر جمع ہوجاتا ہے جس سے انسان اور جانور فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اس پانی سے لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں خود بھی استعمال کرتے ہیں اور جانوروں کو بھی پلاتے ہیں تیسری قسم کی زمین نرم ، ہموار اور قابل کاشت ہوتی ہے جب بارش ہوتی ہے تو وہ پانی جذب کرلیتی ہے پھر اس میں سبزیاں ، پودے اور طرح طرح کا غلہ اناج پیدا ہوتا ہے یہ بہترین قسم کی زمین ہوتی ہے جو بارش سے پورا پورا فائدہ اٹھاتی ہے اسی طرح انسان بھی تین قسم کے ہوتے ہیں بعض لوگ پتھر کی طرح سخت دل ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی اور ہدایت سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی بارش ہوتی ہے مگر ان کے اوپر سے گزر جاتی ہے بعض لوگ نشیبی زمین کی طرح ہدایت اور وحی الٰہی سے خود تو مستفید نہیں ہوتے مگر دوسروں کے لیے بہت بڑا ذخیرہ جمع کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دین کی سمجھ عطا کرتا ہے اور وہ اس سے دوسروں کو مستفید کرتے ہیں اس میں تحریر و تقریر کے تمام ذرائع شامل ہیں تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو نرم اور ہموار زمین کی طرح ہیں وہ وحی الٰہی سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں جس طرح زمین اپنے اندر پانی جذب کرکے پھل اور غلہ پیدا کرتی ہے اسی طرح نیک لوگ وحی الٰہی سے مستفید ہو کر اپنے لیے ذخیرہ آخرت قائم کرلیتے ہیں حضور ﷺ نے ہدایت ربانی کو زمین سے اس طرح تشبیہ دی۔ اچھی اور ناقص زمین کی مثال اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس انداز سے بھی بیان فرمایا ہے والبلا الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ پاکیزہ شہر یعنی اچھی بستی جس کی زمین زرخیز ہو وہاں کے پودے اپنے رب کے حکم سے نکلتے ہیں سبزیاں اگتی ہیں پھل پیدا ہوتے ہیں اور اناج پیدا ہوتا ہے زمین اچھی ہے تو اس کی برداشت بھی اچھی ہوگی البتہ والذی خبث جو ناقص اور نکمی زمین ہوتی ہے لایخرج الا نکداً اس سے ناقص پودے ہی نکلتے ہیں نگداً ناقص ، نکمی اور فضول چیز کو کہتے ہیں ایسی جگہوں پر گھاس پھونس ، کانٹوں اور جڑی بوٹیوں کے سوا کچھ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ زمین کی خاصیت اچھی نہیں ہوتی آگے سورة رعد میں آرہا ہے ” وفی الارض قطع مجورات “ زمین کے مختلف خطے ہیں کوئی خشک ہیں کوئی ریتلے ، کوئی سخت ، کوئی کلر والے اور کوئی بالکل نکمے فرمایا ایسے خطوں میں ناقص چیز ہی پیدا ہوگی کسی کام کی چیز کی توقع نہیں ہو سکتی انسان کی استعداد کا بھی یہی حال ہے جس کی استعداد اچھی ہوتی ہے وہ ہدایت سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے اور جس کی استعداد خراب ہو وہ وحی الٰہی سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا باران ہدایت میں تو شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں وہ بالکل برحق ہے مگر انسان کی اپنی صلاحیت ہی خراب ہے جو ہدایت کو قبول نہیں کرسکتی اور نیکی سے محروم رہتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے مگر انسان خود اپنی استعداد اور صلاحیت کو خراب کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر ہدایت اثر انداز نہیں ہوتی فرمایا کذالک تصرف الایت اسی طرح ہم اپنے دلائل و شواہد کو مختلف انداز سے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں لقوم یشکرون ان لوگوں کے لیے جو شکر ادا کرتے ہیں بادل اور بارش اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے اسے پاکر بھی جب لوگ اس مالک الملک کا شکریہ ادا کرتے تو اللہ تعالیٰ اس رحمت کو زحمت میں بدل دیتا ہے بعض اوقات اللہ تعالیٰ بادل اور ہوائوں کو سزا کا ذریعہ بنا دیتا ہے لہٰذا ہر نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا اچہیے اس کا فرمان ہے کہ اگر تم شکر کروگے تو میں مزید دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو پھر میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔
Top